جنات کا ماخذ و مبلغ علم کیا ہے؟
جنات کا علم غیب۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
قران و احادیث مین انسان کو ہر اس چیز کا علم دیا گیا ہے جس کی ضرورت ہدایت اور قرب خداوندی کے لئے ضروری ہو۔ عمومی طورپر عاملین اور عامۃ المسلمین قران و احادیث مطالعہ کرنے کے بجائے،سنی سُنائی باتوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔جب تک کسی معاملہ کو صاف نہ کرلیا جائے اعتقاد تو کیا معمولی سا فیصلہ دینا بھی مشکل ہوتا ہے۔
جنات کا ماخذ و مبلغ علم کیا ہے؟
کچھ لوگ خلط مباحث کرتے ہیں۔وہ جنات کے نام پر رچائے گئے سوانگ کو بطور دلیل پیش کرتے ہین کہ فلاں نے یوں کردیا فلان نے ایسا کردیا۔سب سے پہلے بحث و مباحثہ کا دائرہ مقرر کرلین تاکہ خلط مباحثہ سے محفوظ رہیں۔
(1)جنات کا وجود ہے۔اس سے کسی کو انکار نہیں ۔البتہ ان کے بارہ میں معلومات محدود ہیں ،ان کی باتوں کی تصدیق کا کوئی ذیرعہ نہین ہے۔جس کی بنیاد پر جنات سے منسوب باتوں کی تصدیق کی جاسکے
(2)جنات کا ماخذ و مبلغ علم کیا ہے؟ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ اس بارہ میں پختہ معلومات حاصل کرکے حتمی حکم لگا سکیں۔اس لئے ہر وہ بات جو خلاف حقیقت ہو،وہ جنات سے منسوب ہو یا کسی انسان نے گھڑی ہو اس کی تصدیق لازم نہیں ہے۔
میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ جنات اگر کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی توثیق نہیں کی جاسکتی ہے۔کیونکہ لیلۃ الجن میں جنات کے قبائل نے
۔۔۔صحابہ کرام کے ساتھ جنات کا ہمکلام ہونا۔
بے شمار شواہد ہیں کہ اسلامی نظریات و عقائد کے مطابق جنات کا وجود ہے۔آج بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔
غیب کی خبریں (یعنی ایسی باتیں جو آنکھوں سے پوشیدہ ہوں ۔لیکن ان کا وجود ہو)جاننے کا تجسس ہر زمانے میں رہا ہے۔آج بھی اس میں کمی نہیں آئی۔حضرت عمررضی اللہ عنہ ایک ایسی عورت کے پاس پہنچے جس کا دعویٰ تھا کہ اس کا جنات سے تعلق ہے۔ایک جنگ کے حالات اور نوید فتح سننے کے لئے بے چین تھے۔یہی بے چینی اس عورت تک بھی لے گئی۔حیرت انگیز طورپر اس کی بتائی ہوئی باتین درست ثابت ہوئیں۔
انسانوں سے جنات کا علم حاصل کرنا۔
دستیاب معلومات کے مطابق جو جنات انسانوں سے تعلیم حاصل کرتے رہے ۔یہی علوم تھے جنہیں ہم انسان پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ان سے انہیں کیا فائدہ ملتا ہے معلوم نہیں۔البتہ دینی و شرعی طورپر جنات بھی انسانوں کی طرح مکلف ہیں اس لئے دینی طورپر علوم حاصل کرنا وہ بھی انسانوں سے مجبوری ہے۔بصورت دیگر کسی علم کے بارہ میں نہیں سنا کہ وہ علم بھی جنات نے انسانوں سے سیکھا ہے۔البتہ جب میںجرمنی کی تاریخ کا مطالعہ کررہا تھا تو ایک ماہر معیشت کے بارہ مین پڑھا تھا کہ اس نے معیشت پر پُر مغز کتابیں لکھیں ۔اس کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ جنات ہوتے ہیں۔وہ مجھ سے لکھواتے ہیں۔۔۔غالبا یہ ہٹلر کی سوانح عمری۔کتاب تھی جس کانام ۔ہٹلر کا عروج و زوال “تھا۔آئے قران و حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
حدثنا عمرو، قال: سمعت عكرمة، يقول: سمعت أبا هريرة، يقول: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إذا قضى الله الأمر في السماء، ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله، كأنه سلسلة على صفوان، فإذا فزع عن قلوبهم قالوا: ماذا قال ربكم؟ قالوا للذي قال: الحق، وهو العلي الكبير، فيسمعها مسترق السمع، ومسترق السمع هكذا بعضه فوق بعض – ووصف سفيان بكفه فحرفها، وبدد بين أصابعه – فيسمع الكلمة فيلقيها إلى من تحته، ثم يلقيها الآخر إلى من تحته، حتى يلقيها على لسان الساحر أو الكاهن، فربما أدرك الشهاب قبل أن يلقيها، وربما ألقاها قبل أن يدركه، فيكذب معها مائة كذبة، فيقال: أليس قد قال لنا يوم كذا وكذا: كذا وكذا، فيصدق بتلك الكلمة التي سمع من السماء .(صحيح البخاري (6/ 122)
ترجمہ :
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ آسمان میں اپنا کوئی حکم بھیجتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پروں کو پھڑ پھڑانے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد اس طرح ہوتا ہے کہ جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری جاتی ہے جب فرشتوں کی گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا؟ تو دوسرا عرض کرتا ہے کہ جو کچھ فرمایا حق فرمایا، اس وقت شیاطین بھی زمین سے اوپر تلے آسمان کی طرف جاتے ہیں اور اس حکم الٰہی کو سن کر اوپر والا نیچے والے کو بتاتا ہے اور اس طرح یہ ایک دوسرے سے باتیں اڑالیتے ہیں، سفیان نے اس موقعہ پر اپنی ہتھیلی کو موڑ کر اور پھر انگلیوں کو ملا کر بتایا کہ شیاطین اس طرح ایک پر ایک ملے ہوئے ہوتے ہیں اور اوپر والا نیچے کو اور وہ اپنے نیچے والے کو اور پھر اسی طرح یہ اطلاع زمین پر ساحروں اور کاہنوں تک پہنچائی جاتی ہے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فرشتے شیاطین کو آگ کا کوڑامارتے ہیں بات پہنچانے سے قبل اور ان کے بات پہنچانے کے بعد انہیں لگ جاتی ہے اور وہ اپنے نیچے والے کو خبر کر دیتا ہے، پھر یہ کاہن ایک بات میں سو باتیں جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور ایک سچی بات کی بدولت سب باتوں میں ان کی تصدیق کی جاتی ہے
جناتی علوم اور انسانی معلومات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ لوگ سرقہ سے کام لیتے ہیں۔جیساکہ اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے۔وہی علوم انسان کے لئے القاء کئے جاتے تھے جنہیں جنات چوری چھپ کے سنا کر اپنی ضرورت کے مطابق توڑ مروڑ کرکے اپنے کام نکالا کرتے تھے۔
قران کریم نے انسانی اور جناتی صفات کو بیان فرمایا ہے ۔انسان کے لئے صفت علم کو بطور وصف قرار دیا ہے کہ آدم کو تمام اشیاء کے نام بتائے گئے۔یعنی بنیادی داٹا انسانی خمیر میں رکھ دیا گیا۔اسے جو استعمال کرنا جانتا ہے وہ فائق و اعلی منصب پالیتا ہے جو نہین سمجھتا وہ خس و خاشاک بن کر رہ جاتا ہے۔
قُلْ اُوْحِىَ اِلَىَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُـوٓا اِنَّا سَـمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا (1الجن)کہہ دو کہ مجھے اس بات کی وحی آئی ہے کہ کچھ جن (مجھ سے قرآن پڑھتے ہوئے) سن گئے ہیں، پھر انہوں نے (اپنی قوم سے) جا کر کہہ دیا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے۔یعنی انسانی علوم و فیوض جناتی حس سے ماوارء ہیں۔
۔۔
علم انسان ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کی ضرورت ہے۔اس آیات مقدسہ میں کتنی گہری ومعرفت سے لبریز مثال دی گئی ہے
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا ۚ وَمِمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْهِ فِى النَّارِ ابْتِغَـآءَ حِلْيَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُـهٝ ۚ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّـٰهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَـآءً ۖ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ ۚ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ (17) ↖
اس نے آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے اپنی مقدار میں نالے بہنے لگے پھر وہ سیلاب پھولا ہوا جھاگ اوپر لایا، اور جس چیز کو آگ میں زیور یا کسی اور اسباب بنانے کے لیے پگھلاتے ہیں اس پر بھی ویسا ہی جھاگ ہوتا ہے، اللہ حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے، پھر جو جھاگ ہے وہ یونہی جاتا رہتا ہے، اور جو لوگوں کو فائدہ دے وہ زمین میں ٹھہر جاتا ہے، اسی طرح اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے۔۔۔۔یعنی کام کی چیز باقی رہتی ہے،باقی جھاگ ہے جس کی زندگی واور وجود کچھ لمحات کا مہمان ہوتا ہے۔اسی طرح جنات سے حاصل کردہ معلومات کی زندگی بھی حیاٹ حباب ہوتی ہے۔
جنات سے سوالات
جنات سے جو سوالات کئے جاتے ہیں وہ انسانی ضرورتوں کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔جبکہ جنات کی ضرورتیں انسانوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ان کا پورا نظام ہی الگ ہوتا ہے۔سابقہ سطور میں آسمانی خبروں کے بارہ میں جنات کا جو رویہ اخبار غیوب کے ساتھ تھا آج بھی مختلف نہیں ہے۔ربع صدی سے زائد کے تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں۔جنات سے منسوب جتنی بھی خبریں گردش کرتی ہیں۔اگر عقیدت و شیفتگی کا عنصر کارج کردیا جائے تو وہ معلومات سطحی قسم کی معلوم ہونگی،جنہیں معمولی سوجھ بوجھ والا ذہن کا مالک آسانی سے بتاسکتا ہے۔
جناتی خبروں سے متعلق ایک اہم نکتہ۔
انسانی نفسیات ہے کہ اس کے پاس جو علم و ہنر یا مال و دولت ہو اس پر تفاخر کرتا ہے۔اس کا موقع بموقع اظہار کرتا ہے ۔اپنے جیسوں پر تفوق جتانے کا موقع ہاتھ نہیں جانے دیتا،ہر اس چیز کو طرہ امتیاز سمجھتا ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔
جناتی باتوں اور خبروں کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ جنات کے اندر شاید انسانوں سے مختلف خواہش پائی جاتی ہے۔وہ علوم فنون کے بجائے گھسی پٹی باتیں بتاتے ہیں۔اگر لوگوں کی عقیدت کی پٹی آنکھوں سے اُتر جائے ان خبروں کی وقعت جاتی رہے۔
انسانوں کا جنات سے مواصلاتی رابطہ۔
یہ بات نہیں کہ انسانوں کا جنات سے انسانوں کا رابطہ نہیں ہوسکتا ؟ضرور ہوتا ہے قران کریم اس بارہ میں واضح طور پر آگاہی دیتا ہے۔
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَآئِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ۔۔۔۔کہ شیطان خاص قسم
کے لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ان رابطوں پر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین گمراہی اور بھٹکانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ جن باتوں سے جذبات بھڑکیں۔تخریبی اعمال وجود میں آئیں۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ہمیں کسی جناتی شخص نے یہ بتایا ہوکہ فلان جن نے فلاں جن کو گمراہ کردیا ہے۔شیاطین بھی جناتی قبیل سے ہوتے ہیں ۔۔كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ(الکہف50) ۔ ۔ ۔ یعنی جو کردار انسانی پیدائش کے وقت اس کا متعین کردیا گیا تھا۔آج بھی اس میں سرمو انحراف نہیں ملتا۔۔۔آج تک کسی کاہن راہب عامل، جوگی۔یا جناتی علاج کے ماہر سے ہم نے ایسا نہیں سنا کہ ہمارا جنات سے تعلق ہے ۔ان کی طرف سے ہمیں جناتی علوم و فنون بتائے گئے ہیں۔علوم و فنون کی یہ خصوصیات ہیں۔ ان علوم کا یہ دائرہ کار اور یہ دائرہ عمل ہے۔ایسا کچھ نہیں ہے۔