- Home
- میواتی ادب
- میوات میں میو قو ...


میوات میں میو قوم کے بقا اور طویل جنگ کے نظریے کی تشریح
اٹل پہاڑ:
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تعارف: استقامت کی حکمت عملی
یہ سمجھنے کے لیے کہ میو قوم کا جنگوں میں کیا منصوبہ ہوتا تھا، “بیک اپ پلان” کی اصطلاح کو از سر نو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ اصطلاح ایک ثانوی حکمت عملی کا تاثر دیتی ہے، لیکن تاریخی شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میو قوم کا جنگی منصوبہ کوئی ہنگامی لائحہ عمل نہیں تھا، بلکہ یہ بقا اور مزاحمت کا ایک بنیادی اور جامع نظریہ تھا جو ان کی ثقافت، سماجی ڈھانچے اور اپنے ماحول کے ساتھ گہرے تعلق میں پیوست تھا۔ یہ استقامت کی ایک حکمت عملی تھی، جس کا مقصد کسی ایک جنگ میں فیصلہ کن فتح حاصل کرنا نہیں، بلکہ ایک طاقتور دشمن کو طویل عرصے تک تھکا کر اپنی قوم کی بقا کو یقینی بنانا تھا 1۔

یہ بھی پڑھئے
میو قوم کی شناخت صدیوں کی لڑائیوں سے تشکیل پائی ہے۔ ابتدائی تاریخی حوالوں میں انہیں ایک “جنگجو نسل” 4 اور “اپنی شورش پسندی اور لوٹ مار کی عادات کے لیے بدنام” 4 قرار دیا گیا ہے، جو دہلی کے حکمرانوں کے لیے مسلسل درد سر بنے رہے 3۔ یہ شہرت بذات خود ان کی نفسیاتی جنگ کا ایک اہم عنصر تھی۔ میو قوم کی تاریخ دہلی سلطنت 5، مغلوں 1، مقامی راجپوت اور جاٹ ریاستوں 6 اور برطانوی سامراج 1 جیسی عددی اور تکنیکی طور پر برتر طاقتوں کے خلاف غیر متناسب جنگوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہی وہ تاریخی تناظر ہے جس نے ان کی حکمت عملیوں کو شکل دی۔
میو قوم کا نظریہ بقا ایک پیچیدہ، سہ جہتی حکمت عملی پر مشتمل تھا جو (1) اراولی سلسلے سے حاصل ہونے والی تزویراتی گہرائی، (2) گوریلا جنگ پر مبنی جنگی حربوں، اور (3) ایک مضبوط قرابت داری کے نظام سے برقرار رہنے والی سماجی ہم آہنگی کو مربوط کرتا تھا۔ یہ جنگیں جیتنے کا منصوبہ نہیں تھا، بلکہ جنگوں کو جھیل
جانے کا منصوبہ تھا۔
درحقیقت، میو قوم کی شناخت ان کی جنگی تاریخ سے لازم و ملزوم ہے۔ ان کی مزاحمت صرف بیرونی خطرات کا ردعمل نہیں تھی، بلکہ ان کی برادری کی ایک امتیازی خصوصیت تھی۔ “میواتی” ہونے کا مطلب ہی مزاحمت کرنے والا ہونا تھا۔ اس کا ثبوت حسن خان میواتی 1 اور 1857 کے ہیروز 1 جیسی شخصیات پر ان کا فخر ہے، اور یہاں تک کہ ان کی زبانی روایات بھی مختلف طاقتوں کے خلاف جدوجہد کو بیان کرتی ہیں 11۔ انگریزوں کی طرف سے انہیں “مجرم قبیلہ” قرار دینا 12، درحقیقت، ان کی اس موروثی جنگی شناخت کا اعتراف اور اسے مجرمانہ فعل قرار دینے کی کوشش تھی۔ یہ صرف 1857 کی بغاوت کی سزا نہیں تھی، بلکہ یہ ان کی نافرمانی کی طویل تاریخ کو مجرمانہ قانون کے ضابطے میں لانے کی کوشش تھی تاکہ ان کی مزاحمت کی فطرت کو ہی غیر قانونی قرار دیا جا سکے۔
قدرتی قلعہ: اراولی سلسلہ بطور تزویراتی گہرائی
میوات کے جغرافیائی حالات کا تجزیہ کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اراولی پہاڑی سلسلہ میو قوم کی دفاعی حکمت عملی کا طبعی اور نفسیاتی مرکز تھا۔ یہ پہاڑیاں محض جغرافیائی خصوصیت نہیں تھیں، بلکہ ان کی بقا کی ضمانت تھیں۔
اراولی بطور “انمول تحفہ”
اراولى سلسلے کو میو قوم کے لیے “قدرت کا ایک انمول تحفہ” قرار دیا گیا ہے 4۔ اس نے نہ صرف رزق (لکڑی وغیرہ) فراہم کیا بلکہ ایک خشک اور کھلے میدان میں قدرتی پناہ گاہ کا کام بھی دیا 3۔ اس کی ناہموار اور قدیم ارضیاتی ساخت نے روایتی فوجوں کے لیے نقل و حرکت کو مشکل بنا دیا 14۔
تزویراتی پسپائی کے لیے پناہ گاہ
تاریخی طور پر یہ پہاڑیاں صدیوں سے پناہ گاہ کا کام دیتی رہی ہیں۔ سلطنت کے دور میں سیاسی مخالفین یہاں پناہ لیتے تھے 5۔ میو قوم نے دہلی کے حملوں سے بچنے کے لیے مسلسل ان پہاڑیوں کو استعمال کیا 5۔ اس کی سب سے ڈرامائی مثال 1947 کی تقسیم کے وقت ہونے والا تشدد ہے، جب الور اور بھرت پور کی پوری میو آبادی اپنی جان بچانے کے لیے “کالا پہاڑ” (اراولى) میں پناہ گزین ہو گئی 16۔ یہ صرف فوجی پسپائی نہیں تھی، بلکہ یہ پوری برادری کی اپنے قدرتی قلعے میں ایک اجتماعی ہجرت تھی۔ جب ان کے گاؤں تباہ کر دیے گئے تو یہ پہاڑ ان کا “مسکن” بن گئے 16۔ اسی طرح 1857 کی جنگ آزادی میں بھی میدانی علاقوں میں شکست کے بعد میو انقلابی برطانوی تعاقب سے بچنے کے لیے اراولی کے پہاڑوں میں چلے گئے 8۔
علاقہ بطور جنگی معاون
یہ مشکل علاقہ—گھنے جنگلات (ماضی میں)، پہاڑیاں اور تنگ درے—گھڑ سوار فوج اور منظم پیادہ دستوں کے فوائد کو بے اثر کر دیتا تھا، اور دشمن کو میو قوم کی شرائط پر لڑنے پر مجبور کرتا تھا 5۔ زبانی روایات میں “میوات” کی اصطلاح خود “ڈاکوؤں کی پناہ گاہ” سے منسلک ہے، جو ان کی شناخت اور علاقے کی دفاعی خصوصیات

کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے 5۔
قلعے بطور تزویراتی مراکز
میو قوم کی دفاعی حکمت عملی صرف قدرتی پناہ گاہوں پر منحصر نہیں تھی۔ اسے انسانوں کے بنائے ہوئے قلعوں سے مزید تقویت دی گئی، جو اکثر ان کے حکمران طبقے، خانزادہ راجپوتوں نے تعمیر کیے تھے 5۔
کوٹلہ قلعہ: اسے خانزادوں کا دارالحکومت کہا جاتا ہے 15، اور اسے اس کی دفاعی اہمیت کی وجہ سے منتخب کیا گیا تھا، جو پہاڑیوں اور ایک بڑی جھیل سے محفوظ تھا 19۔ میواتی فوج نے یہاں دہلی کے سلطان کی افواج کے خلاف ایک سال طویل محاصرے کا مقابلہ کیا، جو اس کی تزویراتی قدر کو ظاہر کرتا ہے 15۔
گھاسیڑہ قلعہ: 18ویں صدی کا ایک اہم قلعہ، جس کے کنٹرول کے لیے راجپوتوں اور جاٹوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں 7۔ اس کے کھنڈرات آج بھی اس خطے کی ہنگامہ خیز تاریخ کی گواہی دیتے ہیں۔
کیسرولی قلعہ: 14ویں صدی کا ایک اور قلعہ جسے یادوونشی بادشاہوں نے تعمیر کیا، بعد میں خانزادوں کے کنٹرول میں آیا اور اسے “الور کی حفاظت کے لیے ایک اہم قلعہ” سمجھا جاتا تھا 20۔
یہ قلعے الگ تھلگ چوکیاں نہیں تھے، بلکہ اراولی سلسلے پر مبنی ایک گہرے دفاعی نظام کا حصہ تھے۔
اراولى سلسلہ محض ایک فوجی اثاثہ نہیں تھا؛ یہ میو قوم کی نفسیاتی مضبوطی اور ثقافتی شناخت کا مرکز تھا۔ یہ جملہ کہ “پہاڑ کسی زمانے میں میو قوم کی پناہ گاہ تھے اور اسے اِن پر بڑا ناز تھا” 21 گہرے معنی رکھتا ہے۔ یہ فخر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پہاڑ شکست یا آخری پناہ گاہ کی علامت نہیں تھے، بلکہ طاقت اور شناخت کا سرچشمہ تھے۔ پہاڑوں میں پسپائی اختیار کرنے، زندہ رہنے اور پھر سے ابھرنے کی صلاحیت نے ان کی ناقابل تسخیر ہونے اور استقامت کی داستان کو تقویت دی، جس نے انہیں صدیوں کے تنازعات میں قائم رکھا۔ 1947 کے بحران کے دوران پہاڑوں کی طرف اجتماعی ہجرت ایک فطری، اجتماعی ردعمل تھا، جس نے ان پہاڑوں کو پوری بے گھر آبادی کے لیے ایک عارضی گھر میں تبدیل کر دیا 16۔ لہٰذا، پہاڑیوں کی طرف پسپائی کا “بیک اپ پلان” ناکامی کی علامت نہیں تھا، بلکہ ان کی بنیادی بقا کی حکمت عملی کا اثبات اور اجتماعی نفسیاتی طاقت کا ذریعہ تھا، جس نے انہیں 1947 کے قتل عام جیسے واقعات کو برداشت کرنے اور خود کو دوبارہ منظم کرنے کا موقع فراہم کیا 16۔
غیر متناسب جنگ کا فن: میو قوم کے جنگی حربے
اس حصے میں میو قوم کے ان مخصوص غیر روایتی حربوں کا جائزہ لیا گیا ہے جنہیں وہ اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے تھے۔
ابتدائی حربے: معاشی اور تھکاوٹ کی جنگ (سلطنت کا دور)
ابتدائی طور پر “قانون شکن لٹیروں اور حملہ آوروں” کے طور پر بیان کیے جانے والے میوؤں کے اقدامات دراصل معاشی جنگ کی ایک شکل تھے، جس کا مقصد دہلی کے سلطانوں کے لیے اہم تجارتی اور سفری راستوں میں خلل ڈالنا تھا 5۔ یہ “غارت گرانہ سرگرمیاں” بقا کا ایک ذریعہ اور مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ تھیں، جس سے ریاست کو انہیں قابو میں رکھنے کے لیے وسائل خرچ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا تھا (جیسے غیاث الدین بلبن کا قلعے اور پولیس چوکیاں تعمیر کروانا) 5۔ یہ کلاسک گوریلا ماڈل کے عین مطابق ہے جس میں دشمن پر مسلسل، کمزور کرنے والا دباؤ ڈالا جاتا ہے 22۔

1857 کی جنگ آزادی میں گوریلا جنگ
1857 کی جنگ آزادی میو حربوں کی سب سے مفصل مثالیں پیش کرتی ہے۔
عوامی mobilization: مولانا مہراب خان، علی حسن خان، اور شرف الدین میواتی جیسے رہنماؤں نے گاؤں گاؤں جا کر عوام کو متحرک کیا، جو افواج کو منظم کرنے کے ایک منظم انداز کو ظاہر کرتا ہے 8۔
اقتدار کے مراکز کو نشانہ بنانا: انہوں نے برطانوی حکومت کی علامتوں اور ان کے وفاداروں (پولیس، خانزادوں، مالیہ کے دفاتر) پر حملے کیے، نوح اور گڑگاؤں جیسے علاقوں میں مقامی انتظامیہ کا تختہ الٹ دیا اور قیدیوں کو رہا کرایا 8۔
گھات اور چھاپہ مار حملے: انہوں نے “اچانک حملے” 8 کیے، برطانوی قافلوں پر گھات لگائی، اور گھاسیڑہ، روپڑا کا اور سوہنا جیسے اہم مقامات پر شدید لڑائیاں لڑیں 8۔ ان کا طریقہ کار “تیزی سے اور غیر متوقع طور پر حملہ کرنا… اور پھر تیزی سے پیچھے ہٹنا” تھا 23۔
جانی نقصان پہنچانا: وہ مؤثر جنگجو تھے، جنہوں نے وگرام کلفورڈ اور مسٹر میکفرسن جیسے برطانوی افسران کو ہلاک کیا اور کئی مواقع پر برطانوی قیادت والی افواج کو شکست دی 1۔
نفسیاتی جنگ
میو قوم کی “خوفناک” 24، “ہنگامہ خیز” 4، اور “سخت جان” 8 ہونے کی شہرت خود ایک ہتھیار تھی۔ اس نے غیر متوقع اور خطرناک ہونے کا تاثر پیدا کیا، جس سے مخالفین کو محتاط رہنے اور زیادہ وسائل خرچ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنرل بخت خان (جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ میو تھے) سے منسوب یہ قول، “ہم جا کی مونڈی پہ پنہاں دھر دیاں اُو بادشاہ بن جاوے” (ہم جس کے سر پر اپنی جوتی رکھ دیں وہ بادشاہ بن جاتا ہے)، ایک غیر معمولی خود اعتمادی اور بادشاہ گر اور جنگجو کے طور پر اپنی طاقت کے نفسیاتی دعوے کی عکاسی کرتا ہے 10۔
دور/ تنازعہ | مخالف قوت | دستاویزی میو حربے / حکمت عملی | ماخذ |
دہلی سلطنت (بلبن) | سلطان غیاث الدین بلبن | تجارتی راستوں پر چھاپے مارنا اور لوٹ مار کرنا؛ راجپوتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا | 5 |
جنگِ خانوا (بابر) | مغل فوج | راجپوتوں کے ساتھ اتحاد میں کھلی جنگ لڑنا | 1 |
1857 کی جنگ آزادی | برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی | نامزد رہنماؤں کے تحت منظم بغاوت؛ فوجی قافلوں پر گھات لگانا؛ اقتدار کی علامتوں کو نشانہ بنانا | 8 |
1947 تقسیم کا تشدد | الور/بھرت پور ریاستی افواج | پوری شہری آبادی کی اراولی پہاڑیوں میں اجتماعی پسپائی | 16 |
جنگ کے سماجی اعصاب: قرابت داری اور اتحاد کے ذریعے متحرک ہونا
میو قوم کا سماجی ڈھانچہ ان کی فوجی صلاحیت سے الگ نہیں تھا، بلکہ درحقیقت اس کی بنیاد تھا۔ ان کی سماجی تنظیم ہی ان کی جنگی طاقت کا سرچشمہ تھی۔
پال اور گوت نظام بطور فوجی ڈھانچہ
میو قوم ونش (گروہوں)، پال (قبیلوں)، اور گوتوں (خاندانوں) کے ایک واضح ڈھانچے میں منظم ہے 4۔ یہ ڈھانچہ، جو راجپوتوں اور جاٹوں جیسی جنگجو برادریوں سے ملتا جلتا ہے 11، فوجی بھرتی اور تنظیم کے لیے ایک پہلے سے موجود نظام فراہم کرتا تھا۔ یہ قرابت داری کے نیٹ ورک “اتنے مضبوط ہیں کہ وہ پوری برادری کو اکٹھا کر دیتے ہیں” 21۔ یہ سماجی ہم آہنگی جنگ کے وقت ایک اہم اثاثہ تھی، جو گاؤں اور علاقوں میں تیز رفتار مواصلات، بھرتی اور ہم آہنگی کی اجازت دیتی تھی۔ 16ویں صدی میں، حسن خان میواتی کی فوج میں 12 میو قبیلے خدمات انجام دے رہے تھے، جو سماجی اکائیوں کو براہ راست فوجی اکائیوں میں تبدیل کرنے کی واضح مثال ہے 5۔
عملی اتحاد
میو قوم نے اپنے مفادات کے مطابق دیگر طاقتوں کے ساتھ اتحاد کرکے تزویراتی لچک کا مظاہرہ کیا۔
راجپوتوں کے ساتھ اتحاد: سب سے نمایاں مثال میواڑ کے رانا سانگا کے ساتھ مغل حملہ آور بابر کے خلاف اتحاد ہے 1۔ حسن خان میواتی نے ایک مسلمان حملہ آور کے خلاف ایک ہندو بادشاہ کا ساتھ دینے کا انتخاب کیا، جس میں انہوں نے مذہبی وابستگی پر علاقائی یکجہتی اور بیرونی طاقت کے خلاف مزاحمت کو ترجیح دی 1۔ اس سے قبل، انہوں نے دہلی کے سلطانوں کے خلاف بھی “راجپوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ” کیا تھا 5۔
پیچیدہ تعلقات: راجپوتوں کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ اتحادی نہیں تھے؛ وہ ان کے خلاف بھی لڑے 7۔ یہ ایک مستقل نظریاتی پالیسی کے بجائے ایک عملی، مفاد پر مبنی خارجہ پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔
میو قوم کا سماجی ڈھانچہ، خاص طور پر اپنے قبیلے سے باہر شادی کرنے کا رواج (gotra exogamy) 25، محض فوجی بھرتی سے بڑھ کر مزاحمت کا ایک طاقتور ذریعہ تھا۔ اپنے ہی خاندان سے باہر شادی کرنے پر مجبور کر کے، اس نظام نے پورے میوات کے علاقے میں قرابت داری کے رشتوں کا ایک گھنا جال بنا دیا۔ جنگ کے وقت، اس کا مطلب یہ تھا کہ حملے کی زد میں آنے والا ایک گاؤں نہ صرف اپنے فوری قبیلے سے بلکہ بہت سے دوسرے قبیلوں سے بھی مدد کی توقع کر سکتا تھا جن سے اس کا شادی کے ذریعے تعلق تھا۔ اس غیر مرکزی، جال کی طرح کے حمایتی نظام کو ایک مرکزی دشمن کے لیے تباہ کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل تھا۔ دشمن ایک قبیلے کو شکست دے سکتا تھا یا ایک گاؤں کو تباہ کر سکتا تھا، لیکن وہ ان ہزاروں باہم مربوط رشتوں کو نہیں توڑ سکتا تھا جو برادری کو ایک ساتھ جوڑے ہوئے تھے۔ یہ سماجی و ثقافتی اصول ایک تزویراتی فوجی اور بقا کا اثاثہ بن گیا، جس نے ایک لچکدار، تقسیم شدہ نیٹ ورک بنایا جو قدرتی طور پر کسی ایک رہنما یا مرکز پر حملے سے محفوظ تھا۔ یہی ایک اہم وجہ ہے کہ میو برادری صدیوں کے حملوں کو برداشت کر کے دوبارہ ابھرنے میں کامیاب رہی۔
انسانی پہلو: غیر جنگجوؤں کی بقا اور مزاحمت کی قیمت
میو قوم کی بقا کے نظریے کا حتمی مقصد جنگجوؤں کی فتح نہیں، بلکہ پوری برادری، خاص طور پر غیر جنگجو آبادی کی بقا کو یقینی بنانا تھا۔
اجتماعی انخلاء بطور بقا کا طریقہ کار
1947 کی تقسیم کے وقت ہونے والے تشدد نے غیر جنگجوؤں کی بقا کے میو منصوبے کا سب سے واضح ثبوت فراہم کیا۔ جب ریاستی افواج اور مسلح ہجوموں کے منظم قتل عام کا سامنا کرنا پڑا، تو ردعمل یہ نہیں تھا کہ گاؤں میں آخری آدمی تک لڑا جائے، بلکہ پوری برادری—مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے—کو اراولی کی پہاڑیوں (کالا پہاڑ) کی پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا 16۔ یہ پہاڑیاں بے گھر آبادی کے لیے ایک عارضی “مسکن” بن گئیں 16۔ یہ ایک پہلے سے طے شدہ، فطری ردعمل تھا جس کی جڑیں صدیوں کے تجربے میں پیوست تھیں۔ برادری نے خود کو بچانے کے لیے بحیثیت مجموعی حرکت کی۔ یہ جدید فوجی انخلاء (NEO) کے برعکس تھا، جو ریاست کی زیر قیادت اور بیرونی محفوظ پناہ گاہوں کی طرف ہوتا ہے 26۔ میو قوم کا انخلاء ایک مقامی، خود انحصار عمل تھا جہاں “محفوظ پناہ گاہ” ان کا اپنا آبائی علاقہ—پہاڑ—تھا۔
انٹیلیجنس اور پیش بینی کا کردار
1947 میں کامیاب انخلاء حالات سے اعلیٰ درجے کی آگاہی کا ثبوت ہے۔ ایک واقعہ میں ایک جاسوس طیارے کی پرواز کو دیکھ کر، جسے میوؤں نے پہلے حکومتی سروے طیارہ سمجھا، جلد ہی یہ اندازہ لگا لیا گیا کہ یہ انہیں نشانہ بنانے کے لیے ہے 16۔ اس سے فوری طور پر کالا پہاڑ عبور کر کے برطانوی زیر انتظام علاقے میں جانے کا فیصلہ کیا گیا، جو نئی انٹیلیجنس کی بنیاد پر منصوبوں کو اپنانے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ مقامی مخبروں (“چوہڑوں اور چماروں”) کی غداری، جو راستوں سے واقف تھے، نے مقامی انٹیلیجنس کی اہمیت اور اس کے سمجھوتے کے خطرات کو بھی اجاگر کیا 16۔
مزاحمت کی بھاری قیمت
مسلسل مزاحمت کی اس حکمت عملی کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔ تاریخی ذرائع میں قتل عام، سینکڑوں گاؤں کو جلانے، اور بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا ذکر ہے 1۔ 1857 کی بغاوت پر برطانوی ردعمل انتہائی سفاکانہ تھا، جس میں بریگیڈیئر جنرل شاورز نے پورے علاقے کو تباہ کر دیا 10۔ 1871 کے ایکٹ کے تحت انہیں باضابطہ طور پر “مجرم قبیلہ” قرار دینا ایک طویل مدتی نتیجہ تھا، جس نے نگرانی اور پسماندگی کو ادارہ جاتی شکل دی اور انہیں ترقی کے مواقع سے محروم کر دیا، جس نے ایک شیطانی چکر میں کچھ کو بقا کے لیے جرائم کی طرف دھکیل دیا 12۔
“کسان سازی” کا تاریخی عمل—یعنی میوؤں کو نیم خانہ بدوش حملہ آوروں سے آباد کاشتکاروں میں تبدیل کرنا 5—حکمران طاقتوں کی طرف سے ایک طویل مدتی جوابی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ میوؤں کو زمین سے باندھ کر، حکمرانوں نے انہیں قابل ٹیکس، جغرافیائی طور پر زیادہ مستحکم، اور اس طرح زیادہ قابل کنٹرول بنا دیا۔ یہ ان کے اس متحرک، چھاپہ مار طرز زندگی سے تعلق کو توڑنے کی کوشش تھی جس نے انہیں زیر کرنا اتنا مشکل بنا دیا تھا۔ اکبر کی میوؤں کو ریاستی مشینری میں ڈاک رنر اور محافظ کے طور پر بھرتی کرنے کی پالیسی 5 بھی ایک اور انضمام کی حکمت عملی تھی، جس کا مقصد ممکنہ باغیوں کو ریاست کے وفادار خادموں میں تبدیل کرنا تھا۔ تاہم، 1857 کی بغاوت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امن کی کوشش نامکمل تھی اور ان کی جنگی شناخت آسانی سے دوبارہ بیدار ہو سکتی تھی۔
نتیجہ: دائمی مزاحمت کا نظریہ
آخر میں، یہ واضح ہے کہ میو قوم کا “بیک اپ پلان” درحقیقت بقا کا ایک گہرا اور متحرک نظریہ تھا۔ یہ تین ستونوں پر مبنی ایک مربوط نظام تھا: اراولی کی تزویراتی گہرائی، گوریلا جنگ کی حکمت عملی، اور ان کے سماجی ڈھانچے کی متحرک کرنے والی طاقت۔ یہ عناصر الگ الگ نہیں تھے بلکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ علاقے نے حربوں کو ممکن بنایا، اور سماجی ڈھانچے نے ان حربوں کو استعمال کرنے والے جنگجوؤں کو سہارا دیا۔
میو قوم کے لیے فتح کا پیمانہ مفتوحہ علاقہ نہیں بلکہ برادری کی بقا تھی۔ پے در پے سلطنتوں کی زبردست طاقت کے سامنے، یہ حقیقت کہ میو برادری اور اس کی منفرد ثقافت آج بھی موجود ہے، ان کی حکمت عملی کی کامیابی کا حتمی ثبوت ہے 21۔ لہٰذا، جسے ایک “بیک اپ پلان” سمجھا جا سکتا ہے، وہ حقیقت میں ایک دشمن دنیا میں میو قوم کے وجود کا بنیادی نظریہ تھا۔ یہ دائمی مزاحمت کا ایک فلسفہ تھا، جو ایک شدید آزاد پسند برادری کے لیے ایک عملی اور مؤثر موافقت تھی جو سلطنتوں کے سائے میں اپنی خود مختاری اور شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم تھی۔ ان کی تاریخ اس بات کا بہترین مطالعہ ہے کہ کس طرح ایک بظاہر کمزور گروہ جغرافیہ، غیر روایتی حربوں اور سماجی ہم آہنگی کا فائدہ اٹھا کر کہیں زیادہ مضبوط مخالفین کو شکست دے سکتا ہے اور ان سے بچ سکتا ہے۔