- Home
- میواتی ادب
- تاریخ میو چھتری، ...


تاریخ میو چھتری: مآخذات کا تحقیقی جائزہ
از
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ
سعد ورچوئل سکلز پاکستان
۱۔ تعارف
زیرِ نظر رپورٹ حکیم عبدالشکور کی تصنیف “تاریخ میو چھتری” میں مذکور مآخذات کی فہرست کے متعلق صارف کی درخواست کے جواب میں ترتیب دی گئی ہے۔ یہ کتاب میو قوم کی تاریخ پر ایک اہم اور بنیادی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
کتاب “تاریخ میو چھتری” کا تعارف:
“تاریخ میو چھتری” میو قوم کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور ان کے شجرہ نسب پر ایک جامع تصنیف ہے۔ اس کے مصنف حکیم عبدالشکور ہیں ۔ ایک ذریعے کے مطابق، حکیم عبدالشکور کے بیٹے حکیم اجمل خان تھے، اور یہ عبدالشکور ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے میواتی عوام، یعنی میو قوم کی تاریخ قلمبند کی ۔ اس کتاب کے مدیر و ناشر حکیم محمد اجمل خاں شیدا ہیں، جو مصنف کے فرزند تھے ۔ یہ کتاب 1974ء میں اردو زبان میں شائع ہوئی اور 648 صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کی اشاعت میں جامعہ ہمدرد دہلی نے معاونت فراہم کی ۔
“تاریخ میو چھتری”
کو میو قوم کی تاریخ پر ایک مستند کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو نے اسے “میو قوم کی مستند تاریخ” قرار دیا ہے اور اپنی تصنیف کی بنیاد اسی کتاب پر رکھی ہے ۔ دیگر محققین نے بھی اپنی علمی کاوشوں میں اس کتاب کو بطور ماخذ

استعمال کیا ہے، جو اس کی علمی اہمیت کا واضح ثبوت ہے ۔
کتاب کی اشاعت کا سال (1974ء) ایک ایسے دور کی نشاندہی کرتا ہے جب جنوبی ایشیا میں، نوآبادیاتی دور کے بعد، مختلف اقوام اور برادریاں اپنی تاریخی شناخت اور ثقافتی ورثے کو ازسرِنو مرتب اور مدوّن کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد، بہت سی کمیونٹیز اپنی جڑوں کو تلاش کرنے اور اپنے تاریخی بیانیے کو مضبوط کرنے کی جانب مائل ہوئیں۔ حکیم عبدالشکور کی یہ ضخیم تصنیف (648 صفحات پر مشتمل) بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے، جس کا مقصد میو قوم کی تاریخ کو ایک جامع اور مستند شکل میں پیش کرنا تھا۔
مصنف، حکیم عبدالشکور، کا پیشہ طبابت (حکمت) تھا، اور ان کے فرزند، حکیم اجمل خان شیدا (مدیر و ناشر)، بھی حکیم تھے اور ایک مقامی مذہبی شخصیت و مصنف کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ یہ پس منظر اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ کتاب کی تالیف روایتی علمی حلقوں کی مرہونِ منت ہے، جہاں علومِ شرقیہ، طب، تاریخ اور ادب اکثر ایک دوسرے سے مربوط ہوتے تھے۔ اس سے یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مصنف نے اپنی تحقیق میں مقامی علم، روایات اور ان ذرائع کو خصوصی اہمیت دی ہوگی جو ایک حکیم کے طور پر ان کی رسائی میں تھے۔ خاندان کا کتاب کی تدوین و اشاعت میں براہ راست کردار اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ یہ علمی کاوش ایک خاندانی ورثے کی حیثیت رکھتی تھی جسے محفوظ کرنا اور آئندہ نسلوں تک پہنچانا مقصود تھا۔ جامعہ ہمدرد دہلی جیسے علمی ادارے کا تعاون اس کتاب کی علمی حیثیت کو مزید تقویت بخشتا ہے۔
ذیل میں کتاب کی بنیادی تفصیلات ایک جدول کی صورت میں پیش ہیں:
جدول ۱: کتاب “تاریخ میو چھتری” کی تفصیلات
تفصیل | معلومات | ماخذ |
مصنف | حکیم عبدالشکور | |
ایڈیٹر | حکیم محمد اجمل خاں شیدا | |
ناشر | حکیم محمد اجمل خاں شیدا | |
سن اشاعت | 1974ء | |
زبان | اردو | |
موضوعات | تاریخ (میو قوم) | |
صفحات | 648 | |
معاون | جامعہ ہمدرد دہلی |
۲۔ مآخذات کی براہ راست فہرست فراہم کرنے میں درپیش چیلنج

صارف کی جانب سے “تاریخ میو چھتری” میں دیے گئے مآخذات کی فہرست فراہم کرنے کی درخواست کے جواب میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ دستیاب تحقیقی مواد (سنیپسٹس) میں کتاب کے اندرونی مآخذ، کتابیات (bibliography)، یا حواشی (footnotes/endnotes) کی کوئی براہ راست اور مکمل فہرست موجود نہیں ہے۔ لہٰذا، صارف کی درخواست کا مکمل جواب، یعنی کتاب میں استعمال شدہ تمام مآخذات کی ایک جامع فہرست، صرف کتاب کے اصل متن، خصوصاً اس کے اختتامی صفحات یا متعلقہ ابواب میں درج کتابیات یا حواشی کا بغور جائزہ لینے سے ہی ممکن ہے۔
تاہم، اگرچہ مآخذات کی براہ راست فہرست ان سنیپسٹس میں دستیاب نہیں، لیکن متعدد سنیپسٹس حکیم عبدالشکور کے تحقیقی طریقہ کار، ان کے ممکنہ ذرائع اور میوات کی تاریخ نویسی کے عمومی رجحانات کی طرف واضح اشارے فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض دستاویزات میں میواتی تاریخ نویسی کے عمومی طریقوں کا ذکر ملتا ہے، جس میں حکیم عبدالشکور کا نام بھی شامل ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مورخین اکثر مقامی اور زبانی روایات پر انحصار کرتے ہیں ۔ اس طرح کی معلومات سے حکیم عبدالشکور کے ممکنہ مآخذات اور ان کے تحقیقی انداز کا ایک خاکہ ذہن میں مرتب کیا جا سکتا ہے، جس پر آئندہ حصے میں تفصیلی بحث کی جائے گی۔
۳۔ “تاریخ میو چھتری” میں مذکور یا ممکنہ طور پر استعمال شدہ مآخذات کی اقسام
اگرچہ “تاریخ میو چھتری” کے اندرونی مآخذات کی مکمل فہرست دستیاب مواد میں موجود نہیں، تاہم مختلف شواہد کی بنا پر حکیم عبدالشکور کے ممکنہ طور پر استعمال کردہ ذرائع کی اقسام کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ان میں مقامی روایات، زبانی تاریخ، شجرہ ہائے نسب اور مصنف کی ذاتی تحقیق شامل ہو سکتی ہے۔
الف۔ مقامی روایتی اور زبانی ذرائع:
میراثی، بھاٹ، اور جگّا میوات کی تاریخ نویسی میں مقامی اور زبانی روایات کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایک اہم ذریعے کے مطابق، “میواتی تاریخ نویسی، عموماً مقامی، میراثیوں یا بھاٹوں یا جگّاؤں کی سنائی گئی کہانیوں پر مبنی ہے۔۔۔ میواتی علماء، بشمول حکیم عبدالشکور، مسلسل ان مقامی ذرائع کی بنیاد پر اپنی تحریریں لکھ رہے ہیں” ۔ میراثی، بھاٹ اور جگّا وہ روایتی قصہ گو، نسب داں اور تاریخ دان ہوتے تھے جو نسل در نسل زبانی طور پر تاریخی واقعات، شجرہ ہائے نسب، اور کمیونٹی کی سماجی و ثقافتی روایات کو محفوظ رکھتے اور بیان کرتے تھے ۔ راجستھان میں جگّا ریکارڈز کا بھی ذکر ملتا ہے جو اٹھارہویں صدی کے اوائل تک میو قوم کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں ۔
ان زبانی ذرائع پر انحصار کا مطلب یہ ہے کہ “تاریخ میو چھتری” میں واقعات کی ترتیب، تاریخوں کی صحت کے حوالے سے کچھ لچک، اور بیانیے میں مقامی رنگ غالب ہو سکتا ہے۔ اس میں وہ تفصیلات اور کہانیاں شامل ہو سکتی ہیں جو رسمی تحریری تاریخوں میں اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔ زبانی روایات عموماً کہانی، نسب اور کمیونٹی کی اجتماعی یادداشت پر زیادہ زور دیتی ہیں، جبکہ قطعی تاریخوں اور اعداد و شمار پر کم توجہ دی جاتی ہے۔
ایک جائزے کے مطابق، ان دستاویزات میں “مقامی مبالغہ آمیز بیانات کی کثرت ہے، جو عموماً تاریخی واقعات اور دیگر سچی کہانیوں کی دستاویز کاری سے انحراف کرتے ہیں” ۔ حکیم عبدالشکور کا ان ذرائع کو استعمال کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ میو قوم کے اپنے نقطہ نظر اور ان کی اپنی آواز کو تاریخ کے صفحات پر جگہ دینا چاہتے تھے۔ ان کا کام “اس شخص کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے جو اپنی برادری کا گہرا وفادار ہے۔ وہ ایک مشن کے ساتھ تاریخ لکھ رہے ہیں تاکہ ماضی کا دعویٰ کریں اور اسے اپنے مستقبل کی ترقی کے لیے استعمال کریں” ۔ اس لیے، یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کتاب میں شجرہ نسب، بہادری کے قصے، اور سماجی رسوم و رواج پر زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہوگی۔
حکیم عبدالشکور کا ان زبانی روایات کو تحریری شکل دینا میو قوم کی تاریخ کو محفوظ کرنے اور اسے ایک وسیع تر علمی حلقے تک پہنچانے میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل یہ علم زیادہ تر سینہ بہ سینہ ہی منتقل ہوتا تھا اور وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی یا گمشدگی کا خطرہ موجود رہتا تھا۔ ان روایات کو تحریری شکل دینے سے ایک مستند حوالہ قائم ہوا، جسے آئندہ نسلیں اور محققین استعمال کر سکتے ہیں۔ قاری محمد یونس شاہد میو کا “تاریخ میو چھتری” کو “مستند تاریخ” قرار دینا اور اپنی تحقیق کی بنیاد اس پر رکھنا اسی عمل کی تصدیق کرتا ہے ۔
ب۔ شجرہ نسب کے ریکارڈ (“بنسوالیاں”)
کتاب کے تعارف میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ “میو قوم کے شجرہ نسب کو بیان کرنے میں بنسادلیوں (Bansawaliyan) کا تذکرہ کیا گیا ہے تاکہ میو قوم کی اصل تک پہنچا جا سکے” ۔ “بنسوالیاں” یا شجرہ نامے کسی خاندان، قبیلے یا قوم کی نسل در نسل ترتیب اور پھیلاؤ کا ریکارڈ ہوتے ہیں۔ میو قوم، جو اپنی راجپوت یا کشتری اصلیت پر زور دیتی ہے ، کے لیے یہ بنسوالیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
بنسوالیوں پر زور دینا میو قوم کی شناخت کے ایک اہم پہلو – یعنی ان کی کشتری یا راجپوت وراثت – کو اجاگر کرتا ہے۔ میو قوم کی تاریخ میں ان کی راجپوت اصلیت اور بعد ازاں اسلام قبول کرنے کا بیانیہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔
بنسوالیاں اس راجپوت نسب کو ثابت کرنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ حکیم عبدالشکور کا اپنی کتاب میں ان کا تذکرہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اس نسبی تعلق کو اپنی تاریخی تحقیق کا ایک بنیادی جزو بنا رہے تھے۔ کتاب میں ممکنہ طور پر اس وراثت کو اسلامی شناخت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہوگی۔
بنسوالیوں کو جمع کرنا، ان کی تصدیق کرنا اور انہیں ایک مربوط شکل میں شائع کرنا ایک پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے، جس میں مختلف خاندانوں، علاقوں اور روایات سے معلومات اکٹھی کرنی پڑتی ہیں۔ اس سے حکیم عبدالشکور کی تحقیقی محنت، جانفشانی اور اپنے موضوع سے گہری وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب کا ضخیم ہونا (648 صفحات) بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ اس میں تفصیلی معلومات شامل ہوں گی، جن میں بنسوالیاں اور ان سے متعلقہ تفصیلات بھی ایک اہم حصہ رکھتی ہوں گی۔
ج۔ “تاریخ قدیم”
اور دیگر تاریخی روایات کتاب کے تعارفی حصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ “کتاب کے شروع میں ‘تاریخ قدیم’ کے عنوان سے کافی طویل بحث کی ہے” ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکیم عبدالشکور نے میو قوم کی تاریخ کو صرف علاقائی یا قرون وسطیٰ کے ادوار تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے ایک وسیع تر اور قدیم تاریخی تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
“تاریخ قدیم” پر بحث شامل کرنا اس دور کی تاریخ نویسی کے ایک عمومی رجحان کی عکاسی کر سکتا ہے، جہاں مختلف اقوام اور برادریاں اپنی شناخت کو زیادہ قدیم، معتبر اور مستحکم ثابت کرنے کے لیے اپنی تاریخ کو دور دراز ماضی سے جوڑنے کی کوشش کرتی تھیں۔ کسی قوم کی قدامت کو اکثر اس کی عظمت اور تاریخی اہمیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ “تاریخ قدیم” کا حصہ شامل کرنے کا مقصد ممکنہ طور پر میو قوم کو ہندوستان کی قدیم ترین اقوام میں شمار کروانا یا ان کے آریائی یا کشتری ہونے کے دعووں کو مزید تقویت دینا ہو سکتا ہے ۔
اگرچہ ان سنیپسٹس میں مخصوص قدیم مآخذ کا ذکر نہیں کیا گیا جن کا حوالہ “تاریخ قدیم” کے باب میں دیا گیا ہو، لیکن یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس حصے میں مہابھارت کے حوالے (جیسا کہ میوات کے علاقے کے لیے ایک ذریعے میں ذکر موجود ہے )، پرانوں، دیگر کلاسیکی سنسکرت ادب، یا آثار قدیمہ سے متعلق روایات کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ذکر ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے ماخوذ نظریات یا تشریحات پیش کی گئی ہوں تاکہ میو قوم کی جڑوں کو قدیم زمانے تک پہنچایا جا سکے۔
د۔ ذاتی تحقیق، مقامی علم، اور شِکراوہ کا کردار
حکیم عبدالشکور کے بیٹے، حکیم اجمل خان، کا تعلق شِکراوہ (ریاست ہریانہ کا ایک گاؤں) سے تھا اور وہ وہاں ایک مقامی مذہبی شخصیت اور مصنف کے طور پر جانے جاتے تھے۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ “ان کے والد عبدالشکور پہلے شخص تھے جنہوں نے میواتی عوام کی تاریخ لکھی” ۔ ایک اور علمی جائزے میں کتاب کا حوالہ “تاریخ میو کشتری، شِکراوہ” کے نام سے دیا گیا ہے ۔
شِکراوہ کا یہ بار بار ذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مقام حکیم عبدالشکور کی زندگی، تحقیق اور تصنیف میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ ان کا خود ایک حکیم ہونا اس بات کا غماز ہے کہ ان کا مقامی آبادی سے گہرا اور براہ راست تعلق ہوگا، جس کی بدولت انہیں مقامی علم، غیر مطبوعہ مواد، خاندانی روایات اور ذاتی مشاہدات تک ایسی رسائی حاصل ہوگی جو شاید کسی بیرونی محقق کے لیے ممکن نہ ہو۔ “تاریخ میو چھتری” کا “شِکراوہ” سے یہ تعلق کتاب کو ایک خاص مقامی تناظر عطا کرتا ہے۔
یہ محض ایک عمومی تاریخ نہیں بلکہ ایک مخصوص علاقے اور وہاں کے لوگوں کے نقطہ نظر سے لکھی گئی تاریخ ہو سکتی ہے، جس میں شِکراوہ کو ایک مثال یا تحقیق کے مرکز کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔ مصنف کا مقامی حکیم ہونا اور شِکراوہ سے وابستگی انہیں ان معلومات تک رسائی دے سکتی تھی جو بیرونی محققین کے لیے آسانی سے دستیاب نہ ہوں۔ اس “اندرونی” نقطہ نظر سے کتاب کی انفرادیت اور اس کے مواد کی اصلیت میں، خاص طور پر سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کے حوالے سے، یقیناً اضافہ ہوا ہوگا۔
۴۔ علمی سیاق و سباق: “تاریخ میو چھتری” بطور ایک ماخذ
حکیم عبدالشکور کی “تاریخ میو چھتری” (یا اس کا متبادل عنوان “تاریخ میو کشتری، شِکراوہ”) نہ صرف خود مختلف النوع مآخذ پر مبنی ایک اہم تصنیف ہے، بلکہ یہ اپنی اشاعت کے بعد میوات اور میو قوم کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے متعدد مورخین اور محققین کے لیے ایک بنیادی اور ناگزیر ماخذ کی حیثیت بھی اختیار کر گئی ہے۔
اس کتاب کا بعد کے محققین کے لیے ایک بنیادی ماخذ بننا اس امر کی دلیل ہے کہ اس نے میو تاریخ کے میدان میں ایک اہم خلا کو پُر کیا اور ایک ایسا مربوط بیانیہ پیش کیا جسے علمی برادری نے قابلِ قدر اور معتبر سمجھا۔ چونکہ میو قوم کی تاریخ، ان کے نسب اور روایات پر اس سے قبل شاید اس پیمانے پر کوئی جامع کام موجود نہیں تھا، “تاریخ میو چھتری” نے مقامی اور زبانی ذرائع کی بنیاد پر جو مواد مرتب کیا ، وہ بعد کے محققین کے لیے، خواہ وہ اردو میں لکھ رہے ہوں یا انگریزی میں، انتہائی اہمیت کا حامل ثابت ہوا۔ یہ کتاب انہیں میو قوم کی اپنی تاریخی تفہیم اور ان کے اپنے بیانیے تک رسائی فراہم کرتی تھی۔
متعدد علمی کاموں میں حکیم عبدالشکور کی اس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، اعجاز احمد نے اپنی کتاب Mewat: A Retrospective میں، کشمیری لال ذاکر نے تحریک آزادی اور میوات میں، محمد صالح خان اطہر نے تاریخ میو مہر میں، اور ہاشم امیر علی نے The Meos of Mewat: Old Neighbours of New Delhi میں حکیم عبدالشکور کی “تاریخ میو کشتری، شِکراوہ” کا حوالہ دیا ہے ۔ اسی طرح، حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو نے اپنے کتابچے “تاریخ میو اور داستان میوات” کی بنیاد بڑی حد تک “تاریخ میو چھتری” پر رکھی ہے، جسے وہ “میو قوم کی مستند تاریخ” قرار دیتے ہیں ۔ یہ حوالہ جات “تاریخ میو چھتری” کی علمی قدر اور اس کے وسیع تر اثرات کو واضح کرتے ہیں۔
عنوان میں معمولی تغیر، یعنی “تاریخ میو چھتری” بمقابلہ “تاریخ میو کشتری، شِکراوہ”، قابلِ توجہ ہے۔ لفظ “چھتری” اور “کشتری” بنیادی طور پر ہم معنی ہیں اور راجپوت یا جنگجو ذات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو میو قوم کی اپنی شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔ “شِکراوہ” کا اضافہ، جیسا کہ بعض حوالوں میں ملتا ہے ، ممکنہ طور پر کتاب کی کسی خاص اشاعت، مصنف کے مقامِ تحقیق (شِکراوہ گاؤں)، یا ان کی شناخت کو مزید واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مختلف محققین نے اپنی رسائی یا علم کے مطابق عنوان میں اس معمولی فرق کے ساتھ حوالہ دیا ہو۔ شِکراوہ کا کتاب کے عنوان کے ساتھ منسلک ہونا اور حکیم عبدالشکور کے خاندان کا شِکراوہ سے گہرا تعلق یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف میو قوم کی عمومی تاریخ ہے بلکہ اس میں شِکراوہ گاؤں اور اس کے گردونواح کی تاریخ کا ایک خاص اور تفصیلی عکس بھی موجود ہو سکتا ہے، جو اسے مائیکرو ہسٹری (microhistory) کے نقطہ نظر سے بھی اہم بناتا ہے۔
“تاریخ میو چھتری” کا بطور ماخذ استعمال ہونا میوات کی تاریخ نویسی کے ارتقاء میں ایک اہم سنگِ میل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اس عمل کی عکاسی کرتا ہے جہاں مقامی، روایتی تاریخ سے جدید علمی تحقیق کی طرف منتقلی ہوتی ہے، اور اس دوران مقامی مورخین کے کام کو بھی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور اسے وسیع تر تاریخی تحقیق کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
ذیل میں ان چند اہم تصانیف کا جدول پیش کیا جا رہا ہے جن میں “تاریخ میو چھتری” (یا “تاریخ میو کشتری، شِکراوہ”) کا حوالہ دیا گیا ہے:
جدول ۲: وہ اہم تصانیف جن میں “تاریخ میو چھتری” کا حوالہ دیا گیا ہے
حوالہ دینے والے مصنف کا نام | ان کی تصنیف کا عنوان | حکیم عبدالشکور کی کتاب کا حوالہ (صفحہ نمبر اگر مذکور ہو) | ماخذ سنیپسٹ ID |
اعجاز احمد (Aijaz Ahmad) | Mewat: A Retrospective | ص 462 (بحوالہ عبدالشکور 2010، تاریخ میو کشتری، شِکراوہ) | |
کشمیری لال ذاکر | تحریک آزادی اور میوات | ص 462 (بحوالہ عبدالشکور 2010، تاریخ میو کشتری، شِکراوہ) | |
محمد صالح خان اطہر | تاریخ میو مہر | ص 480-81 (بحوالہ عبدالشکور 2010، تاریخ میو کشتری، شِکراوہ) | |
ہاشم امیر علی (Hashim Amir Ali) | The Meos of Mewat: Old Neighbours of New Delhi | ص 507 (بحوالہ عبدالشکور 2010، تاریخ میو کشتری، شِکراوہ) | |
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو | تاریخ میو اور داستان میوات (کتابچہ) | عمومی حوالہ، “بیشتر معلومات اسی کتاب سے لی گئیں” |
۵۔ نتیجہ اور مزید تحقیق کے لیے سفارشات
اس تحقیقی جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکیم عبدالشکور کی تصنیف “تاریخ میو چھتری” میو قوم کی تاریخ پر ایک نہایت اہم، جامع اور بنیادی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ فراہم کردہ تحقیقی مواد میں کتاب کے اندرونی مآخذات، یعنی کتابیات یا حواشی کی براہ راست فہرست موجود نہیں ہے، تاہم مختلف شواہد کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کی بنیاد ممکنہ طور پر زبانی روایات (جیسے میراثی، بھاٹ، اور جگّا کی کہانیاں)، شجرہ نسب کے تفصیلی ریکارڈ (بنسوالیاں)، “تاریخ قدیم” کے عنوان کے تحت وسیع تر تاریخی تناظر، اور خود مصنف کی ذاتی تحقیق و مقامی علم (خصوصاً شِکراوہ گاؤں اور اس کے اطراف کے حوالے سے) پر رکھی گئی ہے۔ مزید برآں، یہ کتاب اپنی اشاعت کے بعد خود بھی دیگر مورخین اور محققین کے لیے میوات اور میو قوم کی تاریخ پر تحقیق کے سلسلے میں ایک کلیدی ماخذ ثابت ہوئی ہے۔
اس رپورٹ کی ایک بنیادی تحدید یہ ہے کہ مآخذات کی قطعی اور مکمل فہرست صرف “تاریخ میو چھتری” کے اصل مطبوعہ یا مکمل ڈیجیٹل نسخے کا براہ راست مطالعہ کرنے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
صارف کو کتاب میں مذکور مآخذات کی مکمل فہرست کے حصول کے لیے درج ذیل تجاویز پر غور کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے:
- کتاب تک رسائی:
“تاریخ میو چھتری” کے کسی مطبوعہ نسخے کو تلاش کیا جائے۔ یہ کتاب بڑے کتب خانوں، جامعاتی لائبریریوں (خصوصاً وہ ادارے جو جنوبی ایشیائی تاریخ یا اردو مخطوطات و مطبوعات میں دلچسپی رکھتے ہوں، جیسے جامعہ ہمدرد دہلی جس کا نام کتاب کے معاونین میں شامل ہے )، یا میوات کی تاریخ سے متعلق خصوصی ذخائر میں دستیاب ہو سکتی ہے۔
- ڈیجیٹل وسائل کا جائز
: ویب سائٹس جیسے ریختہ ڈاٹ آرگ اور آرکائیو ڈاٹ آرگ پر www.tibb4all.comاورwww.dunyakailm.comپرکتاب کے بارے میں مزید معلومات یا ممکنہ طور پر اس کے کچھ حصے یا مکمل ڈیجیٹل نسخہ دستیاب ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ ضروری نہیں کہ ان ڈیجیٹل نسخوں میں کتابیات یا حواشی مکمل طور پر اور واضح شکل میں شامل ہوں۔ ان وسائل کو احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جائے اور ان کی حدود کو مدنظر رکھا جائے۔
- کتابیات اور حواشی کا مطالعہ
- : اگر کتاب کا کوئی نسخہ (مطبوعہ یا ڈیجیٹل) دستیاب ہو جائے، تو اس کے آخری حصے میں عموماً کتابیات (Bibliography) موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہر باب کے آخر میں یا ہر صفحے کے نیچے دیے گئے حواشی (Footnotes/Endnotes) میں بھی مصنفین اپنے مآخذ کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان حصوں کا بغور جائزہ لینے سے استعمال شدہ ذرائع کی تفصیلات مل سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد نے “تاریخ میو چھتری”پر تحقیقی کام کیا ہے۔جس کا عنوان ہے”تاریخ میو چھتری ہماری تاریخ کا ماخذ”اس پر سعد ورچوئل سکلز پاکستان کے ماہرین کام کررہے ہیں ۔جلد عوام اور میو برادری کے لئے یہ مطالعہ کے لئے دستیاب ہوگی۔
یہ تحقیقی رپورٹ صارف کو نہ صرف دستیاب معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ انہیں تاریخی تحقیق کے عمل کے اگلے ممکنہ مراحل کی طرف بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ ایک سوال کا جواب اکثر مزید تحقیق کی نئی راہیں کھولتا ہے، اور امید ہے کہ یہ رپورٹ اس سلسلے میں معاون ثابت ہوگی