میو معاشرہ کی ایک سچی کہانی۔
ماما پھوپھی کان کو آپس میں بیاہ
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
ہمارا ایک دوست بیلی نے ای کہانی سنائی۔میون کی اکڑ اور ان کا مزاج کی سختی پے حیرت ہوئی
شاہ جی ایک دن ہمارے ساتھ چوکری مار کے بے تکلفی سو مھفل مین بیٹھا ہا۔میون کا مزاج کے بارہ میں
بات چیت چلی تو مخلتف آراء اور الگ الگ بات سامنے آئی ۔شاہ نے ایک واقعہ مزاج کے طورپے سُنائیو
جب تبلیغی جماعت نئی نئی بنی ہی۔میون کی حضرت جی الیاس رحمۃ اللہ علیہ سو بہت عقیدت ہی۔آخری فیصلہ
اور اپنا معاملاتن نے چھتہ والی مسجد یعنی مولونا کے پئے آکے نبیرے ہا۔ایک دن میون مین انہونی ہوئی اور
ایک جوان جوڑا نے مرضی سو بَھگ کے بیاہ کرلئیو۔پھوپھی کی چھوری ہی۔اور ماما کو چھورا ہو۔میو رسم رواج کے طورپے ماما کی بیتی سو بیاہ کرلیوے ہا لیکن پھوپھی کی بیتی کو سگی بہنن جیسو پیار دیوے ہا۔گوکہ اسلام مین یاکو کوئی تصور نہ ہے۔حجورؤ نے اپنی پھوپھی کی بیٹی سو بیاہ کرو ہو۔خیر میون نے ای بات ہضم نہ ہوئے اور لٹھ اُٹھا کے مارن کو بھگا ۔چھورا ،چھوی اے بھی دیکھ رو ہو کہ جے ہاتھ آگیا تو خیر نہ ہے۔بات دو کاندن سو ہوتی ہوئی برادری کی پرے پنچایت تک جاپہنچی۔چھوری والا کہوے ہا ہم تو جان سو مارنگا۔چاہے پھانسی لگ جاواہاں۔
چھورا والا ن کو کہنو ہو بھئی جو غلطی ہوگی معافی دئیو۔اُنن نے رچن بسن دئیو۔۔۔بات بڑھتے بڑھتے حجرت جی الیاس ؒ کے پئے جا پہنچی۔میون نے پگڑ باندھا۔لٹھ اُٹھایا۔حقہ بغل مین دابے حجرت الیاسل کی مسجد مین جا پہنچا۔مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی،حضرت میون کی نفسیات اور مزاج سو خوب واقف ہا۔جانے ہا کہ میون سو کیسے بات منوائی جاسکے ہے۔۔۔پہلے تو حضرت جی نے پانی تانی کو پوچھو۔میون کا حقہ تازہ کروایا۔پھر تسلی سو بٹھا کے دنوں فریقن کی غور سو بات سُنن لگا۔۔معاملہ اور مزاج کی گرمی دیکھ کے حضرت نے اپنو انداز اختیار کرو ۔اور ساران سو پوچھن لگو۔۔۔
تم اللہ اے مانو ہو۔؟۔۔۔۔
میو کہن لگا کیوں نہ ماناں ہاں کھوب مانا ہاں ۔۔
حضرت جی۔۔اچھو تو اللہ کا رسولﷺ اے بھی مانو ہو؟
میو۔۔ارے حضرت جی ای بھی کوئی پوچھن والی بات اے۔۔کھوب مانا ہاں ۔
حضرت جی ۔۔کہا ان دونون کی باتن نے بھی مانو ہو؟
میو۔۔ہاں ان کی ساری بات سچی پکی اور صحیح ہاں ۔
حضرت جی۔۔۔تو بھائی اللہ اور واکا رسولﷺ کو حکم ہے کہ پھوپھی کی چھوری سو بیاہ ہوسکے ہے
میو ۔۔حضرت جی کچھ بھی کہہ لے یا بات اے نا مان سا۔۔۔۔