کیمیاگر۔۔
(ملاحظہ)
یہ کتاب سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ/سعد ورچوےل سکلز پاکستان کے پروجیکٹ۔(۔۔نایاب کتب کا حصول ۔۔۔تحت ری کمپوزکرکے شائع کی جارہی ہے۔۔کوئی بھی اس کی ماسٹر کاپی200 روپے میں PDF.۔ورڈ،انپیج3۔فارمیٹ میں حاصل کرسکتا ہے)
غیبی مدد
وجہ تالیف۔۔۔
یہ ایک حُسن اتفاق ہے کہ مجھے بچپن ہی سے فن صنعت کے ماہرین یا کم از کم شائقین کی مجالس میں حاضری کا اتفاق رہا . اور سفید و زرو اور شمس و قمر کے اعمال اور قصائص سے میرے کان آشنا رہے ۔ میرے ابتدائی نظم کے اُستاد قاضی عطا محی الدین صاحب مرحوم ہمیشہ اپنے صحرائی ہی سے بنوایا کرتے تھے ۔ اور فرمایا کرتے کہ بیٹا گھبرانا نہیں ۔ ان سب تکلیفوں کا ایک دم ہی صلہ مل جائیگا کسی سے ذکر نہ کرنا، یہ سونا بنیگا سونا !ور نہ جوڑا تو کہیں گیا ہی نہیں
۔ اسی طرح اکثر ورسوں میں حافظ خان محمد صاحب کیمبلپوری کے آئے دن اذکار گوش گزار ہوتے رہتے کہ حافظ صاحب کو قمر اور شمس
دونوں تک رسائی ہے ۔ اور یہ دولت انہیں بغیر حیل و حجت جبکہ وہ ملتان کی ایک غیر آباد مسجد کے محراب میں تھکے ماند ہے اور بھو کے لیٹے ہوئے تھے تو باہر دالان میں دو مختلف سیاح آئے اکٹھے ہوئے اور اُن دونوں کا جب باہمی تبادلہ خیالات ہوا تو حافظ صاحب سب سنتے رہے ۔ اور اُن دونوں کو یہ علم نہیں کہ کوئی غیر بھی ہماری باتیں سُن رہا ہے ۔ ان سیاحوں میں ایک صاحب چاندی بنانے کے ماہر تھے ۔ اور دوسرے سونا بنانے کے ماہر تھے۔ ہر دو کو کمی پوری کرنے کا اشتیاق تھا۔
اب خدا کی شان انہوں نے ایک دوسرے کو بتلانا شروع کیا ۔ اور یہ دونوں کامل نسخے حافظ جی کو بھی حفظ ہو گئے چنانچہ وہ مال تیار کر کے فروخت کرتے اور طلبا اور مدرسین و دیگر محتاجوں کو قرض دیتے رہتے۔ جس جگہ دیکھتے کہ مقر وضان زیادہ ہو گئے ہیں وہاں سے چل دیتے خود ہمیشہ روزہ سے رہتے ۔ خیر اسی طرح مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ نئی شواہد و حقائق کا مطالعہ ہوتا رہا اسی اثنا میں قیام دہلی کا اتفاق ہوا ۔ محترم سید ظہور احمد صاحب وحشی کے پڑوس کا شرف حاصل ہوا وہ بھی اس فن کے بیحد ولدادہ تھے کبھی تانبہ لاظل کرتے کبھی ہڑتال اور گندھک کو قائم کرتے ۔
سید صاحب کی شخصیت
سید صاحب ادبی دنیا میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے ۔ علم وفضل میں بھی کمال حاصل تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ علماء شعراء ادباء ہر طبقہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ۔ دھلی میں بفضلہ عاشقان کیمیا کی بہتات ہے۔ اس لئے اس طبقہ کے اکثر ما ہرین بھی ان کی محفل کے زینت رہتے ۔ نیز اسی زمانہ میں استاذی حکیم عبد الرحمن صبا کے متعلق بھی دہلی میں عام چر چا تھا ۔ کہ فن کیمیا میں صرف وہی ایسے شخص ہیں جو مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ بحمد اللہ کہ مجھے حکیم صاحب کی شاگردی کا فخر حاصل تھا. اور مجھے حقیر پر ان کی خاص نظر عنایت تھی۔ اور اپنے فرزند سے زیادہ شفقت رکھتے تھے غرض کہ بہ فنی صحبتیں قدم قدم پر میری رہنمائی کرتی رہیں ۔
قیمتی بیاض کی اشاعت
اسی طرح قیام بمبئی کے زمانہ میں اجمل میگزین میں کیمیا گر کی بیاض کے عنوان کے تحت میں میری طرف سے اکثر فنی نوادرات شائع ہوتے رہے ۔
چنانچہ ان تاثرات کے پیش نظر بہت سے ماہرین فن نے اپنی ساری زندگی کے حاصل کر وہ تجربات بے کم و کاست میرے حوالے کر دئے انہی ایام میں حکیم مولوی کریم الدین صاحب حیدر آبادی نے اکسیر شنگرف کا وہ نسخہ عنایت فرمایا جو نہ صرف اکسیر کا یا کے خواص کا مالک تھا بلکہ اکسر ما یہ میں ہی حملان شمسی کے لئے اکسیر تھا ۔ اور حکیم صاحب کا ذریعہ معاش بھی یہی نسخہ تھا ۔ مگر حسب عادت میں نے وہ نسخہ بھی اجمل میگزین میں حکیم صاحب کے عطیہ کے نام سے شائع کر دیا
جس پر وہ سخت ناراض ہوئے اور مجھے نا قدر شناسی کے لقب سے خطاب فرمایا ۔ میری غرض ان واقعات سے صرف یہ ہے ۔ کہ آپ حضرات کو اپنی مختصر روئیداد سے کچھ نہ کچھ واقف کرتے ہوئے یہ واضح کر دوں کہ میں اس معاملہ میں نہایت خوش نصیب واقع ہوا ہوں کہ ماہرین فن کی خدمت کا ہمیشہ شرف حاصل رہا ۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ان حقیر آنکھوں نے بارہا وہ مناظر بھی دیکھے جن کے لئے ہمارے لاکھوں بھائیوں کی نظریں مشتاق رہتی ہیں۔
ہماری آنکھوں نے بھی تماشے عجب عجب انتخاب دیکھے
زمیں پر شمس و قمر بھی دیکھے ۔ گداز عقرب ! عقاب دیکھے
بہ ایںہمہ میری یہ بد قسمتی سمجھئے یا بد ذوقی – کہ میں نے اس فن شریف کو اپنی حقیر مزدوری پر کبھی ترجیح نہیں دی۔ البتہ معالجات کی اکسیرات کے لئے میں سب سے بڑا مہوس ہوں ۔ یہاں جس کے ہاں بھی میں نےکوئی کامیاب نسخہ سنا ۔ اور جس طرح سے بھی وہ حاصل ہوسکا
اُسے حاصل کر کے چھوڑا ، نسخہ جس قدر مشکل زحمت طلب یا زیادہ سے زیادہ خرچ والا ہو. اس کی تکمیل میں کبھی کو تا ہی نہیں کی جاتی ۔ غرض کہ اسی جدوجہد میں عمر کٹتی جا رہی ہے. چنانچہ گذشتہ سال اجمیر شریف میں دو ہفتہ قیام کا اتفاق ہوا۔ ایک دن صبح سویرے صندلی مسجد میں نمار سے فارغ ہوا تو دیکھا کہ شمالی طرف ایک صاحب تشریف فرما ہیں۔ اور لوگ ان کے ہاتھ چوم رہے ہیں میرے د یکھتے دیکھتے ان کے ارد گر و طالبین کا حلقہ بندھ گیا۔ میں نے مولانا سید امیر حبیب آستانہ نشین سے دریافت کیا کہ مولانا ان پیر صاحب کی کیا تعریف ہے ؟تو انہوں نے مسکرا کر فرمایا کہ آپ کے پیر بھائی اور پرانے دوست مولوی شیر محمد صاحب ہیں جو آجکل را جپوتا نہ میں بڑے عامل اور مستجاب الدعوات مشہور ہیں ۔ مجھے یہ سُن کہ بڑی مسرت ہوئی آخران سے نیاز حاصل ہوئے وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کھانا میرے ساتھ کھانا ۔ کھانے سے فارغ ہو کہ انہوں نے جبکہ مخلصین کو رخصت کیا۔ اور چونکہ ایک عرصہ کے بعد آپس میں ملاقات ہوئی تھی ۔ اس لئے اپنی روئید او زندگی سنا کر میرے حالات معلوم کئے بہت دیر تک تبادلۂ خیالات ہوتا رہا ۔ اس کے بعد میں نے دریافت کیا
کہ مولینا اس سیاحی اور فقیری میں کسی سے کوئی نسخہ بھی ملا ۔ جو ۔ امراض مایوسہ کے لئے اکسیر ثابت ہو ۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ میرے ایک مخلص مرید نے ایک اپنی خاص بیاض میرے پاس امانت رکھوائی ۔ اور خودجےپور چلا گیا ۔ وہ سونا بنا کر مختلف شہروں اور صرافوں کے پاس جاکر فروخت کیا کرتا تھا ۔ مگر جے پور سے وہ واپس آجتک نہ آیا ، مجھے یقینی طور پر یہ علم ہوا کہ وہ فوت ہوچکا ہے ۔ کیونکہ یہ خبر تو عام مشہور ہے کہ ایک مسافر وہاں مردہ پایا گیا۔ جس کے قبضہ سے سیر بھر سے زاید سونا یہ آمد ہوا ۔ اس لئے میرا یقین ہے کہ وہ یہی تھا ۔ اب کافی عرصہ گند چکا ہے اس لئے یہ بیاض حاضر ہے . مطالعہ کیجئے . میں نے جب بیاض کا مطالعہ شروع کیا تو بلا مبالغہ بیاض کا ہر صفحہ اپنے اندر ایک نئی دنیا رکھتا تھا ۔ بلاشبہ دنیائے تجربات کا اُسے انمول اور نایاب گوہر کہنا چاہیئے۔ ہر نسخہ فن صنعت کی جان اور کیمیا گروں کے ارمانوں کا مکمل جواب تھا ۔ مجھے اس قدر مطالعہ میں محویت اور انہماک حاصل ہوا کہ پندرہ دن کا مل اس کے حقائق و نکات کے فہم تفہیم میں صرف کر دئے . اس کے بعد میں نے آستان غریب نواز پر ہی یہ عہد کر لیا کہ اگر زندہ رہا تو اس دولت کو انشاء اللہ ان تمام حضرات تک پہونچانے کی کوشش کرونگا جو اس کے حصول میں مدتوں سے مصروف اس گوہر نایاب کی تلاش میں بحر و بر چھان چکے ہیں ۔
نیک فالیوں کے توار د ملاحظہ فرمائیے
کہ اجمیر شریف سے رخصت ہو کہ پنجاب اپنے پیرو مرشد کی جناب میں حاضر ہوا۔ دوران قیام میں ایک دن حضور نے از راہ کریم ارشاد فرمایا کہ عوام الناس بزرگان دین کے لنگر کے مصارف دیکھ کہ اکثر یہ خیال کر بیٹھتے ہیں کہ یہ لوگ کیمیا بناتے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے حضرات کیمیا کو خلاف تو کل سمجھ کر اس سے پوری بے نیازی اور بے تعلقی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ اور اپنی تمام دینی و دنیا دی ضروریات کا انحصار رب العالمین پر رکھتے ہیں ۔ آخر میں حضور نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ حکیم صاحب کیا آپ کو بھی کیمیا کا شوق ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اجمیر شریف سے مولوی شیر محمد صاحب نے ایک کیمیا گر صاحب کی کتاب میرے حوالے کی ہے . اور چو نکہ وہ نسخےیقینی معلوم ہوتے ہیں ۔ اس لئے میرا ارادہ تو ضرور ہے کہ چند معتمد نسخوں کا تجربہ کر لیا جائے . اب جیسے جناب کا حکم ہوگا حضرت نے مسکر کر فرمایا کہ یہاں بھی ایک ماہر فن جو بیحد عقیدت مند تھاآیا اور اپنا مکمل فن لنگر شریف کی نذر کر کے رخصت ہو گیا ۔ لہذا فقیریہی وہ سر بستہ راز تمہارے حوالے کرتا ہے۔ مگر بقول
خوردہ ہماں بہ کہ بہ تن ہا خوری . یعنی
اس فن کو صرف اپنے تک محدود نہ رکھیں بلکہ دوسرے ضرورتمندوں کو بھی فائدہ پہنچائیے، نیز اس کا بھی خیال رہے کہ یہ چیز نفس پرستوں اور عیاشوں کے ہاتھ نہ آنے پائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ میں اگر تمام عمر بھی ان جواہر پاروں کی تلاش میں صرف کرتا ۔ تو بھی یہ دولت حاصل نہ کر سکتا جو حضرت نے بڑی بے تکلفی اور فراخ دلی کے ساتھ بے طلب مرحمت فرمادی۔ سچ ہے۔
بمجلسے کہ در و گنج کبریا بخشند
ہزار افسر شاہی بیک گدا بخشند
یقین اپنی بزرگوں کی طفیل سےہے کہ ہر طرف سے فنی حقائق و معارف منکشف ہونے شروع ہو گئے۔
این گدا ہیں کہ چہ شایستہ العام افتاد.
اس کے بعد یہ یقین کر لیا کہ قدرت مجھے سے اس فن شریف کی کچھ خدمت لینا چاہتی ہے ۔ اور مشتاقان صنعت کے اشتیاق کی تکمیل کا راز مجھ حقیر کے ذریعہ افشا کرانا چاہتی ہے ۔ اب فکریہ دامنگیر ہوئی کہ حضرت کا حکم ہے کہ دو سرے ضرورت مندوں کو بھی فائدہ پہنچے تو اس کے لئے گیا ذریعہ
اختیار کیا جائے کہ جس سے اس فن کی تحقیر بھی نہ ہو اور نا اہلوں تک بھی نہ پہنچے ۔ غرض اسی سوچ و چار میں زمانہ گزر گیا ، آخر خیال آیا ہے .
چھپا کے بیٹھا ہوں پہلو میں کس لئے فن کو
گو ہر گھر کی سیپ میں کیا خاک آبرو ہوگی
خدا بھلا کرے صوفی کتب خانہ کا کہ اس نے یہ خدمت اپنے ذمہ لے لی . اور میرسے کمزور کند ھے ایک بہت بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔یہ وجوہات شمس و قمر کی تالیف کے لئے ضروری تھے۔جو عرض خدمت کر دیے گئے۔۔۔ وما علينا الالبلاغ
خادم :-علی محمد دھلوی