پتہ

لاہور کاہنہ نو

کال کریں

+92 3238537640

مکھی  تخلیق قدرت کا شاہکار

مکھی  تخلیق قدرت کا شاہکار

قران کریم میں ہے کہ تم مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے چاہے سب مل کر کوشش کرلو۔(القران)

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

مکھی کے جسم کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے

1      سر (Head):   مکھی کا سر ایک پیچیدہ حصہ ہوتا ہے جس میں کئی اہم اعضاء شامل ہوتے ہیں:

          مرکب آنکھیں (Compound Eyes):   مکھیوں کی آنکھیں بہت بڑی اور مرکب ہوتی ہیں، جو ہزاروں چھوٹے چھوٹے لینز (ommatidia) پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ انہیں تقریباً 360 ڈگری کا وسیع منظر فراہم کرتی ہیں اور حرکت کو بہت تیزی سے پکڑنے میں مدد دیتی ہیں۔

          اینٹینا (Antennae):   سر کے سامنے دو چھوٹے اینٹینا ہوتے ہیں جو سونگھنے اور چھونے کا کام کرتے ہیں۔ یہ مکھی کو خوراک، ساتھیوں اور ارد گرد کے ماحول کا پتہ لگانے میں مدد دیتے ہیں۔

          منہ کے اعضاء (Mouthparts):   مکھیوں کے منہ کے اعضاء چوسنے کے لیے بنے ہوتے ہیں۔ کچھ مکھیاں (جیسے ہاؤس فلائی) نرم غذا کو چوسنے کے لیے ایک پروبوسکس (proboscis) رکھتی ہیں، جبکہ کچھ مکھیاں (جیسے مچھر یا سٹنگنگ فلائیز) کاٹنے اور خون چوسنے کے لیے تیز منہ کے اعضاء رکھتی ہیں۔

2      سینہ (Thorax):   یہ مکھی کے جسم کا درمیانی حصہ ہوتا ہے، جو سر اور پیٹ کو جوڑتا ہے۔ سینہ میں نقل و حرکت کے اعضاء پائے جاتے ہیں:

          پر (Wings):   زیادہ تر مکھیوں کے دو پر ہوتے ہیں جو انہیں اڑنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہ پر پتلی جھلیوں کے بنے ہوتے ہیں اور ان میں رگیں ہوتی ہیں۔ کچھ مکھیوں کے پاس دوسرا جوڑا ہالٹیرس (halteres) کہلاتا ہے، جو چھوٹے، کلب نما اعضاء ہوتے ہیں اور پرواز کے دوران توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

          ٹانگیں (Legs):   مکھیوں کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں، جو سینہ سے جڑی ہوتی ہیں۔ ہر ٹانگ میں چھوٹے پنجے اور پیڈز ہوتے ہیں جو انہیں مختلف سطحوں پر چپکنے میں مدد دیتے ہیں۔

3      پیٹ (Abdomen):   یہ مکھی کے جسم کا سب سے پچھلا اور سب سے بڑا حصہ ہوتا ہے۔ پیٹ میں زیادہ تر اندرونی اعضاء موجود ہوتے ہیں:

          ہاضمے کا نظام (Digestive System):   خوراک کو ہضم کرنے والے اعضاء پیٹ میں ہوتے ہیں۔

          تولیدی اعضاء (Reproductive Organs):   مکھی کے انڈے دینے یا بچے پیدا کرنے والے اعضاء بھی پیٹ میں ہی پائے جاتے ہیں۔

          سانس لینے کے سوراخ (Spiracles):   پیٹ کے اطراف میں چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں جن کے ذریعے مکھی سانس لیتی ہے۔

یہ مکھی کے بنیادی اعضاء ہیں جو اسے زندہ رہنے اور اپنے ماحول میں کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

آپ کا سوال ہے کہ “مکھی” کو قرآن، حدیث اور سائنس کی روشنی میں دیکھا جائے۔ میں اسے تفصیل سے بیان کروں گا، جہاں قرآن اور حدیث میں مکھی کا ذکر ہے، اور سائنس اس سے متعلق کیا کہتی ہے۔ یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جو مذہبی اور سائنسی نقطہ نظر کو جوڑتا ہے۔

قرآن مجید میں مکھی کا ذکر

قرآن پاک میں مکھی کا ذکر سورۃ الحج (22:73) میں ہے، جہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے، اسے غور سے سنو۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ سب مل کر بھی ایک مکھی تک نہیں پیدا کر سکتے۔ اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو وہ اسے اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ طالب بھی کمزور اور مطلوب بھی کمزور۔”

یہ آیت اللہ کی قدرت کو بیان کرتی ہے اور بتوں یا جھوٹے معبودوں کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایک چھوٹی سی مکھی بھی نہیں بنا سکتے، اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو واپس نہیں لے سکتے۔ یہ ایک استعاراتی مثال ہے جو اللہ کی تخلیقی طاقت پر زور دیتی ہے۔ قرآن میں مکھی کا کوئی اور براہ راست ذکر نہیں ہے۔

 

 حدیث میں مکھی کا ذکر

حدیث میں مکھی کا سب سے مشہور ذکر صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے (حدیث نمبر 3320):

“نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے کسی کے پینے کی چیز میں مکھی گر جائے تو اسے (مکھی کو) ڈبو دو (پوری طرح سے) اور پھر نکال دو، کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں اس کی دوا ہے۔”  

یہ حدیث صحیح بخاری اور دیگر معتبر کتابوں میں موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مکھی کے ایک پر میں جراثیم یا بیماری ہوتی ہے، جبکہ دوسرے میں اس کا علاج۔ مسلمان علماء اسے ایک معجزاتی بات مانتے ہیں جو اس دور میں سائنس سے میل کھاتی ہے۔

    سائنس کی روشنی میں مکھی

سائنس مکھی (خاص طور پر گھریلو مکھی، Musca domestica) کو ایک پیچیدہ جاندار مانتی ہے جو جراثیم پھیلانے کا ذریعہ بھی ہے اور کچھ مفید خصوصیات بھی رکھتی ہے۔ یہاں دونوں پہلوؤں کو دیکھتے ہیں، کیونکہ سائنسی مطالعے مختلف آراء پیش کرتے ہیں۔

     منفی پہلو (بیماری پھیلانا):

– مکھیاں گندگی، کوڑے اور مردار پر بیٹھتی ہیں، اس لیے ان کے جسم پر بیکٹیریا، وائرس اور دیگر جراثیم چپک جاتے ہیں۔ اگر مکھی پینے کی چیز میں گرے تو یہ جراثیم پھیلا سکتی ہے، جو صحت کے لیے خطرناک ہے (جیسے سالمونیلا، ای کولی وغیرہ)۔ 

– کئی مطالعے بتاتے ہیں کہ مکھیاں اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا بھی لے جاتی ہیں، جو علاج کو مشکل بناتے ہیں۔ 

– تنقیدی نقطہ نظر: کچھ سائنسدان کہتے ہیں کہ مکھی کو ڈبونے سے جراثیم زیادہ پھیل سکتے ہیں، اور “ایک پر بیماری، دوسرے میں دوا” کی بات سائنسی طور پر ثابت نہیں، کیونکہ مکھی کے پر symmetrical (یکساں) ہوتے ہیں۔ 

     مثبت پہلو (دوا یا antimicrobial خصوصیات):

– کچھ مطالعے بتاتے ہیں کہ مکھیوں میں antimicrobial compounds (جراثیم کش مادے) پائے جاتے ہیں، جیسے ان کی لاروا (کیڑے) میں، جو زخموں کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں (maggot therapy)۔ 

– مکھیوں کے جسم پر bacteriophages (بیکٹیریا کو مارنے والے وائرس) اور antimicrobial peptides ہوتے ہیں جو بیکٹیریا کو ختم کر سکتے ہیں۔ ایک 2021 کا مطالعہ (PubMed) کہتا ہے کہ مکھی کے دائیں پر میں جراثیم کش خصوصیات ہو سکتی ہیں، جو حدیث سے میل کھاتی ہے۔  

– مسلمان سائنسدان اسے حدیث کا سائنسی ثبوت مانتے ہیں کہ مکھی میں دونوں چیزیں (بیماری اور دوا) موجود ہیں، اور ڈبونے سے دوا جراثیم کو ختم کر سکتی ہے۔ 

مکھی کی تصویر دیکھیں جو اس کی ساخت کو ظاہر کرتی ہے:

خلاصہ: قرآن اور حدیث میں مکھی کو اللہ کی قدرت اور ایک طبی مشورے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ سائنس اسے جراثیم کا ذریعہ تو مانتی ہے مگر کچھ مفید خصوصیات بھی تسلیم کرتی ہے۔ یہ موضوع بحث کا ہے، اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کوئی مخصوص پہلو پوچھنا چاہیں تو بتائیں!

:اس مضمون کو شیئر کریں

فیس بک
ٹویٹر
لنکڈن
واٹس ایپ

حکیم قاری یونس

اس مضمون کے لکھاری، جو طبِ قدیم میں 20 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں اور صحت کے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

دوسرے دیکھے بلاگ

بیگمات کے آنسو

بیگمات کے آنسو

بیگمات کے آنسوپیش لفظ حضرت خواجہ حسن نظامی کا نام پیدائش کے وقت سید علی حسن نظامی رکھا گیا تھا

Tibb4all

عام طور پر چند گھنٹوں میں جواب دیتا ہے۔

×