
میواتی زبان میں کتب کی یقینی فراہمی.3
78 جشن آزادی اور میو قوم کتاب دشمنی ،علم بےزاری
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
خوشی منانو انسانی زندگی کا بہترین لمحات میںسو ایک لمحہ رہو ےہے۔لیکن خوشی منان کی وجہ بھی ہونی چاہئے۔ آج 13 اگست 2025 ہے۔دوست احباب،یار بیلین کا فون آاہاں کہ ہم نے جشن آزادی کا سلسلہ میں ایک تقریب کو اہتمام کرو ے،توئے ضرور آنو ہے۔کوئی کہہ ر ہے کہ ہم نے جشن آزادی کا سلسلہ میں ترانہ بنایو ہے ہمارے پئے لازمی آنو ہے۔کائی کو کہنو ہے کہ دوست احباب ،یار بیلین نے ناشتہ اور دوپہر کا کھانوں کو بندوبست کرو ہے۔ٹیم نکال کے ضرور آئیو۔ہم باٹ دےکھنگا۔یائی طرح بہت سا لوگن کو فون کالز وغیرہ آئی ہونگی۔جب جشن زادی کو مطلب پوچھوگئیو تو کائی کے پئے جشن کو معقول سبٍب نہ ہو۔بس پاسکتان آزاد ہوئیو۔مسلمان آزاد ہویا۔
کچھ لوگن کو ای بھی کہنو کہ ہم نے پروگرام کرلین دے۔پھر دیکھ یو،بڑا بڈا بڈا چوہدری کے آگ لگ جائے گی۔میں نے بہت سان کا منہ سو کہ میرا فلاں کام سو بڈا بڈا چوہدرین کے آگ لگ گی۔
ای لفظ میں نے اتنی بار سنو ہے کہ پریشان ہوکے میرو من کرے ہے کہ میںمیون کا اُن بڈا بڈا چوہدرین نے ڈھونڈوں جن کے کام کرا سو آگ

لگے ہے؟
۔مزیداری کی بات تو ای ہے کہ آگ بھی اُن کامن سو لگے ہے جو قوم کا فائدہ میں ہوواں۔جشن آزادی کے مارے دوسری قومن کی طرح میو بھی اکٹھا ہونگا۔سبن سو گزارش ہے کہ ان بڈا بڈا چوہدرین نے ضرور ڈھونداں جن کے اچھا کام کرا سو آگ لگے ہے۔میں نے رات بھر سوچو کہ اگر میں بڈا بڈا چوہدرین نے ڈھونڈن میں کامیاب ہوگئیو تو میو قوم کو بہت بڑو مسئلہ حل ہوجائے گو۔
میو قوم کا سپوتن سو گزارش ہے کہ کہیں کوئی بڈو چوہدری دکھائی دئے تو موکو ضرور بتائیو۔جاسو میں بھی دیکھ سکوں کہ واکے پئے اتنو ایندھن کہاں سو آوے ہے کہ ہر بات پے جلن لگ پڑے ہے؟
اب آئو جشن آزادی کا مہیں،کہا کوئی میو قوم کو باشندہ بتاسکے ہے کہ گذشتہ 78 سالن میں اپنی قوم اور اپنی برادری کے مارے کونسو ایسو کار نامہ ہے جو سرانجام دئیو ہوئے۔اور واکا اثرات عوام تک پہنچا ہوواں ۔میوات سو آئے 78 برس بیت چکا ہاں۔کائی لیڈر یا میو چوہدری یا پڑھا لکھا نے میو قوم کے مارے کوئی ایسو کار نامہ سر انجام دئیو ہوئے جائے میو قوم بڑی میوات میں رہتے ہوئے سر انجام نہ دے

سکے ہا؟
مان لئیو کہ انگریز دور میں آزادی نہ ہی ۔تقسیم برصغیر پاس و ہند کے بعد ہم کو آزادی ملی ہے تو ہم نے ای کارنامہ سرانجام دیو ہے؟،اگر کوئی بات موسو دُبکی ہوئے تو ضرور بتائیو۔
جن باتن نے قومی خدمات بتائو ہو۔ان باتن کو کریڈٹ اکیلا لئیو ہو۔کام کوئی بھی کرے۔مشکل وقت میں سب ہاتھ چھاڑ کے الگ ہوجاواہاں۔لیکن جب کریڈٹ کی باری آوے تو دوسران کا گلا موسن سو بھی دریغ نہ کراہاں۔یہی چھینا جھپٹی ہے جامیں ہم خود کفیل ہاں۔اتنی بڑی قوم ہے جو کائی اے تسلیم ای نہ کرے ہے۔78 سالن میں تین نسل بیت چکی ہاں۔ابھی تک ہم اپنو ریکارڈ بھی درست نہ کرسکاہاں۔۔
میون کو کہنو ہے کہ ہم نے پاکستان کا بنن میں سبن سو گھنی قربانی دی ہاں۔ان کو ریکارڈ کہاں ہے؟ ۔ تہارے پئے کہا ثبوت ہے کہ تم نے پاکستان کی تحریک اور تقسیم ہند میں کردار ادا کرو ہو۔؟۔جو نسل یا وقت پروان چڑھ ری ہے۔واکے نزدیک ای سب کچھ میو بوڑھان کی گپ ہاں۔انن نے کچھ بھی نہ کرو ہے۔سامان آٹھائیو اور پاکستان میں آبسا۔۔ای کنہو بے اسبب نہ ہے۔ہم نے اپنی تاریخ لکھن کی زحمت ای گوارا نہ کری ہے۔جدید دود میں ریفرنس اور کتابن کو حوالہ زبانی کہانی اور باتن سو زیادہ مستند ہے۔میون نے نہ تو کتاب لکھنی ہے ۔نہ

یہ کتاب پڑھن کو شوق راکھاہاں۔۔
میون کی کتاب دشمنی اور علم بیزاری کوئی نئی بات نہ ہے۔۔
یا جدید دنیا میں بھی میو قوم کتاب کی باغی ہے۔پہلے میں یا بات کے سخت خلاف ہو،جب کوئی کہوے ہو کہ میو قوم کتاب دشمن ہے۔لیکن عرصہ بیس سال سو لکھن پڑھن میں دلچسپی لے رو ہوں۔موئے ان لوگوں کی بات میں کوئی شک باقی نہ بچو ہے کہ میو قوم کتاب دشمن ہے۔
اللا تللان میں بے شمار دولت خرچ کردیوے ہے۔لیکن کتاب کی خریداری کے وقت ان لوگن نے موت کو فرشتہ دکھائی دیوے۔۔میں نے میو ادیب اور لکھارین کا گھر اور کتب خانہ دیکھا ۔ان کا گھرن میں اِتنا بھانڈا نہ ہاں ،جتنی اُنن
نے کتاب لکھ راکھی ہا۔میری بات پے شاید شک ہوئے تم کدی ۔
سکندر سہراب۔
قیس چوہدری۔
نواب ناظم۔
احمد فہیم۔
سو ملن چلا جائو۔پتو چل جائے گو ان لوگن نے اپنی زندگی لگادی۔میو قوم کے مارے لکھو۔میواتی میں لکھو۔قوم نے ان کو کہا صلہ دئیو؟
ان کا گھر کتابن سو بھرا پڑا ہاں۔میون کا جتنا وٹس ایپ کروپس ہاں۔ان میں شرکاء کے میو قوم کے مارے جتنو دکھ درد دکھائی دیوے ہے ۔اگر یہ لوگ ایک ایک کتاب بھی خریداں تو میو قوم اور میو بولی کو بہت بھلو ہوسکے ہے۔لیکن ہم یاکام کے مارے کتاب دشمنی چھوڑنی پڑے گی ۔میو ہوکے دشمنی چھوڑ دئے۔ای کدی بھی نہ ہوسکے ہے۔ہم تو تائو چچان کی معمولی معمولی باتن پے مرن جین ختم کردیواہاں۔کتا ب دشمنی تو ہمار انگ انگ میں بھری پڑی ہے۔
موکو ۔جشن آزادی منانا کو ایک میو قوم کو کوئی باشندہ سبب بتادئے کہ ہم نے ای کار نامہ سرانجام دئیو ۔یا مارے خوشی منا رہاں۔تو پوری میو قوم پے احسان ہوئے گو۔
کتاب دشمنی اور علم دشمنی یاسو فالتو کہا ہوئے گی کہ ایک زمین کو ٹکرا ان کو ملو ہو کہ کالج سکول۔مکتب بنالئیو۔میون کی کتاب دشمنی نے جوش مارو ۔78 سالن میں اتنی بڈی قوم ایک کالج نہ بنا سکی۔۔
کئی گپی میون کو کہنو ہے کہ پاکستان میں میون کی تعداد کروڑ سو گھنی ہے۔۔۔موئے سُن کے بہت اچھو لگو۔اچان چک میرو ماتھو ٹھنکو۔کہ اگر میو قوم کی تعداد ایک کروڑ سو گھنی ہے۔تو مان لئیو کہ۔ان میں سو آدھا غریب و نادار ہونگا۔جن کے پئے دینا کو کچھ نہ ہے،انن نے چھوڑ دئیو۔تو پچاس لاکھ بچا۔ان میں کچھ لوگ مزید سستی سو کام لیتا ہونگا۔کوئی دو چار لاکھ انن نے بھی نکال دئیو۔لگ بھگ۔چالیس لاکھ صحت مند میون کی لگا لئیو۔سارا میو۔مہینہ میں صرف ایک روپیہ دیواں۔کائی مشترکہ فنڈ میں جمع کراں۔ہر مہینہ چالیس لاکھ اکٹھا ہووا ہاں ۔۔ایک سال میں اتنو فنڈ ز جمع ہوجانگا،کہ جہاں چاہے کالج بنا لئیو۔ بدوکی کی زمین میں کونسی میون کی نال دَب ری ہے۔
لیکن ایسو کدی بھی نہ ہوسکے ہے۔کیونکہ ہماری کتاب دشمنی۔اور علم بےزاری یا بات کی اجازت نہ دیوے ہے۔
اب ایک ہی راہ جشن منانا کی بچے ہے کہ ہم جشن آزادی کے ساتھ علم و کتاب سو آزادی کو بھی جشن مناواں۔۔ہم ایک دوسرا کی اچھی مانن کے بجائے دوسرانکا حقہ کی چلم بھرنو فکر سمجھاہاں۔جتنا بھی یا وقت میون کا ٹھونڈا ہاں۔ان ممیں کائی کا ہاتھ میں کائی بوٹ بونٹ ہے جاکی پالش کرراہاں۔کائی کاہاتھ میں حقہ کی چلم ہے۔کائی نے گھنی ترقی کرلی تو واکی گودھی میں کائی لوبالک ہے۔جاکی نیفین نے دھورو ہے۔میون کی اپنی کوئی شناخت ہے نہ ان کی کوئی ایسی کتاب جائے میون کے مارے فخر سو پیش کرو جاسکے۔جن لوگن کتاب لکھی۔علم پے عمر خرچ کری ان سو سلام لینو بھی گورا نہ کراہاں۔
موئے یا با ت کو بھی ادراک ہے،میری تحریر پڑھ کے بہت سان کے پیٹ میں درد ہون لگ پڑے گو۔سچی بات سو درد ہووے ہے۔
علم بیزاری و کتاب دشمنی کی سب سو بڑی دلیل ای ہے۔میون نے نکاح جہیز وغیرہ پے گنڈ گول بناکے کئی سال اور بے شمار دولت خرچ کردی ہے۔لیکن نتیجہ ای ہے کہ ان داعین کا بالکن کو کوئی بہتر جہیز دین والو رشتہ مل جائے تو۔کرلیواہاں دوسران کو سادگی کو درس دیوا ہاں۔
اپنا بیٹا کی بارات تاج محل میں ۔اور بیٹی کو نکاح تبلیغی مرکز میں۔