- Home
- Uncategorized
- عورت کا بانجھ پن ...
![عورت کا بانجھ پن اور اسلامی تعلیمات](https://tibb4all.com/wp-content/uploads/2025/02/عورت-کا-بانجھ-پن-اور-اسلامی-تعلیمات.jpg)
![](https://tibb4all.com/wp-content/uploads/2025/02/عورت-کا-بانجھ-پن-اور-اسلامی-تعلیمات.jpg)
عورت کا بانجھ پن اور اسلامی تعلیمات
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
بانجھ پن ایک قدرتی حالت ہے جس میں عورت یا مرد تولیدی صلاحیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اسلام میں بانجھ پن کو کسی کی غلطی یا عیب نہیں سمجھا گیا، بلکہ اسے اللہ کی مرضی اور آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بانجھ پن کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ملتا ہے، خاص طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیویوں کے حوالے سے۔
![](https://tibb4all.com/wp-content/uploads/2025/02/image-5.png)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی حضرت سارہ (علیہا السلام)
حضرت سارہ (علیہا السلام) ایک لمبے عرصے تک بانجھ رہیں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے اولاد کی دعا کی، تو اللہ نے انہیں حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی صورت میں بیٹا عطا کیا۔ بعد میں، حضرت سارہ (علیہا السلام) کو بڑھاپے میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری دی گئی، جس پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا:
“انہوں نے کہا: اے وائے میری! کیا میں بچہ جَنوں گی؟ جبکہ میں بوڑھی ہوں اور میرا شوہر بھی بوڑھا ہے، بے شک یہ تو ایک عجیب بات ہے!”(سورہ ہود 11:72)
یہ واقعہ اللہ کی قدرت کا مظہر ہے کہ وہ جب چاہے، جسے چاہے اولاد عطا کر سکتا ہے، چاہے وہ فطری طور پر بانجھ کیوں نہ ہو۔
![](https://tibb4all.com/wp-content/uploads/2025/02/image-6.png)
حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش
حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ان کی بیوی بھی لمبے عرصے تک بے اولاد رہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے انتہائی عاجزی سے اللہ سے دعا کی:
“اے میرے رب! مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے!”(سورہ آل عمران 3:38)
اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انہیں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت دی، حالانکہ ان کی بیوی بانجھ تھی:
“(فرمایا گیا) اے زکریا! ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں، جس کا نام یحییٰ ہوگا، ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس کا ہم نام نہیں بنایا۔“(سورہ مریم 19:7)
یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں، اور اگر وہ چاہے تو بانجھ عورت کو بھی اولاد عطا کر سکتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر
- اسلام میں بانجھ پن کو کسی کی خطا یا گناہ نہیں سمجھا جاتا۔
- بانجھ پن ایک آزمائش ہو سکتی ہے، جس پر صبر کرنے کا اجر ملتا ہے۔
- دعا اور اللہ پر بھروسہ رکھنے سے ناممکن بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
- اگر اللہ اولاد عطا نہ کرے تو بھی صبر اور قناعت اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ کی ہر فیصلہ انسان کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔
نتیجہ:
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیویوں کے واقعات سے ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ اللہ کی قدرت لامحدود ہے، اور وہ جب چاہے بانجھ عورت کو اولاد عطا کر سکتا ہے۔ اس لیے ہر حال میں دعا، صبر اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا ضروری ہے۔
آیت “وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ” (سورہ الأنبیاء 21:90) پر 10 مفسرین کی آراء مع حوالہ
یہ آیت حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کے متعلق ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے بانجھ ہونے کے باوجود اولاد کے قابل بنا دیا۔ مختلف مفسرین نے اس آیت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے۔
1. تفسیر ابن کثیر
حوالہ: تفسیر ابن کثیر، جلد 5، صفحہ 355
رائے: ابن کثیر کے مطابق، “وأصلحنا له زوجه“ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کو بانجھ پن سے نجات دی اور انہیں صحت مند بنا دیا تاکہ وہ حاملہ ہو سکیں۔
2. تفسیر الطبری
حوالہ: جامع البیان عن تأویل آی القرآن، جلد 17، صفحہ 90
رائے: امام طبری نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں، جن میں ایک قول یہ ہے کہ اللہ نے ان کی بیوی کو حمل کے قابل بنا دیا اور دوسرا یہ کہ ان کی طبیعت کو جوانی کی طرف لوٹا دیا۔
3. تفسیر قرطبی
حوالہ: الجامع لأحکام القرآن، جلد 11، صفحہ 277
رائے: قرطبی کے مطابق، یہ اصلاح بانجھ پن کو دور کرنے اور حیض کی واپسی سے مراد ہے تاکہ وہ اولاد پیدا کر سکیں۔
4. تفسیر آلوسی
حوالہ: روح المعانی، جلد 17، صفحہ 150
رائے: آلوسی کہتے ہیں کہ “أصلحنا له زوجه“ کا مطلب ہے کہ اللہ نے ان کی بیوی کو بارآور ہونے کے قابل بنا دیا، جبکہ وہ پہلے بانجھ تھیں۔
5. تفسیر فخر الدین الرازی
حوالہ: مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)، جلد 22، صفحہ 32
رائے: الرازی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں “اصلاح” کا مطلب بدنی قوت کی بحالی اور بانجھ پن کا خاتمہ ہے تاکہ وہ اولاد پیدا کر سکیں۔
6. تفسیر جلالین
حوالہ: تفسیر الجلالین، صفحہ 322
رائے: جلال الدین السیوطی اور المحلی لکھتے ہیں کہ اللہ نے بڑھاپے کی کمزوری اور بانجھ پن کو دور کر دیا تاکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی ماں بن سکیں۔
7. تفسیر بغوی
حوالہ: معالم التنزیل، جلد 3، صفحہ 289
رائے: بغوی کے مطابق، “وأصلحنا له زوجه” کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے ازدواجی تعلقات میں بہتری دی اور انہیں اولاد کے قابل بنایا۔
8. تفسیر ابن عاشور
حوالہ: التحریر والتنویر، جلد 17، صفحہ 210
رائے: ابن عاشور کہتے ہیں کہ اصلاح کا مطلب طبّی صحت کی بحالی اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کا عطا کیا جانا ہے۔
9. تفسیر نسفی
حوالہ: مدارک التنزیل وحقائق التأویل، جلد 3، صفحہ 121
رائے: نسفی کے مطابق، اللہ نے بانجھ پن کو ختم کر کے حمل کے قابل بنایا تاکہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ممکن ہو سکے۔
10. تفسیر سعدی
حوالہ: تیسیر الکریم الرحمن، صفحہ 482
رائے: شیخ عبدالرحمن السعدی کہتے ہیں کہ اس آیت میں اصلاح کا مطلب اللہ کی طرف سے خصوصی برکت اور علاج ہے، جس سے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی اولاد کے قابل ہوئیں۔
نتیجہ
تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ “وأصلحنا له زوجه“ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کو بانجھ پن سے نجات دی اور انہیں اولاد کے قابل بنایا۔ بعض مفسرین نے اس میں بدنی قوت کی بحالی اور ازدواجی تعلقات میں بہتری کا ذکر بھی کیا ہے۔
اگر آپ کسی خاص مفسر کی تفصیل چاہتے ہیں تو بتائیں!