تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔
Sacrifice of Meo nation in partition of India.
تضحية أمة مايو في تقسيم الهند .1
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
ہریانہ، راجستھان، دہلی اور اترپردیش کے درمیان میں واقع خطہ میوات اپنا آپ میں مختلف ثقافت و تہذیب اےسمیٹے ہوئے ہے۔ ھین میو طبقہ صدین سو قیام پزیر ہے جوکہ 9 ویں یا 10 ویں صدی میں اسلام میں داخل ہو گیاہا۔قوم قوم کا لوگ ایک ساتھ مسلمان تو ہو گیا اور خدا ایک ہے یا بات پے پوری طرح ایمان بھی لے آیا لیکن اُنن نے اپنی روایات اور ثقافت کدی بھی نہ چھوڑی۔
ایک گھاں کو خوداے رام اور کرشن کی اولاد بتاوےہا تو دوسری طرف کلمہ توحید پے بھی یقین ہو۔ ہین تک کہ سینکڑوں سالن تک میوات میں’رام خان‘ اور ’کرشن خان‘ جیسے نام بھی ملاہاں۔
دونوں مذبن کی روایات پے عمل کرن کے باوجود آزادی سو پیچھے میون پے صرف اور صرف مسلمان ہوناکی بنیاد پے ظلم کراگیا اورنا چاہتے ہوئے بھی فسادات کی بھٹی میں جھونکا گیا۔
سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے دوران توسارا ملک کا حالات خراب رہا اور بڑا پیمانہ پے بھاگ دوڑ اور اِت بتلو نقل مکانی ہوئی۔ بہت سا لوگن نے اپنا ہندو یا مسلمان ہونا کا اعتبار سو اپنو اپنو ملک ہندوستان یا پاکستان انتخاب کر لیو لیکن ہندوستان کا ایسا ہزاروں مسلمان ہا جو پاکستان جانو نہ چاہوے ہالیکن انن کو ہندوستان چھوڑن پے مجبور کرادیا گیا۔
دہلی سو ملحقہ علاقہ میوات جہاں پے مسلمان اکثریت میں توہا لیکن حالات ایسا بنا دیا گیا کہ ہندستان میں رہنو یا پاکستان جانو بہت گھٹن مرحلہ بن گئیو ہو
۔ آزادی اور تقسیم ہند کے بعد جا وقت سارا ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلا ہویاہا اور چہاروں گھاں کو قتل و غارت گری کو عالم ہو۔ نفرت کی آگ خطہ میوات تک بھی پہنچ گئی ہی۔
ان حالات میں ایک وفد نے وا وقت کا وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل سو دہلی میں ملاقات کری۔ وفد کا ایک رکن کی باتن نے سردار پٹیل کا دل و دماغ پے گہرا اثر کرو ہو،یا شخص کو نام ہمتا میو ہو۔
دراصل تقسیم ہند کے دوران میوات پوری طرح پر امن و پر سکون ہو اور میون نے اپنو مادرِ وطن نہ چھوڑن کو پکو ارادہ کرو اور ہندوستان میں ہی رہن کو فیصلہ کرو لیکن متعصب و فرقہ پرست لوگن نے میوقوم زبردستی پاکستان بھیجن کی کوشش کری۔ سب سو پہلے بھرت پور ریاست اور پھر الور ریاست میں میون کو قتل عام شروع ہو یو۔ دونوں ریاستن کا پریشان حال میو پنجاب موجودہ ہریانہ کا ضلع گوڑگاؤں میں آ گیا لیکن نفرتن کو دور ختم نہ ہو سکو۔
پنجاب، بھرت پور اور الور ریاستن کی افواج بھی قتل عام مچا ری ہی۔یا زمانہ کا میؤ لیڈران چودھری محمد یاسین خاں اور چودھری عبد الحئی وغیرہ نے حالات کے پیش نظر سردار پٹیل سوملاقات کو فیصلہ کرو۔ مولانا آزاد کے ذریعے سردار پٹیل سوملن کو وقت لیو گیو۔ چودھری عبد الحئی کی رہنمائی میں تین اشخاص کو ایک وفد تشکیل دیا گیو۔ وفد میں چودھری عبد الحئی اور دوسرو ایک رکن تو پڑھا لکھاہا اور تیسرا رکن ناخواندہ(اَن پڑھ ہو) جا کو نام چودھری ہِمّت خاں عرف ہِمتا ساکن شیخ پور اہیر تجارہ الورہو
ان لوگن نے فجر کی نماز مسجد کرزن روڈ دہلی میں پڑھی اور ہوں سو پیدل ہی سردار پٹیل کی کوٹھی کا مہیں چل دیا جو ہوں سو تھوڑی دوری پے ہی واقع تھی ۔ سبھی سردار پٹیل کی رہائش پے پہنچا اور چودھری عبد الحئی آگے بڑھو اور تمام احوال تفصیل سو بیان کیا۔ ساری بات سن کے پٹیل نے روکھا لہجہ میں جواب دیو کہ ’’پاکستان چلا جاؤ! مل تو گیو تم کو پاکستان۔‘‘
پٹیل کا یا جواب سن کے چودھری عبد الحئی خاموش ہو گئیو لیکن چودھری ہِمتا بڑی بہادری کے ساتھ بولو ’’او سُن پٹیل صاب! ہم وے میؤ ہاں جو تیرو دادا شیواجی ہے (اے) اورنگ زیب کی جیل سو(سے) چھڑوا کے لایاہا۔ اور دیش کی خاطر مغلن سو لڑا، انگریزن سو لڑا، آج تو ہم سو پاکستان جانا کی بات کراہا۔ ٹھیک ہے آج تو ہمارو بکھت (وقت) بگڑ رو ہے اور ہمنے وے بھی مار راہاں جو کدی ہماری ٹہل کرے (دیکھ بھال) ہا۔ پر ایک بات سن لے ہم مر جانگا، ا؟پر پاکستان نا جاساں ۔‘‘
آخر کار ہمتا میو کی ہمت نے سردار پٹیل کو دل نم کر دیو۔ سردار پٹیل کا حکم سو میوات کی نگہبانی سکھ بٹالین کی جگہ مدراس بٹالین کو دے دی گئی جا سو میوات میں امن قائم ہویوا۔اور ہمتا میو کی ہمت سو میواتی آج بھی میوات (ہریانہ، راجستھان، اتر پردیش اور دہلی ) میں مکین ہاں۔
پٹیل ہندستان کی تاریخ میں ایسو لیڈر گزرو ہے جاکو متعصب سیاست دان کو نام دیو گیو ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاسکتان نے یاکا بارہ مین کہو ہو کہ ای ناقابل اصلاح ہے
میوات اور میون کا بارہ مین صرف مسلمان ہونا کی وجہ سو تعصب موجود ہو۔
جب کہ میو اور میوات کا لیڈر یا سوچ سو کہیں اونچو سوچے ہا۔لیکن حالات کی سنگینی سو
بے خبر نہ ہا۔سکندر سہراب کے بقول جب ای وفد پٹیل سو ملو ہو تو خدشہ ہوکہ
بلوائین کا ہاتھن سو اِنن نے کٹوا پھینک تو۔لیکن ایک بھیدی نے بتادئیو کہ
جہاں رات ٹہرن کو پرو گرام ہے واجگہ مت رہئیو۔کہیں ڈوڈھا ہوکے رات گزارئیو
گوکہ اللہ نے وفد کی حفاظت کری۔صحیح سلامت گھر پہنچ گیا۔
میوات کا لیڈر ہجرت کا حق میں نہ ہا۔ لیکن سیاسی شعور نہ ہونا کی وجہ سو
میوات کا باشندان کو منطم پیغام نہ پہنچا سکا۔محدود وسائل کی بنیاد پے
جو کچھ کرسکے ہا۔اُنن نے میو قوم کی خیر کواہی میں کسر نہ چھوڑی۔
ہمارا گھر کنبہ میں دادا لگے لگے ہو نام نصیب خاں ہو۔بتاوے ہو کہ
چوہدری یاسین مرحوم نے بہت زور دئیو کہ اپنا گھرن نے مت چھوڑو
اور اگر جانو ضروری سمجھو ہو تو بارڈر سو بہت آگے چلا جائیو۔بارڈر پے مت روکئیو
۔پاکستان کا اندورن اضلاع میں ٹھکانو لگائیو۔لیکن سیاسی بصیرت کی کمی آڑے آئی
اور میو بارڈر پے رہ گیا۔
گوکہ شاید یہی وجہ ہی کہ میو اپنا کلیمن پے جھگڑتے جھگڑتے تاریخ کا چالیس سال
گنواچکا۔۔۔۔۔۔جاری ہے