- Home
- میواتی ادب
- میو قوم اور وقتی ...


میو قوم اور وقتی حکومتوں کے درمیان تاریخی تنازعات
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تمہید
موضوع کا تعارف
میو قوم کی تاریخی حیثیت
تحقیق کے مقاصد (وجوہات، اثرات، جاری چیلنجز)
میو قوم کا تعارف اور تاریخی پس منظر
جغرافیائی پھیلاؤ اور سیاسی تقسیم
میوات کی تقسیم
برطانوی اور ہندوستانی ریاست کی حکمت عملی
نسلی و ثقافتی شناخت
راجپوت شجرہ نسب
مذہبی اور ثقافتی امتزاج
دوہری شناخت کے اثرات
مغلیہ دور میں تنازعات
بلبن اور تغلق کی فوجی مہمات
ابتدائی مزاحمت
خود مختاری کی بحالی کی کوششیں
بابر کے خلاف جنگ اور میو حکمرانی کا خاتمہ
حسن خان میواتی کی قربانی
مزاحمت کی تسلسل
برطانوی دور میں میو قوم کی جدوجہد
اقتصادی استحصال اور زرعی بغاوتیں
زرعی نظام میں تبدیلی
کسانوں کی مزاحمت
1857 کی جنگ آزادی میں کردار
نمایاں رہنما
وسیع پیمانے پر شرکت
برطانوی ردعمل
“تقسیم کرو اور حکمرانی کرو” پالیسی
علاقائی تقسیم
فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دینا
تقسیم ہند کے بعد میو قوم کے چیلنجز
ہندوستان میں
تقسیم کے دوران قتل عام اور جبری تبدیلی مذہب
گاندھی و آزاد کی اپیل
زمینوں کی واپسی میں ناکامی
موجودہ دور کی پسماندگی و امتیاز
پاکستان میں
ہجرت کے بعد بکھری ہوئی آبادی
ثقافتی شناخت اور خودشناسی کے مسائل
ترقی کے امکانات و مسائل
موجودہ دور کے چیلنجز اور امکانات
تعلیمی، سماجی اور اقتصادی پسماندگی
فرقہ وارانہ حملے اور گئو رکشا تشدد
نوجوانوں میں مایوسی اور جرائم کی طرف رجحان
شناخت اور وقار کی بحالی کی ضرورت
نتیجہ اور سفارشات
تاریخی پس منظر کا تسلسل
ریاستی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت
تعلیم و ترقی پر توجہ
شناخت کے بحران کا حل
بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا
وجوہات، اثرات اور جاری چیلنجز
میو قوم، جو برصغیر پاک و ہند کی ایک منفرد اور تاریخی برادری ہے، صدیوں سے مختلف حکومتی اداروں کے ساتھ پیچیدہ اور اکثر متصادم تعلقات میں رہی ہے۔ یہ تنازعات سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی عوامل کے ایک پیچیدہ جال سے جڑے ہوئے ہیں، جو مغل دور سے لے کر برطانوی راج اور تقسیم ہند کے بعد کے ادوار تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ کا مقصد میو قوم اور حکومتی طاقتوں کے درمیان ان تاریخی تصادم کی گہری وجوہات، ان کے اثرات اور آج بھی درپیش چیلنجز کا تجزیہ کرنا ہے۔
تعارف: میو قوم کی شناخت اور میوات کا تاریخی پس منظر
میو قوم کا تعارف اور جغرافیائی پھیلاؤ
میو قوم ایک مسلم نسلی گروہ ہے جو شمال مغربی ہندوستان کے میوات خطے سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ خطہ جغرافیائی طور پر ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کی ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے، جس میں نوح، الور، بھرت پور، متھرا اور گڑگاؤں جیسے اضلاع شامل ہیں ۔ یہ علاقہ دہلی، آگرہ اور جے پور کے اہم شہری مراکز کے درمیان واقع ہے ۔ میوات کا علاقہ تاریخی طور پر کبھی ایک انتظامی اکائی نہیں رہا، لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی لسانی اور ثقافتی شناخت کو برقرار رکھا ۔
تقسیم ہند کے وقت، یہ خطہ تین انتظامی اکائیوں میں تقسیم تھا: دو شاہی ریاستیں الور اور بھرت پور، اور برطانوی ہند کے صوبہ ہریانہ کا ضلع گڑگاؤں ۔ آزادی کے بعد، میوات کو مزید تقسیم کر کے ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کی ریاستوں کے آٹھ اضلاع میں بانٹ دیا گیا ۔ یہ تقسیم صرف ایک جغرافیائی حقیقت نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے گہرے سیاسی محرکات کارفرما تھے۔ برطانوی حکمرانوں نے اس علاقے کو مختلف صوبوں اور ریاستوں میں تقسیم کیا تاکہ متحدہ میوات کی حریت پسندی کا تدارک کیا جا سکے ۔ آزادی کے بعد بھی، ہندو حکمرانوں نے اس تقسیم کو جاری رکھا اور اسے چار انتظامی یونٹس میں بکھیر دیا تاکہ متحدہ میوات میں کسی مسلمان وزیر اعلیٰ یا مسلم اکثریتی کابینہ کے خطرے کو ختم کیا جا سکے ۔ یہ مسلسل انتظامی تقسیم میو قوم کی وحدت کو کمزور کرنے اور ان کی سیاسی طاقت کو محدود کرنے کی ایک شعوری حکومتی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔
میو قوم کی تاریخی شناخت اور ثقافتی خصوصیات
میو قوم خود کو راجپوت نسل سے سمجھتے ہیں، جن کا شجرہ نسب چندرونشی، سوریاونشی اور اگنی ونشی راجپوتوں سے جا ملتا ہے ۔ وہ رام، ارجن اور کرشن کی اولاد ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ۔ یہ دعوے میو قوم کی شناخت اور خود شناسی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میوؤں کی مشہور گوتیں راٹھور، چوہان، تومر، سنگال، بالوٹ، بڈھ گجر، پنوار وغیرہ ہیں ۔ 13ویں صدی میں رانا کاکو بالوٹ میو نے میوؤں کو تین گروہوں (ونش)، تیرہ پالوں اور باون گوترا (قبیلوں) میں تقسیم کیا ۔ یہ نظام ان کے سماجی ڈھانچے اور خاندانی تعلقات کو منظم کرتا ہے۔
میو قوم کی شناخت ہندومت اور اسلام کے درمیان ایک منفرد امتزاج ہے ۔ وہ ہندو تہوار جیسے ہولی اور دیوالی مناتے تھے، اور ان کے رسم و رواج، عادات و اطوار، اور برادرانہ تعلقات راجپوتوں سے ملتے جلتے تھے ۔ ان کی شادی کی رسمیں نکاح اور سپتاپدی دونوں پر مشتمل ہوتی تھیں، اگرچہ سپتاپدی کا رواج اب زیادہ تر ترک کر دیا گیا ہے ۔ میو قوم نے 11ویں سے 17ویں صدی کے درمیان صوفی بزرگوں (جیسے غازی سید سالار مسعود، خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء) کے اثر سے اسلام قبول کیا ۔ ان کی زبان میواتی ہے، جو راجستھانی، ہریانوی اور اردو کا امتزاج ہے ۔
یہ ہند-مسلم ملی جلی ثقافتی اور مذہبی شناخت تاریخی طور پر میو قوم کی وحدت اور ہم آہنگی کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے ۔ ان کی رواداری کی روایات اور باہمی تعلقات صدیوں سے پروان چڑھے تھے، جہاں تنازعات عام طور پر مذہبی بنیادوں پر نہیں لڑے جاتے تھے بلکہ اس میں میو پالوں اور جاٹ کھاپوں کے درمیان اتحاد بھی شامل ہوتا تھا ۔ تاہم، یہ دوہری شناخت بعد میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور “دو قومی نظریہ” کے تناظر میں ان کی کمزوری بن گئی ۔ انہیں نہ تو “سچے مسلمان” اور نہ ہی “سچے ہندو” سمجھا گیا ، جس کی وجہ سے انہیں دونوں طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ منفرد شناخت، جو کبھی ان کی طاقت تھی، فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے دور میں ایک کمزوری بن گئی اور حکومتی اداروں کے ساتھ ان کے تنازعات کا ایک بنیادی محرک بنی۔
مغل دور میں میو قوم کی مزاحمت
ابتدائی تصادم اور خود مختاری کی جدوجہد
میو قوم کی حکمرانی کے ساتھ تصادم کی ایک طویل تاریخ ہے جو مغل دور سے شروع ہوتی ہے۔ 13ویں صدی میں، سلطان غیاث الدین بلبن نے میوات کے علاقے میں “ڈاکوؤں اور لٹیروں” کے خلاف دو مہمات چلائیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ میو قوم تھے ۔ بلبن کے حملوں کا مقصد شاہی فوجوں پر حملے کرنے والے اور شاہی خزانوں کو لوٹنے والے میوؤں کو ختم کرنا تھا ۔ ان مہمات میں ہزاروں میوؤں کو قتل کیا گیا اور ان کے سرداروں کو دہلی لایا گیا ۔ یہ ابتدائی تصادم میو قوم کی خود مختاری اور حکومتی کنٹرول کو مسترد کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
ان شدید حملوں کے بعد، میو قوم کو دوبارہ اپنی طاقت بحال کرنے میں تقریباً دو صدیاں لگیں ۔ فیروز شاہ تغلق کے دور میں، ان کے سردار بہادر نہار (بعد میں نہار خان) کو میوات کے علاقے کا جائز حکمران تسلیم کیا گیا ۔ یہ میو قوم کی خود مختاری کی بحالی کی ایک اہم علامت تھی۔ تاہم، 1527 میں، حسن خان میواتی نے رانا سانگا کے ساتھ مل کر بابر کے خلاف جنگ لڑی ۔ اس جنگ میں حسن خان مارے گئے، جس کے بعد بابر نے میوات کو “ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا” اور اس علاقے نے اپنا نام “میوات” کھو دیا ۔ اس سے میوؤں کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا، لیکن ان کی خود مختاری کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی ۔ ایک صدی بعد بھی، اکرام خان کی قیادت میں میو قوم نے آخری عظیم مغل بادشاہ اورنگزیب کے لیے مشکلات پیدا کیں ۔ یہ واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ میو قوم کی مزاحمت صرف وقتی نہیں تھی بلکہ حکومتی کنٹرول کو چیلنج کرنے اور اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی ایک مسلسل کوشش تھی۔ مغلوں کے ظلم و ستم کا ان کی اسلامی شناخت کو مضبوط کرنے پر بہت کم اثر پڑا، لیکن اس نے مغل حکمرانی کے خلاف ان کی مزاحمت کو تقویت دی ۔
برطانوی راج کے دوران میو قوم کے تنازعات اور بغاوتیں
اقتصادی استحصال اور زرعی بغاوتیں
برطانوی راج نے ہندوستان کی معیشت کو گہرائی سے تبدیل کیا، روایتی ڈھانچے کو ختم کیا اور استحصالی نوآبادیاتی پالیسیاں نافذ کیں، جس سے وسیع پیمانے پر غربت اور عدم اطمینان پیدا ہوا ۔ میو قوم، جو بنیادی طور پر ایک زرعی برادری تھی ، ان پالیسیوں سے شدید متاثر ہوئی۔ برطانوی حکومت نے ہندوستان کے روایتی کٹیر صنعتوں کو تباہ کر دیا اور ہندوستان کو خام مال کا برآمد کنندہ بنا دیا ۔ اس کے نتیجے میں بہت سے کاریگروں اور دستکاروں نے اپنی روزی کھو دی اور انہیں زراعت کی طرف دھکیل دیا گیا، جس سے دیہی علاقوں میں اجرتیں کم ہو گئیں ۔
برطانوی حکمرانی کے تحت، زمین کی آمدنی کی شرحیں بہت زیادہ تھیں، اور غیر منصفانہ بے دخلی کے طریقوں اور زمینداروں کے استحصال نے بہت سے کسانوں کو قرض اور بے زمینی کی طرف دھکیل دیا ۔ زمین کو قابل فروخت اور قابل رہن بنا دیا گیا، جس نے دیہی معاشرے کے ڈھانچے کو کمزور کیا اور سود خوروں کا عروج ہوا ۔ نقد فصلوں جیسے نیل اور کپاس پر زور دینے سے خوراک کی قلت میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں قحط پڑا اور لاکھوں افراد ہلاک ہوئے ۔
ان اقتصادی دباؤ کے نتیجے میں میو قوم نے متعدد زرعی بغاوتیں کیں۔ 1930 کی دہائی کے اوائل میں، الور ریاست کے میو قبائل نے زمین کی آمدنی اور دیگر ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف بغاوت کی ۔ یہ جدوجہد ابتدائی طور پر اقتصادی نوعیت کی تھی، لیکن بعد میں اس میں ثقافتی اور مذہبی مسائل بھی شامل ہو گئے ۔ یہ بغاوت اتنی مضبوط تھی کہ ریاستی فوجیں اسے قابو کرنے میں ناکام رہیں ۔ اس بغاوت کے دوران، کشنگڑھ (الور) کے میو گاؤں دھموکر کو حکام نے 1932 میں آگ لگا دی ۔ میو کسانوں نے خود کو بچانے کے لیے ہتھیار اٹھائے، جسے حکام نے الور کے خلاف جنگ قرار دیا ۔ یہ اقتصادی استحصال میو قوم کے حکومتی اداروں کے ساتھ تنازعات کی ایک بنیادی وجہ بنا۔
1857 کی جنگ آزادی میں کردار اور برطانوی ردعمل
میو قوم نے 1857 کی بغاوت میں برطانوی حکمرانی کے خلاف فعال اور نمایاں کردار ادا کیا ۔ سپاہیوں کی بغاوت کے موقع پر، میواتی، ذات پات یا مذہب سے قطع نظر، فعال طور پر بغاوت میں شامل ہو گئے ۔ میوات کی تقریباً تمام دیہی اور شہری آبادی نے برطانوی ظلم کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا ۔ دہلی کے زوال کے بعد بھی، میوات میں دو ماہ تک بغاوت جاری رہی ۔ میواتی انقلابیوں نے میوات کے علاقے سے برطانوی حکمرانی کا تختہ الٹ دیا اور برطانوی افواج کو دوبارہ علاقے پر قبضہ کرنے کے دوران سخت مزاحمت پیش کی ۔
اس بغاوت میں کئی میو رہنماؤں نے اہم کردار ادا کیا:
مولانا مہراب خان میواتی نے عام لوگوں کو مذہب اور قوم کی خاطر جنگ لڑنے کے لیے متحرک کیا ۔
علی حسن خان میواتی کو 1857 کی میواتی بغاوت کا ہیرو سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے نوح اور گھیسیرا میں برطانوی حکمرانی کا تختہ الٹا ۔
شرف الدین میواتی ایک سرکردہ اور تجربہ کار انقلابی تھے جو پینانگوان اور قریبی گاؤں میں فعال تھے، انہیں بعد میں پھانسی دے دی گئی ۔
سعادت خان میواتی نے فیروز پور جھرکا کے آس پاس انقلابیوں کی قیادت کی اور میجر ڈبلیو ایف ایڈن کو سخت مزاحمت پیش کی ۔
چودھری فیروز شاہ میواتی نے سوہنا، تورو اور رئیسینہ کے علاقوں میں انقلابیوں کو منظم کیا ۔
صدرالدین میو نے تقریباً 3500 میو انقلابیوں کی قیادت کی لیکن برطانوی توپ خانے کی برتری کی وجہ سے شکست کھائی ۔
چودھری نہار خان نے گڑگاؤں کے جوائنٹ مجسٹریٹ مسٹر میکفرسن کو شکست دی اور ہلاک کیا ۔
برطانوی ردعمل انتہائی ظالمانہ تھا۔ دہلی کے زوال کے بعد، بریگیڈیئر جنرل شاورز کی قیادت میں 1,500 افراد پر مشتمل ایک مضبوط برطانوی دستہ میوؤں کو سزا دینے کے لیے بھیجا گیا ۔ گڑگاؤں شہر پر آسانی سے قبضہ کر لیا گیا، اور باغی رہنماؤں کو منتشر کر دیا گیا ۔ برطانوی افواج نے سوہنا اور تورو میں گاؤں جلائے اور تباہ کیے، اور لوگوں کو بے دریغ قتل کیا، جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ۔ میوؤں کی زرعی زمینیں ضبط کر کے راجپوتوں اور کائستھوں کو دے دی گئیں ۔ 1857 کی بغاوت میں میوؤں کی یہ فعال اور وسیع پیمانے پر شرکت ان کی مضبوط جنگی روایت اور غیر ملکی

حکمرانی کے خلاف گہری مزاحمت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بغاوت راجپوت شہزادوں کی برطانویوں سے وفاداری کے برعکس تھی ، جو میو قوم کے منفرد نوآبادیاتی مخالف موقف کو نمایاں کرتی ہے۔ اس شدید مزاحمت کے نتیجے میں برطانویوں نے میوؤں کو “مجرم قبیلہ” قرار دیا اور 1871 کا کرمنل ٹرائب ایکٹ نافذ کیا ۔ یہ نوآبادیاتی درجہ بندی میو قوم کے لیے ایک دیرپا نقصان دہ اثر ثابت ہوئی، جو تقسیم کے بعد بھی ان کی پسماندگی اور دقیانوسی تصورات میں معاون رہی۔
برطانوی “تقسیم کرو اور حکمرانی کرو” پالیسی کا اثر
برطانوی حکمرانوں نے میو قوم کی حریت پسندی کو کچلنے کے لیے “تقسیم کرو اور حکمرانی کرو” کی پالیسی اپنائی ۔ انہوں نے میوات کے علاقے کو مختلف صوبوں اور ریاستوں میں تقسیم کیا تاکہ ان کی وحدت کو توڑا جا سکے ۔ 1930 کی دہائی کے اوائل میں، برطانوی حکمرانوں نے میوؤں کو ہندو ریاستی رہنماؤں کے خلاف اکسایا تاکہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کر سکیں ۔ یہ پالیسی فرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھاوا دینے اور بعد میں تقسیم کے دوران ہونے والے تشدد میں معاون ثابت ہوئی۔ یہ ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح نوآبادیاتی پالیسیوں نے موجودہ کشیدگیوں کو استعمال کیا اور انہیں مزید بڑھاوا دیا۔
تقسیم ہند کے بعد میو قوم کے چیلنجز اور حکومتی تعلقات
ہندوستان میں میو قوم کے مسائل
1947 میں تقسیم ہند کے دوران، میو قوم کو شدید تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔ 1947 کے پہلے آٹھ مہینوں میں، تقریباً 30,000 مسلمان ہلاک ہوئے، 20,000 کو زبردستی ہندومت میں تبدیل کیا گیا، اور 100,000 کے قریب گڑگاؤں ضلع میں فرار ہو گئے ۔ یہ تشدد الور اور بھرت پور کی شاہی ریاستوں کے حکمرانوں نے ہندو مہاسبھا کی حمایت سے کیا ۔ الور کے اس وقت کے وزیر اعظم، این بی کھارے نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی نگرانی میں الور میں کوئی مسلمان زندہ نہیں بچا ۔
اس وسیع پیمانے پر تشدد اور نقل مکانی کے جواب میں، مہاتما گاندھی اور مولانا آزاد نے مسلمانوں سے ہندوستان میں رہنے کی پرجوش اپیل کی ۔ گاندھی نے دسمبر 1947 میں گڑگاؤں ضلع کے گھیسیرا کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے میوؤں کو ملک کی “ریڑھ کی ہڈی” قرار دیا اور انہیں ایک باعزت زندگی کا وعدہ دیا، یہ یقین دہانی کرائی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت ختم ہو جائے گی اور ہم آہنگی بحال ہو جائے گی ۔ مولانا آزاد نے بھی مسلمانوں سے دہلی میں رہنے کی التجا کی ۔ ان تقاریر نے بہت سے میوؤں کو ہندوستان کو ایک اور موقع دینے پر قائل کیا، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ جو پاکستان فرار ہو گئے تھے وہ واپس آ گئے ۔
تاہم، ان وعدوں کے باوجود، واپس آنے والے مسلمان ہندوستانی ریاست کے لیے ایک “مسئلہ” بن گئے ۔ تقسیم کے بعد میو قوم کے لیے اہم چیلنجز میں شامل تھے:
زمینوں سے محرومی: ہندوستانی ریاست کی “سرکاری” پوزیشن یہ تھی کہ زمینیں پہلے ہی مغربی پنجاب کے پناہ گزینوں کو الاٹ کر دی گئی تھیں ۔ مقامی بیوروکریٹس، جن میں فرقہ وارانہ تعصبات تھے، نے میوؤں کو زمینوں کے پرمٹ دینے سے انکار کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں بہت سے میو اپنی ہی زمینوں پر کرایہ دار بن گئے ۔
اخراج اور گھیٹوز میں قید
ریاست نے مسلمانوں کو شعوری طور پر محروم کیا اور مسلم گھیٹوز کے قیام میں مدد کی ۔ سرکاری وجہ مسلمانوں کو ہندو اور سکھ پناہ گزینوں سے بچانا بتائی گئی، لیکن اسے کمیونٹی کو پسماندہ کرنے اور محروم کرنے کی ایک کمزور منطق سمجھا گیا ۔ ولبھ بھائی پٹیل جیسے رہنماؤں کا خیال تھا کہ میوؤں کو “پاکستان منتقل کرنا ہی بہتر ہے” ۔
پسماندگی اور غربت
میوات (نوح) ہندوستان کے سب سے زیادہ پسماندہ اضلاع میں سے ایک ہے، جو انسانی اور اقتصادی ترقی کے اشاریوں میں شدید پیچھے ہے ۔ یہاں غربت، ناخواندگی اور مجموعی ترقی کی کمی نمایاں ہے ۔ صرف دس میں سے ایک میو فرد پڑھا لکھا ہے ۔ یہ تاریخی غفلت اور حکومتی توجہ کی کمی کا نتیجہ ہے ۔
جدید دور میں امتیازی سلوک
میوات آج بھی فرقہ وارانہ نشانہ بازی کا مرکز ہے ۔ گائے کے محافظوں (گئو رکشکوں) کے ہاتھوں لنچنگ کی اطلاعات عام ہیں، جنہیں اکثر ریاستی مشینری کی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ میو قوم پر بین الاقوامی اسلامی ڈیزائنز اور دہشت گرد نیٹ ورکس سے منسلک ہونے کے الزامات لگائے جاتے ہیں ۔ نوآبادیاتی دور میں میوؤں کو “مجرم قبیلہ” قرار دینے کا دقیانوسی تصور آج بھی ہندوستان میں جاری ہے، جس سے انہیں “خطرناک” اور “لٹیرے” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ پسماندگی، غربت اور ملازمت کے مواقع کی کمی کے ساتھ مل کر بہت سے میواتی نوجوانوں کو جرائم کی طرف دھکیل رہی ہے ۔
پاکستان میں میو قوم کے مسائل
تقسیم ہند کے بعد، تقریباً 193,000 میو (کل میواتی بولنے والوں کا تقریباً نصف) پاکستان ہجرت کر گئے ۔ وہ بنیادی طور پر پاکستانی اضلاع لاہور، قصور، سیالکوٹ، شیخوپورہ، نارووال، کراچی، ڈیرا غازی خان، گوجرانوالہ، ملتان اور حیدرآباد میں آباد ہوئے ۔ 2023 کی پاکستانی مردم شماری کے مطابق، پاکستان میں میو قوم کی آبادی 1,094,219 ہے ۔ قصور میں سب سے زیادہ میو آباد ہیں، جہاں ان کی تعداد 470,000 سے زیادہ ہے ۔
پاکستان میں میو قوم کے تجربات کے بارے میں متضاد بیانات موجود ہیں۔ ایک طرف، کچھ ذرائع انہیں پاکستان میں “خوش اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی قوم” کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔ دوسری طرف، پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمان میو جیسے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ میوؤں کو ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی شناخت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہجرت کرنے والے میو خاندانوں کی خواہش تھی کہ انہیں کسی ایک علاقے میں آباد کیا جائے جہاں وہ اپنی ثقافت اور روایات کے ساتھ زندگی گزار سکیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ آبادی کے بکھرنے سے زبان کا تحفظ مشکل ہو گیا اور آپسی میل جول بھی محدود ہو گیا ۔ کمیونٹی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ان کی اصل آبادی مردم شماری کے اعداد و شمار سے تین گنا زیادہ ہے ، اور بہت سے لوگ “کم تری کے احساس” کی وجہ سے خود کو میو کے بجائے راؤ، خان یا چودھری کے طور پر شناخت کرنا پسند کرتے ہیں، اگرچہ اب یہ صورتحال بہتر ہو رہی ہے ۔ یہ خود شناسی کے مسائل میو قوم کی پسماندگی کے سماجی و نفسیاتی اثرات کو نمایاں کرتے ہیں، جو حکومتی پالیسیوں اور معاشرتی دباؤ کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان کے آئین میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن اسلام کے ریاستی مذہب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو اکثر ہندوؤں یا دیگر مذہبی اقلیتوں کے مقابلے میں زیادہ مراعات حاصل ہوتی ہیں ، جو میو قوم کی پیچیدہ شناخت کے تناظر میں مزید چیلنجز پیدا کر سکتی ہے۔
ثقافتی شناخت کی تبدیلی اور فرقہ وارانہ کشیدگی
تبلیغی جماعت کا اثر اور مذہبی قدامت پسندی
میو قوم کی ایک منفرد ہند-مسلم ثقافتی شناخت تھی، جہاں وہ اسلام قبول کرنے کے باوجود اپنے آبائی ہندو رسم و رواج کو برقرار رکھتے تھے، جیسے دیوالی اور ہولی منانا اور ہندو-مسلم نام رکھنا ۔ ان کا سماجی ڈھانچہ بھی ہندو ذات پات کے نظام پر مبنی تھا ۔ انہیں ایک زرعی برادری کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جس نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا ۔
تاہم، 20ویں صدی میں، میو قوم کی مذہبی شناخت پر دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی اسلامی احیائی تحریک، تبلیغی جماعت، کا گہرا اثر پڑا ۔ مولانا محمد الیاس، جنہوں نے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی، نے میوؤں کے ہندو رسم و رواج کو اسلامی عقیدے کے لیے خطرہ سمجھا ۔ تبلیغی جماعت کا مقصد میو مسلمانوں کو ایک زیادہ قدامت پسند مسلم معاشرے میں تبدیل کرنا تھا، جس میں ہندو رسم و رواج جیسے سات پھیرے لینا، ہولی اور دیوالی منانا، اور مخلوط ہندو-مسلم نام رکھنا شامل تھے ۔ انہوں نے نکاح کی رسم کو متعارف کرایا اور قرآن کی تعلیمات کو فروغ دیا ۔
اس تحریک کے نتیجے میں میوات کے علاقے میں ایک بڑی شناختی تبدیلی آئی ۔ میوؤں نے آہستہ آہستہ اپنی اس شناخت کو ترک کر دیا جو ہند-مسلم سنکریٹک ثقافت میں جڑی ہوئی تھی اور ایک زیادہ قدامت پسند مسلم کمیونٹی میں تبدیل ہو گئے ۔ اس تبدیلی نے ان کی سماجی شناختوں میں مزید تبدیلی لائی اور ایک زیادہ فرقہ وارانہ شناخت کو مضبوط کیا، جو مقامی ثقافت سے وابستگی سے بالاتر ہو کر مسلم امت کے ساتھ مضبوط تعلق سے جڑی ہوئی تھی ۔ یہ مذہبی تبدیلی، اگرچہ مذہبی مقاصد کے لیے تھی، لیکن اس نے غیر ارادی طور پر ان کی روایتی بین الکمیونٹی ہم آہنگی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ہندو ہم منصبوں کے ساتھ فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا دیا ۔
فرقہ وارانہ سیاست اور رواداری کا خاتمہ
میو قوم کی رواداری کی روایات، جو صدیوں سے پروان چڑھی تھیں، 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں فرقہ وارانہ سیاست اور تقسیم کے تشدد کے بڑھنے سے ٹوٹ گئیں ۔ اس دور میں، میوؤں کو ہندوؤں (جو انہیں “بیرونی” سمجھتے تھے) اور مسلم قدامت پسندوں (جو انہیں ہندو رسم و رواج سے “خراب” سمجھتے تھے) دونوں طرف سے شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ انہیں دونوں مذہبی طبقات نے آسانی سے قبول نہیں کیا ۔
تقسیم ہند کے بعد بھی، میوات آزاد ہندوستان کے سب سے اہم فرقہ وارانہ مسائل میں سے ایک کے طور پر ابھرا ۔ 2023 میں نوح میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اس بات کا ایک حالیہ ثبوت ہیں کہ کس طرح نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیزی نے کشیدگی کو بڑھایا ۔ وشو ہندو پریشد (VHP) کی طرف سے برج منڈل جل ابھیشیک یاترا کے دوران ہونے والے تصادم نے علاقے میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو مزید نمایاں کیا ۔ گائے کے محافظوں کے بہانے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنانا اور ریاستی کارروائیوں میں امتیازی سلوک، کمیونٹی کے اندر گہرے عدم اعتماد اور پولرائزیشن کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح فرقہ وارانہ سیاست اور مذہبی بنیاد پرستی نے میو قوم کی روایتی ہم آہنگی کو تباہ کیا اور انہیں ایک پولرائزڈ ماحول میں تنازعات کا نشانہ بنایا۔
میو قوم کے حکومتی اداروں سے الجھنے کی بنیادی وجوہات
میو قوم کا حکومتی اداروں سے مسلسل الجھنا متعدد گہری وجوہات کا نتیجہ ہے جو تاریخی طور پر ان کے وجود کا حصہ رہی ہیں۔ ان وجوہات کو درج ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
خود مختاری اور وحدت کا تحفظ
میو قوم نے ہمیشہ اپنی خود مختاری اور علاقائی وحدت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مغلوں سے لے کر برطانویوں اور پھر تقسیم کے بعد کی ہندوستانی ریاست تک، حکومتی طاقتوں نے میوات کے علاقے کو انتظامی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ میوؤں کی سیاسی طاقت اور حریت پسندی کو توڑا جا سکے ۔ یہ میوؤں کی طرف سے مسلسل مزاحمت کا باعث بنا، کیونکہ وہ اپنی روایتی آزادی کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
اقتصادی استحصال اور زمین کے حقوق
برطانوی نوآبادیاتی پالیسیوں نے میو قوم کو معاشی طور پر استحصال کا نشانہ بنایا۔ زمین کی آمدنی میں اضافہ، غیر منصفانہ ٹیکس، اور روایتی صنعتوں کی تباہی نے زرعی میو برادری کو غربت اور قرض میں دھکیل دیا ۔ تقسیم کے بعد، ہندوستانی ریاست نے میوؤں کی زمینیں پناہ گزینوں کو الاٹ کیں اور انہیں اپنی ہی زمینوں سے محروم کر دیا، جس سے ان کی معاشی پسماندگی مزید بڑھ گئی ۔ زمین کے حقوق پر یہ مسلسل تنازعات حکومتی اداروں کے ساتھ ان کے تعلقات میں کشیدگی کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں۔
شناخت کا بحران اور “دیگر” بنانا
میو قوم کی منفرد ہند-مسلم ملی جلی ثقافتی شناخت، جو کبھی ان کی طاقت تھی، فرقہ وارانہ سیاست اور “دو قومی نظریہ” کے تناظر میں ان کی کمزوری بن گئی ۔ انہیں نہ تو “سچے مسلمان” اور نہ ہی “سچے ہندو” سمجھا گیا، جس کی وجہ سے انہیں دونوں طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ حکومتی اداروں نے بھی ان کی وفاداری پر سوال اٹھائے اور انہیں “پاکستان پروجیکٹ” کا حصہ قرار دیا ۔ یہ “دیگر” بنانے کا عمل ان کی سماجی اور سیاسی پسماندگی کا سبب بنا۔
تاریخی غفلت اور پسماندگی
میوات کا علاقہ صدیوں سے حکومتی توجہ کی کمی کا شکار رہا ہے ۔ اس مسلسل غفلت کے نتیجے میں یہ علاقہ ہندوستان کے سب سے زیادہ پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں غربت، ناخواندگی اور بنیادی سہولیات کی کمی نمایاں ہے ۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع کی کمی نے میو قوم کو مزید پسماندہ کر دیا ہے، جس سے وہ حکومتی ترقیاتی منصوبوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
روایتی نظام حکمرانی اور ریاستی مداخلت
میو قوم نے اپنے اندرونی سماجی ڈھانچے، جیسے پال سسٹم اور گوترا، اور روایتی کونسلوں کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ یہ ریاستی عدالتی نظام کے متوازی ایک نظام ہے، جو حکومتی اداروں پر عدم اعتماد یا ان کی غیر موثریت کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ریاستی حکومتی نظام (جیسے پنچایتی راج) کے ساتھ ان کے روایتی نظام کا تصادم بھی تنازعات کا ایک ذریعہ رہا ہے۔
فرقہ وارانہ سیاست اور مذہبی بنیاد پر تشدد
20ویں صدی میں فرقہ وارانہ سیاست کے عروج اور تبلیغی جماعت جیسی اسلامی احیائی تحریکوں کے اثر نے میو قوم کی روایتی ہم آہنگی کو ختم کر دیا ۔ اس تبدیلی نے انہیں ہندوؤں کے ساتھ فرقہ وارانہ کشیدگی کا نشانہ بنایا، جو آج بھی گئو رکشکوں کے تشدد اور حکومتی حمایت یافتہ امتیازی سلوک کی صورت میں جاری ہے ۔
نتیجہ
میو قوم اور حکومتی اداروں کے درمیان تنازعات کی جڑیں گہری تاریخی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی عوامل میں پیوست ہیں۔ مغل دور سے لے کر برطانوی راج اور تقسیم ہند کے بعد کے ادوار تک، میو قوم نے اپنی خود مختاری، زمین کے حقوق اور منفرد شناخت کے تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کی ہے۔ حکومتی طاقتوں نے، چاہے وہ نوآبادیاتی ہوں یا آزاد، میو قوم کو انتظامی طور پر تقسیم کرنے، اقتصادی طور پر استحصال کرنے، اور ان کی شناخت کو “دیگر” قرار دے کر پسماندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
برطانوی پالیسیوں، خاص طور پر اقتصادی استحصال اور 1857 کی بغاوت کے بعد ان کی مجرمانہ درجہ بندی، نے میو قوم کی پسماندگی کی بنیاد رکھی جو آج بھی جاری ہے۔ تقسیم ہند کے بعد، ہندوستان میں میو قوم کو ریاستی حمایت یافتہ تشدد، زمینوں سے محرومی، اور گھیٹوز میں قید کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ پاکستان میں انہیں شناخت اور ثقافتی تحفظ کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تبلیغی جماعت جیسی مذہبی تحریکوں کے اثر نے ان کی اندرونی مذہبی شناخت کو تبدیل کیا، جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
ان تمام چیلنجز کے باوجود، میو قوم نے اپنی روایتی سماجی ساخت اور ثقافتی جڑوں کے ذریعے ایک قابل ذکر لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے حکومتی اداروں کے ساتھ تنازعات ان کی پائیدار مزاحمت، خود مختاری کی خواہش، اور اپنی شناخت اور حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔ میوات جیسے علاقوں کی پسماندگی اور میو قوم کو درپیش جاری مسائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تاریخی ناانصافیوں اور ریاستی پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں، اور ان کے حل کے لیے گہری پالیسی اصلاحات اور سماجی شمولیت کی ضرورت ہے