دستیا ب وسائل اور میو قوم کی ترقی کو راز۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
کہامیو قوم کو اکٹھو ہونوجرم ہے؟
قانون فطرت ہے طاقت کچھ متفرق اجزاء مل کر ایک طاقت ور چیز بن جاوے۔کوئی بھی طاقت ور چیز بنیادی طورپے کچھ چیزن کو اکٹھ یا مجموعہ رہوے ہے۔کوئی بھی قوم وا وقت تک طاقتور نہ بن سکے ہے جب تک واکی بھکری ہوئی طاقت یکجا نہ ہوجائے۔تُکنا بھی جب اکٹھا نہ ہوجاواں پند نہ کہلاواہاں۔ہر ایک کی الگ الگ طاقت اور الگ الگ صلاحیت ہے اکیلو انسان کتنو بھی برو بن جائے۔اکیلو ای رہوے ہے جب دو مل جاواں تو دو نہ بلکہ گیارہ بن جاواہاں۔جا قوم میں اکٹھ اور یکجائی پیدا ہوجاوے ہے وائے کوئی نہ ہرا سکے ہے۔
میو قوم میں بہت گھنا لوگ باصلاحیت ہاں۔لیکن ان کی صلاحیتن کا اظہار کے مارے کوئی میدا ن عمل نہ ہے۔یا مارے یہ باصلاحیت لوگ بے کار ہوجاواہاں۔عقلمندی یا بات کو نام نہ ہے کہ صلاحیتن نے ضائع کراں بلکہ بہتری یا میں ہے کہ ان سو فائدہ اٹھایا جاواہاں۔کوئی بھی چیز واوقت تک قیمتی محسوس ہووے ہے۔جب تک کام کی رہوے۔جب بےکار ہوجاوے ہے تو اپنی اہمیت کھودیوے ہے۔
یائے بھی پڑحو
میو قوم کی ترقی یا میں ہے کہ نئی نسل کی صلاحیتن سو کام لیواں نہ کہ ان باصلاحیت لوگن نے ضائع کراں۔اگر میوقوم کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کرن میں کامیاب ہوجائے تو ترقی پائون کی ٹھوکر بن جائے۔
دنیا کی ساری قومن اپنی ترقی کے مارے خام مال کی تلاش میں رہوا ہاں۔افرادی طاقت بہت بڑو ہتھیار رہوے ہے۔میو قوم کے پئے خام مال نوجوانن کی سورت میں کثیر تعداد میں موجود ہے۔اگر یائے کار آمد بنانا کے مارے کچھ ہل جُل کرنی بھی پڑے تو کونسی بڑی بات ہے۔؟۔میون میں ایک بُری عادت ای بھی ہے خرچ کرن سو ان کی جان جاوے ہے۔جو خرچ کراہاں اُنن نے روکن والا بہت بھاری مقدار میں موجود ہاں۔
لیکن کاروبار کرن کے مارے کچھ نہ کچھ تو خرچ کرنو ای پڑے ہے۔میو قوم کی ترقی نہ سہی کم از کم تم یائے کاروبار ای سمجھ لئیو۔ سرمایہ کاری ہے ۔میون میں نئی نسل کا بالک ایسا بصلاحیت موجود ہاں جو کچھ کرنو چاہواہاں۔لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سو مجبور ہاں۔
اگر ایسا لوگن کی کفالت کری جائے مناسب انداز میں ان کو دوچار مہینہ تک تربیت دی جائے۔ہنر سکھائیو جائے،اور ان کا اخرجات برداشت کرلیا جاواں تو دو چار مہینہان میں یہی لوگ پیداواری صلاحیت کا مالک بن جانگا۔۔جن شعبہ جات میں ان کی تربیت کری جاوے ان کے مارے عملی شکل میں ورکشاپ بھی مہیا کری جاواہاں۔۔ان سو کام لئیو جاوے۔یاکام کو جو معاوضہ بنے وائی سو ان کی تعلیم و تربیت کو بندوبست کرو جاوے اور ان کو وظائف دیا جاواہاں۔۔
یہ بات ناممکن نہ ہاں ۔جو ادارہ کام کرراہاں ان سو رول ماڈل لئیوجاسکے ہے۔جو پرائویٹ ادارہ کام کرراہاں ۔یا جا انداز سو ایک فیکٹری یا کمپنی چلائی جاوے ہے یائی طریقہ سو تم میو قوم کے مارے رول ماڈل بنا سکوہو۔۔ایک بار کی کھیچل ہے ۔واسو پیچھے ای کام خود کار طریقہ سو چلن لگا جائے گو۔
رہی بات بلی کا گلا میں گھنٹی کون باندھے؟یا رقم پیسہ کا معاملہ میں کس پے اعتبار کرو جائے؟سیدھی سی بات ہے۔قوانین اور قواعد و ضوابط ایسا بنا دئیو کہ۔شخصیات کے بجائے قوانین کو زیادہ اہمیت دی جائے۔احتساب کو اعلی نظام کھڑو کرو جائے۔جو لوگ خرچہ کراں ان کو تسلی دی جائے کہ تہارو سرمیہ خاص مدت کے بعد واپس کردئیو جائے گو۔جیسے ذاتی کاروبارن نے لوگ چلاواہاں۔ایسے ای کوئی ادارہ ایسو قائم ہوجائے۔جو خام مال اے کار آمد بنائے۔اور بہترین افرادی قوت مہیا کرے۔ہنر مند پیدا کراجاواہاں۔ای کام مُفتا میں نہ ہوئے جو لوگ خدمات سرانجام دیواں ان کو مناسب معاوضہ بھی حق الخدمت کے طورپر ادا کرو جاوے۔جاسو بہتر انداز میں امور سر انجام دیا جاسکاں۔
میو قوم میں بہت سا ہنر مند زندگی بھر کا تجربات راکھاہاں۔باصلاحیت ہاں ۔اگر ان کی خدمات حاصل کری جاواہاں تو منزل قریب آسکے ہے۔ایک ایسو نظام کھڑو کرو جاسکے ہے کہ باومعاوضہ افراد میون کا کاروبارن کا بارہ مین ایسو نظام قائم کراں ۔جا کے پئے جو سکلز ہوواں ان سو دوسرعان کو فائدہ پہنچاواں۔دوسران سو خود فائدہ اٹھا واں۔ای سارو سلسلہ معاوضہ لیکے کرو جاوے۔