You are currently viewing حکمائے قدیم کا فلسفہ اخلاق
حکمائے قدیم کا فلسفہ اخلاق

حکمائے قدیم کا فلسفہ اخلاق

حکمائے قدیم کا فلسفہ اخلاق

بشیر احمد ڈار
دیباچہ
انسانی زندگی کا مطالعہ اگر محض حیاتیاتی نقطۂ نگاہ سے کیا جائے تو شاید اس کی زندگی کامیاب شمار کی جا سکتی ہے ۔ وہ دنیا کے ہر خطہ میں آباد ہو سکتا ہے اور اس کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔ اس کامیابی کا دارو مدار چند اکتسابی خصوصیات پر مبنی ہے جن کے باعث وہ دوسر اکثر حیوانات سے متمیز ہے مثلا قوت گویائی، آگ، زراعت، تحریر، اوزاروں کی دریافت اور سب سے زیادہ تعاون باہمی کا جذبہ ۔

یہ بھی پڑھ

فلسفہ اخلاق اور مختلف اخلاقی مکاتب

لیکن اگر اس آخر الذکر حیثیت سے انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کی کامیابی نہ صرف نامکمل ہے بلکہ جو کچھ اثباتی طور پر اس نے حاصل کیا ہے یعنی علم و تمدن کا بے مثال ذخیرہ اس کا وجود بھی سخت خطرے میں ہے۔ انسان کی داخلی زندگی میں دوسرے حیوانوں کی طرح نشانی خواہشات اور جذبات کا کافی عنصر موجود ہے جس نے اس کو ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے کافی مدد دی ہے۔ لیکن تجربے اور عقل سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان خواہشات کو کھلی چھٹی دیدی جائے تو ان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور جس چیز کے حصول کے لئے وہ مصروف تگ و دو ہیں وہ مقصود ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ تجربے سے یہ حقیقت انسان پر واضح ہو گئی کہ اگر وہ ان جذبات اور خواہشات کو قابو میں رکھے اور ان کے اظہار میں اعتدال برتے تو وہ صحیح اور حقیقی خوشی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ خواہشات اور عقل کے تقاضوں کے اس تضادسے ہی اخلاق کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔
انسان بے اندازہ جذباتی اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے معاملہ میں سر پھرا واقع ہوا ہے اور اسی بنا پر وہ خود اپنی ذات اور دوسروں پر بے اندازہ ظلم کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ لیکن ان تمام بے اعتدالیوں کے با وجود اور اور ان تمام نقصانات کے علی الرغم جذبات کا وجود انسانی زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔ انسانی زندگی کا المیہ نہیں سے شروع ہوتا ہے اور اسی تضاد کے باعث اس کو تمام مخلوق سے اشرف ہوئے اور خدا کا خلیفہ کہلانے کا استحقاق ملتا ہے۔

ضذبات

یہ جذبات بات انسانوں کے علاوہ دیگر حیوانوں میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان کے مقابلے پر انسانوں کے جذبات زیادہ پیچیدہ ہیں ۔ وہ چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرف پورے طور پر اجتماع پسند بھی نہیں اور نہ شیر اور چلیوں کی طرح مکمل طور پر تنہائی پسند واقع ہوا ہے۔ اس کے بعض جذبات اسے اجتماعیت کا دلدادہ بناتے ہیں اور بعض اسے انفرادیت کی طرف لے جاتے ہیں ۔ قید تنہائی سخت ترین سزا تصور کی جاتی ہے اور دوسری طرف گنجان آباد شہروں میں رہنے والوں میں سے اکثر لوگ بعض دفعہ تنہائی حاصل کرنے کیلئے دور دراز کا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں ایک ہی مکان کے مختلف فلیٹوں میں رہنے والے ایک دوسرے سے بالکل بے خبر زندگی پسر کرتے ہیں۔ بس میں سفر کرتے ہوئے لوگ بہت کم ایک دوسرے سے گفتگو کرنے پر مائل ہوتے ہیں اور ہر ایک اپنے حال میں مگن معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی غیر معمولی واقع پیش آجائے تو یہ تنہائی اور علیحد گی محبت اور تو یہ ہمدردی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسے واقعات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی۔

محمد محمد و و معاون ہیں۔ یہاں اخلاقیات کا کا کام یہ یہ ہےکہ ہے کہ وہ وہ صحیح اور اور غلط مقاصد اور اور – ان کے حصول کے جائزہ اور ناجائز ذرائع کے درمیان تمیز کر سکے۔ دنیا کے عظیم الشان مفکرین مصلحین اور پیغمبروں نے جو کوششیں کی ہیں وہ اسی روشنی میں سمجھی جا سکتی ہیں۔

یہ کتاب اسی مقصد کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ میں مکرمی سید محمد جعفر شاہ صاحب پھلواروی کا ممنون ہوں جنہوں نے مجھے اس کام کی طرف متوجہ کیا اور چین کے مشورے اور ہمت افزائی سے یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اسی طرح میں مولانا ابویحی امام خاں نوشہروی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے لئے ابن الندیم کی الفہرست سے اس حصہ کا اردو ترجمہ کیا جو مانی کے حالات اور اس کے فلسفۂ اخلاق سے متعلق ہے۔ ان دو بزرگوں کے علاوہ جین کتب سے میں نے استفادہ کیا ہے ان کا حوالہ کچھ حاشیوں میں اور کچھ کتاب کے آخر کتابیات میں درج ہے۔

بشیر احمد ڈار

حصؤل کتاب کے لئے یہاں کلک کریں

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply