موروثی عقائد
مولانا ابو اکلام آزاد
انسان کی دماغی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روک اس کے تقلیدی عقائد ہیں۔ اسے کوئی طاقت اس طرح جکڑ بند نہیں کر دے سکتی جس طرح تقلیدی عقائد کی زنجیریں کر دیا کرتی ہیں۔ وہ ان زنجیروں کو توڑ نہیں سکتا اس لیے کہ توڑنا چاہتا ہی نہیں۔ وہ انہیں زیور کی طرح محبوب رکھتا ہے۔ ہر عقیدہ ہر عمل، ہر نقطہ نگاہ جو اسے خاندانی روایات اور ابتدائی تعلیم و و صحبت کے ہاتھوں مل گیا ہے، اس کے لیے ایک مقدس ورثہ ہے۔ وہ اس ورثہ کی حفاظت کرے گا مگر اسے چھونے کی جرات نہیں کرے گا۔ بسا اوقات موروثی عقائد کی پکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ تعلیم اور گرد و پیش کا اثر بھی اسے ڈھیلا نہیں کر سکتا۔ تعلیم، دماغ پر ایک نیا رنگ چڑھا دے گی لیکن اس کی بناوٹ کے اندر نہیں اترے گی۔ بناوٹ کے اندر ہمیشہ نسل، خاندان اور

صدیوں کی متوارث روایات ہی کا ہاتھ کام کرتا تو کرہے گا۔

عدم علم یا عدم حقیقت :

کسی بات کے احاطہ نہ کر سکنے سے اس کا انکار لازم نہیں آجاتا ۔ ۲۰

حق و باطل کا معیار انسانوں کی قلت و کثرت نہیں ہے :

حق و باطل کے معاملے میں انسانوں کی قلت و کثرت معیار نہیں ہو سکتی۔ بلکہ حقیقت اور سچائی کے بنیادی اصولوں ہی پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ بسا اوقات کے پر فیصلہ جا گمراہی و حق فراموشی کے ایسے اوقات آ جاتے ہیں کہ نوع انسانی کی اکثریت حق و یقین کی روشنی سے محروم ہو جاتی ہے….. گمراہیوں کی کثرت کو نہ دیکھو یہ :
دیکھو کہ کون سی راہ یقین اور بصیرت کی راہ ہے اور کون سی جہل و کمتا کی راہ ہے۔۔

عقیدے کی ضرورت :

فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا اور پھر اسے بند نہیں کر سکے گا۔

سائنس ثبوت دیدے گا مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا۔ لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے اگرچہ ثبوت نہیں دیتا اور یہاں زندگی بسر کرنے کے لیے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں بلکہ عقیدے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم . صرف انہی باتوں پر قناعت نہیں کر سکتے جنہیں ثابت کر سکتے ہیں اور اس لیے مان لیتے ہیں۔ ہمیں کچھ باتیں ایسی بھی چاہئیں جنہیں ثابت نہیں کر سکتے لیکن مان لینا پڑتا ہے ” ۔

سائنس اور وحی :

و و علم (Science) عالم محسوسات سے سروکار رکھتا ہے۔ مذہب ماوراء محسوسات کی خبر دیتا ہے۔ دونوں میں دائروں کا تعدد ہوا مگر تعارض نہیں ہوا۔ جو کچھ محسوسات سے ماوراء ہے ہم اسے محسوسات سے معارض سمجھ لیتے ہیں اور ہیں ہے : ، ہمارے دیدہ کج اندیش کی et اندیش کی ساری درماندگیاں شروع ہے ع ہو جاتی ہیں ۔

قانون فطرت:

اگر تم آنکھیں نہیں کھولو گے تو تمہارے آگے ایک سیاہ پردہ حائل ہو جائے گا۔ اگر تم سننا نہیں چاہو گے تو تمہارے کان بہروں کے کان ہو جائیں گے۔ اگر تم سوچنے سے انکار کر دو گے تو تمہاری عقل پر پردے پڑ جائیں گے”۔

خلاف عقل اور ماورائے عقل :

دو صورتیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں، ایک یہ کہ کوئی بات عقل کے خلاف ہو، ایک یہ کہ تمہاری عقل سے بالا تر ہو۔ بہت سی باتیں ایسی ہو سکتی ہیں جن کا تمہاری سمجھ احاطہ نہیں کر سکتی، لیکن تم یہ فیصلہ نہیں کر دے سکتے کہ وہ سرے سے خلاف عقل ہیں۔ اول تو تمام افراد کی عقلی قوت یکساں نہیں۔ ایک آدمی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتا۔ دوسرا باریک سے باریک نکتے حل کر لیتا ہے۔ ثانیا” عقل انسانی برابر نشو و نما کی حالت میں ہے۔ ایک عہد کی عقل جن باتوں کا اور اک نہیں کر سکتی، دوسرے عہد کے لیے وہ عقلی مسلمات بن جاتی ہیں۔ ثالثا انسانی عقل کا ادراک ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور عقل ہی کا فیصلہ ہے کہ حقیقت اسی حد پر ختم نہیں ہو جاتی ہے۔

وحی الہی اختلافات کا حل ہے :

جن باتوں کو انسان اپنی عقل و ادراک سے نہیں پا سکتا اور اس لیے طرح طرح کے اختلافات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کوئی کچھ سمجھنے لگتا ہے کوئی کچھ وحی الهی نمودار ہوتی ہے تاکہ ان اختلافات کو دور کر دے اور پتلا دے کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔

معرفت حق کی راہ :

انسان کے لیے معرفت حق کی راہ کیا ہے؟ صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کائنات خلقت میں تفکر و تدبر کرے۔ مصنوعات کا مطالعہ اسے صانع تک پہنچا دے گا۔ ایک طالب صادق اس راہ میں اٹھاتا ہے اور کائنات خلقت کے مظاہر و آثار کا مطالعہ کرتا ہے تو سب سے پہلا اثر جو اس کے دل و دماغ پر طاری ہو گا وہ کیا ہو گا؟ وہ دیکھے گا کہ اس کا وجود اور اس کے وجود سے باہر کی ہر چیز ایک صانع حکیم اور مدیر قدیر کی کار فرمائیوں کی جلوہ گاہ ہے اور اس کی ربوبیت و رحمت کا ہاتھ ایک ایک ذرہ خلقت میں صاف نظر آ رہا ہے ؟

شک یا یقین کی راہ :

یہاں راہیں دو ہیں : ایک شک و گمان کی دوسری یقین و بصیرت کی۔ جو لوگ خدا اور آخرت کے منکر ہیں یا پرستش کی گمراہیوں میں پڑ گئے ہیں، ان کے
پاس انکار کے لیے کوئی بصیرت نہیں۔ زیادہ سے زیادہ بات جو وہ کہہ سکتے ہیں، میں ہے کہ “لا نگری” “ہم نہیں جانتے” ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں، ہم محسوسات کی سرحد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پس ان کی جگہ شک اور گمان کی ہوئی۔ لیکن جو انسان اعلان کرتا ہے کہ میں اس بارے میں علم و یقین رکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ حقیقت حال کیا ہے، اس کی جگہ یقین کی جگہ ۔ ہے، شک اور گمان کی اس پر پرچھائیں بھی نہیں پڑی۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کو کس طرف جانا چاہئے؟ اس کی طرف جو زیادہ سے زیادہ یہ جانتا ہے کہ کچھ نہیں جانتا، یا اس کی طرف جن کی پکار کی پہلی بات ہی یہ ہے کہ میرے پاس سر تا سر دلیل و یقین ہے ؟

الہامی ہدایت کی ناگزیریت :

ہم عالم غیب کے امور پر کیوں یقین رکھیں؟ کیوں انہیں بے چون و چرا تسلیم کر لیں؟ اس لئے کہ بغیر اس کے زندگی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا !

ہم وجدانی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ ہماری محسوسات کی سرحد سے آگے بھی کچھ ہونا چاہئے لیکن ہمیں علم و ادراک کے ذریعے کوئی یقینی بصیرت نہیں ملتی، اگر اس بارے میں یقین کی کوئی صدا ہے تو وہ صرف الہامی ہدایت کی صدا ہے۔ اگر ہم اس سے انکار کر دیں، تو پھر ہمارے پاس جهل و تاریکی کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا

ہم نے اس وقت تک علم و ادراک کے ذریعے اس بارے میں جو کچھ معلوم کیا ہے، اس میں کوئی یقینی بصیرت ایسی نہیں ہے، جو ان حقائق کے خلاف ہو۔
ہم نے یہاں یقینی بصیرت” کا لفظ اس لیے کہا کہ عالم غیب کے حقائق کے خلاف اس وقت تک جو کچھ کہا گیا ہے، وہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ یا تو عدم علم کا اعتراف ہے، جیسا کہ تمام حکمائے قدیم و جدید نے کیا یا پھر انکار ہے تو ۔ اس کی بنا تمام تر معنون و تخمینات ہیں، کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔ قرآن
کہتا ہے ، تم گمان و شک کا حربہ لے کر یقین اور بصیرت کا مقابلہ نہیں کر سکتے”۔

اللہ کا دین :

اللہ کا دین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس کے ٹھہرائے ہوئے قوانین فطرت کی اطاعت ہے اور آسمان و زمین میں جس قدر مخلوق ہے، سب قوانین الہی کی اطاعت ہے۔ پھر اگر تمہیں اللہ کے قانون فطرت سے انکار ہے تو اللہ کے قانون کے سوا کائنات ہستی میں اور کون سا قانون ہو سکتا ہے؟ کیا تمہیں اس راہ پر چلنے سے انکار ہے جس پر تمام کارخانہ جو ہستی چل رہا ہے ؟ ۱۲

تکوینی اور تشریعی اطاعت :

کائنات ہستی میں جس قدر مخلوق ہے، سب اللہ کے احکام و قوانین کے آگے جھکی ہوئی ہے۔ اجرام سماویہ سے لے کر درختوں اور پتھروں تک کوئی چیز نہیں جس کے لیے اس نے احکام و قوانین نہ ٹھہرا دیے ہوں، اور ان کے مطابق ان کی ہستی کا کارخانہ نہ چل رہا ہو۔ پھر اگر یہاں درخت کے ایک پتا اور پہاڑ کی ایک چٹان کے لیے بھی کسی کے ٹھہرائے ہوئے احکام ہیں تو کیا انسان کے لیے: نہیں ہوں گے جو کرہ ارض کے تمام سلسلۂ خلقت کا ما حصل اور تمام کارخانہ تخلیق و تکمیل کا آخرین مظہر ہے؟ اور اگر سب کی ہستی و بقا اس پر موقوف ہوئی که احکام حق کے آگے سر بسجود ہیں تو کیا انسان کی ہستی و سعادت کے لیے ایسا ہونا ضروری نہیں ۔۱۳
غبار خاطر، ص ۱۲۴

حوالہ جات

ترجمان القرآن ج ۲ ص ۱۸۱

ترجمان القرآن، ج ۱، ص ۴۹۴۴۹۳

غبار خاطر ص ۶۲

غبار خاطر ص ۶۵

ترجمان القرآن ج ۲ ص ۳۵۸

ترجمان القرآن، ج ۲، ص ۱۸۰۔

یو

ترجمان القرآن، ج ۲، ص ۳۲۳۔

ة الترجمان القرآن ج ۲ ص ۱۲۱

ترجمان القرآن، ج ۱، ص ۴۸۱

ترجمان القرآن ج ۱ ص ۳۳۸

۱۲۰

ترجمان القرآن ج ۱ ص ۳۵۹

۱۳

ترجمان القرآن ج ۱ ص ۵۰۷

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram