جنات -غیب دانی اور عاملین
جنات -غیب دانی اور عاملین
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہدمیو
(سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کی طرف سے زوم پرپڑھائی جانے والی
طب و عملیات کی کلاس کے مضامین کا خلاصہ۔
یہ کلاس پاکستانی وقت رات نوبجے ہوتی ہے ،جس میں دنیا بھر سے لوگ شرکت کرتے ہیں
،ایک دن طب دوسرے دن عملیات پر اسباق پڑھائے جاتے ہیں)
انسانی سوچ تخلیق ہوتی ہے۔
اوراد۔پڑھائی اورذکر تمام مذاہب و مکاتیب فکر اور اقوام و ملل میں پایا جاتاہے۔جو لوگ مذہب کے پیروکار ہوتے یں وہ اپنی ضروریات کے لئے کچھ آیات یا منتر یا اشلوک وغیرہ منتخب کرکے مخصوص تعداد میں ورد کرتے ہیں۔ جو لوگ مذہب کو نہیں جانتے یا نہیں مانتے وہ خود ساختہ عبارات دوہراتے ہیں۔جوکام مذہبی لوگ مذہبی کتب یا عبارات مقدسہ سے لیتے ہیں وہی کام مذہب بیراز لوگ اپنی من پسند عبارات سے لیتے ہیں۔
اس دوران جو خیالات پختہ کئے جاتے ہیں وہ متشکل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اگر ورد اور ذکر نہ بھی کیا جائے تو بھی غور و تدبر کرنے سے بہت سے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔جتنے بھی دنیا میں آج تک علوم و فنون ترتیب دئے گئے یا دئے جارہے ہیں یا دئے جائیں گے سب غور و فکر اور گہری سوچ کا نتیجہ ہیں۔انسان اپنی ضرورت کے مطابق سوچتا ہے۔
موجودہ اور پیش آمدہ مسائل کے بارہ مین غوروفکر کرتا ہے جو مسائل دوسروں کی زندگیاں اجیرن کردیتے ہیں وہ غور و تدبر والے اذہان کا میدان عمل ہوتے ہیں ۔کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہو تا۔جو بات ذہن میں آجائے سمجھو دنیا میں اس کا وجود ممکن ہے۔یعنی انسانی سوچ ایک تخلیقی شاہکار ہوتی ہے۔جو سوچ سکتے ہو وہ کربھی سکتے ہو۔
شروع میں ہر کوئی غیر موجود چیزوں کو ناممکن سمجھتا ہے۔آج جتنی بھی ایجاد ات روزہ مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔آج سے سو سال پہلے ان کا تصور بھی ناممکن تھا۔لیکن آج ان کے بغیر زندگی ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔
دنیا اتنی سرعت سے تغیر پزیر ہورہی ہے کہ انسانی عقل بھی دھنگ رہ جاتی ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک لوگوں کی سوچ اور روابط محدود تھے۔آج روابط میں تیزی آرہی ہے۔ جو کام دنیا کے کسی بھی کونے میں ہورہاہوں آن کی آن میں وہ دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔یہ سہولت اس قدر آسان و دستیاب ہے کہ افریقہ کے جنگل میں بیتھا ہوا جنگلی ایک ٹویٹ کرتا ہے تو۔دنیا کے متمدن ترین شخص یا ملک تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔یہ تو ہوئی اطلاعات کی سرعت۔
جنات کی قوت پرواز بہت زیادہ ہے۔یہ ان کی جبلی صفت ہے۔میں نے ایک کتاب میںپڑھا تھا کہ ایک جن ایک منٹ دنیا کے سات چکر لگا سکتا ہے۔قران کریم کے نظریات کے مطابق بلندی میں خاص تک جاسکتے ہیں۔انسانوں کی طرح انہیں آکسیجن کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔جنات اپنی لطافت کی وجہ سے سریع الرفتار ہوتے ہیں۔جس قدر سریع التاثیر اس کے لئے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔جبکہ جنتا کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔
سریع الحرکت چیز بہت زیادہ گرم ہوجاتی ہے۔فضاء میں جتنی بھی چیزیں انسانی ساختہ اشیاء حرکت کرتی ہیں تو انہیں ایسی دھاتوں سے بنایا جاتا ہے جو بہت زیادہ درجہ حرارت برداشت کرسیں۔جنات کے بارہ جو معلومات دستیاب ہیں ان میں حقائق کم اور حکایات زیادہ دستیاب ہیں انسانی تحقیقات میں بہت سی ایسی چیزیں سامنے آچکی ہیں اور ایسے حساس آلات ایجاد کئے جاچکے ہیں۔جو دکھائی نہ دینے والے سنگلز کو محسوس کرتے ہیں۔۔بہت ساری شعاعیں دریافت ہوچکی ہیں۔۔موبائیل فون تو ہر ایک کے پاس موجود ہے۔اسی طرح کی بہت ساری ڈوائسز مارکیٹ میں موجود ہیں۔
غیب دانی کی مبہم اصطلاح۔
انسان جنات کے بارہ میں خیال کرتے ہیں کہ وہ غیوبات کا علم رکھتے ہیں۔ہم ان دیکھی چیزوں کے بارہ میں سوالات کرتے ہیں۔لیکن یہ تصور جس قدر عام پایا جاتا ہےاتنا ہی ادھورا ہے۔سب سے پہلے تو علم الغیب ایک ایسی مبہم اصطلاح ہے جس کا فیصلہ کم ہی لوگ کرنے کے اہل ہیں۔ممکن ہے جس چیز کو لوگ غیب سمجھتے ہیں وہ سمجھنے والے کی معلومات کے مطابق تو پوشیدہ ہو لیکن سب کے لئے ایسا نہ ہو،کچھ لوگ ان غیوبات سے واقف ہوں۔۔اگر یوں کہا جائے کہ جس چیز کا وجود ہو وہ غیب نہیں ہوسکتی کیونکہ وجود اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے دیکھا جائے۔اس کے بارہ میں کسی نہ کسی کو پتہ ہو فلاں چیز وجود میں آچکی ہے۔اس لئے غیب کی اصطلاح ان معنوں میں استعمال کی جائے گی جو کسی کی علمی کمی ہو۔
پوشیدہ امور اور جنات
جولوگ خیال کرتے ہیں کہ جنات سے ان امور پر بات کرسکیں گے جو اُن کے نزدیک غیر معلوم ہے ۔ممکن ہے جنات کے پاس اس بارہ میں معلومات ہوں جو آپ سے پوشیدہ ہیں۔ایسی صورت میں آپ کے سوالوں کے جوابات مل جائیں گے۔یہ جنات ہی سے کیا کوئی بھی جاننے والا اس بارہ میں مفید معلومات دے سکتاہے۔ی
اد رکھئے جنات بھی غیب نہیں جانتے۔۔۔
سورہ سبا میں اس کی تردید موجود ہے۔اس قسم کی توقع کرنا کہ جنات سے ایسی باتیں معلوم کرلیں گے جنہیں عام لوگ نہیں جانتے تو غیر مناسب بات ہوگی جنات ان باتوں سے کوئی تعلق یا دلچسپی نہیں رکھتے جن کی انہیں ضرورت نہ ہوجنات اور انسانوں کی جروریات و ترجیحات جداگانہ ہوتی ہیں۔کیونکہ ان کی تخلیق اور ضروریات زندگی انسانوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔خود اپنی بارہ مین اندازہ لگالین جن چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی وہ آنکھوں کے سامنے رہتے ہوئے بھی اوجھل رہتی ہیں۔جب سوال کیا جائے کہ فلاں چیز تو آپ کے سامنے تھی۔دیکھا کیوں نہیں؟جواب ملتا ہے میرا دھیان نہیں گیا یعنی توجہ نہیں تھی۔یہی چیز جنات سے بھی متوقع ہے۔
ہم جنات سے ممکنہ حد تک ایسے سوالات کرتے ہین جن کی طرف ان کا دھیان ہی جاتا۔یا ان باتوں کی اہمیت ہی نہیں سمجھتے۔جب جنات سے ایسے امور پر بات چیت کی جائے جن میں انہیں دلچسپی نہ ہوتو اس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں ؟
میری عملیات زندگی کے تجربات۔
کتب عملیات میں بے شمار ایسے اعمال لکھے ہوئے ہیں جنہیں دلکش عنوانات دئے جاتے ہیں۔
جیسے پوشیدہ بات معلوم کرنے کا عمل۔
امراض معلوم کرنے کا ٹوٹکہ۔
کسی کے دلی راز کا انکشاف کا عمل
تشخیصات کا جناتی عمل۔
حاضری کا تیر بہدف عمل۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہانسانوں کے نزدیک بھی ہر بات ہر کسی کے لئے اہم نہیں ہوتی ۔ضروریات کسی بھی کام کو اہم یا غیر اہم بنا دیتی ہیں۔ممکن ہے جس چیز کو میں اہم سمجھ رہا ہوں ۔آپ کے نزدیک وہ غیر اہم ہو۔اس لئے جو سوالات جنات سے کئے جارہے ہیں ممک ہے آپ کے لئے اہم ہوں ۔میڈیم یا حاضر ہونے والے جن کے نزدیک ان کی وہ اہمیت نہ ہو جتنی آپ سمجھتے ہیں
۔ہماری عملیاتی زندگی میں جن مریضوں کا علاج کیا ان سے بےشمار سوال وجواب ہوئے۔اگر میرا حافظہ خطاء نہیں کررہا تو معلومات کے اعتبار سے کچھ زیادہ علم نہ رکھتے تھے جتنا مریض کے علم میں ہوتا تھا۔یعنی سطحی و عام قسم کی باتیں بتاتے ہیں علمی و تحقیقی بات ان سے آج تک سُننے کو نہ ملی۔جب ایسے مریض ہمارے پاس لائے جاتے تو ان سے لوگ اپنے امراض ۔پریشانیاں۔مقدمات۔گھریلو پریشانیاں۔رشتہ ناطہ وغیرہ جیسے سوالات کرتےہیں۔
جہاں تک معلومات کا تعلق ہے تو جنات سے پوچھے گئے سوالا ت کے جوابات جنات سے زیادہ مجھے معلوم ہوتے تھے۔یہ کوئی غیب دانہ نہ تھی بلکہ وہ تجربات تھے جو ربع صدی سے اس میدان کارزار میں گزارنے کا نتیجہ تھے۔خلاصہ یہ کہ جنات کی معلومات انسانوں سے زیادہ نہیں ہوتیں۔انسان علم و عمل۔جدو جہد۔مقاصد کا تعین۔زندگی کا سلیقہ ۔جنات سے بہتر جانتے ہیں۔