دشمن کو جھکانے کا تیر بہدف عمل۔
از
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
Table of Contents
انسانی زندگی میں بہت سے مقامات ایسے آتے ہیں جب خواہش ابھرتی ہے کہ اگر فلاں مخالف /دوست/دشمن/رشتہ دار اگر معافی مانگ لے۔یا ہماری بات تسلیم کرلے تو ۔حالات خواشگوار ہوسکتے ہیں۔ایک بہتر تعلقات کی شروع ہوسکتی ہے۔زندگی میں بہت سے مواقع ایسے ہوتے ہیں جن انسانی ذہن الجھا ہوا ہوتا ہے۔مخاطب کچھ اور سوچتا ہے لیکن دوسرے لوگ اسے سمجھ نہیں پاتے یا موقع کی مناسبت سے کوئی خاص توجیح پیش نہیں کرسکتے۔
انسانی مزاج پیچیدہ ترین دنیا ہے اسے سمجھنا بھی ایک فن ہے،اس پربہت کچھ لکھا گیا بہت کچھ بولا گیا۔لیکن اس کی گتھی سلجھنے میں نہ آئی۔
آج جو عمل پیش کرنے جارہے ہیں یہ سالوں سے معمولات میں شامل ہے۔اور بے شمار افراد ۔شاگردوں اور متعلقین کو بتا چکا ہوں۔اس عمل سے کسی کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے یہ اس کی توجہ یکسوئی۔ارتکاز۔
اور توفیق ایزدی پر منحصر ہے۔
اعمال بنیادی طورپر وہ اوزار یا ٹولز ہوتے ہیں جن کی مدد سے کوئی کام کیا جاتا ہے۔جیسے ایک مکینک/مستری۔یا ضرورت مند کسی اوزار سے کام لیتا ہے۔ضروری نہیں کہ وہ کام اسی اوزار سے لیا جائے۔ماہر فن کسی بھی متعلقہ یا ملتی جلتی چیز سے وہ کام لے سکتا ہے۔
یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک مسافر کو اپنی منزل پر پہنچنا ہے۔،ضروری نہیں کہ وہ صرف مہنگی یا اعلی ترین سواری پر سوار ہوکر جانب منزل روانہ ہو۔مقصد سورای نہیں ہوتی،بلکہ منزل پر پہنچنا ہوتا ہے۔ایک تجربہ کار اپنا تجربہیوں بیان کرتا ہے کہ میں لاہور سے اسلام آباد گیا ۔ریلوے کا سفر چار گھنٹے میں طے ہوا۔دوسرا مسافر کہتا ہےمیں پبلک بس میں ضی ٹی رود سے اسلام آباد گیا تو پانچ گھنٹے لگے۔تیسرا کہتا ہے میں موٹر سائیکل پر اسلام آبادگیا۔سات گھنٹوں میں سفر طے کیا۔ایک آدمی کہتا
ہے میں نے لینڈ کروزر پر سفر کیا اڑھائی گھنٹے میں جا پہنچا۔۔
یہسب اپنے اپنے تجربات سچ بیان کررہے ہیں۔کسی کے تجربہ جھٹلانے کی جرائت نہیں کی جاسکتی ۔اصل بات یہ ہے کہ لاہور سے اسلام آباد کا سفر طے کرکے منزل مقصود تک پہنچنے پر سب کو کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔اصل منزل تک رسائی تھی جس نے بھی حاصل کی جس ذریعہ سے بھی کی۔معنی نہیں رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے۔۔میرے عملیاتی مجربات۔۔۔
اسی طرح علاج و معالجہ یا ضرورت کے تحت کسی دوا یا چلہ وظیفہ ۔تسبیحات وغیرہ کو ایک تولز کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔مشاہدہ کرنے والے اپنے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک ہی کام کے لئے بے شمار قسم کے عملیات کتب میں لکھے ہوئے ہیں۔اپنی سہولت اور انتخاب کے وقت کسی کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
حکماء و عاملین کا طرز عمل۔
اس وقت حکماء عاملین نے منزل نے نسخہ و اعمال کو اصل قرار دے کر ساری توجہ اسی طرف منذول کردی ہے۔یعنی نسخوں اورع اعمال کو اصل قرار دےدیا ہے۔جب کہ نسخہ جات و اعمال ایک سواری تھے۔ایک ٹول کے طورپر استعمال ہونے چاہئے تھے۔
یہ عمل بھی ایک ٹول کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ یہ انسان کو بروقت ضرورت کے قریب تر کردینے کا سبب ہے۔اگر یکسوئی اور ارتکاز توجہ سے کیا جائے تو اس کے اثرات آنا فانا ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں اتے تو دیگر بہت سے عوامل بھی کار فرما ہوسکتے ہیں۔
عملیات ایک فن ہیں۔
عملیات بھی دیگر علوم و فنون کی طرح ایک فن ہیں ان کا عبادات۔اعتقادات۔یا کسی طبقہ و گروہ بندی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ان قواعد و ضوابط اور اعملا کی ضروریات کو جو بھی پورا کرلے اس کے لئے اثرات نمایاں ہوجاتے ہیں۔قانون قدرت ہے جب ایک عمل ہوتا ہے تو رد عمل کے طورپر نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں عملیات بھی ایک عمل ہیں ان کے اثرات بھی نمودار ہوتے ہیں۔
عمل یہ ہے۔
آپ جہاں بھی ہوں جس حالت میں بھی ہوں۔یہ عمل کرسکتے ہیں ۔ایک سے دو منٹ کا عمل ہے۔آرام دہ حآلت میں بیٹھیں۔التحیات کی صورت ہو یا آلتی پالتی مار کر بیٹھیں ۔آنکھیں بند کرلیں۔توجہ کام پر مرکوز کریں۔ایسی گہری توجہ کہ ذہن میں کام کے علاوہ کوئی دوسرا خیال نہ آئے۔یہ کیفیت اگر ایک سو دو منٹ قائم رکھنے میں کامیابی مل گئی تو عمل میں کامیابی لازمی ملے گی۔
جو بھی کا م ہو اسے مجسم تصورکریں۔اگر کوئی دشمن یا مخالف ہو تو اس کی شکل صورت سامنے لائیں محسوس کریں کہ وہ الٹآ لٹک کر آپ سے معافی مانگ رہا ہے۔آپ یہ دعا ایک بار پڑھیں۔اور زمین پر ایک مکہ ماریں۔اور تصور کریں کہ یہ مکہ(گھسن)مخالف کے دماغ پر مار رہا ہوں۔
اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِک مِنْ شُرُوْرِهِمْ
ترجمہ:اے اللہ! بے شک ہم تجھے ان(دشمنوں) کے مقابلے میں لاتے ہیں اور ان (دشمنوں) کے شرور سے تیری پناہ مانگے ہیں۔“
اکتالیس مرتبہ(41 بار)پڑھنا ہے۔اکتالیس بار ہی مکہ ماریں۔۔عمل پورا ہوا۔آخر میں ایک گہرا سانس لیں ۔ اور پھومک ماریں کہ ایک روشنی آپ کے سانس کے ساتھ نکلی ہے اور اس نے مخالف کو مکمل نہلا دیا ہے،یعنی آپ کی پھونک سے کو روشنی نکلی ہے اس نے مخالف کو مکمل طورپر ڈھانپ لیا ہے۔آپ جو چاہتے ہیں وہ تصور میں اپنی زبان سے کہہ دیں۔عمل مکمل ہوا ۔آنکھیں کھول دیں ۔۔یقین کریں کہ جو کہا ہے یہ حقیقت ہے۔اپنے کام پر مکمل یقین کریں۔تذبذب۔بے یقینی۔شک و ریب کو دخل نہ ہو۔۔نتائج دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔۔۔
نوٹ۔
مبتدی۔اجنبی۔یا جنہیں سمجھ میں نہ آئے وہ ہمیں ای میل کرسکتے ہیں ۔وٹس ایپ۔فون۔پر رہنمائی لے سکتے ہیں