اطباء کے حیرت انگیز کارنامے
اطباء کےحیرت انگیز کار نامے
مقدمه
بسم الله الرحمن الرحيم
جناب حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی صاحب
ریسرچ آفیسر انچارج لٹریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن جامعہ ہمدرد کیمپس، نئی دہلی 62…
بلا شبہ آج تہذیب حاضر کی چمک نے ہماری نگاہوں کو خیرہ کر دیا ہے چنانچہ ہماری مرعوبیت کی انتہا یہ ہے کہ جس چیز پر مغرب کی مہر لگ جائے اسے مستند سمجھ لیا جاتا ہے…
سے اسل اکتساب فیض کیا ہے. بلکہ رسم ورہ تحقیق میں ایسے بھی بہت سے مقامات آئے ہیں کہ مغرب نے طب مشرق کی بہت سی حقیقتوں کو بیک جنبش قلم پہلے تو مسترد کر دیا لیکن خرابی بسیار کے بعد وزبارہ تسلیم بھی کر لیا…کیونکہ اس کا کوئی متبادل ہی نہیں تھا ماضی حال اور مستقبل باہم اس طرح مربوط ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے ناگزیر کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک حصہ دوسرے کے لیے بنیاد بن جاتا ہے . یہی قانون قدرت ہے اور پھر طلب یہ نانی کی پشت پر تو برسہا برس کے تجربات کی مہر تصدیق ثبت ہے اسی زندہ و تابندہ ماضی کی افادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے تاریخ علوم کے ماہر اور عہد آفریں شخصیت جارج سارٹن نے انٹروڈکشن ٹو دی ہسٹری آف سائنس میں لکھا ہے …
لوگ۔
ماضی میں سائنس کے ارتقاء سے پوری طرح واقف ہیں وہی زیادہ بہتر زیادہ درست اور زیادہ آزادانہ طور پر دور حاضر کی ہر علمی ترقی پر غور وفکر اور اظہار خیال کر سکتے ہیں برخلاف ان لوگوں کے جو اپنے زمانے میں ہی محصور ہیں اور صرف اسی حالت اور وضع کو دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ جسے دور حاضر کے علمی واقعات نے اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔” دوسرے لفظوں میں سلف سے رشتہ جوڑے بغیر خلف ایک بے معنی لفظ ہے یہ ایک سائسٹی تک پہنچ (Scientific Approach) ہے اسلاف پرستی نہیں … یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی جدید ہمیشہ جدید نہیں رہتا، آج کا جدید ہی کل کا قدیم بنے گا لیکن اس کے باوصف ہر قدیم کی افادیت ختم ہو جائے یہ بھی ضروری نہیں، جدید و قدیم کا نعرہ محض ذہنوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے بلند کیا گیا ہے۔ یونانی اطباء کی بصیرت افروز حذاقت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی کل تھی
قدیم اطباء کے حالات
۔ اطباء قدیم کے حالات و کوائف نیز سریری مشاہدات پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے پیچیدہ امراض کا علاج وہ چنگیاں بجاتے کر دیتے تھے اور الجھے ہوئے مسائل کس خوش اسلوبی سے مل کر دیا کرتے تھے کہ آج ان پر افسانہ یا سحر کا گمان ہوتا ہے تجویز تشخیص کی غیر معمولی صلاحیتیں انہیں قدرت نے ودیعت کی تھیں لیکن اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو قدرتی فیضان کے ساتھ ساتھ ہمیں برسہا برس کی مشتق و مزاولت کی کارفرمائی بھی صاف نظر آئے گی جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں عصر حاضر کی ترقی یافتہ تکنیکی سہولتیں میسر نہ تھیں نتیجہ کار مطالعہ و تجربہ اور غورو تشخص ہی ان کا شعار بن گیا تھا۔
اعتراف حقیقت
چنانچہ ان کی فنی فتوحات پر آج کے سائنس دان بھی دم بخود ہیں… پروفیسر بوئر (Prop. Boyer) نے نہ صرف اس حقیقت کا اعتراف کھلے دل سے کیا ہے بلکہ ان سے استفادہ کا صحیح طریقہ بھی بتایا ہے… اطباء قدیم کے اصول و نظریات گویا ایک مخزن ہیں جن سے مفید حقائق کو برآمد کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ گہری اور تحقیقی بصیرت کو کام میں لا کر صحیح مطالب کو غلط مضامین سے جدا کر لیا جائے یہ اقدام خالص سونے کو خارجی مادوں ( آمیزشوں) سے چھانٹنے کے مترادف ہے. یہ کام تاریخ و تذکرہ اور خود معالجات کی قدیم کتابوں کے وسیع مطالعہ اور ژرف نگاہی کا طالب تھا چنانچہ یہ قرعہ فال ہمارے ہونہار نو جوان طبیب حکیم عبدالناصر فاروقی لیکچرار جامعہ طبیہ دیوبند (یوپی) کے حصہ میں آیا جنہوں نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے اسے انجام دے کر زیر نظر کتاب “اطباء کے حیرت انگیز کار ہے تالیف کی ہے. حکیم عبد الناصر سلمہ اس خانوادے کے چشم چراغ ہیں جو نہ ہی اور علمی خدمات کے سلسلہ میں ایک بلند
ٓٓ؎
مقام کا حامل ہے… امام اہل سنت مولانا عبدالشکور فاروقی مجددی رحمہ اللہ مدیر النجم ” لکھنو عزیز موصوف کے پردادا تھے ۔ خاندانی پس منظر پر تفصیل سے روشنی خود مصنف نے ڈالی ہے. راقم الحروف ذاتی طور پر بھی مصنف سے ان کے عہد طفولیت سے واقف ہے… الولد سر لابیہ کے بمصداق ان کی افتاد طبع کا اندازہ سن شعور کے آغاز سے ہی ہونے لگا تھا جس میں ملنی تعلیم اور ذوق مطالعہ نے مزید جلا پیدا کر دی..
. ان کی تحریری صلاحیت خاندانی وراثت کی غمازی کرتی ہے. حکیم عبد الناصر سلمہ کی یہ اولین تحریری کاوش ایک تعمیری بلکہ انقلابی قدم کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور نہ صرف ماضی سے باخبری کا ذریعہ بنے گی بلکہ اس کے مطالعہ سے ذہن کے دریچوں سے حوصلہ اور امنگ کی نئی کرنیں بھی داخل ہوں گی … یہ محض پر لطف حالات اور واقعات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ فہم و بصیرت کا روشن چراغ بھی ہے جس سے ہزاروں نئے چراغ جلیں گے اور نئی نسل کو حوصلہ امنگ نیز فنی خود اعتمادی حاصل ہوگی
یہی مصنف کی آرزو بھی ہے … کتاب کا اسلوب عام فہم اور زبان یا محاورہ ہے اس خوبصورت فنی مرقع کو دیکھ کر مصنف سے بجا طور پر ہم بڑی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں. خدا انہیں پروان چڑھائے اور ان کے ذوق مطالعہ وتحریر کو بھی تا کہ اردو زبان میں طبی کتب کے سرمایہ میں اضافہ ہوتا رہے امید ہے کہ فنی حلقوں اور عوامی سطح دونوں میں یہ کتاب قبول عام حاصل کرے گی … شفقت اعظمی: نئی دہلی 14 جنوری 1994.