You are currently viewing میو قوم کی بیٹیوں کے لئے انمول تحفہ
میو-قوم-کی-بیٹیوں-کے-لئے-انمول-تحفہ.jpg

میو قوم کی بیٹیوں کے لئے انمول تحفہ

A priceless gift for the daughters of Meo nation

 

میو-قوم-کی-بیٹیوں-کے-لئے-انمول-تحفہ.jpg
میو-قوم-کی-بیٹیوں-کے-لئے-انمول-تحفہ.jpg

میو قوم کی بیٹیوں کے لئے انمول تحفہ
سعد ورچوئل سکلز پاکستان کا انقلابی اقدام۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

آج چھ ستمبر2023 ہے۔گوکہ یہ مہینہ میرےلئے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ایک سال پہلے26 ستمبر2022 کو میرا بیٹا سعد یونس اللہ غریق رحمت فرمائے ہمیں چھوڑ کر بہت دور چلے گئے تھے۔جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ٹھیک ایک سال بعد ان کا قائم کردہ ادارہ ۔سعد ورچوئل سکلز پاکستان نے کام شروع کردیا۔الحمد اللہ بچے اور بچیوں کی معقول تعداد کلاسز میں شریک ہورہی ہے۔

لڑکوں کے لئے تو بہت سے مواقع اور آنے جانے کی سہولیات موجود ہوتی ہیںلیکن بچیوں کے لئے کسی اعلی ادارہ میں جاکے تعلیم حاصل کرنا وہ بھی محفوظ و گھریلو ماحول میں بہت مشکل ہے۔اس بارہ میں بہت سوچ بچار سے کام لیا گیا کہ بچیوں کے سلسلہ میں کوئی بہتر اور محفوظ طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے۔ مشاورت میں جناب سکندرسہراب  میومشتاق احمد میو امبرالیا۔شکر اللہ میو۔عاصد رمضان میو۔ خان محمد میو۔ جیسے مخلص لوگوں سے مشاورت رہی۔فون پر بہت سے احباب سے رابطہ ہوا۔مناسب آراء سامنے آئیں۔

مشاورت میں طے پایا کہ بچیوں کی فنی تعلیم کے سلسلہ میں زیادہ تاخیر مناسب نہیں۔فوراََ کلاسز کا اجراء ضروری ہے۔میو قوم کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں تو بچیوں کو بھی موقع ملنا چاہئے۔


سو الحمد اللہ بچیوں کی کلاس کااجراء کردیا گیا ہے۔ٹرینڈ بچیاں ہی بطور ٹیچر مقرر کی گئی ہیں۔علیحدہ سے باپردہ ماحول جہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے۔بچیوں کے لئے بچیاں ہی بطور استاد مقرر کرنے سے یہ فائدہ ہوا کہ انہیں سوال و جواب کرنے اور سیکھنے سکھانے کے عمل کے لئےبے تکلف ماحول ملا اس بے تکلفی نے ایسا ماحول جنم دیا کہ خوشگوار تعلیمی ماحول دیکھنے کو ملا۔

خاص توجہ کی ضرورت

ادارہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ادارہ ہذا کا مقصد للہ فی اللہ کام کرنا ہے۔ایسے بچے اور بچیوں کی تربیت مقصود ہے جو ناداری۔غربت اور مالی وسائل سے تنگی کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کرسکے۔یا انہیں ایسے مواقع میسر نہ آسکے۔

 

ڈاکٹر امجد ثاقب کی قابل تقلید شخصیت۔

مجھے یاد ہے ایک بار پیف کے ایک پروگرام میں داکٹر امجد ثاقب صاحب نے بتایا کہ ۔ہم نے اخوت ایک بیوہ سے متاثر ہوکر قائم کی۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ایک بیوہ نے ایک سلائی مشین کی درخواست کہ میں سلائی کرکے بچوں کی روزی روٹی کا سہارا پیدا کرنا چاہتی ہوں ۔مجھے یہ سلائی مشین بطور قرض دیدیں ۔میں قسطوں میں اس کی ادائیگی کردونگی۔اس باہمت خاتون کی بات نے ایک آئیڈیا دیا جو اخوت کی شکل میں بے مثال ادارہ کی صورت میں دنیا کے سامنے موجود ہے۔

میو قوم کے لئے بہتر منصوبہ۔

اللہ تعالیٰ نے کسی کو بُرے دن نہ دکھائے۔لیکن قدرت کا قانون کسی ضرورت یا مجبوری دیکھ کر نہیں بدلتا اس نے جاری و ساری رہنا ہے۔جن لوگوں کے پاس اسباب و وسائل موجود ہیں۔انہیں شاید سمجھ میں نہ آئے۔لیکن جن کم وسائل والوں کی بیٹیاں کسی وجہ سے بے گھر ہوچکی ہیں۔بیوہ ہیں۔گھروں میں مالی تنگی ہے۔یا غربت ان کی ترقی میں رکاوٹ کھڑی کررہی ہے۔خودداری دوست سوال دراز کرنے سے مانع ہے۔آخر کب تک کوئی کسی کی مدد کرسکتا ہے۔زندگی کے اپنے ڈھنگ اور انداز ہوتے ہیں۔ہر کسی کو ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

ہم میو قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں

محدود وسائل میں میو قوم کےلئے ہم کربھی کیا سکتےہیں۔۔ ہمارے پاس نہ تو بے تہاشا دولت ہے کہ ہر کسی کی مدد کرسکیں نہ ہی یہ ممکن ہے۔ البتہ سعد ورچوئل سکلز پاکستان کی شکل میں ہمارے پاس ایک راستہ موجود ہے جہاں محنت کرکے ناداروں بے روزگاروں اور کم وسائل کے حامل لوگوں کے لئے کچھ آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتےہیں۔

میو قوم ہمدرد اور دیالو قوم ہے۔ایک دوسرے کے درد کو سمجھتی ہے لیکن کوئی ایسا لائحہ عمل۔یا روٹ میپ موجود نہیں ہے جس پر چل کر قوم کے لئے کچھ بہترہوسکے۔کوئی نمونہ قائم ہوسکے۔کچھ سطحی الذہن لوگ ہر بات میں کیڑے نکالتے اورشک و شبہ کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔شور مچانے اور کسی کی نیت پر شک کرنے میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔یہ تو انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ ۔قافلے چلتے رہتے ہیں کتے بھونکتے رہوتے ہیں۔۔۔آوازہ خلق پر دھیان دینے کے بجائے کام کر دھیان دینے سے مکالفین بھی ہموان بن جانتے ہیں۔

سعد ورچوئل سکلز پاکستان کی جگہ کا فیصلہ۔

جب سعد ورچوئل سکلز کے بارہ میں دوست احباب سے مشاورت ہوئی توجگہ کا سب سے پہلا مسئلہ تھا۔کوئی کہتا تھا کہ مین فیروز پور روڈ پر جگہ ہونے چاہئے۔کسی کا موقف تھا کہ۔ایڈریس کے لحاظ سے بہتر ہونی چاہئے۔کم از کم پانچ دس مرلہ جگہ درکار ہوگی۔تخمینہ لگانے پر معلوم ہوا کہ کرایہ کی مدد، دیگر اخرجات کی مدمیں ہر ماہ کم از کم پچاس ہزار سے زیادہ کے اخرجات درکار ہونگے۔پچاس ہزار کہاں سے لائیں؟ سب سوچ میں پڑ گئے۔اخرجات پر آنے والی لاگت پر سب خاموش ہوگئے
۔آخر کار طے پایا کہ میرا گھر(حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)جوکہ ڈبل سٹوری ہے۔میرے استعمال کے لئے ایک پورشن کافی ہے۔نیچے کا حصہ سعد ورچوئل سکلز کے لئے وقف کردیا۔
یہ سوا پانچ مرلہ جگہ ہے۔اس میں دو عدد کچن۔تین اٹیچ باتھ روم۔ چار کمرے۔حال۔اور بیٹھک بنے ہوئے ہیں۔۔

جب تک سعد ورچوئل سکلز پاکستان کام کرتا رہے گا۔یہ پورشن وقت رہے گا۔کوئی کرایہ نہیں۔کوئی بل نہیں۔جتنے بچے آئیں ۔مہمان آئیں ان کے اخرجات ہمارے ذمہ ہیں۔
اللہ کا شکر ہے اس پر راقم الحروف کا دل مطمئن ہوا۔گھر والوں سے مشورہ کے بعد اس کی توثیق کردی گئی۔یوں اللہ نے سعد ورچوئل سکلز کے لئے بلڈنگ کا مسئلہ بھی حل کروادیا۔۔۔

بچیوں کے لئے نصاب۔

سعد ورچوئل سکلز پاکستان کے ماہرین کی مشاورت کے بعد طے پایا کہ تعلیم کو تفہیم کے انداز میں دیا جائے۔ناکہ مروجہ طریقہ کے مطابق صرف رٹا لگایا جائے۔کچھ سمجھ میں آئے یا نہ آئے،بس امتحان پاس ہونا چاہئے۔
آنے والے طلباء و طالبات کے لئے ان کے طبعی رجھان کے مطابق تربیت دی جائے۔ہم نے سکلز(ہنر )دینا ہے۔طبعی رجحان کے مطابق تربیت دی جائے توشوق اور ہنر دونوں یکجا ہوجاتے ہیں اور انسان بہتر انداز میں اپنے ہنر کے ساتھ مطابق رکھ سکتا ہے،

مثلاََ ایک بچی گھریلو امور ڈیکوریشن وغیرہ میں دلچسپی رکھتی ہے۔دوسری کو کھانا پکانے میں۔تیری کو فیشن و لباس سے۔تیسری کو تعلیم و تعلم سے۔چوتھی کو ای کامرس سے۔پانچویں کولکھائی پڑھائی سے لگائو ہے۔

ہماری کوشش ہوگی کہ ہر ایک کو اس کی دلچسپی کے مطابق ہنر دیا جائے تاکہ اپنے شوق کو کاروباری حیثیت سے زندگی کا معمول بنا سکے۔
یہی طلباء کے لئے۔کہ ایک کو گیم کھیلنا پسند ہے دوسرے کو۔کرکٹ پسند ہے۔تیسرا فٹ بال دیکھنا چاہتا ہے۔ایک لکھائی بپڑھائی اور مضمون نویسی سے دلچسپی رکھتا ہے تو کوشش ہوگی کہ آئی ٹی کی دنیا میں انہیں شعبوں میں ہنر دیا جائے۔۔۔۔
ممکن ہے بات سمجھ میں آئے ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے ،جس کا جو شوق ہوگا اس کا وہی کاروبار ہوگا۔۔۔۔

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply