
تقسیم کی ان کہی قیمت:
۔ 1947 کے فسادات میں میو برادری کے نقصانات کا ایک گہرا تجزیاتی مطالعہ
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تعارف: 1947 کا فراموش شدہ باب
جب برطانوی ہندوستان کی تقسیم کا ذکر ہوتا ہے تو تاریخ کی یادداشت اکثر پنجاب اور بنگال کے خونریز واقعات پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ یہ علاقے بلاشبہ اس دور کے سب سے بڑے انسانی المیوں کا مرکز تھے، جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور ان گنت جانیں تشدد کی نذر ہو گئیں 1۔ تاہم، اس وسیع تباہی کے سائے میں کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جو مرکزی تاریخی بیانیے میں اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک سب سے المناک داستان میو قوم کی ہے، جنہیں شاہی ریاستوں الور اور بھرت پور میں منظم اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رپورٹ اس فراموش شدہ باب کو تاریخ کے اوراق میں اس کا صحیح مقام دلانے کی ایک کوشش ہے۔
میو، میوات کے علاقے میں صدیوں سے آباد ایک منفرد زرعی مسلم برادری تھے، جن کی ثقافت اسلامی عقائد اور راجپوت و ہندو روایات کا ایک حسین امتزاج تھی 5۔ ان کی نیم قبائلی، خود مختار اور جنگجو فطرت نے انہیں تاریخ میں ہمیشہ ایک ممتاز مقام بخشا تھا۔ لیکن 1947 میں یہی شناخت ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئی۔ ان کی کہانی ایک ایسی بین بین شناخت (liminal identity) کے خاتمے کی داستان ہے جو نوآزاد ریاستوں کی سخت مذہبی تقسیم کو برداشت نہ کر سکی 8۔
یہ تجزیہ اس موقف کو پیش کرتا ہے کہ 1947 میں میو برادری کے خلاف ہونے والا تشدد تقسیم کے ہنگاموں کا کوئی ضمنی نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ الور اور بھرت پور کی شاہی ریاستوں کی طرف سے نسلی صفائی کی ایک دانستہ مہم تھی۔ اس مہم کے نتیجے میں میو قوم کو انسانی، مادی، علاقائی اور ثقافتی سطح پر ایسے تباہ کن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جس نے ہندوستان میں ان کی سماجی، معاشی اور سیاسی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا اور پاکستان میں ان کی شناخت کو تحلیل کر دیا۔
میوات کے میو: طوفان سے پہلے کی ایک تصویر
1947 کی تباہی کے پیمانے کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس طوفان سے پہلے میو قوم کون تھی اور ان کی سماجی و ثقافتی حیثیت کیا تھی۔ ان کی شناخت، تاریخ اور سماجی ڈھانچہ ہی اس نقصان کی شدت کو واضح کرتا ہے جو انہیں اٹھانا پڑا۔
ایک ملی جلی اور جنگجو شناخت
میو قوم کی شناخت کی بنیاد ان کی راجپوت نسل پر تھی، اور وہ فخر سے اپنا سلسلہ نسب ہندو دیومالا کے کرداروں جیسے رام اور کرشن سے جوڑتے تھے، اور خود کو سوریاونشی اور چندراونشی خاندانوں کا حصہ سمجھتے تھے 5۔ ان کا اسلام قبول کرنا زیادہ تر صوفیائے کرام، جیسے غازی سید سالار مسعود اور خواجہ معین الدین چشتی، کے اثر و رسوخ کا نتیجہ تھا، لیکن اس مذہبی تبدیلی نے ان کی قدیم روایات کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا 5۔ وہ شادی بیاہ میں ہندوؤں کی طرح اپنے گوترا سے باہر شادی کرنے (gotra exogamy) کے اصول پر قائم رہے، ہولی جیسے تہوار مناتے رہے، اور یہاں تک کہ شادی کی رسومات میں اسلامی نکاح اور ہندو سپت پدی دونوں کو شامل رکھا 5۔ اس ثقافتی امتزاج نے ایک ایسی منفرد “بین بین شناخت” کو جنم دیا جس کی تعریف “ہندو مت اور اسلام کے درمیان” کی حیثیت سے کی جاتی ہے، ایک ایسی حقیقت جس کا اعتراف مہاتما گاندھی نے بھی کیا تھا 8۔
میوات: مزاحمت کی سرزمین
لفظ “میو” جغرافیائی طور پر “میوات” کے علاقے سے جڑا ہوا ہے، جو دہلی کے جنوب میں ایک غیر واضح حدود پر مشتمل خطہ تھا اور جس میں موجودہ ہریانہ (ضلع نوح)، راجستھان (الور، بھرت پور) اور اتر پردیش (متھرا) کے کچھ حصے شامل تھے 5۔ تاریخی طور پر، میو اپنی شدید آزادی پسندی اور مرکزی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے 13ویں صدی میں سلطان غیاث الدین بلبن کے خلاف جنگ لڑی، جس نے ان کے خلاف سفاکانہ مہمات چلائیں 19۔ 1527 میں، ان کے عظیم رہنما راجہ حسن خان میواتی نے کنواہہ کی جنگ میں بابر کے خلاف رانا سانگا کا ساتھ دیا اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے 19۔ اس مسلسل مزاحمت اور بغاوت کی تاریخ نے انہیں ایک جنگجو قوم کے طور پر مشہور کر دیا 9۔
سماجی و معاشی حیثیت
1947 سے پہلے، میو اپنے علاقے کی ایک غالب زرعی برادری تھے۔ ان کی اکثریت “چھوٹے اور درمیانے کسانوں” کے طور پر زمینوں کی مالک تھی 6۔ انہیں مقامی سماجی ڈھانچے میں زمیندار اور کئی ہندو اور مسلم خدمت گزار ذاتوں کے لیے “ججمان” (سرپرست) کی حیثیت سے اعلیٰ سماجی وقار حاصل تھا 6۔ میوات کے مقامی تناظر میں ان کی معاشی اور سیاسی طاقت غیر معمولی تھی، جس نے انہیں خود مختاری کا ایک مضبوط احساس دیا تھا۔ یہی سماجی اور معاشی طاقت 1947 کے واقعات میں ان سے چھین لی گئی۔
میو قوم کی یہ ملی جلی ثقافت صدیوں تک ان کی بقا اور طاقت کا ذریعہ بنی رہی۔ اس نے انہیں میوات کے پیچیدہ سماجی منظرنامے میں اپنے ہندو پڑوسیوں، جیسے جاٹ، اہیر اور گجر، کے ساتھ پرامن طور پر رہنے کے قابل بنایا 5۔ یہ ثقافتی لچک ان کی مزاحمت کا ایک اہم پہلو تھی۔ تاہم، 1940 کی دہائی کا سیاسی ماحول، جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم تھا، سخت مذہبی درجہ بندی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ وہی ثقافتی امتزاج جو میو شناخت کی پہچان تھا، اب ان کے لیے ایک “بے جوڑ” شناخت بن گیا 14۔ ہندو قوم پرست قوتوں کے لیے ان کا مسلمان ہونا انہیں دشمن قرار دینے کے لیے کافی تھا، جبکہ کچھ مسلم قوم پرستوں کے لیے ان کی ہندو روایات انہیں مشکوک بناتی تھیں۔ اس طرح، میو قوم کی منفرد ثقافتی شناخت، جو صدیوں تک ان کی طاقت کا سرچشمہ رہی، تقسیم کے وقت ان کی سب سے بڑی کمزوری بن گئی۔ ان کے خلاف تشدد صرف لوگوں پر حملہ نہیں تھا، بلکہ یہ اس سیال اور مشترکہ شناخت کے تصور پر بھی حملہ تھا جسے نئی قائم ہونے والی ریاستیں قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں۔
چنگاری بھڑک اٹھی: الور اور بھرت پور میں فرقہ وارانہ سیاست
1947 کے فسادات اچانک بھڑکنے والے ہنگامے نہیں تھے، بلکہ ان کی جڑیں الور اور بھرت پور کی شاہی ریاستوں میں کئی دہائیوں سے پنپنے والی فرقہ وارانہ سیاست میں پیوست تھیں۔ ان ریاستوں نے منظم طریقے سے ایسا ماحول پیدا کیا جس نے میو قوم کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کی راہ ہموار کی۔
ریاستوں کا “ہندو راشٹر” منصوبہ
1920 اور 1930 کی دہائیوں سے الور اور بھرت پور کی انتظامیہ نے آریہ سماج اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک “ہندو راشٹر” (ہندو ریاست) کے قیام کے سیاسی ایجنڈے پر کام شروع کر دیا تھا 25۔ اس منصوبے کا ایک اہم حصہ “شدھی تحریک” تھی، جس کا مقصد میو مسلمانوں کو دوبارہ ہندو مت میں شامل کرنا تھا۔ اس جارحانہ تبلیغی مہم نے میو قوم کی مسلم شناخت کو براہ راست چیلنج کیا اور معاشرے میں شدید کشیدگی پیدا کر دی 12۔
1932-33 کی میو بغاوت: معاشی جدوجہد سے فرقہ وارانہ تصادم تک
الور ریاست کی جانب سے لگائے گئے بھاری زمینی محصولات اور ٹیکسوں کے خلاف میو قوم نے ایک زبردست بغاوت شروع کی 6۔ یہ بغاوت بنیادی طور پر ایک معاشی جدوجہد تھی، لیکن الور ریاست اور اس کے اتحادیوں نے اسے کامیابی سے ایک ہندو حکمران کے خلاف مسلمانوں کی فرقہ وارانہ بغاوت کا رنگ دے دیا۔ اس حکمت عملی نے فرقہ وارانہ تعلقات کو مزید زہر آلود کر دیا 6۔ تاہم، اس بغاوت کی کامیابی نے میو قوم کو ایک حد تک “سماجی اور معاشی طاقت” بخشی، جس کی وجہ سے وہ 1947-48 میں ہونے والے حملوں کی ابتدائی طور پر مزاحمت کر سکے 6۔
انتہا پسندی کا عروج اور ‘میوستان’ کا مطالبہ
شدھی تحریک کے جواب میں، میو رہنماؤں نے اپنی اسلامی شناخت کو مضبوط کرنے کے لیے تبلیغی جماعت کو میوات میں مدعو کیا، جس سے علاقے میں اسلامائزیشن کی ایک جوابی لہر شروع ہوئی 27۔ 1946-47 تک، مسلم لیگ کے زیر اثر، کچھ میو رہنماؤں نے “میوستان” کے نام سے ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ شروع کر دیا، جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ پاکستان میں شامل ہو سکتا ہے 28۔ اگرچہ اس مطالبے کی عوامی حمایت محدود تھی، لیکن ریاستی حکام نے اسے پوری میو برادری کی غداری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ الور کے ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم، این بی کھرے نے اسی مطالبے کو بنیاد بنا کر سردار پٹیل کو قائل کیا کہ میو بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں اور انہیں کچلنا ضروری ہے 27۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 1947 کا تشدد ‘میوستان’ تحریک کا براہ راست نتیجہ نہیں تھا۔ میو قوم کی تاریخ مرکزی طاقتوں کے خلاف معاشی اور سیاسی خود مختاری کے لیے مزاحمت سے بھری پڑی ہے، اور 1932-33 کی بغاوت بھی اسی تاریخی تسلسل کا حصہ تھی 19۔ تاہم، شاہی ریاستوں نے، ہندو قوم پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر کے زیر اثر، اس روایتی مزاحمت کو جان بوجھ کر ایک نئے فرقہ وارانہ زاویے سے پیش کیا۔ ‘میوستان’ کا مطالبہ، جو ممکنہ طور پر ایک محدود سیاسی نظریہ تھا، کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اسے پوری برادری کے خلاف پہلے سے منصوبہ بند فوجی کارروائی کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یوں، میوستان تحریک تشدد کی وجہ نہیں، بلکہ الور اور بھرت پور کی ریاستوں کے لیے ایک آسان بہانہ تھی تاکہ وہ اس خطے کو اپنی غالب اور تاریخی طور پر باغی مسلم آبادی سے پاک کرنے کے اپنے دیرینہ سیاسی منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
میوات کی تباہی: تشدد کی ایک تاریخ (مئی-اگست 1947)
مئی سے اگست 1947 کے درمیان میوات میں جو کچھ ہوا، وہ فرقہ وارانہ فسادات نہیں بلکہ ایک منظم اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی نسل کشی تھی۔ یہ تشدد اچانک نہیں پھوٹا، بلکہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اسے ریاستی مشینری کی پوری طاقت سے نافذ کیا گیا تھا۔
منظم تشدد کا آغاز
تشدد کا آغاز مئی 1947 میں بھرت پور سے ہوا اور جون تک الور میں پھیل گیا 31۔ اس کی بنیاد مارچ 1947 میں ہوڈل گاؤں میں ہونے والی ایک ہندو پنچایت میں رکھی گئی تھی، جہاں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ “میوؤں کو، ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے، لوٹ لیا جانا چاہیے” 25۔ یہ فیصلہ آنے والے مہینوں میں ہونے والی تباہی کا پیش خیمہ تھا۔
شاہی ریاستوں کا کردار
الور اور بھرت پور کے حکمرانوں، ان کے درباریوں اور ان کی پولیس اور فوجی دستوں نے یہ کہہ کر “تمام میوؤں کا صفایا” کرنے کی مہم شروع کی کہ وہ بغاوت کر رہے ہیں 25۔ اس مہم میں انہیں جے پور، جودھ پور اور پٹیالہ کی ریاستوں کی فوجی مدد بھی حاصل تھی 25۔ محققین نے اس تشدد کو متفقہ طور پر “پوگروم” (منظم قتل عام)، “سیاسی اور علاقائی تسلط کی رسم” اور “منظم نسلی صفائی” قرار دیا ہے 13۔
منظم قتل عام کی شہادتیں
محققہ شیل مایارام کی طرف سے ریکارڈ کی گئی الور فوج کے سابق فوجیوں کی زبانی تاریخ اس مہم کی ہولناکی کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک سابق فوجی نے بتایا، “ریاست کو مسلمانوں سے پاک کرنے کے لیے الور کو چار سیکٹروں میں تقسیم کیا گیا تھا، جن میں سے ہر ایک مختلف فوجی افسر کے ماتحت تھا” 31۔ ایک اور فوجی نے کالا پہاڑ کے قتل عام کا ذکر کیا، جہاں میوؤں نے پناہ لے رکھی تھی: “انہیں ختم کرنے کے لیے، ہم نے پولیس اور فوج کا استعمال کرتے ہوئے تینوں اطراف سے حملہ کیا۔ ہمیں اس پورے علاقے کو صاف کرنے میں دو ماہ سے زیادہ، جولائی اور اگست کے مہینے لگے۔ الور میں ایک بھی مسلمان نہیں بچا… بھرت پور نے بھی یہی کیا” 31۔ اس وقت کے برطانوی چیف کمشنر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بھرت پور ریاست “مکمل طور پر آپے سے باہر ہو چکی ہے،” اور مزید کہا کہ “انہوں نے تمام مسلمانوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے… میں نے ہر طرف لاشیں دیکھیں۔” 31۔
یہ واقعات تقسیم ہند کے وسیع تر افراتفری کے دوران ریاستوں کی طرف سے اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کی ایک سفاکانہ کوشش تھے۔ الور اور بھرت پور میں تشدد 15 اگست 1947 کی سرکاری تاریخ سے پہلے ہی اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ برطانوی راج کے خاتمے اور نئی حکومتوں کے قیام کے درمیانی عرصے میں پیدا ہونے والے طاقت کے خلا کا شاہی حکمرانوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اس افراتفری کو اپنی ریاستوں کی آبادیاتی ساخت کو پرتشدد طریقے سے تبدیل کرنے اور ایک ایسی آبادی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جسے وہ تاریخی طور پر اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ یہ تشدد صرف تقسیم کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ مقامی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تقسیم کی افراتفری کا ایک اسٹریٹجک استعمال تھا۔
نقصان کا گوشوارہ: تباہی کی مقدار کا تعین
1947 کے ہنگاموں میں میو قوم کو پہنچنے والے نقصانات ناقابل تصور تھے۔ یہ نقصان صرف جانی نہیں تھا، بلکہ مادی، سماجی اور ثقافتی سطح پر بھی اس قدر وسیع تھا کہ اس نے برادری کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اعداد و شمار اس تباہی کی ایک ہولناک تصویر پیش کرتے ہیں۔
انسانی قیمت: قتل عام، جبری تبدیلی مذہب اور اغوا
اموات: میو قوم کے مقتولین کی تعداد کے تخمینے مختلف ہیں، لیکن تمام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ایک بہت بڑا قتل عام تھا۔ محقق آئن کوپلینڈ کے مطابق الور اور بھرت پور میں 30,000 مسلمان مارے گئے 13۔ جبکہ شیل مایارام کی تحقیق، جو میو زبانی روایات پر مبنی ہے، یہ تعداد 82,000 بتاتی ہے 8۔
جبری تبدیلی مذہب: ہزاروں میوؤں کو اپنی جان بچانے کے لیے جبراً ہندو مت قبول کرنا پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق بھرت پور میں 17,000 اور الور میں 3,000 میوؤں کا مذہب تبدیل کروایا گیا 32۔ این بی کھرے کا تخمینہ یہ تعداد 40,000 سے 45,000 تک بتاتا ہے 28۔
خواتین کا اغوا: تشدد کے دوران سینکڑوں میو خواتین کو اغوا کیا گیا، جن کا کوئی سراغ نہ مل سکا 32۔
مادی قیمت: زمین، جائیداد اور ذریعہ معاش
میو قوم کو منظم طریقے سے ان کی سب سے بڑی دولت اور سماجی حیثیت کے ذریعے، یعنی ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ مندرجہ ذیل جدول اس تباہی کا ایک واضح خلاصہ پیش کرتا ہے، جو مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار کو یکجا کرتا ہے تاکہ نقصان کی شدت کو ظاہر کیا جا سکے۔
نقصان کا زمرہ | 1947 سے پہلے کی حیثیت | 1947 کے بعد کی حیثیت/تخمینہ | حوالہ جات |
آبادی (الور) | تقریباً 100,000-140,000 | 40,000 باقی (خزاں 1947) | 14 |
آبادی (بھرت پور) | تقریباً 51,546 (1901 کی مردم شماری) | تقریباً 60,000 کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا | 14 |
کل اموات | لاگو نہیں | 30,000 سے 82,000 (محققین کے تخمینے) | 8 |
جبری تبدیلی مذہب | لاگو نہیں | 20,000 سے 45,000 (مختلف تخمینے) | 13 |
زمینی ملکیت | 281,000 ایکڑ (الور اور بھرت پور) | 80,000 ایکڑ واپس ملی | 32 |
دیہات | تقریباً 3,000 | کم ہو کر 1,264 رہ گئے | 32 |
مساجد | تقریباً 4,000 | 228 واپس ملیں؛ باقی تباہ یا مقبوضہ | 32 |
یہ جدول محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک پوری تہذیب کی تباہی کا نوحہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ایک غالب، زمیندار اور خود مختار برادری کو چند مہینوں کے اندر اندر بے زمین، بے گھر اور بے آسرا کر دیا گیا۔
بے دخلی کے بعد کے حالات
تشدد کے بعد، میوؤں کی زمینوں کو متروکہ جائیداد قرار دے کر مغربی پاکستان سے آنے والے ہندو اور سکھ مہاجرین میں منظم طریقے سے تقسیم کر دیا گیا 25۔ اس اقدام نے میو برادری کی معاشی تباہی پر مہر ثبت کر دی اور واپس آنے والے میوؤں کے لیے اپنی آبائی زمینوں پر دوبارہ آباد ہونا تقریباً ناممکن بنا دیا۔
ہجرت اور پناہ: میو برادری کی دوہری تقدیر
اس منظم تباہی کے نتیجے میں میو برادری دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک بڑی تعداد نے اپنی جان بچانے کے لیے پاکستان کی طرف ہجرت کی، جبکہ ایک حصے نے مہاتما گاندھی کی یقین دہانی پر ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کی طرف ہجرت
الور، بھرت پور اور گڑگاؤں سے تقریباً نصف ملین سے زائد میوؤں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی 13۔ یہ سفر انتہائی کٹھن اور خطرناک تھا۔ جو لوگ زندہ پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے، انہیں مہاجر کیمپوں میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جہاں بیماریاں اور بھوک ان کی منتظر تھی 13۔ زندہ بچ جانے والوں کو بالآخر پاکستان کے سرحدی اضلاع، خاص طور پر پنجاب (لاہور، سیالکوٹ، قصور، شیخوپورہ وغیرہ) اور سندھ (کراچی، حیدرآباد) میں آباد کیا گیا 5۔
گاندھی کی مداخلت اور ہندوستان کا وعدہ
بے گھر ہونے والے میوؤں کی ایک بڑی تعداد گڑگاؤں میں جمع تھی اور پاکستان جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس موقع پر، میو رہنماؤں جیسے چوہدری یاسین خان نے مہاتما گاندھی سے مدد کی اپیل کی 30۔ 19 دسمبر 1947 کو، گاندھی جی نے گھاسیڑا گاؤں کا تاریخی دورہ کیا اور میوؤں سے خطاب کیا۔ انہوں نے میوؤں کو “اس دیش کی ریڑھ کی ہڈی” قرار دیا اور ان سے ہندوستان میں ہی رہنے کی اپیل کی، اور انہیں ان کی جان و مال کے تحفظ اور شہری حقوق کی مکمل یقین دہانی کرائی 5۔
گاندھی جی کی یہ اپیل فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق، اس وقت تک 66 فیصد میو آبادی یا تو ہجرت کر چکی تھی یا ہجرت کے راستے پر تھی، لیکن گاندھی جی کی یقین دہانی نے باقی 33 فیصد کو ہندوستان میں رہنے پر قائل کر لیا 32۔ اس دن کی یاد میں آج بھی میوات میں “یومِ میوات” منایا جاتا ہے 5۔
تقسیم کا طویل سایہ: ورثہ اور تبدیلی
1947 کے صدمے نے میو برادری پر ایک طویل اور گہرا سایہ ڈالا، جس کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان میں ان کی تقدیریں یکسر مختلف ہو گئیں۔ یہ تقسیم صرف جغرافیائی نہیں تھی، بلکہ شناخت، ثقافت اور سماجی حیثیت کی بھی تقسیم تھی۔
ہندوستان میں میو: پسماندگی کا ورثہ
مہاتما گاندھی کے وعدے کے باوجود، ہندوستان میں رہ جانے والے میوؤں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور انہیں شاہی ریاستوں سے وراثت میں ملنے والی ایک معاندانہ بیوروکریسی کا سامنا تھا جو ان کی دوبارہ آبادکاری میں رکاوٹیں ڈال رہی تھی 14۔ یہ تاریخی بے دخلی آج بھی ان کی سماجی و معاشی پسماندگی کی براہ راست وجہ ہے۔ آج، نوح (میوات) کا ضلع سرکاری طور پر ہندوستان کا سب سے پسماندہ ضلع تسلیم کیا جاتا ہے 36۔ سماجی و معاشی اشاریے ایک سنگین تصویر پیش کرتے ہیں: شرح خواندگی انتہائی کم ہے، خاص طور پر خواتین میں (مجموعی طور پر 54 فیصد، خواتین کے لیے 38 فیصد)، صحت کی سہولیات ناقص ہیں، اور معیشت کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے 37۔ 1947 کے صدمے نے ان کی شناخت میں بھی ایک گہری تبدیلی پیدا کی۔ برادری نے تشدد کے ردعمل میں اور تبلیغی جماعت جیسی تحریکوں کے اثر و رسوخ کے تحت اپنی مشترکہ ثقافتی روایات سے دور ہو کر ایک زیادہ راسخ العقیدہ اسلامی شناخت اپنا لی 27۔
پاکستان میں میو: تحلیل ہوتی شناخت
پاکستان ہجرت کرنے والے تقریباً 11 سے 20 لاکھ میوؤں کو جسمانی تحفظ تو ملا، لیکن انہیں اپنی ثقافتی شناخت کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑا 5۔ پنجاب اور سندھ کے مختلف اضلاع میں بکھر جانے کی وجہ سے، وہ ایک متحد برادری کے طور پر اپنی شناخت برقرار رکھنے میں ناکام رہے 43۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان میں میوؤں نے بڑی حد تک “اپنی مخصوص گروہی شناخت اور ثقافتی روایات کھو دی ہیں اور وہ دیگر مسلم آبادی میں ضم ہو گئے ہیں” 22۔ ان کی منفرد میواتی زبان اور مشترکہ رسم و رواج بتدریج ختم ہو گئے کیونکہ وہ وسیع تر مہاجر یا پنجابی شناختوں میں جذب ہو گئے۔
تقسیم نے میو قوم کو ایک المناک دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا۔ جو لوگ ہندوستان میں رہ گئے، وہ اپنی آبائی سرزمین میوات کو جغرافیائی اور انتظامی حقیقت (ضلع نوح کی تشکیل) کے طور پر بچانے میں کامیاب تو ہو گئے، لیکن اسی سرزمین پر وہ ایک معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ اقلیت بن کر رہ گئے۔ دوسری طرف، جو لوگ پاکستان ہجرت کر گئے، وہ ایک مسلم اکثریتی ملک کا حصہ بن کر فرقہ وارانہ تشدد سے تو محفوظ ہو گئے، لیکن ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اپنی جغرافیائی وطن اور اس سے جڑی اپنی منفرد ثقافتی اور لسانی شناخت کھو دی۔ ان میں سے کوئی بھی نتیجہ فتح نہیں کہلا سکتا۔ یہ دوہری میراث ہی 1947 کا اصل “نقصان” ہے—ایک متحد برادری کا دو بکھرے ہوئے حصوں میں ٹوٹ جانا، جن میں سے ہر ایک اپنی بقا کی ایک مختلف قسم کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
نتیجہ: یادداشت، شناخت اور تقسیم کا ادھورا کام
یہ رپورٹ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ 1947 میں میو برادری کو پہنچنے والا نقصان تاریخ کا کوئی حادثہ نہیں تھا، بلکہ الور اور بھرت پور میں ریاستی سرپرستی میں کی گئی نسلی صفائی کی ایک منظم مہم کا نتیجہ تھا۔ یہ نقصانات مقداری طور پر تباہ کن تھے، جنہوں نے برادری کو معاشی طور پر تباہ حال اور سیاسی طور پر بے اختیار کر دیا۔
میو قوم کا تجربہ تقسیم ہند کے سادہ بیانیوں کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ مقامی کرداروں (شاہی ریاستوں) کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح تشدد کو ریاست سازی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا، اور یہ واضح کرتا ہے کہ ہندوستان کی مشترکہ ثقافتی روایات کی تباہی تقسیم کے سب سے گہرے المیوں میں سے ایک تھی۔
1947 کا صدمہ آج بھی میو برادری کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے—خواہ وہ نوح کی سماجی و معاشی جدوجہد ہو یا پاکستان میں میو تارکین وطن کی دھندلاتی ہوئی ثقافتی یادداشت۔ ان کے نقصان کی کہانی سخت سرحدیں قائم کرنے کی انسانی قیمت کی ایک طاقتور یاد دہانی ہے، خواہ وہ سرحدیں نقشے پر ہوں یا ذہنوں میں۔
Works cited
The Story of the 1947 Partition as Told by the People Who Were There, accessed August 15, 2025, https://www.neh.gov/article/story-1947-partition-told-people-who-were-there
Independence and Partition, 1947 | National Army Museum, accessed August 15, 2025, https://www.nam.ac.uk/explore/independence-and-partition-1947
Partition of India – Wikipedia, accessed August 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Partition_of_India
Partition of India | Summary, Cause, Effects, & Significance – Britannica, accessed August 15, 2025, https://www.britannica.com/event/Partition-of-India
Meo (ethnic group) – Wikipedia, accessed August 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Meo_(ethnic_group)
The Unique History of the Meo Tribes of Mewat – JSTOR Daily, accessed August 15, 2025, https://daily.jstor.org/the-unique-history-of-the-meo-tribes-of-mewat/
THE ORIGIN AND DEVELOPMENT OF THE MEO COMMUNITY: A SOCIO-POLITICAL PERSPECTIVE – International Journal of Information Movement, accessed August 15, 2025, https://www.ijim.in/files/2023/October/Vol%208%20Issue%20V%2026-30%20%20Paper%205%20The%20Origin%20and%20Development%20of%20the%20Meo%20Community%20ASocio-pol%20Perspective.pdf?_t=1700054911
Resisting Regimes – Wikipedia, accessed August 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Resisting_Regimes
Socio-Political Perspective on the Origin and Evolution of the Meo Community – ijrpr, accessed August 15, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE8/IJRPR16431.pdf
زمرہ:میو راجپوت – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed August 15, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B2%D9%85%D8%B1%DB%81:%D9%85%DB%8C%D9%88_%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%BE%D9%88%D8%AA
میو – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed August 15, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88
Remaking of MEOs Identity: An Analysis – Psychology and Education Journal, accessed August 15, 2025, http://psychologyandeducation.net/pae/index.php/pae/article/download/4569/4018/8529
Suffering, Survival and Sustenance: Meos’ Post-Partition …, accessed August 15, 2025, https://www.tandfonline.com/doi/pdf/10.1080/00856401.2023.2274163
Bureaucracy, community, and land: The resettlement of Meos in Mewat, 1949-50 – Loughborough University Research Repository, accessed August 15, 2025, https://repository.lboro.ac.uk/ndownloader/files/17091494/1
About District | District Administration, Nuh | India, accessed August 15, 2025, https://nuh.gov.in/about-district/
MEWAT: DERIVATION OF ITS NAME – skirec, accessed August 15, 2025, https://skirec.org/wp-content/uploads/Econ3March21Sikender-1.pdf
صارف:Hakeem qari M younas shahid – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed August 15, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%A7%D8%B1%D9%81:Hakeem_qari_M_younas_shahid
‘میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے’: ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟ – loksujag.com, accessed August 15, 2025, https://loksujag.com/story/How-Did-Mewati-Gain-Language-Status-76-Years-After-Migration
Shahabuddin Khan Meo – HISTORY OF MEWAT – AN OUTLINE – Punjab University, accessed August 15, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
Mewat – Wikipedia, accessed August 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mewat
میوات کے خانزادہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed August 15, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA_%DA%A9%DB%92_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81
Literature & Culture – Mewati Dunya, accessed August 15, 2025, https://mewatidunya.com/cultures/detail/36/Meo+History
Meo (community from Mewat) – Indpaedia, accessed August 15, 2025, http://indpaedia.com/ind/index.php/Meo_(community_from_Mewat)
Cow Veneration among Meo Muslims of Mewat Presents the Complex Nature of Religious Identities | Economic and Political Weekly, accessed August 15, 2025, https://www.epw.in/engage/article/meo-muslims-and-origins-of-cow-veneration
In the hands of a ‘Secular State’: Meos in the aftermath of … – CORE, accessed August 15, 2025, https://core.ac.uk/download/pdf/288352282.pdf
History and Society in a Popular Rebellion: Mewat, 1920–1933, accessed August 15, 2025, https://www.cambridge.org/core/journals/comparative-studies-in-society-and-history/article/history-and-society-in-a-popular-rebellion-mewat-19201933/6C5B3168C4792767866390FF92425EAF
The slow but sure marginalisation of Nuh’s Meo Muslims: a report | SabrangIndia, accessed August 15, 2025, https://sabrangindia.in/the-slow-but-sure-marginalisation-of-nuhs-meo-muslims-a-report/
Legacy of ‘Meostan’ Still Haunts Haryana Hindus. | Struggle for Hindu Existence, accessed August 15, 2025, https://hinduexistence.org/2023/08/04/the-legacy-of-meostan-still-haunts-haryana-hindus/
Meo (ethnic group) – Wikiquote, accessed August 15, 2025, https://en.wikiquote.org/wiki/Meo_(ethnic_group)
Detritus of Partition: How Meo Muslims came back from Pakistan …, accessed August 15, 2025, https://hindupost.in/history/detritus-of-partition-how-meo-muslims-came-back-from-pakistan-and-are-creating-a-mini-pakistan-in-mewat/
In the shadow of Partition, state-sanctioned atrocities aimed to wipe out Meo Muslims in Mewat – Scroll.in, accessed August 15, 2025, https://scroll.in/article/1059050/in-the-shadow-of-partition-state-sanctioned-atrocities-aimed-to-wipe-out-meo-muslims-in-mewat
جامعہ ملیہ میں ‘یوم میوات’ کا انعقاد، سنہری تاریخ کی یادیں تازہ, accessed August 15, 2025, https://www.qaumiawaz.com/national/mewat-day-celebrated-at-jmi-delhi-reminiscent-of-golden-history
Meo caste – newpakhistorian, accessed August 15, 2025, https://newpakhistorian.wordpress.com/tag/meo-caste/
What you should know about the Meo Muslims of Mewat – Hindustan Times, accessed August 15, 2025, https://www.hindustantimes.com/static/Meo-Muslims-of-Mewat/
ہمّتا میو ، جنہوں نے میوات کے مسلمانوں کو پاکستان جانے سے بچایا – Qaumi Awaz, accessed August 15, 2025, https://www.qaumiawaz.com/social/himmata-meo-and-its-works-about-mewati-muslims-at-the-time-of-partition
Nuh district – Wikipedia, accessed August 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Nuh_district
Identifying Backwardness of Mewat Region in Haryana: A Block-Level Analysis – NITI Aayog, accessed August 15, 2025, https://www.niti.gov.in/sites/default/files/2019-01/Identifying%20Backwardness%20of%20Mewat%20Region%20in%20Haryana-%20A%20Block%20Level%20Analysis_final_0.pdf
Understanding the Socio-Economic Dynamics of the Marginalized Meo Community in Ujina Village of Nuh District, Haryana – ResearchGate, accessed August 15, 2025, https://www.researchgate.net/publication/393597118_Understanding_the_Socio-Economic_Dynamics_of_the_Marginalized_Meo_Community_in_Ujina_Village_of_Nuh_District_Haryana
Access-to-Health-and-Education-for-Women-in-Rural-Mewat-Anjali-Godyal-Anjali-Makhija.pdf – S M Sehgal Foundation, accessed August 15, 2025, https://www.smsfoundation.org/wp-content/uploads/2020/10/Access-to-Health-and-Education-for-Women-in-Rural-Mewat-Anjali-Godyal-Anjali-Makhija.pdf
Meo Muslims and Education | Economic and Political Weekly, accessed August 15, 2025, https://www.epw.in/journal/2024/8/special-articles/meo-muslims-and-education.html
An Empirical Study of Socio-Economic Status of Meo Muslims in Mewat Region – International Journal of Advances in Social Sciences, accessed August 15, 2025, https://www.ijassonline.in/HTML_Papers/International%20Journal%20of%20Advances%20in%20Social%20Sciences__PID__2018-6-1-9.html
Mewat Rajputs : r/Rajputana – Reddit, accessed August 15, 2025, https://www.reddit.com/r/Rajputana/comments/1gbn2p3/mewat_rajputs/
How did Mewati get the status of separate language in Pakistan? – loksujag.com, accessed August 15, 2025, https://loksujag.com/story/How-Did-Mewati-Gain-Language-Status-76-Years-After-Migration-eng