- Home
- Homewhat ہومیو پیتھی
- سرچشمہ صحت ہومیو ...


میں نہ ڈاکٹر ہوں اور نہ اس فن سے واقف متعدد اسلامی کتب کا مصنف ضرور ہوں لیکن اس تجربہ کا علم الابدان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت صرف زیر نظر کتاب سرچشمہ صحت کا نا شر ہونے کی حیثیت سے اپنے حقوق استعمال کرتے ہوئے اتنا تحریر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ کتاب کے مصنف پروفیسر سید منظر حسین کاظمی کے تعارف میں قدرے تشنگی رہ گئی۔ وہ شخص جو اپنے شاگردوں کے لئے قابل تقلید ہو، اساتذہ میں محترم ہو ایڈ منسٹریشن میں رعب و دبدبہ اور انصاف ہو ، احباب میں ہر دل عزیز ہو، جس کے ذہنی آب و تاب کا چرچا محفل محفل ہو ، جس کے تفریحی مشاغل میں افرادی میلہ اور رکھ رکھاؤ ہو ، جو میل ملاپ میں سادہ اور بے تکلف ہو، جسکی طبیعت میں بے نیازی کے ساتھ ساتھ خود نگری ہو اسے اتنا لکھ کر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے کہ کاظمی صاحب علم و ادب میں بلند مقام حاصل کرنے کے بعد اب ڈاکٹری کے میدان میں بھی بھر پور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
اپنی نا گفتہ بہ دشواریوں کے باوجود جب معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے ہومیو پیتھی پر اپنے پچاس سالہ تجربہ کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے تو اسے چھاپنے کی خواہش کے ساتھ ان کے پاس حاضر ہوا ۔ جس طرح وہ مجھے عزیز ہیں اسی طرح وہ بھی مجھے اپنے گھر کا ایک فرد سمجھتے ہیں انکا داد ھیال سلون ضلع رائے بریلی ہے تو نا یہاں مصطفے آباد ضلع رائے بریلی جبکہ میرا دا دھیال مصطفی آباد اور نا نہیال سلون ہے گویا میں گھر کا بھیدی ہوں۔
ملک تقسیم ہونا، سیاسی اور سماجی انقلاب برپا ہوتے رہنا الگ بات ہے لیکن معاشرتی انداز اور خاندانی روایات بدلنا آسان نہیں۔ کاظمی صاحب کے پردادا میر ضامن حسین، واجد علی شاہ کے زمانے میں فتح پور سے لے کر الہ آباد تک کے علاقے کے مالک تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ کیا رہا ہو گا۔ انگریزوں نے واجد علی شاہ کی گرفتاری کے بعد انہیں بھی قید میں ڈال دیا اور زہر دے کر ختم کر دیا لیکن خون کے اثرات حکومتوں سے ختم نہیں ہوتے۔ سلون میں کاظمی صاحب کے خاندانی اثرات اور انداز رہائش کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے محرم کے تین جلوسوں میں ہاتھی اونٹ اور گھوڑوں پر علم ہوتے اور سارے مجمع میں روٹیاں تقسیم ہوتیں۔ داد ھیال کے اس ماحول میں آنکھ کھولنے والے بچے کی شخصیت کے بناؤ اور شعور کے بہاؤمیں ماضی اور حال کو جذب کرنے کی کس قدر مہارت ہو گی۔ نا یہاں کے علمی خزانوں نے کا علمی صاحب کے علمی و ادبی قدروں کو اجاگر کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ اس اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ وہ ہمہ صفت موصوف ہیں۔ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن گواہ ہے کہ وہ فن موسیقی سے واقف ہیں اسے واقف ہیں۔ سلون اور مصطفی آباد کے گلی کوچے آواز دیتے ہیں کہ وہ بهترین نوحه خواں و سوزخواں ہیں۔ اسکول و کالج اور یونیورسٹی کے ریکارڈ نہ صرف یہ بتلاتے ہیں کہ وہ اول درجہ حاصل کرنے والے علم کے گوہر آبدار ہیں بلکہ کھیلوں کے میدان کے بھی شہسوار ہیں۔ دولت و ثروت اور ماں باپ چھوڑ کر پاکستان اس لئے آگئے کہ قائد اعظم کے ہمنوا تھے اور خلیق الزاماں صاحب کی سربراہی میں پاکستان حاصل کرنے والوں میں تھے۔ پاکستان کے کالج جہاں وہ پروفیسر و پر نسپل رہے اس بات پر مہر صداقت ثبت کرتے ہیں کہ وہ ڈرامہ نویس اور بہترین ڈائرکٹر رہے ہیں۔ شاعری بھی کرتے تھے لیکن اپنی دوسری مصروفیات میں وقت نہ نکال سکے اور اسے اپنے ادبی مشاغل میں حائل پایا تو اسے چھوڑ دیا ۔ آج وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اپنے بچوں کی پرورش بھی اس انداز میں کی کہ سب کے سب پاکستان کے علاوہ امریکہ میں بھی اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔
ان سب حوالوں سے میں نے ڈاکٹر صاحب کو متعارف کرانے کی اس لئے کوشش کی کہ لوگ ان کے اس من و سال میں بھی انکی جہد مسلسل کو دیکھ کر اپنے بچوں کی پرورش کریں کہ وہ پاکستان کا نام روشن کریں۔ انکی کتاب میں فنی صلاحیتوں کو ڈاکٹر نسیم صدیقی صاحب مرحوم نے جس انداز میں پیش کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ بس اتنا اور عرض کر دوں کہ جس طرح پیپل اور برگد کے درخت کی چھاؤں صدقہ جاریہ میں شمار ہوتی ہے اس طرح یہ کتاب ان درختوں سے زیادہ دیر پا اور صدقہ جاریہ میں شمار ہوگی اور انسانی صحت کی ضامن ہو گی۔ مجھے اس کتاب کے ناشر ہونے پر فخر ہے اور امید ہے کہ آپ سب کی پسند اسے مزید چار چاند لگا دے گی میری دعا ہے کہ خداوند عالم ڈاکٹر منظر حسین کاظمی کی حیات و صحت میں اضافہ کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے نیز مزید توفیق عطا کرے کہ اپنے قلم کی جنبش سے انسانیت کی خدمت کرتے رہیں۔ زیر نظر کتاب انہیں کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
والسلام
الحاج سید محمد ایوب نقوی مصطفی آبادی کراچی
۲۵ جون ۱۹۹۹ء