پتہ

لاہور کاہنہ نو

کال کریں

+92 3238537640

دہلی سلطنت اور میو قوم کی داستانِ مزاحمت و مفاہمت

دہلی سلطنت اور میو قوم کی داستانِ مزاحمت و مفاہمت
دہلی سلطنت اور میو قوم کی داستانِ مزاحمت و مفاہمت

ہماری کتاب”میو قوم کی مزاحمت ۔محمد بن قاسم سو لیکے بہادر شاہ ظفر تک”ایک ٹکڑو

منگول یلغار کے سائے میں

 دہلی سلطنت اور میو قوم کی داستانِ مزاحمت و مفاہمت

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

حصہ اول: منگول طوفان اور دہلی سلطنت کا دفاع

اس رپورٹ کا پہلا حصہ ہندوستان پر منگول (جنہیں معاصر تواریخ میں تاتاری بھی کہا گیا ہے) حملوں اور اس دوران برسرِ اقتدار دہلی کے سلاطین کا تفصیلی جائزہ پیش کرتا ہے۔ یہ اس بیرونی خطرے کے پس منظر کو قائم کرے گا جس نے سلطنت کی داخلی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے، جو حصہ دوم میں میو قوم کے حالات کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

باب 1: ابتدائی حملے اور التمش کی حکمتِ عملی (مملوک سلطنت – اول)

تعارف: دو سلطنتوں کا جنم

تیرہویں صدی کا آغاز جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے لیے ایک نئے دور کا نقیب تھا۔ 1206ء میں جہاں ایک طرف ہندوستان میں دہلی سلطنت کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، وہیں دوسری طرف وسطی ایشیا کے میدانوں میں چنگیز خان کی قیادت میں منگول قبائل ایک عظیم سلطنت کی شکل میں متحد ہو رہے تھے 1۔ یہ دونوں سلطنتیں تقریباً ایک ہی وقت میں ابھریں اور ان کا مقدر ایک دوسرے سے ٹکرانا لکھا جا چکا تھا۔ معاصر فارسی اور اردو تواریخ میں منگولوں کے لیے “تاتاری” اور “مغل” کی اصطلاحات بھی استعمال کی گئی ہیں 2۔

چنگیز خان دہلی کی دہلیز پر (1221ء)

منگول خطرہ سب سے پہلے 1221ء میں دہلی سلطنت کی دہلیز پر دستک دیتا نظر آیا۔ چنگیز خان نے وسطی ایشیا کی طاقتور خوارزم شاہی سلطنت کو نیست و نابود کر دیا تھا اور اس کے آخری حکمران، سلطان جلال الدین منگبرنی، کا تعاقب کرتے ہوئے ہندوستان کی سرحدوں تک پہنچ گیا 4۔ منگول کمانڈر بالا اور دوربی کی قیادت میں منگول دستوں نے پنجاب کے علاقوں میں جلال الدین کا پیچھا کیا اور ملتان اور لاہور کے مضافات میں لوٹ مار کی 4۔

التمش کی محتاط سفارت کاری

اس نازک موقع پر جلال الدین نے دہلی کے سلطان شمس الدین التمش (دورِ حکومت: 1211-1236) سے پناہ کی درخواست کی۔ التمش، جو ابھی اپنی نوزائیدہ سلطنت کو مستحکم کر رہا تھا، ایک دوراہے پر کھڑا تھا۔ جلال الدین کو پناہ دینے کا مطلب چنگیز خان کے قہر کو براہِ راست دعوت دینا تھا، جو سلطنت کے لیے خودکشی کے مترادف ہوتا 6۔ التمش نے غیر معمولی سیاسی بصیرت اور سفارتی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلال الدین کو پناہ دینے سے انکار کر دیا 4۔ اس نے یہ بہانہ بنایا کہ دہلی کی آب و ہوا جلال الدین کے لیے ناموافق ہے 6۔ یہ فیصلہ بظاہر بے رحمانہ تھا لیکن اس نے دہلی سلطنت کو منگولوں کے ابتدائی اور سب سے تباہ کن حملے سے محفوظ رکھا۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ دہلی سلطنت کی بقا کا انحصار شروع سے ہی منگول خطرے کو سمجھداری سے نمٹانے پر تھا، جہاں طاقت کے استعمال کے بجائے سفارت کاری زیادہ کارگر تھی۔

التمش کے بعد کی صورتحال

التمش کی “گریز کی پالیسی” (policy of aloofness) نے وقتی طور پر سلطنت کو بچا لیا، لیکن منگول خطرہ مستقل طور پر سر پر منڈلاتا رہا 8۔ 1235ء کے بعد منگولوں نے کشمیر پر حملہ کر کے اسے اپنی باجگزار ریاست بنا لیا 4۔ 1241ء میں، جب رضیہ سلطانہ کی وفات کے بعد دہلی میں سیاسی انتشار پھیلا ہوا تھا، منگولوں نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور پر قبضہ کیا اور شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا 4۔

اس دور کا ایک غیر متوقع نتیجہ یہ نکلا کہ وسطی ایشیا میں منگولوں کے ہاتھوں شکست کھانے والے کئی جنگجو قبائل، جیسے خلجی، غوری اور ترکمان، نے ہندوستان میں پناہ لی اور دہلی سلطنت کی فوج میں شامل ہو گئے 4۔ اس طرح منگولوں کی توسیع پسندی نے نادانستہ طور پر اپنے مستقبل کے سب سے بڑے حریف کی فوجی قوت میں اضافہ کر دیا۔

باب 2: غیاث الدین بلبن کی آہن و خون پر مبنی سرحدی پالیسی (مملوک سلطنت – دوم)

بلبن کا پس منظر اور منگولوں سے ذاتی عناد

غیاث الدین بلبن (دورِ حکومت: 1266-1287) کا منگولوں کے خلاف سخت گیر رویہ محض سیاسی ضرورت نہیں تھا، بلکہ اس کی جڑیں اس کے ذاتی ماضی میں پیوست تھیں۔ بلبن خود بچپن میں منگولوں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر غلامی کی زندگی گزار چکا تھا اور مختلف ہاتھوں سے فروخت ہوتا ہوا ہندوستان پہنچا تھا 3۔ وہ منگولوں کی سفاکی اور تباہ کاریوں کا چشم دید گواہ تھا، اور یہی تجربہ اس کی “آہن و خون” کی پالیسی کا ایک اہم نفسیاتی محرک بنا۔

دو محاذی خطرہ: داخلی انتشار اور بیرونی یلغار

جب بلبن تخت نشین ہوا تو سلطنت کو بیک وقت دو بڑے خطرات کا سامنا تھا۔ ایک طرف التمش کے کمزور جانشینوں کے دور میں “چالیس امراء” (چہلگانی) کا گروہ بے حد طاقتور ہو چکا تھا اور سلطنت داخلی طور پر کھوکھلی ہو رہی تھی 12۔ دوسری طرف، منگول اس داخلی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب، سندھ اور ملتان کے زرخیز علاقوں پر مسلسل حملے کر رہے تھے، جن کا مقصد لوٹ مار کے ذریعے سلطنت کی معاشی بنیادوں کو کمزور کرنا تھا 4۔

بلبن کی جامع دفاعی حکمتِ عملی

بلبن نے اس دوہرے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمتِ عملی اپنائی۔ اس نے یہ بھانپ لیا تھا کہ بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے داخلی استحکام ناگزیر ہے۔ اس کی پالیسی کے اہم ستون درج ذیل تھے:

  • فوجی تنظیمِ نو: اس نے ایک مضبوط، نظم و ضبط کی پابند اور مرکزی فوج تشکیل دی اور اسے ہر وقت جنگ کے لیے تیار رکھا 8۔
  • سرحدی قلعوں کا جال: اس نے شمال مغربی سرحد پر قلعوں کی ایک نئی زنجیر تعمیر کی اور پرانے قلعوں کی مرمت کروائی۔ ان قلعوں میں سب سے تجربہ کار اور وفادار جرنیلوں کو تعینات کیا گیا 8۔
  • جارحانہ دفاع: اس نے محض دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے ایک جارحانہ دفاعی پالیسی اپنائی۔ اس نے اپنے سب سے قابل بیٹے، شہزادہ محمد، کو ملتان اور سندھ کا گورنر مقرر کیا، جس کا بنیادی کام منگولوں کو سرحد پار ہی روکنا تھا 3۔
  • داخلی استحکام: اس نے بے رحمی سے “چالیس امراء” کی طاقت کو کچلا، بادشاہ کے وقار کو “ظلِ الٰہی” (خدا کا سایہ) قرار دے کر بحال کیا، اور میواتیوں جیسی داخلی بغاوتوں کو سفاکی سے ختم کیا تاکہ دارالحکومت اور اس کے اطراف محفوظ رہیں 8۔
  • سفارت کاری اور جاسوسی: فوجی تیاریوں کے ساتھ ساتھ، اس نے منگولوں کے ایرانی حکمران ہلاکو خان کے دربار میں سفارتی وفود بھیج کر تعلقات کو متوازن رکھنے کی کوشش کی تاکہ کسی بہت بڑے حملے سے بچا جا سکے 4۔ اس نے ایک موثر جاسوسی کا نظام بھی قائم کیا جو اسے دشمن کی نقل و حرکت سے باخبر رکھتا تھا 14۔

بلبن کی حکمتِ عملی کامیاب رہی لیکن سلطنت کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ اس کا محبوب بیٹا اور جانشین، شہزادہ محمد، 1285ء میں منگولوں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہو گیا 8۔ یہ بلبن کے لیے ایک ایسا ذاتی صدمہ تھا جس سے وہ کبھی سنبھل نہ سکا اور اس کی موت کے بعد سلطنت ایک بار پھر کمزوری کا شکار ہو گئی۔

باب 3: خلجی دور کا عروج: جارحانہ مزاحمت اور فتوحات

جلال الدین خلجی (1290-1296): ایک عبوری دور

بلبن کے جانشین کمزور ثابت ہوئے اور جلد ہی خلجی خاندان برسرِ اقتدار آ گیا۔ خاندان کے بانی، جلال الدین خلجی، نے بلبن کی سخت گیری کے برعکس نرمی کی پالیسی اپنائی۔ تاہم، اس کے دور میں بھی منگول خطرہ برقرار رہا۔ 1292ء میں اس نے ایک منگول حملے کو کامیابی سے پسپا کیا 4۔ اس جنگ کا ایک اہم نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً 4000 منگول قیدیوں نے اسلام قبول کر لیا اور انہیں دہلی کے قریب “مغل پورہ” نامی بستی میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی 1۔ جلال الدین کا یہ فیصلہ بظاہر خیر سگالی پر مبنی تھا، لیکن یہی “نو مسلم” بعد میں علاؤالدین خلجی کے لیے ایک سنگین داخلی خطرہ بن گئے۔

علاء الدین خلجی (1296-1316): منگولوں کے خلاف ہندوستان کی ڈھال

جلال الدین کے قتل کے بعد اس کا بھتیجا اور داماد، علاؤالدین خلجی، تخت پر بیٹھا۔ اس کا دورِ حکومت دہلی سلطنت کی تاریخ میں منگولوں کے خلاف مزاحمت کا سنہری باب تصور کیا جاتا ہے۔ علاؤالدین کے دور میں منگول حملے اپنی شدت اور تعداد میں انتہا کو پہنچ گئے 4۔ اب ان کا مقصد صرف لوٹ مار نہیں تھا، بلکہ وہ چغتائی خانیت کے حکمران دوا خان کے حکم پر دہلی کو فتح کرنے کے ارادے سے آتے تھے 4۔ بیشتر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر علاؤالدین نہ ہوتا تو ہندوستان بھی منگولوں کے ہاتھوں اسی طرح تباہ ہوتا جس طرح وسطی ایشیا اور ایران ہوئے تھے 1۔ اس نے کم از کم چھ بڑے منگول حملوں کو شکستِ فاش دی 15۔

کلیدی جنگوں کا تجزیہ

  • جڑان منجر کی جنگ (1298ء): علاؤالدین کے بھائی الغ خان اور سپہ سالار ظفر خان نے قادر خان کی قیادت میں آنے والی منگول فوج کو عبرت ناک شکست دی، جس میں تقریباً 20,000 منگول مارے گئے 4۔
  • کِلی کی جنگ (1299ء): منگول خان کے بیٹے قطلوغ خواجہ نے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ براہِ راست دہلی پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں علاؤالدین کے سب سے بہادر سپہ سالار ظفر خان نے سلطان کی اجازت کے بغیر منگولوں پر حملہ کر دیا اور انہیں بھاری نقصان پہنچایا، لیکن اس لڑائی میں وہ خود بھی شہید ہو گیا۔ ظفر خان کی بہادری کا خوف منگولوں پر اس قدر طاری ہوا کہ یہ ایک ضرب المثل بن گیا 4۔ منگول افواج بالآخر پسپا ہو گئیں۔
  • دہلی کا محاصرہ (1303ء): جب علاؤالدین چتوڑ کی مہم میں مصروف تھا، منگولوں نے دہلی کو غیر محفوظ پا کر اس کا محاصرہ کر لیا۔ علاؤالدین نے تیزی سے واپس پہنچ کر زیرِ تعمیر سیری کے قلعے میں پناہ لی۔ منگول قلعہ فتح کرنے میں ناکام رہے اور رسد کی کمی کے باعث انہیں پسپا ہونا پڑا 4۔ اس واقعے نے علاؤالدین کو دفاعی نظام میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت کا احساس دلایا۔
  • امروہہ کی جنگ (1305ء) اور راوی کی جنگ (1306ء): ان جنگوں میں علاؤالدین کے جرنیلوں ملک نائک اور ملک کافور نے منگولوں کو فیصلہ کن شکستیں دیں 8۔ 1306ء کی فتح کے بعد ہندوستان پر بڑے منگول حملوں کا سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا۔

علاء الدین کی کامیابی کے راز: فوجی اور معاشی اصلاحات

علاء الدین کی کامیابیوں کی بنیاد اس کی دور رس فوجی اور معاشی اصلاحات پر تھی۔ یہ اصلاحات براہِ راست منگول خطرے سے نمٹنے کی ضرورتوں کے تحت کی گئی تھیں اور ایک مربوط نظام کی حیثیت رکھتی تھیں۔

  • مستقل اور بڑی فوج: اس نے ایک بہت بڑی، مستقل اور مرکزی خزانے سے براہِ راست تنخواہ پانے والی فوج قائم کی 8۔
  • داغ اور چہرہ کا نظام: فوج میں بدعنوانی روکنے اور گھوڑوں اور سپاہیوں کا درست ریکارڈ رکھنے کے لیے اس نے گھوڑوں کو داغنے (داغ) اور سپاہیوں کا حلیہ درج کرنے (چہرہ) کا نظام متعارف کرایا 22۔
  • بازار پر قابو (مارکیٹ ریفارمز): سب سے انقلابی قدم بازار میں اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سپاہیوں کو کم تنخواہ میں بھی اپنی ضروریات پوری کرنے میں مشکل نہ ہو، جس سے ایک بڑی فوج کو برقرار رکھنے کے اخراجات کم ہو گئے 16۔
  • محصولات میں اضافہ: اس نے ریاست کی آمدنی بڑھانے کے لیے زمین کا محصول (خراج) پیداوار کے 50 فیصد تک بڑھا دیا اور بیشتر ٹیکس نقد میں وصول کیے 21۔
  • “نو مسلموں” کا قتلِ عام: جب علاؤالدین کو معلوم ہوا کہ دہلی میں آباد “نو مسلم” منگول بغاوت کی سازش کر رہے ہیں، تو اس نے 1311ء میں ایک ہی دن میں ان ہزاروں منگولوں کو ان کے خاندانوں سمیت قتل کروا دیا 1۔ یہ واقعہ اس کی بے رحمی اور داخلی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کی پالیسی کا ثبوت ہے۔

    علاء الدین نے نہ صرف سرحدوں کا دفاع کیا بلکہ ایک “جارحانہ پیش قدمی کی پالیسی” (Forward Policy) بھی اپنائی۔ 1306ء کے بعد اس کے جنرل ملک تغلق (جو بعد میں غیاث الدین تغلق کے نام سے بادشاہ بنا) نے موجودہ افغانستان میں واقع منگول علاقوں پر جوابی حملے شروع کر دیے، جس نے منگولوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا 2۔

باب 4: تھمتا ہوا خطرہ اور تغلق خاندان

منگول حملوں میں کمی

علاء الدین خلجی کی جارحانہ پالیسیوں اور 1307ء میں چغتائی خان دوا خان کی موت کے بعد پیدا ہونے والے جانشینی کے بحران کی وجہ سے ہندوستان پر منگول حملوں کی شدت میں نمایاں کمی آ گئی 2۔ خلجیوں کے بعد تغلق خاندان (1320-1413) برسرِ اقتدار آیا، جس کا بانی غیاث الدین تغلق خود منگولوں کے خلاف جنگوں کا ایک تجربہ کار جنرل تھا 20۔

محمد بن تغلق اور آخری بڑا حملہ

تغلق دور میں آخری بڑا منگول حملہ 1327ء میں ترماشیرین کی قیادت میں ہوا، جو دہلی کے قریب تک پہنچ گیا 4۔ اس حملے پر سلطان محمد بن تغلق (دورِ حکومت: 1325-1351) کا ردِ عمل متنازعہ ہے۔ بعض مورخین کے مطابق، اس نے منگولوں سے لڑنے کے بجائے انہیں ایک بہت بڑی رقم بطور رشوت دے کر واپس جانے پر آمادہ کیا 26۔ اگر یہ درست ہے تو یہ علاؤالدین کی پالیسی کے بالکل برعکس تھا اور اس نے شاہی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ڈالا۔

خطرے کا خاتمہ اور اس کے اثرات

ترماشیرین کے حملے کے بعد ہندوستان پر منظم منگول حملوں کا دور ختم ہو گیا۔ منگول خطرے کے خاتمے نے دہلی کے سلطانوں، خاص طور پر محمد بن تغلق، کو اپنی توجہ داخلی منصوبوں پر مرکوز کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ایک طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ علاؤالدین کی کامیابیوں نے جو امن قائم کیا، اسی نے محمد بن تغلق کو دارالحکومت کی دولت آباد منتقلی اور علامتی کرنسی کے اجراء جیسے مہتواکانکشی اور بالآخر ناکام منصوبوں کو آزمانے کا موقع دیا۔ اگر سلطنت کو مسلسل بیرونی حملوں کا سامنا ہوتا تو شاید ایسے تجربات کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا۔

بعد ازاں، 1398ء میں امیر تیمور کا حملہ، جو خود ترک-منگول نسل سے تھا، دہلی سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، لیکن یہ ایک الگ تاریخی واقعہ تھا 2۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی، ظہیر الدین بابر، اپنی والدہ کی طرف سے چنگیز خان اور والد کی طرف سے تیمور کی نسل سے تھا، اس طرح تاریخ نے منگول ورثے کو ایک نئے انداز میں ہندوستان سے جوڑ دیا 2۔


جدول 1: اہم منگول حملے اور دہلی سلطنت کا ردِ عمل

دور/سالمنگول کمانڈربرسرِ اقتدار دہلی سلطانکلیدی سلطانی کمانڈرجنگ/واقعہنتیجہ اور اہمیت
1241ءمنگیتو/تائر بہادرمعز الدین بہرام شاہملک قرارقشلاہور کا محاصرہمنگولوں نے لاہور پر قبضہ کر کے تباہ کر دیا۔ سلطنت کی کمزوری عیاں ہوئی۔
1298ءقادر خانعلاؤالدین خلجیالغ خان، ظفر خانجنگِ جڑان منجرسلطنت کی فیصلہ کن فتح۔ 20,000 منگول مارے گئے۔
1299ءقطلوغ خواجہعلاؤالدین خلجیظفر خان، علاؤالدین خلجیجنگِ کِلیظفر خان کی شہادت لیکن منگول پسپا۔ ظفر خان کی بہادری ایک مثال بن گئی۔
1303ءترغیعلاؤالدین خلجیعلاؤالدین خلجیدہلی کا محاصرہمنگول ناکام، لیکن علاؤالدین نے دفاعی اصلاحات کی ضرورت محسوس کی۔
1305ءعلی بیگ و ترتاقعلاؤالدین خلجیملک نائکجنگِ امروہہسلطنت کی فیصلہ کن فتح۔ بڑی تعداد میں منگول قیدی بنائے گئے۔
1306ءکوپیک/کبکعلاؤالدین خلجیملک کافور، غازی ملکدریائے راوی کی جنگمنگولوں کو عبرت ناک شکست۔ اس کے بعد بڑے حملوں کا خاتمہ۔
1327ءترماشیرینمحمد بن تغلقمحمد بن تغلقدہلی پر حملہمنگولوں کو بڑی رقم دے کر واپس بھیجا گیا۔ سلطنت کی کمزوری ظاہر ہوئی۔

حصہ دوم: میوات کے میو: مزاحمت اور بقا کی تاریخ

اس حصے میں میو قوم پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یہ حصہ یہ واضح کرے گا کہ دہلی سلطنت کی میو قوم کے بارے میں پالیسیاں کس طرح منگول خطرے کے وسیع تر تناظر سے جڑی ہوئی تھیں۔

باب 5: میو قوم: ابتدا، کردار اور جغرافیائی پس منظر

میوات کا علاقہ

میوات کا تاریخی علاقہ دہلی، آگرہ اور جے پور کے درمیان ایک مثلث بناتا ہے، جو اسے تزویراتی طور پر انتہائی اہم بناتا ہے 28۔ اراولی کے پہاڑی سلسلوں، گھنے جنگلات اور کھائیوں نے اس خطے کو ایک قدرتی قلعے کی شکل دے دی تھی، جہاں بیرونی حملہ آوروں کے لیے کنٹرول قائم کرنا ہمیشہ مشکل رہا 30۔ دہلی کے دارالحکومت کے اتنے قریب ہونے کی وجہ سے، یہ علاقہ سلطنت کے لیے تجارتی اور فوجی اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں کسی بھی قسم کی بدامنی براہِ راست سلطنت کے معاشی اور سیاسی مفادات کو چیلنج کرتی تھی 31۔

میو قوم کی ابتدا اور سماجی ڈھانچہ

میو قوم کی ابتدا کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ وہ خود کو ہندوستان کے قدیم کشتری راجپوت خاندانوں، خاص طور پر رام چندر اور کرشن جی، کی اولاد مانتے ہیں اور آج بھی سوریہ ونشی اور چندرا ونشی جیسی تقسیم پر فخر کرتے ہیں 32۔ تاہم، بعض مورخین ان کے نام اور نسلی خصوصیات کی بنیاد پر ان کا تعلق وسطی ایشیا یا یونان کے قدیم “مید” (Mede) قبائل سے جوڑتے ہیں 32۔

ان کا سماجی ڈھانچہ بنیادی طور پر قبائلی تھا، جو 12 گوتوں (Gotras) اور 52 پالوں (Pals) میں منقسم تھا 32۔ ہر پال کا اپنا ایک چوہدری ہوتا تھا، جو ان کی جنگجو فطرت اور خود مختارانہ مزاج کی عکاسی کرتا ہے 34۔

ابتدائی دہلی سلطنت کے ساتھ تعلقات

دہلی سلطنت کے قیام کے وقت سے ہی میو قوم کے ساتھ حکمرانوں کے تعلقات کشیدہ رہے۔ فارسی تواریخ، جو درباری نقطہ نظر پیش کرتی ہیں، میواتیوں کو “لٹیرے”، “ڈاکو” اور “فسادی” کے طور پر پیش کرتی ہیں جو دہلی اور اس کے گردونواح کے لیے ایک مستقل دردِ سر بنے ہوئے تھے 30۔

تاہم، اس سرکشی کی گہری سماجی اور معاشی وجوہات تھیں۔ میوات کی زمین زیادہ تر بنجر اور کم پیداواری تھی، جس کی وجہ سے زراعت سے گزراوقات مشکل تھی 32۔ غربت اور بقا کی جدوجہد نے انہیں لوٹ مار پر مجبور کیا، جو ان کے لیے محض ایک پیشہ نہیں بلکہ مرکزی حکومت کے خلاف مزاحمت اور اپنی آزادی کے تحفظ کا ایک ذریعہ بھی تھا 32۔ وہ اپنی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھے 32۔ یہ صورتحال ایک مرکزی ریاست اور اس کی سرحد پر موجود ایک خود مختار قبائلی معاشرے کے درمیان ایک کلاسیکی تصادم کی عکاسی کرتی ہے۔

باب 6: بلبن کے دور میں تسخیر: دارالحکومت کا تحفظ

دہلی کے لیے براہِ راست خطرہ

بلبن کے تخت نشین ہونے تک، میواتیوں کی سرگرمیاں دہلی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی تھیں۔ وہ نہ صرف تجارتی قافلوں کو لوٹتے تھے بلکہ ان کی جرات اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ رات کے وقت شہر میں گھس کر لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار کرتے 12۔ مؤرخ ضیاء الدین برنی کے مطابق، صورتحال اتنی خراب تھی کہ دہلی کے مغربی دروازے سہ پہر کی نماز کے بعد خوف کے مارے بند کر دیے جاتے تھے اور کوئی اس طرف جانے کی ہمت نہیں کرتا تھا 12۔

بلبن کی سفاکانہ مہمات (1260ء اور 1266ء)

بلبن، جو داخلی اور خارجی خطرات میں گھرا ہوا تھا، دارالحکومت کے اتنے قریب اس کھلی بغاوت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے میواتیوں کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی مشہور “آہن و خون” کی پالیسی کا بے دریغ استعمال کیا 13۔

اس نے میوات پر کئی حملے کیے۔ 1260ء کی مہم خاص طور پر سفاکانہ تھی۔ اس نے نہ صرف میوات کے جنگلات کو کاٹ کر صاف کرنے کا حکم دیا تاکہ باغیوں کی پناہ گاہیں ختم ہوں، بلکہ ہزاروں میواتیوں کا قتلِ عام بھی کیا 39۔ بعض روایات کے مطابق مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک تھی۔ گرفتار ہونے والے سرداروں کو دہلی لا کر عبرت ناک سزائیں دی گئیں، جن میں ہاتھیوں کے پیروں تلے کچلنا اور زندہ کھال اتارنا بھی شامل تھا، جس کی مثال اس سے پہلے دہلی میں نہیں ملتی تھی 28۔ اس نے میوات میں فوجی چوکیاں (تھانے) قائم کیں اور وہاں وفادار افغان فوجیوں کو زمینیں دے کر بسایا تاکہ علاقے پر مستقل کنٹرول قائم کیا جا سکے 12۔

تزویراتی تجزیہ: داخلی سلامتی اور منگول خطرہ

بلبن کی یہ بے رحمانہ کارروائیاں محض لاقانونیت کا ردِ عمل نہیں تھیں، بلکہ یہ اس کی وسیع تر دفاعی حکمتِ عملی کا ایک لازمی حصہ تھیں۔ وہ شمال مغربی سرحد پر منگولوں جیسی عالمی طاقت سے ٹکرانے سے پہلے اپنی پشت کو مکمل طور پر محفوظ کرنا چاہتا تھا۔ دہلی کے پچھواڑے میں ایک ناقابلِ اعتبار اور سرکش قوم کی موجودگی اس کے لیے ناقابلِ قبول تھی۔ اس لیے، میواتیوں کو کچلنا دراصل منگولوں کے خلاف دفاعی تیاریوں کا پہلا اور سب سے اہم داخلی قدم تھا۔ میو قوم نے اپنی آزادی کی قیمت دہلی سلطنت کی منگولوں کے خلاف بقا کی صورت میں ادا کی۔

باب 7: خلجی اور ابتدائی تغلق دور میں میو قوم

علاء الدین خلجی کی پالیسی کا استنباط

تاریخی ذرائع میں علاؤالدین خلجی کی میواتیوں کے خلاف کسی مخصوص بڑی مہم کا ذکر نہیں ملتا، لیکن اس کی عمومی پالیسیوں سے ان کی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علاؤالدین کا بنیادی اصول بغاوت کے ہر امکان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ بغاوت کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں: امراء کی دولت اور عوام کا فارغ وقت۔

اس نے بغاوت کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے، ان کا براہِ راست اثر میو قوم پر بھی پڑا ہوگا:

  • معاشی دباؤ: اس نے زمین کا محصول 50 فیصد تک بڑھا دیا اور تمام ٹیکس نقد وصول کرنے کا حکم دیا 21۔ اس نے امراء اور زمینداروں کی جاگیریں (اقطاع اور انعام) ضبط کر لیں 40۔ ان اقدامات کا مقصد سب کو معاشی طور پر اتنا کمزور کرنا تھا کہ وہ ریاست کے خلاف سر اٹھانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ میواتی، جو پہلے ہی غریب تھے، ان پالیسیوں کے تحت مزید دب گئے ہوں گے۔
  • سخت انتظامی کنٹرول: علاؤالدین کے جاسوسی کے نظام اور سخت قوانین کے تحت، میواتیوں کے لیے اپنی روایتی لوٹ مار کی سرگرمیاں جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہوگا۔
    اس طرح، علاؤالدین نے بلبن کی طرح جسمانی طور پر قتلِ عام کرنے کے بجائے معاشی اور انتظامی دباؤ کے ذریعے میو قوم کو غیر مؤثر کر دیا۔ یہ کنٹرول کا ایک زیادہ “موثر” اور پائیدار طریقہ تھا، جس کے لیے بار بار فوجی مہمات کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

سماجی و معاشی تبدیلی کا عمل

سلطنت کے اس مسلسل اور شدید دباؤ کے نتیجے میں میو قوم میں ایک اہم سماجی تبدیلی کا آغاز ہوا۔ ان کا روایتی طرزِ زندگی، جو گلہ بانی اور لوٹ مار پر مبنی تھا، اب قابلِ عمل نہیں رہا تھا۔ چنانچہ، 14ویں صدی سے ان میں بتدریج زراعت پر مبنی ایک مستقل آبادکار معاشرے میں تبدیل ہونے کا عمل شروع ہوا 35۔ یہ ایک غیر ارادی نتیجہ تھا؛ سلطنت کا مقصد انہیں کچلنا تھا، لیکن اس دباؤ نے انہیں ریاست کے معاشی ڈھانچے میں ضم ہونے کی راہ پر ڈال دیا۔

باب 8: تغلق دور کی تبدیلی: جبر سے انضمام کی طرف

خانزادہ خاندان کا عروج

تغلق دور میں میوات کی تاریخ میں ایک نیا اور فیصلہ کن موڑ آیا۔ یہ میوات میں مقامی حکمران طبقے، خانزادہ خاندان، کا عروج تھا 32۔ خانزادہ مسلمان راجپوت تھے جن کا تعلق جادون قبیلے سے تھا۔ ان کے جدِ امجد، راجہ سونپر پال، نے سلطان فیروز شاہ تغلق (دورِ حکومت: 1351-1388) کے دور میں اسلام قبول کیا اور بہادر ناہر کا لقب پایا 29۔

فیروز شاہ تغلق کی پالیسی: انضمام اور باجگزاری

فیروز شاہ تغلق نے بہادر ناہر کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اسے میوات کا حکمران تسلیم کرتے ہوئے “والیِ میوات” کا خطاب اور جاگیر عطا کی 42۔ یہ بلبن کی پالیسی سے مکمل طور پر مختلف حکمتِ عملی تھی۔ جبر اور تباہی کے بجائے، فیروز شاہ نے میواتی قیادت کو سلطنت کے انتظامی ڈھانچے میں ضم کر کے علاقے میں امن قائم کرنے کی کوشش کی۔

اس پالیسی کی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ منگول خطرے کا ٹل جانا تھا۔ چونکہ اب سلطنت کو کسی بڑے بیرونی حملے کا خوف نہیں تھا، اس لیے سلطان داخلی معاملات میں زیادہ لچکدار اور مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ یہ ایک مستحکم اور پراعتماد ریاست کی علامت تھی جو اب براہِ راست فوجی قبضے کے بجائے بالواسطہ حکومت (indirect rule) کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر سکتی تھی۔

میو قوم پر اثرات

خانزادہ حکمرانوں نے، جو اب دہلی سلطنت کے باجگزار تھے، اپنی جاگیر کی معاشی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے میو قبائل پر دباؤ ڈالا کہ وہ لوٹ مار چھوڑ کر مکمل طور پر زراعت اختیار کریں 35۔ انہی خانزادہ حکمرانوں کے ذریعے میوات میں اسلام اور اسلامی ثقافت کی اشاعت بھی شروع ہوئی۔ انہوں نے مساجد تعمیر کروائیں اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے قاضی مقرر کیے 35۔ تاہم، عام میو آبادی میں اسلام قبول کرنے کا عمل بہت سست اور بتدریج تھا۔ انہوں نے صدیوں تک اپنی بہت سی پرانی ہندو روایات اور رسومات کو اسلامی عقائد کے ساتھ ملا کر جاری رکھا، جس سے ایک منفرد ہم آہنگ ثقافت نے جنم لیا 34۔


جدول 2: میو قوم کے بارے میں دہلی سلطنت کی پالیسی کا ارتقاء

سلطاندورِ حکومتپالیسی کا عنوانکلیدی اقداماتپالیسی کے پیچھے محرکات
غیاث الدین بلبن1266-1287مکمل تسخیر اور جبرقتلِ عام، جنگلات کی صفائی، فوجی چوکیوں کا قیام، سرداروں کو عبرت ناک سزائیں۔منگول حملے سے پہلے دارالحکومت کے پچھواڑے کو محفوظ بنانا اور داخلی بغاوت کا خاتمہ۔
علاؤالدین خلجی1296-1316معاشی دباؤ اور کنٹرولبھاری محصولات (50 فیصد)، نقد میں وصولی، جاگیروں کی ضبطی، سخت انتظامی کنٹرول۔منگولوں کے خلاف بڑی فوج کے اخراجات پورے کرنا اور عوام کو معاشی طور پر کمزور کر کے بغاوت کو روکنا۔
فیروز شاہ تغلق1351-1388تزویراتی انضمام اور باجگزاریمقامی سردار (بہادر ناہر) کو حکمران تسلیم کرنا، جاگیر عطا کرنا، اور سلطنت کے ڈھانچے میں ضم کرنا۔منگول خطرے میں کمی، سلطنت کا استحکام، اور بالواسطہ حکومت کی کم لاگت والی حکمتِ عملی۔

خاتمہ: تاریخ کے دھاروں کا سنگم

ہندوستان پر منگول یلغار کوئی واحد واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط ایک مستقل خطرہ تھا جس نے دہلی سلطنت کی تقدیر، اس کے کردار اور اس کی انتظامی ساخت کو بنیادی طور پر تشکیل دیا۔ اس طویل جنگ نے نہ صرف سلطنت کی فوجی اور معاشی پالیسیوں کا تعین کیا بلکہ اس کے داخلی رویوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔

اس تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دہلی سلطنت کی منگولوں کے خلاف بقا کی جنگ اور میو قوم کے ساتھ اس کے تعلقات دو الگ الگ کہانیاں نہیں، بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بیرونی خطرے کی شدت نے براہِ راست داخلی پالیسیوں کی سختی کا تعین کیا۔ جب منگول خطرہ اپنے عروج پر تھا، جیسا کہ بلبن اور علاؤالدین خلجی کے ادوار میں، تو میو قوم جیسی داخلی طور پر “سرکش” سمجھی جانے والی اقوام کے خلاف ریاست کا رویہ انتہائی سفاکانہ اور جابرانہ تھا۔ بلبن کا مقصد میواتیوں کو جسمانی طور پر ختم کرنا تھا تاکہ دارالحکومت محفوظ ہو سکے، جبکہ علاؤالدین نے انہیں معاشی طور پر بے بس کر دیا تاکہ وہ بغاوت کے قابل ہی نہ رہیں۔

اس کے برعکس، جب منگول خطرہ ٹل گیا، تو فیروز شاہ تغلق جیسے حکمرانوں نے جبر کے بجائے انضمام اور مصالحت کی پالیسی اپنائی۔ انہوں نے میواتی قیادت کو اپنا باجگزار بنا کر علاقے کو کنٹرول کیا، جو ایک مستحکم اور پراعتماد ریاست کی علامت تھی۔ یہ پالیسی کا ارتقاء—جبر سے معاشی دباؤ اور پھر سیاسی انضمام تک—نہ صرف سلطنت کی بدلتی ہوئی ضروریات کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ان پالیسیوں نے میو قوم کی سماجی، معاشی اور بالآخر مذہبی شناخت کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ مختصراً، میوات کی تاریخ کو دہلی سلطنت پر منڈلاتے منگول خطرے کے وسیع تر تناظر کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے۔

Works cited

  1. The ‘Mad King’ and the Mongols – Storytrails, accessed July 29, 2025, https://storytrails.in/people/the-mad-king-and-the-mongols/
  2. منگولوں کے ہندوستان پر حملے – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 29, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%86%DA%AF%D9%88%D9%84%D9%88%DA%BA_%DA%A9%DB%92_%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%D9%BE%D8%B1_%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92
  3. ہے کوئی جو آج بلبن کی تاریخ دہرائے!!…..آخر کیوں؟…رؤف کلاسرا – Daily Jang, accessed July 29, 2025, https://jang.com.pk/news/31875
  4. Mongol invasions of India – Wikipedia, accessed July 29, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mongol_invasions_of_India
  5. Background of Mongol Invasions of India – BYJU’S, accessed July 29, 2025, https://byjus.com/free-ias-prep/mongol-invasions-of-india-1221-1327/
  6. Mongol invasions during the early Turkish Dynasty – History Unravelled, accessed July 29, 2025, https://historyunravelled.com/invasions/mongol-invasions-during-the-slave-dynasty
  7. Mangols Invasion of India – UPSC Notes – LotusArise, accessed July 29, 2025, https://lotusarise.com/mangols-invasion-of-india/
  8. The Mongol Menace and the Delhi Sultanate’s Response • BA Notes, accessed July 29, 2025, https://banotes.org/india-c-1206-1707/mongol-menace-delhi-sultanate-response/
  9. The Mongol threat to India during Sultanate period – self study history, accessed July 29, 2025, https://selfstudyhistory.com/2014/12/24/4-medieval-indiathe-mongol-threat-to-india-during-the-13th-14th-centuries/
  10. غیاث الدّین بلبن: خاندانِ غلاماں کا انصاف پسند حکم راں – – ARY News Urdu, accessed July 29, 2025, https://urdu.arynews.tv/ghayas-uddin-balban-death-anniversary/
  11. غیاث الدین بلبن – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 29, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%BA%DB%8C%D8%A7%D8%AB_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%A8%D9%84%D8%A8%D9%86
  12. Balban – Wikipedia, accessed July 29, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Balban
  13. Ghiyas Ud Din Balban, Administration, Tomb, Dynasty – Vajiram & Ravi, accessed July 29, 2025, https://vajiramandravi.com/upsc-exam/ghiyas-ud-din-balban/
  14. Foundation of Delhi Sultanate: Rule of Balban – UPSC – LotusArise, accessed July 29, 2025, https://lotusarise.com/foundation-of-delhi-sultanate-rule-of-balban-upsc/
  15. Which among the following rulers of the Delhi Sultanate faced the maximum number of Mongol attacks? – Testbook, accessed July 29, 2025, https://testbook.com/question-answer/which-among-the-following-rulers-of-the-delhi-sult–5b9bad845fdafc6313b8f1bb
  16. Mongol Invasion During Khalji Dynasty – Medieval India History Notes – Prepp, accessed July 29, 2025, https://prepp.in/news/e-492-mongol-invasion-during-khalji-dynasty-medieval-india-history-notes
  17. Who was the ruler of the Delhi Sultanate when it faced the Mongol onslaught? – Testbook, accessed July 29, 2025, https://testbook.com/question-answer/who-was-the-ruler-of-the-delhi-sultanate-when-it-f–64b7e9409b602ce5b4ed720f
  18. کیوں ہندوستان کو علاؤ الدین خلجی کا شکر گذار ہونا چاہیے? – مکالمہ, accessed July 29, 2025, https://www.mukaalma.com/14173/
  19. ہندوستان پر منگولوں کا حملہ، 1297ء و 98ء – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 29, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%D9%BE%D8%B1_%D9%85%D9%86%DA%AF%D9%88%D9%84%D9%88%DA%BA_%DA%A9%D8%A7_%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%81%D8%8C_1297%D8%A1_%D9%88_98%D8%A1
  20. ہندوستان پر منگولوں کا حملہ، 1306ء – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 29, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%D9%BE%D8%B1_%D9%85%D9%86%DA%AF%D9%88%D9%84%D9%88%DA%BA_%DA%A9%D8%A7_%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%81%D8%8C_1306%D8%A1
  21. Khilji Dynasty – History, Major Rulers, War & Conquests | UPSC – Testbook, accessed July 29, 2025, https://testbook.com/ias-preparation/khilji-dynasty
  22. Notes on Alauddin Khilji’s Administrative Policies And Features – Unacademy, accessed July 29, 2025, https://unacademy.com/content/upsc/study-material/medieval-india/alauddin-khiljis-https://tibb4all.com/wp-content/uploads/2025/07/Toys.jpgistrative-policies-and-features/
  23. علاء الدین خلجی اور رانی پدماوتی تاریخی حقائق کیا کہتے ہیں – ایکسپریس اردو – Express.pk, accessed July 29, 2025, https://www.express.pk/story/1083109/alaa-aldyn-khljy-awr-rany-pdmawty-tarykhy-hqaq-kya-khte-hyn-1083109
  24. Delhi Sultanate: Socio Economic setup – Jagran Josh, accessed July 29, 2025, https://www.jagranjosh.com/general-knowledge/delhi-sultanate-socio-economic-setup-1416545738-1
  25. 5.(MEDIEVAL INDIA)INTERNAL RESTRUCTURING OF THE DELHI SULTANAT AND ITS TERRITORIAL EXPANSION – History For Civil Servises Examination., accessed July 29, 2025, http://selfstudyhistory.blogspot.com/2014/12/5medieval-indiainternal-restructuring.html
  26. خاندان تغلق اور خونی سلطان۔۔۔۔(1320ءسے 1414ءتک) – Daily Pakistan, accessed July 29, 2025, https://dailypakistan.com.pk/12-Apr-2022/1425768
  27. سلطنت دہلی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 29, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA_%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C
  28. Shahabuddin Khan Meo – Punjab University, accessed July 29, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
  29. Mewat – Wikipedia, accessed July 29, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mewat
  30. academic.oup.com, accessed July 29, 2025, https://academic.oup.com/book/38728/chapter/337140903#:~:text=Indo%2Dpersian%20chronicles%20and%20Meo,and%20robberies%20on%20traders%20and
  31. MEWATIS UNDER THE MAMLUK DYNASTY Pankaj Dhanger …, accessed July 29, 2025, https://www.aarhat.com/download-article/533/
  32. The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed July 29, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
  33. History of Mewat | PDF – Scribd, accessed July 29, 2025, https://www.scribd.com/document/694253851/History-of-Mewat
  34. The Advent of Islam and the Making of Muslim Identity in Mewat, 13th to 19th Century – International Journal of Reviews and Research in Social Sciences, accessed July 29, 2025, https://ijrrssonline.in/HTMLPaper.aspx?Journal=International%20Journal%20of%20Reviews%20and%20Research%20in%20Social%20Sciences;PID=2019-7-2-10
  35. The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13 th to 18 th …, accessed July 29, 2025, https://rjhssonline.com/HTML_Papers/Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences__PID__2017-8-2-4.html
  36. The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13th to 18th Centuries – Research Journal of Humanities and Social Sciences, accessed July 29, 2025, https://rjhssonline.com/HTMLPaper.aspx?Journal=Research+Journal+of+Humanities+and+Social+Sciences%3BPID%3D2017-8-2-4
  37. Tablighi Jamaat in Mewat-1: Background, Socio-Economic Profile, Meo Peasant Rebellions | Yoginder Sikand | New Age Islam, accessed July 29, 2025, https://www.newageislam.com/islamic-society/yoginder-sikand/tablighi-jamaat-mewat-1-background-socio-economic-profile-meo-peasant-rebellions/d/35905
  38. All you Wanted to Know About the Tablighi Jamaat: The Beginning – The Dharma Dispatch, accessed July 29, 2025, https://www.dharmadispatch.in/history/all-you-wanted-to-know-about-the-tablighi-jamaat-the-beginning
  39. The Role of Balban in the Subjugation and Administration of … – ijrpr, accessed July 29, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE12/IJRPR20333.pdf
  40. The Khalji Revolution: Alauddin Khalji: Conquests and territorial expansion, agrarian and economic measures: Part I – self study history, accessed July 29, 2025, https://selfstudyhistory.com/2020/03/27/the-khalji-revolution-alauddin-khalji-conquests-and-territorial-expansion-agrarian-and-economic-measures-part-i/
  41. State Formation Under Delhi Sultanate – The Book Review India, accessed July 29, 2025, https://www.thebookreviewindia.org/state-formation-under-delhi-sultanate/
  42. Khanzadas of Mewat – Wikipedia, accessed July 29, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Khanzadas_of_Mewat
  43. Khanzadas of Mewat: An Ethno-Historical Overview, accessed July 29, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/9328/18457/46111
  44. Nahar Khan – Wikipedia, accessed July 29, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Nahar_Khan
  45. The Advent of Islam and the Making of Muslim Identity in Mewat, 13th to 19th Century, accessed July 29, 2025, https://anvpublication.org/Journals/HTMLPaper.aspx?Journal=International%20Journal%20of%20Reviews%20and%20Research%20in%20Social%20Sciences;PID=2019-7-2-10

:اس مضمون کو شیئر کریں

فیس بک
ٹویٹر
لنکڈن
واٹس ایپ

حکیم قاری یونس

اس مضمون کے لکھاری، جو طبِ قدیم میں 20 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں اور صحت کے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

دوسرے دیکھے بلاگ

میزان الاعتدال جلد سوم

ضروری وضاحتایک مسلمان جان بوجھ کر قرآن مجید، احادیث رسول صلی الایم اور دیگر دینی کتابوں میں غلطی کرنے کا

Tibb4all

عام طور پر چند گھنٹوں میں جواب دیتا ہے۔

×