پتہ

لاہور کاہنہ نو

کال کریں

+92 3238537640

عقل بمقابلہ وحی

عقل بمقابلہ وحی
دراصل فلسفہ اور مذہب کا قدیم ترین مکالمہ ہے۔
حکیم المیوات قاری محمد یو نس شاہد میو
ذیل میں ایک عالم دین کے اسلوب میں، قرآن و حدیث اور اقوالِ سلف کی روشنی میں اس موضوع پر ایک جامع تحریر (کالم) پیشِ خدمت ہے۔
آؤٹ لائن (Outline)

1۔ تمہید: اسلام میں غور و فکر کی اہمیت اور عقل کا مقام۔
2۔ عقل کی حدود: کیا عقل تنہا خدا تک پہنچ سکتی ہے؟ (علمائے حق کا موقف)۔
3۔ وحی کی ضرورت و اہمیت: عقل کی رہنمائی کے لیے نورِ نبوت کی ناگزیر حیثیت۔
4۔ وجودِ باری تعالیٰ پر دلائل: کائنات کا نظام اور فطرت کی گواہی۔
5۔ جاوید اختر بمقابلہ مفتی شمائل ندوی (تجزیہ): مادی سوچ بمقابلہ ایمانی بصیرت۔
6۔ خلاصہ بحث: عقل اور وحی میں تضاد نہیں بلکہ ترتیب کا فرق ہے۔


  عقل و وحی کا امتزاج اور وجودِ باری تعالیٰ: ایک بصیرت افروز تجزیہ  

از قلم: (حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم، اما بعد!

موجودہ دور میں فکری ارتداد اور الحاد کی لہر نے نئی نسل کے ذہنوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ زیرِ نظر موضوع “عقل بمقابلہ وحی” ، جو کہ جناب جاوید اختر (ایک معروف سیکولر دانشور) اور مفتی شمائل ندوی (ایک جید عالم دین) کے مابین مکالمے کا عنوان ہے، دراصل اسی فکری کشمکش کا شاخسانہ ہے۔ ایک عالم کی حیثیت سے جب ہم اس موضوع کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نظر آتا ہے۔

   1۔ اسلام میں عقل کا مقام  

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام عقل کا دشمن نہیں ہے۔ قرآنِ کریم نے بارہا “اَفَلَا تَعْقِلُوْن” (کیا تم عقل نہیں رکھتے؟) اور “اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ” (کیا تم غور نہیں کرتے؟) کہہ کر انسانی عقل کو جھنجھوڑا ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتے ہیں:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
(بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ہوشمندوں (عقل والوں) کے لیے نشانیاں ہیں۔)

اسلامی الہیات (Theology) میں عقل کا کام “تصدیق” ہے، لیکن عقل “حاکم” نہیں ہے۔

   2۔ عقل کی نارسائی اور وحی کی ضرورت  

علمائے اہل سنت والجماعت، بالخصوص امام غزالیؒ اور امام ابن تیمیہؒ نے اس نکتے کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک عقل کی مثال “آنکھ” کی سی ہے اور وحی کی مثال “سورج کی روشنی” کی ہے۔
اگر آنکھ (عقل) موجود ہو لیکن باہر سورج کی روشنی (وحی) نہ ہو، تو انسان اندھیرے میں ٹٹولتا رہ جاتا ہے۔ اسی طرح محض فلسفیانہ موشگافیاں اور منطق انسان کو خالق تک پہنچانے میں ناکام رہتی ہیں جب تک کہ وحی کی روشنی رہنمائی نہ کرے۔

علامہ اقبالؒ نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا:

عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں

جاوید اختر صاحب جیسے حضرات جو صرف مادی عقل (Empirical Rationalism) کو معیار مانتے ہیں، وہ “غیب” کا انکار کر بیٹھتے ہیں کیونکہ ان کی عقل کی پرواز صرف “محسوسات” تک ہے۔ جبکہ وحی انسان کو وہاں کی خبر دیتی ہے جہاں عقل کے پر جلتے ہیں۔

   3۔ وجودِ باری تعالیٰ: دلیلِ فطرت  

وجودِ خدا پر بحث کرتے ہوئے قرآن منطقی دلائل بھی دیتا ہے اور فطری بھی۔
سورۃ الطور میں اللہ تعالیٰ نے ملحدین سے تین سوالات کیے ہیں:

أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ
(کیا وہ بغیر کسی (خالق) کے پیدا ہو گئے ہیں؟ یا وہ خود اپنے خالق ہیں؟)

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ کائنات کا یہ منظم نظام (Fine-tuning of the Universe) خود پکار رہا ہے کہ اس کا کوئی ناظم ہے۔ ایک سوئی بنانے والا اگر موجود ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی کائنات بغیر بنانے والے کے وجود میں آ گئی ہو؟
حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “کل مولود یولد علی الفطرۃ” (ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے)۔ خدا کا وجود دلیل سے زیادہ “احساس” اور “وجدان” کا معاملہ ہے۔

   4۔ مکالمے کا فکری تجزیہ  

مذکورہ کتابچے میں جو مکالمہ مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے درمیان ہوا، وہ دراصل دو دنیاؤں کا ٹکراؤ

ہے۔

پہلا گروہ (مادی عقل پرست):   جو خدا کو لیبارٹری کے ٹیسٹ ٹیوب میں دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ لوگ خدا کو نہیں مانتے کیونکہ ان کے نزدیک جو چیز آنکھ سے نظر نہ آئے یا عقل کے پیمانے میں نہ سمائے، وہ وجود نہیں رکھتی
دوسرا گروہ (اصحابِ وحی):   جو کائنات کی نشانیوں کو دیکھ کر خالق کو پہچانتے ہیں۔ مفتی صاحب کا استدلال یقیناً یہی رہا ہوگا کہ عقل خدا کو پہچاننے کا آلہ ہے، خدا پر تنقید کرنے کا نہیں۔

جاوید اختر صاحب کی شاعری اور گفتگو میں جو تشکیک (Skepticism) ہے، وہ وحی سے دوری کا نتیجہ ہے۔ جب انسان وحی کی رسی چھوڑ دیتا ہے تو وہ خود کو “خدا” سمجھنے لگتا ہے یا پھر سرے سے خالق کا انکار کر کے خود کو بے مقصدیت (Nihilism) کے حوالے کر دیتا ہے۔

 خلاصہ بحث (Conclusion)  

اس تمام علمی بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ:

1۔ عقل بمقابلہ وحی غلط تعبیر ہے: درست تعبیر “عقل تابعِ وحی” ہے۔ عقل ایک سواری ہے اور وحی راستہ دکھانے والا نور۔ اگر سواری کو اندھیرے میں چھوڑ دیا جائے تو وہ کھائی میں گرے گی۔
2۔ حدود کا تعین: انسانی عقل محدود ہے، جبکہ اللہ کا علم لامحدود ہے۔ محدود پیمانے سے لامحدود ذات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔
3۔ کامیابی کا راستہ: کامیابی صرف اس میں ہے کہ انسان اپنی عقل کو وحی الٰہی کے تابع کر دے۔ جیسا کہ مولانا رومیؒ نے فرمایا کہ عقل کو مصطفیٰ ﷺ کے قدموں میں قربان کر دو، کیونکہ یہ عقل تمہیں بس “دنیا” تک لے جا سکتی ہے، جبکہ “مولا” تک صرف عشقِ رسول ﷺ اور اتباعِ وحی لے جا سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں فتنہء انکار سے محفوظ رکھے اور عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ آمین!





:اس مضمون کو شیئر کریں

فیس بک
ٹویٹر
لنکڈن
واٹس ایپ

حکیم قاری یونس

اس مضمون کے لکھاری، جو طبِ قدیم میں 20 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں اور صحت کے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

دوسرے دیکھے بلاگ

حقیقتِ تہجرِ جگر (Liver Cirrhosis)

حقیقتِ تہجرِ جگر (Liver Cirrhosis)

حقیقتِ تہجرِ جگر (Liver Cirrhosis)بمطابق تحقیقاتِ جدیدہ و نظریاتِ قانونِ مفرد اعضاء(ازقلم:حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو) تمہید و

[saadherbal_newsletter_form]