What is hepatitis?
ٹائٹس(سوزش جگر)کیاہے؟
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو بسم اللہ الرحمن الرحیم مقدمہ قارئین ایک کہاوت مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے جب انسان کسی تکلیف دکھ دردیا پیچیدہ مسائل میں گھر جائے تو ان مسائل کے حل کے لئے اپنی تمام تر توانیاں صرف کرنی شروع کر دیتا ہے۔ مثلا و باغ بدن انسان کے ذرہ ذرہ سے ہر وقت خبریں حاصل کرتا رہتا ہے ہر عضو کی ضروریات اور مشکلات کو حاصل کرتا رہتا ہے اب دماغ بدن سے حاصل کی گئی ہوئی معلومات، مطالبات اور مشکلات کے حل کے لئے من و عن دل کے پاس بطور حکم بھیج دیتا ہے۔
جب دل کے پاس دماغ سے بطور حکم پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے حکم آتا ہے تو دل اسے اچھی طرح سمجھتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کس طریقے سے حل کیا جائے جو نہی دل فیصلہ کرتا ہے تو فورا اپنے ماتحت عضلات کو حرکت میں لاکر اپنے فیصلہ کو عملی جامہ پہنا دیتا ہے یعنی بدنی ضروریات پوری کر دیتا ہے یا انہیں حل کر دیتا ہے۔
قارئین اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیں کہ جب کوئی انجینئر یاجانا کٹس اورمکینک موٹر یا انجن بنا لیتا ہے تو وہ موٹر یا انجن اس وقت تک نہیں چلتا جب تک اسے بجلی کا کرنٹ یا پیٹرول وغیرہ نہیں ملتا بالکل یہی صورت دماغ اور دل کی ہے یہ مخصوص غذا کھاتے ہیں اور انہیں ان کی مخصوص غذا جگر تیار کر کے دیتا ہے جو خون کے ذریعے سب کو ملتی رہتی ہے
چنانچہ ثابت ہوا کہ دماغ اور دل اپنے افعال اس وقت تک ادا نہیں کر سکتے جب تک انہیں جگر کی طرف سے ان کے مزاج کی غذا نہیں مل جاتی دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ دماغ اور دل کے افعال اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک جگر کی طرف سے ان کو غذانہیں مل جاتی۔
اس حقیقت کو استاد محترم حکیم انقلاب المعالج صابر ملتانی نے اپنی کتاب تحقیقات و علاج سوزش و اورام کے مقدمہ میں قرآن حکیم سے تحریر کیاہے(لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ(الاعراف) ان کے لئے دل ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں ان کے لئے آنکھیں ہیں۔ لیکن وہ دیکھتے نہیں ان کے لئے کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں”
مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس قسم کی بھی مشکلات ہوں یا پیچیدہ مسائل ہوں انہیں دل سمجھتا ہے اور ہر قسم کے فیصلے کرنا ہے اور ضرورت کے مطابق نئی نئی ایجادات دل ہی کرتا ہے اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ استاد محترم صابر ملتانی کے دل نے بھی ہپٹا ئیٹس کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ یہ غدد جاذبہ کے تیز اور غدد ناقلہ کے کمزور ہونے کے نتیجے میں ہونے والی سوزش جگر ہے۔
زیر نظر مضمون لکھا جارہا ہے وہ سوزش جگر اور ڈاکٹری میں ہپٹا ئیٹس ( Hepatitis) کہلاتی ہے یہ اب پیچیدہ اور خطر ناک صورت اختیار کر چکی ہے اور ڈاکٹروں کی نظر میں تو لا علاج ہے۔ حقیقت میں یہ نہ تو انتہائی پیچیدہ ہے اور نہ ہی لا علاج ہے البتہ تکلیف دہ ضرور ہے اور قانون مفرد اعضاء میں اس کا شافی علاج بھی ممکن ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کا باعث پانچ قسم کے وائرس تحقیق کئے ہیں جنہیں وہ مختلف ٹیسٹوں سے تشخیص کرتے ہیں ان کے مطابق علاج تجویز کرتے ہیں جس سے وہ تقریب ناکام ہیں یہی وجہ ہے کہ جو نہی کسی مریض میں ہپٹا ئیٹس (Hepatitis) کا شبہ ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف خود خوف زدہ ہو جاتے ہیں بلکہ اس کا دوسرے سے بھی حقہ پانی بند کرا دیتے ہیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا تو در کنار بیوی بچوں سے بھی دور رہنے کی ہدایت کرتے ہیں یہ سب کچھ ہپٹا ئیٹس کی صحیح تشخیص نہ ہونے اور علاج(ہپٹا ئیٹس اورقانون مفرد اعضاء11)میںصحیح تشخیص نہ ہونے کی وجہ ناکامی کے نتیجہ میں خوف پیدا ہوا ہے۔
قارئین یہ کائینات کون و فساد سے مرکب ہے جہاں جہاں کوئی چیز پڑی ہوئی ہے اس میں شکست ور سخت ہر وقت جاری ہے اور وقت گذر نے کے ساتھ ساتھ اس میں کیمیائی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ہم روزانہ روٹی پکانے کے لئے آٹا گوندھتے ہیں گرمی کے موسم . میں گوندھا ہوا آنا گھر کی ضرورت سے جگا جاتا ہے بعض اوقات گرمی کی زیادتی سے صبح تک اس آٹا میں خمیر پڑ جاتا ہے اور وہ کھٹا ہو جاتا ہے اگر اسے استعمال نہ کیا جائے اور اسی طرح پڑارہنے دیا جائے تو دوسرے دن اس میں مزید خمیر پڑ کر تعفن ہو جاتا ہے اگر اب بھی اسے وہیں پڑارہنے دیا جائے تو اس میں سرانڈ کیڑے پیدا ہو نا شروع ہو جاتے ہیں ڈاکٹری اصطلاح میں انہیں ہی وائرس یا جراثیم کہتے ہیں۔
اسی طرح
کسی برتن میں گیلے اور مرطوب مادہ کو چند دن گرم ماحول میں پڑارہنے دیا جائے تو اس میں خمیر درد خمیر سے کیڑے اور جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں بالکل یہی صورت ہمارے جسم میں پیدا ہو جاتی ہے تو اس میں بھی جراثیم یا وائرس پیداہو جاتے ہیںاس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جسم انسان کے وہ اعضاء اندرونی جو فضلات ( فاضل رطوبات کو خارج کرنے پر معمور ہیں جب بعض مخصوص اسباب کی وجہ سے فاضل رطوبات کو بدن سے خارج نہیں کر پاتے تو وہ رطوبات جہاں رکتی یا جمع ہوتی ہیں تو وہاں ان میں خمیر سے تعفن ہو کر سڑاند پیدا ہو جاتی ہے کچھ دن بعد اس سڑاند سے کیڑے بننے شروع ہو جاتے ہیں ان جراثیم کو ہی ڈاکٹر حضرات باعث مرض جانتے ہیں حالانکہ سب سے پہلے کسی عضو نے فاضل رطوبات کو نکلنے نہ دیا بلکہ جسم میں روک دیا پھر اِن میں خمیر یا تعفن ہوا پھر اس متعفن رطوبات میں کیڑے (جراثیم) پیدا ہوئے جنہوں نے انسان کو مریض بنا دیا۔
متعفن رطوبات یا جراثیم کا علاج
استاد محترم حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی نے اپنی کتاب ” فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے ” میں متعفن رطوبات یا جراثیم کے علاج میں خاص ہدایت فرمائی ہے آپ فرماتے ہیں کہ حکیم طبیب یا معالجین کو جراثیم کے پیچھے بندو قیں اٹھا کر دوڑنا نہیں چاہئیے بلکہ جس عضو کے تیز یا سست ہو نے کی وجہ سےفاضل رطوبات رکی ہیں اس کی اصلاح کی جائے “
اور جب کمزور عضو میں تیزی و تحریک آئے گی تو وہ تمام فاضل اورمتعفن رطوبات کو خارج از بدن کر دے گا جس کے ساتھ ہی کپڑے یا جراثیم بھی دم دبا کر بھاگ جائیں اور ہمار جسم مصفی ہو کر کندن ہو جائے گااور تمام تکالیف ختم ہو جائیں گی۔ چونکہ ایلیو پیٹھی میں انٹی بائیوٹک اور انٹی سپونک (یعنی قاتل جراثیم یاد افع تعفن ) ادویات استعمال کی جاتی ہیں جن سے بعض اوقات جراثیم بھی مر جاتے ہیں لیکن وہ بدن انسان کے اندر ہی رہتے ہیں جو نہی انٹی بائیوٹک اور انٹی سیپٹک ادویہ کھانا بند کی جاتی ہیں فوران فاضل رطوبات میں دوبارہ سےمتعفن ہو کر پھر جراثیم بنا شروع ہو جاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹری علاج ناکام ہو جاتا ہے۔
ہپاٹا ئیٹس Hepatitis ( سوزش جگر ) کو جگر کی کیمیائی تحریک غدی عضلاتی قرار دیتا ہے جس کے نتیجے میں غدد جاذبہ تیز ہو جاتے ہیں اور جو صفراء بنتا ہے0 جسم میں رک جاتا ہے جس کے زیادہ عرصہ خون و جسم میں پڑار ہے ، تعفن پیدا ہو جاتا ہے اس رکے ہوئے صفراء میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعفن در تعفن پیدا ہو تا رہتا ہےاور اس متعفن صفراء میں جو ابتدا میں جراثیم یا وائرس تھے وہ اپنی نشونی کرتے نسل بڑھاتے رہتے ہیں۔
جب ود درجہ سی .Hepatitis C) میں پہنچتے ہیں تو وہ صرف جو ان ہو چکے ہوتے ہیں بلکہ اپنی نسل بھی بڑھا چکے ہوتے ہیں کی وہ سٹیج ہوتی ہے جو سب سے خطر ناک ہوتی ہے اس میں مریض کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہو تاہے اس سٹیج ( Hepatitis C) سے اگر مریض گذر جائے تو مرض کر ایک صورت اختیار کر لیتا ہے اور سالوں تک زندہ رہتاہے
قانون مفرد اعضاء اور ہیپاٹائٹس کی اقسام
قارئین ایلو پیتھک حضرات نے جو ہیپا ٹائٹس کی پانچ اقسام A.B.C.D.Eبیان کی ہیں انہیں قانون مفرد اعضاء سرے سے ہی تسلیم نہیں کرتا۔ بعد ان پانچ اقسام کو خلط صفراء کی خمیر در خمیر سے پانچ تبدیلیاں تعلیم کرتا ہے جو ایک بھی صفراء کی بھری ہوئی پانچ حالتیں ہیں۔ جیسا کہ کلیات نفیسی سے خلط صفراء کے بگاڑ (کیمیائی تبدیلیاں) کی چار اقسام صفراء محیہ، صفراء کراثی، صفراء زنگاری، صفرا احتراقی بتائی ہیں ان اقسام کے بارے میں کلیات نفیسی کے مصنف نے آخر میں فیصلہ کن الفاظ نہیں تحریر کیا ہے کہ ۔
چونکہ صفراء کی ساری قسموں کا قوام ایک ہی ہوتا ہے ۔ سب کی سب رقیق ہی ہوتی ہیں ان میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا اور سب کا مزہ بھی ایک ہی یعنی سب میں کڑواہٹ پائی جاتی ہے اس لئےمیںان دو نوں امور کے لحاظ صفراء میں کوئی تقسیم نہیں کی گئی“ اس بیان سے یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ جو خالص صفر اشروع میں تھا جب اس کے اخراج میں رکاوٹ ہوئی تو اس میں خمیر در خمیرسے جو بتدریج تبدیلیاں آئیں انہیں صفراء محیہ صفراء کرائی، صفراء زنگاری اور صفراء احتراقی کہا گیا ہے انہیں ایک ہی صفراء کے چار روپ تو تسلیم کئے گئے۔ ہیں مگر انہیں جدا جدا مادہ تسلیم نہیں کیا گیا
لہذا۔ قانون مفرد اعضاء ایلو پیتھی کی بیان کردہ ہیانا ئٹس کی پانچ اقسام A.B.C.D.E کو خلط صفراء کے بگاڑ (کیمیائی تبدیلیاں) کی پانچ تبدیلیاں تو تسلیم کرتا ہے لیکن انہیں ایک دوسری سے مختلف تسلیم نہیں کرتا دوسرے لفظوں میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ہپاٹائٹس اے کے جراثیم اور ” قسم کے ہوتے ہیں اور بی کے اور اسی طرح سی ڈی اور ڈی کے جراثیم ہیں الگ ہوتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ یہ جدا جدا اقسام ہو تیں تو ان کی علامات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہو تیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
قانون مفرد اعضاء تو ان سب اقسام کو غدی عضلاتی تسلیم کر کے غدی اعصائی غذا دوا سے علاج کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ جب غدد جاذبہ صفراء کا اخراج روک رہے ہوں تو غدد ناقلہ کو تیز کر کے صفراء کے اخراج کو جاری کیا جائے جتنی جلدی صفراء خارج ہو گا اتنی ہی جلدی جراثیم پیدائرس خارج از بدن ہو جائیں اور مریض تندرست ہو جائےگا۔
ہیپاٹائٹس کا علاج
قانون مفرد اعضاء میں چاہے ہیپاٹائیٹس A ہو یا Hepatitis .B.C.D.E ہو ہر حالت کا علاج غدد ناقلہ کا فعل تیز کر کے یعنی غدی اعصابی تحریک پیدا کر کے ہی کرنا ہو گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر مرض ابتدائی مراحل میں ہے تو اغذیہ خود یہ محرک مین وغیرہ ہی کھلانی ہو گی اگر مرض انتہائی شدید ہے تو اس وقت غدی اعصابی مسئل اکسیر اور تریاق تک کھلانی پڑیں گی تاکہ جلد از جلد فاضل مادے ( صفراء) بدن سے بر اہ پول پاخانہ اور پسینہ خارج ہو سکیں یہی اصول آخری سٹیجوں .Hepatitis D اور .Hepatitis Eمیں استعمال کیا جائے گا۔ التماس قارئین میں نے مضمون ہذا مکمل کرنے میں بے حد محنت کی ہے اور کوشش کی ہے کہ ہپاٹاٹس یا سوزش جگر کے کسی پہلو کی تشریح میں کمی نہ رہ جائے اور ہر نقطہ و تحقیقات پر پہلے طبی محققین کی آراء اور مضامین پیش کئے ہیں ان کی تشریح و علاج میں جو فنی کو تاہیاں ہوئی ہیں ان پر قانون مفرد اعضاء کے تحت مدلل بحث کی ہے اور انہیں درست کر کے یقینی وبے خطا علاج پیش کیا ہے جس پر عمل کر کے آپ زیادہ سے زیادہ خلق خدا کومستفید کر سکیں گے۔
ان احتیاطوں کے باوجود مجھ سے بھی فتنی کو تاہیاں اور غلطیاں ہو سکتی ہیں کیونکہ میں بھی انسان ہوں اور انسان سےغلطیاں ہونا ممکن ہے لہذا آپ سے التماس ہے کہ کتاب ہذا کو اچھی طرح پڑھیں جہاں کہیں کوئی کوتاہی یا غلطی پائیں تو مجھے آگاہ کریں تاکہ آئیند ہ اشاعت میں اسے دور کر کے پیش کیا جا سکے مجھے آپ کی نیک آرا کا انتظار رہے گا۔
وما علينا الا البلاغ المبين خادم فن و قانون مفرد اعضاء۔