غذا سے علاج کا انسائیکلوپیڈیا
غذا سے علاج کا انسائیکلوپیڈیا
غذا کیا ہے؟
اس کرہ زمین پر بسنے والی ہر مخلوق کو غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ غذا جسمانی بھی ہوتی ہے اور غذا روحانی بھی ہوتی ہے کیونکہ انسان اور دوسری ہر مخلوق جسم کے ساتھ :
روح بھی رکھتی ہے۔ اس کرہ ارض پر خواہ چرند ہوں یا پرندہ خواہ درندے ہوں یا انسان اور روحانی مخلوق جنات اور فرشتے ہوں۔ یا صحرا، خواہ درخت یا پودے ہوں یا ندی نالے ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق کہیں نہ کہیں سے اپنی ضرورت کے مطابق غذا حاصل کر رہا ہے۔ اگر اس کا ئناتی نظام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اکثر ایک کا فضلہ دوسرے کی غذا بن جاتا ہے۔
جس طرح جسم کو جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ آگ مٹی ہوا پانی سے تخلیق ہوتی ہے اسی طرح جسمانی وجود کے اندر روح بھی کام کرتی ہے چاہے وہ جسم کسی بھی مخلوق کا ہو کیونکہ اس کائنات کے اندر ہر چیز اپنی شکل و صورت رکھتی ہے اور اس شکل و صورت کو تخلیق کرتی ہے۔ اگر جسم کی غذا مادی وسائل ہیں تو روحانی غذا روحانی وسائل ہیں انسانی جسم جو کہ ایک مشین ہے۔ اس مشین کو چلانے کے لیے روزانہ کم از کم دو وقت کی غذا کی ضرورت پڑتی ہے اور انسانی روح کی غذاء اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ جس طرح انسان اپنی مادی غذا کے ساتھ اپنی روحانی غذا ذ کر کے ذریعے حاصل کرتا ہے جو کہ جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی طرح دوسری مخلوق بھی اپنی جسمانی غذا کے ساتھ اپنی روحانی غذا کے لیے ہمہ وقت اپنے خالق و مالک اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہے۔ اور اسی کی تسبیح کرتی ہے۔ جس نے اپنی خصوصی رحمت اور محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا۔
اللہ رب ہے یعنی پالنے والا ۔ رب کے معنی یہ ہیں کہ پیدا کر کے مخلوق کو جسمانی اور روحانی وسائل عطا کرنے والا۔ تو ہمیں چاہیے کہ ہم جب بھی جسمانی غذا حاصل کریں تو اس رب کریم کا ذکر کر کے روحانی غذا حاصل کریں۔ ہمیں اس کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں تو ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ خالی زبان سے یہ کہنا کہ یا اللہ تیرا شکر، یا اللہ تیرا شکر ہے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے شکر کا مطلب یہی استعمال ہے اگر روکھی سوکھی کھانا ہی زندگی کی معراج ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی تعداد میں زمین پر پھل، فروٹ، اناج پیدا کیوں کیے۔ اللہ تعالیٰ کی دوسری نعمتوں کے ساتھ ساتھ غذا ایک بے بہا نعمت ہے۔ لوگ غذا کو مختلف مقاصد کے لیے کھاتے ہیں۔ کوئی پیٹ بھرنے کے لیے کھاتا ہے کوئی توانائی بحال رکھنے کے لیے کھاتا ہے۔ کوئی پہلوان بننے کے لیے کھاتا ہے اور کوئی محض اس لیے کھاتا ہے کہ سانس چلتا رہے تا کہ وہ خالق کائنات کی عبادت کرنے کے قابل رہے۔
آخر الذکر بندوں کے دم قدم سے ہی اللہ تعالیٰ ہم جیسے لوگوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔
انہی نیک بندوں کے بارے میں حضور نبی کریم ملی الہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جن کی وجہ سے میں بارش برساتا ہوں اور زمین پر اناج اگا تا ہوں اور کھیتیوں کو اگاتا ہوں۔ اگر یہ میرے بندے میرے بھروسے پر کوئی قسم کھا لیں تو میں اپنے اوپر لازم کر لیتا ہوں کہ اسے پورا کروں۔“
ہر شخص نے زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کھانا ہے۔ اگر وہ چند Selected چیزیں کھائی جائیں تو جزو بدن بن کر جسم کو توانائی مہیا کر کے روز مرہ کی گوناگوں مصروفیات کے قابل بناتی ہیں اور اگر غذا بلا ضرورت محض عادت کے طور پر ٹھونسی جائے تو یہ توانائی کو ضائع کر کے جسم میں امراض کے لیے آماجگاہ بن جاتی ہے۔ غذا اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے کہ اس میں مختلف عوامل سے گزر کر خون بن جانے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ غذا کے طور پر ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں۔ وہ معدہ میں جاتے ہی ہضم کے مختلف مراحل سے گزر کر خون بن جاتی ہے اور اس کا کچھ حصہ براہ بول و براز بطور فضلہ خارج ہو جاتا ہے ہم جیسی غذا کھا ئیں گے یقینا ویسا ہی خون بنائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اعلیٰ اور متوازن غذا کون سی ہوگی؟ اگر میں اس لفظ اعلیٰ اور متوازن کو اس مضمون کا عنوان بنا دوں تو یہ درست اور قرین قیاس لگتا ہے۔
اعلیٰ غذا
اسے کہتے ہیں جو دیکھتے ہی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے منہ سے رال ٹپکا دے۔ رال ٹپکانا ایک محاورہ ہے۔ اصل میں اس کا طبی معنی یہ ہوگا کہ جو غذا دیکھنے کو بھی بھلی لگے اس کی خوشبو دل و دماغ کو مسرور کر دے اور شوق پیدا کر دے کہ فوراً اس پر ہاتھ
صاف کر دیا جائے۔ ایسی غذا کو دیکھتے ہیں بلکہ اس کے تصور سے ہی منہ میں ایک قسم کا پانی بھر آتا ہے۔ اسے ہی رال ٹپکنے کے محاورہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
حالانکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جن لوگوں میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے میرے نزدیک ان کا نظام ہضم بہترین ہوتا ہے اور جس کا نظام ہضم بہترین ہوگا اس کی صحت بھی یقینا بہتر ہوگی۔ لہذا اعلیٰ غذا اسے کہیں گے جسے دیکھنے، سونگھنے اور
کھانے سے آتش شکم مزید بھڑک اٹھے۔
تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے کہ مثلاً کڑاہی گوشت پکا ہوا ہے اور اسے خاتونِ خانہ نے روٹی کے اوپر ویسے ہی ڈال دیا ہے اور روٹی بھی زیادہ پکنے کی وجہ سے جلی ہوئی ہے تو کیا اس غذا کو اعلیٰ کہا جائے گا؟ اسے کھانے کو دل چاہے گا ؟
اس کی نسبت یہی کڑاہی گوشت ایک بہترین پلیٹ میں رکھا جائے اور اس کے ساتھ سلاد ہو، وہی ہو، سبز دھنیا اور اناردانہ کی چٹنی رکھی ہو روٹیاں بہترین کچی ہوئی ہوں اور ہاٹ پاٹ میں محفوظ کر دی گئی ہوں، صاف ستھرے گلاس میں پانی رکھا ہو تو کیا ا خیال ہے اس نفاست پر دل پھڑک نہ اٹھے گا۔ اور جس شخص نے ایک روٹی کھانی ہو وہ بھی یقینا دو تین پر ہاتھ صاف کرے گا۔ ایک ہی غذا دو مختلف انداز میں پیش کی گئی ہے۔ لیکن کھانے والا ثانی الذکر کو رغبت سے کھائے گا اور یہی اعلیٰ غذا کہلانے کی حق دار ہے۔ اس کے ساتھ چٹنی ہے اور اس کے ساتھ ہی پھل رکھ دیے گئے ہیں بھوک بھی بہت لگی ہوئی ہے۔ تو بھی انھیں دیکھ کر اس غذا پر ٹوٹ پڑنے کو دل چاہے گا اس جملہ میں ایک فقرہ آیا ہے کہ بھوک لگی ہوئی ہو اصل یہی ایک فقرہ ہے جو اس چٹنی کو بھی اعلیٰ لگی غذا کہنے پر مجبور کر رہا ہے۔ لہذا بھوک کا لگا ہوا ہونا ضروری ہے بھوک بالکل نہیں ہے لیکن کھانے کی عادت پوری کرنے کے لیے کھایا جائے تو یہ مرض پیدا کرنے کا موجب
اس لیے صادق یعنی کچی بھوک بھی غذا کو اعلیٰ بنا دیتی ہے۔ اعلیٰ غذا وہی ہے جو دیکھنے، سونگھنے، کھانے ، بھوک کو مٹانے جسم کو چاک و چو بند کرنے ، جلد ہضم ہونے کی اور بدل ما تحلیل مہیا کرنے کی قوت رکھتی ہو۔
متوازن غذا
متوازن غذا ایسی غذا کو کہتے ہیں جس میں جلد ہضم کی قوت موجود ہو اور کھانے کے بعد طبیعت پر گرانی پیدا نہ ہو۔ بلکہ طبیعت کو ہشاش بشاش کر دے۔ جسم توانائی اور فرحت محسوس کرے اور چار، چھے گھنٹے بعد پھر بھوک سے بے چین کر دے؛ رنگ و روپ کو کھلا دے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو غذا زود ہضم ہو متوازن غذا کہلانے کی حق دار ہے۔ متوازن غذا کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ ایسی غذا جو تندرستی کی محافظ ہو اور جسم کے ہر حیوانی سیل کو طاقت و توانائی دے۔ ہے۔
تندرستی کیا ہے؟ مکمل جسمانی، دینی، روحانی اور معاشرتی آسودگی کا نام تندرستی
علم غذا ایک فن ہے
آج تک جتنے بھی طریقہ ہائے علاج رائج ہوئے کسی نے بھی تجویز غذا کو اہمیت نہیں دی بلکہ جب کبھی مریض اتفاقاً معالج سے پوچھ بیٹھے کہ غذا میں پر ہیز وغیرہ بتا ئیں تو اسے یہ کہا جاتا ہے کہ تلی ہوئی اور دیر ہضم چیزوں سے پر ہیز کریں اور نرم غذائیں استعمال کرو۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر مریض کو نرم اور دیر ہضم غذاؤں کا علم ہو تو اسے معالج سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ میرے علم اور مشاہدے میں ہے کہ معالج حضرات ایک ہی قسم کا برسوں سے
گھسا پٹا جملہ استعمال کرتے آرہے ہیں کہ گڑ تیل اور کھٹائی سے پر ہیز کرو باقی جو مرضی
کھاؤ، اب سوچنے والی بات یہ کہ کیا یہ گر تیل کا دور ہے؟ یہ تو چینی گھی کا دور ہے۔ اصل میں معالج کو خود علم نہیں ہوتا کہ دی جانے والی دوا کا مزاج کیا ہے اور اگر اس دوا کے ساتھ اسی مزاج کی غذا بھی تجویز کر دی جائے تو علاج کی رفتار تیز اور یقینی ہو جائے گی۔ بس یہیں سے جوع الحجربات کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے حالانکہ ایک ہی مجرب نسخہ بہت سے مریضوں کے ایک ہی مرض میں شفا بخش اثرات کا حامل نہیں ہوتا ، ہر شخص کا مزاج و اطوار اللہ تبارک و تعالٰی نے الگ الگ قائم کر دیے ہیں اسی کے مطابق اس کی علامات امراض ہیں۔ ایک مثال ہے کہ کئی مریض یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حکیم صاحب دودھ پینے سے بھی قبض ہو جاتا ہے کوئی کہتا ہے کہ دودھ پینے سے بھی دست آنے لگتے ہیں ایسا کیوں ہے حالانکہ دودھ ایک مکمل غذا ہے یہ صرف تجویز کرنے والے کی غلطی ہے کہ اس نے مریض کے مزاج پر اس کی نبض دیکھ کر اس کے خون کی قوت پر غور نہیں کیا اور
دودھ کو ایک مکمل غذا سمجھ کر تجویز کر دیا۔
غذا کیا ہے؟
غذا چند ایسے لطیف و کثیف اجزا ہیں جن میں لطیف اجزا اپنی لطافت کی وجہ سے فوراً خون میں شامل ہو کر جسم و جان کو قوت و تسکین پہنچاتے ہیں اور کثیف اجزا معدے میں پہنچ کر ہضم و جذب کے مراحل سے گزر کر خون و خلط بن کر اپنے مماثل عضو کی صحت و مرض کے ضامن بن جاتے ہیں۔ معیاری غذا میں مندرجہ ذیل بنیادی اجزا پائے جانے چاہئیں: پروٹین، چکنائی، معدنی نمک، پانی، حیاتین، فضلات جسم کا اخراج
ا۔ پروٹین
یہ ایک لیس دار مادہ ہوتا ہے۔
-۲۔ کاربوہائیڈریٹس
19….
یہ کاربن ، ہائیڈروجن اور آکسیجن سے ترکیب ہوتے ہیں ان میں کاربن اور ہائیڈروجن کے اجزا زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے انھیں کاربوہائیڈریٹس کہتے ہیں۔
۲۔ چکنائی
:
یہ بھی کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ یہ خوراک کا ایک اہم حصہ ہے اور جسم میں حرارت اور قوت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
- معدنی نمک
ہمارے جسم میں بہت سے نمک پائے جاتے ہیں جیسے کیلشیم، کھانے کا نمک، سوڈیم کلورائیڈ مینیشیم ، گندھک، آئیوڈین وغیرہ۔
۵۔ پانی
آکسیجن کے بعد پانی بھی ہماری زندگی کے لیے بہت ضروری ہے اور یہ ہمارے جسم میں ہی تقریباً ستر 70 فیصد پایا جاتا ہے۔ پانی ہاضمہ میں مدد دیتا ہے اور ہضم شدہ خوراک کو تحلیل کرتا ہے۔ ہماری خوراک کا بیش تر حصہ اس کے رقیق ہونے کی وجہ سے جزو بدن بنتا ہے۔ اس کے علاوہ خون میں بھی 70 فیصد پانی کی مقدار ہوتی ہے۔
۶۔ حیاتین
لفظ حیاتین حیات (زندگی) سے منسوب ہے۔ حیاتین مخصوص کیمیاوی مرکبات ہوتے ہیں یہ قدرتی ہوں یا مصنوعی، یکساں مفید ہوتے ہیں۔ وٹامن کا نام سب سے پہلے مشہور ماہر غذا ڈاکٹر فنک نے 1914ء میں استعمال کیا تھا۔ تب سے اب تک یہی نام چل رہا ہے۔ یوں تو غذا کے اوپر اگر مکمل طور پر لکھا جائے تو ایک پوری کتاب الگ سے بن جائے چونکہ کتاب غذا سے علاج کا انسائیکلو پیڈیا ” مرتبہ جناب احتشام الحق قریشی کو پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ کتاب از سر نو مرتب اور شائع ہو رہی ہے جس کی نظر ثانی اس ناچیز نے کی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک مکمل اور معیاری کتاب ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد غذا کیا ہے؟، اس کا انسانی جسم میں کیا رول ہے؟ اور کون کون سی غذا انسانی جسم کے لیے مفید کون سی غذا مضر صحت ہے اور ان غذاؤں میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں، جن نباتاتی غذاء حیواناتی غذا معد نیاتی غذا کے متعلق مصنف ہذا نے اپنی پوری دیانتداری سے کام لیتے ہوئے چیزوں کے خواص، خوراک کے خواص پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ جس کے پڑھنے کے بعد ایک عام قاری اور خاص کر اطبا حضرات کے لیے یہ کتاب ایک دُر نایاب ہے اس کتاب میں جا بجا نسخہ جات اور مفردات پر بھی بات کی گئی ہے کہ یہ غذا یا خوراک چاہے وہ نباتات سے ہو، چرند پرند سے ہو، حیوانی ہو، معدنی ہو اس کے جسم پر کیا اثرات ہیں اور یا کیلے غذا یا کوئی بھی حصہ انسان کے کسی جسم کے کس آرگن کے لیے فائدہ مند ہے۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ واقعی اس کتاب کی ہمارے عوام و خواص کو انتہائی ضرورت ہے کیوں کہ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے بعد ایک عام شہری کی جیب ہر ماہ سے میں تاریخ سیک خالی ہو چکی ہوتی ۔غذا سے علاج کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اگر خدانخواستہ اسے اس کے بچوں کو اچانک کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑ جائے تو وہ یقینا یہ اس کے لیے ایک آزمائشی مرحلہ ہوگا۔
اب کیا کرے اس دور میں سفید پوشی کا بھرم صرف اللہ تعالیٰ ہی رکھ سکتا ہے۔ اور کسی کی مجال نہیں !!
جیب خالی ہے بچے کو دوا بھی لے کر دینی ہے۔ پیسے بھی نہیں ہے کسی سے مانگتے ہوئے بھی شرم آڑے آتی ہے۔
کچھ حالات بھی ایسے ہیں کہ کوئی دیتا بھی نہیں ہے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ میرے جیسے بہت سے عام و خاص لوگ اور عوام اور اطبا حضرات کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔ اس میں غذا کی ضرورت اور اہمیت و تجویز اور غذاؤں کے مزاج و نفع پر سیر حاصل معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس کتاب سے ہر کوئی اپنی کسی جسمانی مسئلے کا حل خود سے کتاب میں پڑھنے کے بعد کر سکتا ہے۔ ادارہ بک کارنر جہلم ہیلتھ سیریز میں ایسی ہی مفید کتابیں شائع کرتا جا رہا ہے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امید ہے کہ عوام الناس میں باقی کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی مقبولیت کا درجہ حاصل کرے گی۔ ان شاء اللہ العزیز !
L والسلام
بندہ ناچیز
ہومیوڈاکٹر و حکیم تنویر حسین عظیمی ۔ڈی۔ ایچ۔ ایم ایس ،ایف ٹی ہے، فاضل طب والجراحت
ماہر غذا و فاضل نظریہ مفرد اعضا، ماہر کلر تھراپسٹ ، سپر پچوٹل تھراپسٹ
ما ہر مراقبہ ٹیکنالوجی اینڈ مراقبہ سے علاج جہلم - لنک ڈائون لورڈ