محرم الحراماور ہماری ذمہ داریاں ۔
از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
اسلامی سال نو 1446ھجری سایہ فگن ہوچکا ہے۔محرم الحرام کوتاریخی لحاظ سے اہمیت دی جاتی ہے اور مورخین نے محرم الحرام میں رونما ہونے والے واقعات کی لمبی چوڑی فہرست گنوائی ہے۔اور زور قلم کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ محرم الحرام کے عشرہ اول کی اہمیت سال بھر کے ایا م سے کہیں بڑھ کرہے۔
دوواقعات اسلامی تاریخ میں نمایاں طورپر اجاگر کئے جاتے ہیں جب کہ اسلامی تاریخ کا ہر دن شہادتوں سے لبریز ہے۔ دو طبقات اسے اپنے مسلکی ومذہبی انداز میں پیش کرکے اندرونی جذبات مذہبی کو تسکین دینے کا سامان تلاش کرتے ہیں۔
یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان جذباتی طورپر نیکیوں کی اپنے انداز میں تشریح کے عادی ہیں ۔نیکیوں کا جو خاکہ کسی مسلک یا مذہب کے رکھوالوں نے پیش کردیا ہے ۔دین السام کو اسی پیٹرن میں سمجھنے اور منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
(1)پہلا واقعات سیدنا فاروق اعظم عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا خونچکاں واقعہ ہے جو پیش تو ذی الحجہ کے آخری ایام میں آیا۔لیکن شہادت یکم محرم الحرام۔اسلامی دور نبوت کے دولت اسلامیہ کے ایک دو سال۔اڑھائی سالہ دور صدیقی۔کے بعد خلافت عمری عجموبہ عالم میں اضافہ تھا،صفحات عالم پر ایک تاریخی دور کا آغاز تھا ضروری نہیں کہ جو چیز ایک کے لئے خوشی کا سبب ہو اس کے احساسات سب کے لئے یکساں ہوں ۔طلوع سحر رات کی تاریکی میں ٹہلنے والے حشرات کے لئے بھاری ہوتا ہے۔یہی کچھ نظام ہائے کہن کے ساتھ ہوا تھا۔اندھیروں کے نقیبوں نے مشعک بردار کو راستہ سے ہٹانے کو کامیابی سمجھا حالانکہ جس نور سے خظہ ارضی چگمگانے لگا تھا ۔وہ شخصیات کے پس پردہ جانے سے پجھنے والا نہ تھا۔البتہ انتظامی ونفسیاتی طورپر مسلمانوں کے لئے شہادت فاروق اعظم بہت بڑا صدمہ تھا۔اس صدمہ کی لہریں صدیوں بعد بھی محسوس کی جاتی ہیں۔
(2)شہادت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت اور اہلبیت اطہار کے ساتھ حکومت وقت کا برتائو تھا۔واقعہ کربلا کو لوگوں نے اپنے اپنے نظریات اور ذہنی رجحانات کے مطابق لکھا ہے۔اس واقعہ عظیمہ کو اپنے افکار و ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور اس پر اس انداز کی ملمع کاری کی گئی کہ حقائق تلاش کرنا اتنا ہی مشکل ہوگیا جنتا کہ افکار حسین کو تلاش کرنا ۔
کربلا اور شہادت عمر میں ایک بات تو مشترکہ ہے کہ اسلام کی روشنی سے جس قدر کھلم کھلا کفریہ نظریات کا ایک کردار ہے اسی طرح شہادت حسین میں بھی ان کا بھرپور کردار ہے۔اصل بات کو اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو کم کرنا تھا ۔شہادت عمر کے ذمہ دار بھی اس تکلیف میں مبتلا تھے کہ فلسفہ اسلام گار لوگوں کی سمجھ میں آگیا تو نظام کہن کے لئے موت کا پیغام ہوگا۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خطبات و اقوال کی روشنی میں دیکھا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ حسین اپنے نانا کے افکار و نظریات کی حفاظت چاہتے تھے۔اسلام کا خاصۃ ہے جہاں اس کے ماننے والے اخلاص و یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے وہاں ایک نظام حکومت بھی قام ہوگا ۔حکومت کے لوازمات ایسے ٹیڑھی ہوتے ہین اگر فطری قوانین کو نظر انداز کردیا جائے تو بہنے اور عیش عشرت میں مبتلا ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔یہی بات واقعہ کربلا کا سبب بنی ۔
جولوگ صرف عبادات کے بل بوتے پر اسلامی نظام حکومت اور اس کے لوازمات کو سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں شاہد ان کی تعبیرات خود وضاحت کی محتاج ہیں۔
ان دونوں تاریخی واقعات کو مسلمانوں نے اپنے اپنے انداز میں سیاسی و ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی جرائت کی ہے۔اور ان واقعات کے اسباب و علل اور پیدا ہونے والے اثرات کو ذاتی و مسلکی دھندلکے میں گم کردیا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ شہادت عمر کے عمل برداروں میں کونسی وہ بات موجود ہے جو عمر کی شہادت کا سبب بنی ہو اور ماننے والوں نے اپنائی ہو؟،،،
حضرت عمر انصاف اور انصاف کی فراہمی کا انتظام مثالی تھا ۔کیا اس کے ماننے والے اس کی جدو جہد میں مصروف ہیں ؟۔اس کی تمنا رکھتے ہیں؟۔یا زندگی میں اس کے نفاذ کے متمنی ہیں؟۔۔معاملات کرکے دیکھ لیں علمبرداروں کی زندگی ان باتوں سے بھرپور ہے جنہیں مٹاتے مٹاتے سیدنا عمر اس جہان فانی سے چلے گئے۔
یہی حال سیدنا حسین اور اہلبیت کی عظیم قربانیوں کا بھی ہے کہ محرم الحرام کو ایک علامت اور مفادات کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔کون ہے جو ان باتوں کے قیام کی جدو جہد کرتا ہو جن کی خاطر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے پورے گھرانوں کوپیالہ شہادت پلایا۔لیکن نظریات افکار کو نہ چھوڑا۔
بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اسلام یا شہادت عمر و حسین سے کوئی خاص لگائو نہیں ہے البتہ ان کے نام پر طبقاتی تقسیم سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کا تحفظ عزیز ہے۔ کیونکہ شہادت عمر یا واقعہ کربلا اتفاقی حادات نہ تھے۔بلکہ افکار کا تسلسل تھا۔ اس وقت بھی مفادات عزیز تھے۔آج بھی مفادات عزیز ہیں ۔
عمر کے علم بردار وہ نظام حیات چاہتے ہیں جو عمر چاہتے تھے۔نہ ہی حسین کا جھنڈا لہرانے والوں کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ حسین کیا چاہتے تھے؟۔کیونکہ کو افعال و کردفار اور ہنگامہ آرائی ان کے ناموں سے منسوب کی جاتی ہے ان کی سیرت اور ان کی زندگی پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرلیں کسی ایک واقعہ کی بھی تصدیق نہ ہوسکے گی؟
اگر فاروق و حسین کی زندگیوں کو لائحہ کے طورپر ان کے متبعین اپنالیں تو محرم الحرام کے عشرہ اول میں ہونے والی سراسیمگی اور کثیر مصارف سے بچا جاسکتا ہے