بیاض شاہی( نیوڈیجیٹل فارمیٹ)
بیاض شاہی( نیوڈیجیٹل فارمیٹ)
بیاض شاہی( نیوڈیجیٹل فارمیٹ)

بیاض شاہی( نیوڈیجیٹل فارمیٹ)

دیباچہ

ہمارے جسموں کی حفاظت اور درستی میں دوا کا وہی درجہ ہے۔ جو کسی ملک کے حفظ الوقت میں فوج اور پولیس کا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فوج کی ضرورت ایک زمانے کے بعد در پیش ہوتی ہے پولیس کی ضرورت بھی کبھی کبھی پیش آتی ہیں ۔ اور بہت سے خوش نصیب افراد کو عمر بھر اس سے واسطہ نہیں پڑتا ۔ لیکن دوا ایک ایسی چیز ہے جس کی ہر گھر میں ہمہ وقت ، موجودگی نہایت ضروری ہے۔ ہر جاندار کی سب سے عزیز پونجی اس کی زندگی ہے۔ بلکہ زندگی ہی ایک ایسا لفظ ہے۔ جس سے ہم ایک لفظ میں اپنے وجود کی جامع و مانع تعریف کر سکتے ہیں ، منابع حیات کو باقی رکھنے کے لیے وہ کونسا جتن ہے ۔ جو ہم نہیں کرتے ، ہماری ساری دلچسپیاں اور مصروفیتیں جینے ہی کے ساتھ ساتھ ہیں ۔ جی ہے تو جہان ہے۔ لیکن انسان پہ ایک ایسا دور بھی آتا ہے کہ وہ زندہ ہوتا ہے۔ لیکن موت کو اس زندگی پر ترجیح دیتا ہے ۔ جان اس کے لیے غذاب الیم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور حیات و بال و و آزار لذت حیات درد و کرب سے بدل جاتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے ۔ جب کہ ہمارا جسم جو حیات کا مظہر اور مستقر ہے ۔ صحت و نظم سے محروم ہوتا ہے ۔ اور زندگی آگ کے فرش پر رقص کرنے لگتی ہے ۔ ۔

ایسے مواقع پر دوا فرشتہ رحمت بن کر بیچانی آتی ہے۔ عزیز جان کو درد و کرب سے نجات دلاتی ہے ۔ قدرت کا نظم کچھ ایسا معلم ہوتا ہے کہ زندگی کبھی دوا کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکے گی وہ ہماری زندگی کے لیے ایک ناگریز چیز ہے ۔ آب دوانہ کی طرح ہم دوا کے بھی مختارج ہیں۔ اور رہیں گے۔ لیکن دوا کا مسئلہ غذا کی طرح سادہ اور آسان نہیں ہے۔ غذا کے مسئلے کو ہم نے دوا کی نسبت سے آسان کہا ہے۔ دریہ غذا کا مسلہ بھی چنداں آسان نہیں ہے۔ ہمارے ملک ۔ کے بیشتر عوام صحیح غذا کے متعلق بھی بہت کم بھی بہت کم علم را لم علم رکھتے ہیں ۔ اور ہمیں غذا کی فراہمی میں اپنی حکومت اور تجارت بھی بہت سی جائز شکائتیں ہیں۔ لیکن دوا کامسئلہ بہت ہی پیچیدہ اور نازک ہے دوا اور اس کی تیاری ، ایک وسیع علم ہے۔ جو چیز میں غذا کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں یا ہوتی ہیں۔ انہیں ہم آسانی کے ساتھ گن سکتے ہیں۔ اور عام طور پر جانتے ہیں۔ لیکن دوا کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ بنات اور جیوانات میں کون سی شے ہے۔ جو دوائی اثرات سے خالی ہے یعنی کہ سموم جو کہ معمولی طور پر استعمال کرنے قاطع حیات ہیں دوا کے طور پر ان کا استعمال آب حیات کا حکم رکھتا ہے مسموم دوا کی تیاری اور ان کا استعمال بڑی ذمہ داری کا کام ہے جس کو انتہائی معتبر ہاتھ میں ہونا چاہیے ۔

دواؤں کی اہمیت کے پیش نظر دواؤں کی دریافت اور ان کی تیاری میں قدیم زمانے قدیم سے اب تک جو جان توڑ کوشش کی گئی ہیں۔ اور کی جارہی ہیں۔ ان کا اندازہ لگانا کچھ آسان کام نہیں ہے ۔ دعوی محتاج ثبوت نہ دعوی محتاج ثبوت نہیں ہے۔ کہ انسانی دماغ کے پیدا کردہ عا کردہ علوم سے علم الادویہ سے زیادہ وسیع وسیع کوئی کوئی علم علم نہیں۔ نہیں علم علم الله الادویہ جتنا وسیع علم ہے ۔ دوا کی تیاری اتنا ہی نازک فن ہے۔ دوا کی تیاری میں وسیلے علم کے ساتھ وسیع تجربہ بھی لازمی لازمی ہے۔ دوا کی تیاری میں تھیوری سے ہرگز کام نہیں چلتا۔ بلکہ اس میں پریکٹس کو بڑا دخل ہے ۔

مسیح الملک حکیم اجمل خان صاحب مرحوم کے سامنے جب دلیسی طلب کی حفاظت کا مسلہ پیدا و توانوں نے صحیح مرکب و مفردا دویہ کی فراہی کیطرف سے ن سب سے پہلے توجہ کی مسیح الملک مرحوم ملخص بالکل صحیح بھی صحیح مرکب ادویہ کے ہم نہ پہنے سے فن کو نقصان پہنچے رہا تھا۔ وہ اغیار کی مخالفانہ روش سے بھی زیادہ نقصان رساں تھا۔ کیونکہ صحیح دوا بہم نہ پہنچنا ایک داخلی کمزوری تھی جو خارجی مخالفت کے مقابلہ میں ہمیشہ زیادہ خطر ناک ہوتی ہے منڈے جوگی کی شناخت ضرور دشوار ہو گی لیکن گھٹی اور ایسی دوا کی شناخت دشوار ترہے۔ خصوصاً پیٹنٹ دواؤں کی پہچان کہ وہ کیا ہیں اور کیسی ہیں۔ ایک امر محال ہے ۔ ایسے زمانے ہیں جب کہ کوئی مفرد غذائی جنس بھی خالص نہیں ملتی ، مرکب دواؤں کے عمدہ ہونے پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔ آن کل صحیح اور غلط دوا کی شناخت میں اشکال کی وجہ سے پیٹنٹ دواؤں کی تیاری کی طرف رحجان بڑھتا جا رہا ہے جس کا دل چاہتا ہے۔ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور دوا فروشی شروع کر دیتا ہے۔ زردار افراد جو فن سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں محض زر کے زور سے اپنی دواؤں

کو جو محض زرا ندازی کو پیش نظر رکھ کر تیار کی جاتی ہیں۔ بازاروں میں پھیلا دیتے ہیں۔ اور عوامی صحت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ فن کی بدنامی کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ پھر ملکی صنعت دواسازی کو نقصان پہی ن پہنچانے کے ساتھ ساتھ غیر مکی دواؤں کا امتیاز بڑھانے کے موجب ہوتے ہیں۔ جس سے ہمارے ملک کی اقتصادی حالت کو جو پہلے ہی سے درآمد کے بوجھ سے دبی ہوئی ہے ۔

مزید دھکا لگتا ہے ۔ ۔

دوا سازی کو کھلی چھوٹ دے دینا اور بالکل آزاد چھوڑ دینا ایک ایسی غلطی ہے ۔ جس کو کبھی معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستان بن جانے اور غیر ملک حکومت سے گلو خلاصی کے بعد امید تھی کہ دیسی طلب اور دیسی ادویہ کو اپنا صحیح مقام جائے گا۔ لیکن کہ اپنے پرایوں سے زیادہ دشمن جان ثابت ہوئے ۔

دلیسی طب کے حاملین کے لیے۔ ایسے تمام قوانین جو اس کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں اور ایسے تمام تعمیری قوانین مفقود ہیں۔ جو کسی صنعت اور فن کی حفاظت کے لیے درکار ہوتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ے کہ تمام تخری ویض کو منسوخ کرکے ایسے قوانین و ضوابط وضع کئے جائیں جو دلی طب کو جعل سازوں اور غلط کار سرمایہ داروں کی دست بد سے بچا سکیں ۔

سرمایہ داروں سے التماس ہے کہ ان کی جولانی طبع اور شوق زراندوزی کے گھوڑے دوڑانے کے لیے بہت سے میدان موجود ہیں مخلوق خدا پر رحم کر کے دوا کے میدان کو خدام فن کے لیے چھوڑ دیں کیونکہ دوا فروشی اور دواسازی ایک ایسا مقدس کام ہے جس کو تجارت سے زیادہ خدمت داشیاء کے اصول کے تابع ہونا چاہیے .

غیر تو در کنار خود جماعت اطباء بھی اس صورت حال کی کچھ کم ذمہ داری نہیں۔ اطباء کو چاہیے۔ کہ وہ وقت جلد آنے والا ہے۔ کہ اغیار کے منصوبے داستانوں میں سے بھی ہماری داستان خارج کر کے رہیں گے۔ اور ہمارے اسلاف جنہوں نے خون پسینہ ایک ایک کر کے فن عزیز کو چاہیئے ۔ کہ وہ شہروں اور دیہاتوں میں اپنی تنظیم کریں او متحد ہوکر اپنی مدد آپ کرنے پر کمربستہ ہو جائیں ۔ حکومت کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ طب کے صحیح مقام کو سمجھے اور پہنچانے ۔

دلیسی دوا سازوں کو بھی چاہیے کہ اپنی صنعت کو سرمایہ داروں کی دست برد سے محفوظ کرنے اور حکومت سے اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے اپنی تنظیم کرے ۔ اور اپنی انجن بنائیں اور اس کو رجسٹرد کرا کے اس کے ذریعے اپنی جائز شکایت حکومت کے سامنے رکھیں۔

موجودہ دور

طب اسلامی کی اصلاح وتجدید کا کم مدتوں سے روکا پڑا ہے۔ شاہان مغلیہ کے آخری دور ہے اب تک اس فعل پر مسلسل اوبڑ کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ اگر چہ وہ دو مسلمانوں کے تمام علوم کا مجموعی طور پر دور الحفاظ ہی تھا ۔ لیکن طب یونانی اس کا خاص طور پر نشانہ بنی ۔ کیونکہ غیرملکی کمرانوں کی تجارتی نیت پر صحت جیسے اہم مسلہ ہیں اس ملک کا خود کفیل ہونا ۔ کراں گزرتا ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے۔ کہ یہ شعبہ ان دسترس سے دور رہے۔ چنانچہ انہوں نے ہر مکن طریقہ سے علی طبوں کو ختم کرنے کی سعی کی اور اس گھنا د نے فعل میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے ۔

صد سالہ دور غلامی ختم ہونے کے بعد جہاں یہ امید بندھی کہ ہماری معاشرتی مذہبی اور اخلاقی اقدار صحیح اسلامی رنگ میں رنگی جائیں گی۔ اور تمام ارمان پورے ہوں گے جو ایک ملت سے دل میں سلگ رہے ہیں اسی شدید خواہش کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں منصہ شہود پر آیا اس کے ساتھ ہی اب اسلامی بھی قہر ملت سے نکل کر دوبارہ اپنا مقام حاصل کرے گی ۔ یہ لیکن وائے قسمت کہ ہماری حکومتوں نے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی ۔ اور یہ کام حکومتی سطح پر کبھی بھی نہ ہو سکا۔ اور نہ ہی توقع ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی ایسا قدم اٹھا یا جائے گا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کام کون کرے ۔ ایک فن کو جس بقاء تجدید کے لیے ہمارے آباء نے اپنا خون پسینہ ایک کر دیا ۔ وہ کیونکہ زندہ رکھا جائے۔ یہاں دو صورتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملک کے بڑے بڑے طبی ادارے طب اسلامی کو زندہ کر نے کے عزم کریں یا پھر انفرادی طور پر ایسی کوشش کی جائے ۔

جہاں تک طب اسلامی کے نام لیوا اداروں کا تعلق ہے ۔ وہ صرف تجارتی ذہن کے مالک ہیں مہراء ہر اصلاحی قدم جو بظاہر ان کی طرف سے اٹھتا ہے ۔ اس کی تہہ میں ان کی اپنی منفعت کار فرما نظر آتی ہے۔ اُن کا اخلاص محض اپنی ذات کے لیے محدود ہے۔ بدیں وجہ اب تک کوئی صورت ایسی سامنے نہیں آئی کہ جس سے شائبہ بھی گذرے کہ ہمارے اس مایہ نازفن کے دن پلٹ آئیں گے ۔ اب آجا کے صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے ۔ کہ انفرادی طور پر اس عظیم کام کو پانی کی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سعی کریں میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ اگر ہم میں سے ہر شخص پورے اخلاص کے ساتھ اپنا مطمح نظر بنائے کہ ہماری زندگیوں کا محض فن کی عظمت کا لوہا دوسروں سے منوا سکیں گے ۔

عزم ، ہمت، استقلال لگن اور عمل

یہ اصول انسان کو زندگی کے ہر شعبہ میں کامیاب بناتے ہیں ۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے چالیس ہزار اطباء کی کثیر تعداد یہ کام انہیں اصولوں کو اپنا کرخوش اسلوجی سے سرانجام نہ دے سکے ۔ –

یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی ہیں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

قبلہ حکیم محد عبد الرحیم صاحب جمیل کی ذات مثالی طور پر آپ کے سامنے پیش کی جا سکتی ہے ۔ ایک ایسا انسان جس کے پاس دولت کی فرادانی نہیں تھی ۔ حکومت کی پشت پناہی اسے حاصل نہیں تھی ۔ نہ ہی کوئی عظیم جماعت اس کے ہم نوا تھی۔ محض اپنے عمل عزم بہت استقلال اور لگن سے طب اسلامی کو زندہ جاوید حقیقت ثابت کرنے کی سعی میں مصروف ہے صرف چند مخلص اطبا کی ایک جماعت ہی اس کے ساتھ ہے۔ ان کے حالات میں جب کہ نام نهاد بڑے اطہار میں اطبار محض اپنے نمود اور ذاتی وجاہتوں کو سنوارنے میں مصروف ہیں محض اخبارات میں بیان دینا اور طبی سیا سیاست میں جوڑ توڑ کر کے خود کو اکابرین فن میں شمار کرانا ہی ان کی زندگی کا مقصد رہ گیا ہے ۔ یہ اخلاص کا پتلا دن رات اپنے فن کی نوک پاک درست کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے ۔ ان کے سامنے صرف ایک مقصد ہے۔ فن کی صلاح اسی مقصد تجدید و اصلاح اسی مقصد کے حصول میں اپنے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کر دی۔ اپنا کا چین او سب کچھ اسی میں دار دار دیا۔ ماہنامہ طبیب حاذق کی سنتیس سالہ فائل اس بات کی زندہ مثال ہے ۔ ان کی نوے کے قریب عظیم تصانیف منہ بولتی شہادت ہیں ۔ اور دوا سازی کا عظیم ادارہ دار لعلاج جو ملک بھر میں دیسی ادویات کا قدیم اور دیانت دار ادارہ ہے۔ اس کا گواہ ہے جس سے لاکھوں لوگ ان پچاس سالوں میں فیض یاب ہو کر صحت جیسی انمول دولت سے مالا مال ہو چکے ہیں ۔ سو یہ اظہر من الشمس حقائق ہیں جو آپ کے سامنے انفرادی کا دشوں کی کامیابی کا واضح ثبوت پیش کرتے ہیں

کتاب یہاں سے حاصل کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram