انبیاء علیم السلام اور ان کی قوموں کے احوال
انبیاء علیم السلام اور ان کی قوموں کے احوال
انبیاء علیم السلام اور ان کی قوموں کے احوال

انبیاء علیم السلام اور ان کی قوموں کے احوال
مقدمه

جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہر فرمانا چاہا تو فرشتوں سے فرمایا: میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے عرض کی کہ یا خالق باری تعالیٰ ایسے کا خلیفہ بنائیں گے جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزیاں کرے گا۔ ہم تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا : تمام روئے زمین سے ہر قسم کی سیاہ، سفید، سرخ، کھاری بیٹھی، نرم خشک ایک مٹھی خاک اٹھا لاؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے زمین پر تشریف لا کر خاک اٹھانی چاہی، زمین نے سبب پوچھا، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے تمام واقعہ بیان فرما دیا۔ زمین نے عرض کیا کہ میں اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتی ہوں کہ تو مجھ سے خاک اٹھا کر انسان بنائے جس کی وجہ سے میرا کچھ حصہ جہنم میں پہنچے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام خالی مٹی اٹھائے بغیر واپس تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا خالق باری تعالی زمین نے تیری عزت کی پناہ پکڑلی۔ میں تیرے نام اور عزت کے ادب سے اس سے خاک نہ اٹھا سکا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت اسرائیل و میکائیل علیہما السلام کو باری باری بھیجا مگر وہ بھی اسی طرح واپس گئے ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ملک الموت علیہ السلام کو بھیجا انہوں نے زمین کی ایک بھی نہ سنی بلکہ فرمایا میں تو اللہ تعالٰی کے حکم کا تابعدار ہوں۔ تیری عاجزی اور زاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو نہیں چھوڑ سکتا۔ اسی لئے ان کو جان نکالنے کا کام سپرد کر دیا گیا کہ تم نے ہی اس خاک کو زمین سے الگ کیا ہے۔ تم ہی اس کو ملانا۔ اب انہیں حکم باری تعالٰی عزوجل ہوا کہ اس خاک کو وہاں رکھو جہاں آج خانہ کعبہ ہے ۔ فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس خاک کو مختلف پانیوں سے گارا بنا ئیں چنانچہ اس پر چالیس روز بارش ہوئی۔ انتالیس دن تو غم و رنج کا پانی برسا اور ایک دن خوشی کا۔ اسی لئے انسان کو رنج و غم زیادہ رہتے ہیں اور خوشی کم ہوتی ہے۔ پھر اس گارے کو مختلف ہواؤں سے اتنا خشک کیا کہ کنکھانے لگا۔ پھر فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس گارے کو سکے اور طائف کے درمیان وادی نعمان عرفات پہاڑ کے نزدیک رکھیں پھر اللہ تعالی نے خاص اپنے دست قدرت سے اس گارے کو حضرت آدم علیہ السلام کا مقالب بنایا اور ان کی صورت تیار فرمائی۔ فرشتوں نے کبھی ایسی صورت نہ دیکھی تھی۔ تعجب سے اس کے آس پاس پھرتے تھے۔ اس کی خوبصورتی سے حیران تھے۔ ابلیس کو بھی اس تمام اعلان کی خبر ہو چکی تھی وہ بھی اس قالب کو دیکھنے آیا اور اس کے گرد پھر کر بولا: اے فرشتو، تم اس کا تعجب کرتے ہو۔ یہ تو ایک اندر سے خالی جسم ہے
جس میں جگہ جگہ سوراخ ہیں اور اس کی کمزوری کا یہ حال ہے کہ اگر بھوکا ہو تو گر پڑے اور اگر خوب سیر ہو جائے تو چل پھر نہ سکے۔ اس قالب سے خالی کچھ نہ ہو سکے گا۔ پھر بولا: ہاں اس کے سینے کے بائیں طرف ایک بند کو ٹھڑی یعنی دل ہے۔ یہ خبر نہیں کہ اس میں کیا ہے۔ شاید کہ یہی لطیفہ ربانی کی جگہ ہو جس کی وجہ سے یہ خلافت کا حق دار ہوا۔ پھر روح کو حکم کہ اس مطالب میں اور اس کے گڑھوں میں بھر جائے ۔ جب روح قالب کے پاس پہنچی تو جسم کو تنگ و تاریک پایا اندر جانے سے ٹھہر گئی۔ بعض روایات میں . آتا ہے کہ تب نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ قالب جگمگا دیا گیا۔ یعنی وہ نور پیشانی آدم علیہ السلام میں امانت رکھا گیا۔ اب روح آہستہ آہستہ داخل ہونے لگی۔ ابھی سر میں تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام کو چھینک آئی اور زبان سے نکلا الحمد للہ حق تعالی نے ارشاد فرمایا: يرحمك الله ۔ جب روح کمر تک انچی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اٹھنا چاہا مگر گر پڑے کیونکہ نیچے کے دھڑ میں روح پہنچی ہی نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: خلق الانسان من عجل فرمایا تمام بدن میں روح پھیل گئی تو حکم ہوا کہ فرشتوں کے پاس جا کر ان کو سلام کرو اور سنو وہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں۔ تب حضرت آدم علیہ السلام ادھر تشریف لے گئے اور فرمایا السلام علیکم، فرشتور فرشتوں نے وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ جواب میں فرمایا۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: نہی الفاظ تمہارے اور تمہاری اولاد کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا باری تعالیٰ میری اولاد کون ہے تب اللہ تعالی نے آپ کی پشت پر دست قدرت پھیر کر اس سے تمام انسانی روحیں نکالی گئیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو سب دکھائی گئیں اور انہیں کا فرو مومن، منافق ، اولیاء قطب و انبیاء علیہم السلام دکھائے گئے۔ پھر اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا تم سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔ تو فرشتے عرض کرنے لگے۔ تجھے پائی ہے۔ ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم وحکمت والا ہے جب فرشتوں نے اپنی معذوری اور کم علمی کا اقرار کرلیا اور بارگاہ الہی میں اپنی عرضو معروض کی معذرت کی تب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ ان کو سب چیزوں کے نام بتا ۔ دیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے حکم پاتے ہی آنا انا بلا تامل سب کچھ ان کو بتادیا۔ جب اس واقعہ سے فرشتوں کو اپنی عاجزی اور حضرت آدم علیہ السلام کے کمال علمی کا ثبوت ہو گیا۔ تب اللہ تعالیٰ ان کو متنبہ کرنے کوفرمایا: تم اپنے دل میں کیا سمجھتے تھے اور ظاہر کیا ہوا میں ہی ہر چیز کی حکمت اور مصلحت زمین و آسمان کی پوشیدہ باتیں تمہارے ظاہری اور باطنی حالات جانتا ہوں لہذا تمہارا

تعجب کرنا کہ خلیفہ کیوں بنایا جارہا ہے بے جاتھا میں جو کچھ کرتا ہوں اس میں بھی ہزار حکمتیں ہوتی ہیں۔ جب آدم علیہ السلام کا علم تمام پر ظاہر ہوگیا تو تمام فرشتوں جن میں شیطان بھی رہتا تھا حکم ہوا کہ تم سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کو تعظیمی سجدہ کرو وہ سب کے سب سجدہ میں گر گئے لیکن ابلیس چونکہ متکبر تھا اس لئے سجدے سے انکاری ہوا۔ اپنے آپ کو بڑا جان کر دل میں سوچنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم غلط ہے۔ میں بہت بڑا آدم علیہ السلام بہت چھوٹے ، چھوٹا بڑے کے سامنے جھک سکتا ہے نہ کہ بڑا چھوٹے کے سامنے جھکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری ہزار ہا برس کی عبادت کی کوئی قدر نہ فرمائی

جلد اول۔۔۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔۔۔جلد سوم۔۔۔۔۔۔جلد چہارم۔۔۔۔۔۔جلد پنجم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram