کیا عملیات دین کا حصہ ہیں ؟
میری35 سالہ عملیاتی زندگی کا نچوڑ
پیش کردہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی :سعد طبیہ کالج برائے فرو گ طب نبویﷺکاہنہ نو لاہور
کیا عملیات دین کا حصہ ہیں ؟
تحریر:
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
عمومی طورپر عملیات کو دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے جن معنوں میں عملیات رائج ہے یا عملیات سے جو تصورات وابسطہ ہیں ان کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر کہا جائے کہ عملیات دین کے نام پر قائم کی گئی سستی و کاہلی ،ہڈ حرامی کا نام ہے تو بے جا نہ ہوگا،کیونکہ ہر کوئی عملیات کے بل بوتے پر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا۔عملی دنیا میں اس کا کردارمایوس کن ہے،وہ تمام کام عملیات کے بل بوتے پر کرنے کا خاہاں ہے،دین اسلا م اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام تو فطری قوانین کی بہترین تشریح ہے اس فریم ورک میں رہ کر دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹی جاسکتی ہیں،جو اسلام کے نام پر دھوکہ دہی کرتا ہے یا اسلام کے نام پر کسی سوانگ پر یقین کرتا ہے یہ اس کی اعتقادی کمزوری ہے اسلام کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
فطری قانون ہے جس قدر کوئی محنت کرے گا،اسے معاوضہ مل جائے گا(سورہ النجم)
جس میدان میں یا جس فن و ہنر میں کوئی کوشش کرتا ہے اسے کام کرنے کا ڈھنگ آنا شروع ہوجاتا ہے رفتہ رفتہ مہارت پیدا ہوجاتی ہے۔اس ہنر کے اسرارو رموز کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔مہارت خاصہ کے بعد اس کا کام مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے اس کی مہارت بطور سند کے پیش کی جاتی ہے۔
عملیات مروجہ کا کوئی سر پیر نہیں ہے کوئی بھی ہنر یا فن بغیر قاعدہ و کلیہ کے وجود نہیں رکھتا عاملین کے نزدیک عملیات اندھی بہتری طاقت کا نام ہیں جب تسبیح گھمائی مقصد پورا کرلیا،بغیر سووچے سمجھے چند الٹے سیدھے الفاظ دوہرائے اور میدان فتح کرلیا،کچھ آڑھی ترچھی لکیریں کھینچیں جسے چاہا قابو میں کرلیا،کیا یہ کائنات پاگل خانہ خانہ ہے جو بغیر حدود و قیود کے جو چاہے من مانیاں کرتا پھرے؟
عملیات میں کونسی بات اسلامی ہے۔
اسلام قوانین فطرت کا دوسرا نام ہے اگر اس کائنات میں سانس لینا ہے تو فطری قوانین کی پابندی لازم ہے،جو بھی فطری قوانین کو توڑنا چاہتا ہے وہ خود ٹوٹ جاتا ہے ۔ اسلام نے ہر اس راستے کو بند کردیا ہے جو انسانی صلاحیتوںکو بے کار و معطل کردے ، جیسے تجارت و سود دونوں میں پیسے کے بل بوتے پر معاملات طے کئے جاتے ہیں لیکن سود حرام اور تجارت حلال کردی گئی ہے حالانکہ دونوں کا مطمح نظر حصول منفعت ہے لیکن تجارت و سود میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سود میں انسانی معاشرہ تباہ و برباد ہوتا ہے اور انسان کے اندر خسیس قسم کے جذبات پنپتے ہیں جب کہ تجارت میں ترحم کا عنصر ہوتا ہے کہیں دینا پڑتا ہے کہیں دینا پڑتا ہے۔نفع ساتھ ساتھ نقصان کا خدشہ ہمہ وقت لاحق رہتا ہے،اس سے بچنے کے لئے پوری محنت و لگن توجہ یکسوئی سے کاربار کیا جاتا ہے ۔ سود مین کسی تفکر و محنت کی ضرورت نہیں ہوتی اس راستے سے انسانیت کی رگوں سے خون نچوڑنے کا بندبست کیا جاتاہے اسی لئے اسے حرام قرار دیا گیاہے۔
محنت انسانیت کی سب سے بڑی نشانی ہے،اس وقت لوگوں نے عملیات کو حصول مقاصد کا سہل راستہ سمجھتے ہوئے اختیار کرلیا ہے۔ا س میں بھی سود کی طرح خسارہ کا امکان کم سے کم ہوتا ہے۔جو راستہ انسانیت کے مروجہ محن ت و کاوش سے الگ جاتا ہو اسلام اس پر چلنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔
کتب عملیات اور حقائق۔
کتب عملیات لکھنے والوں نے اعمال کو اپنے انداز میں ترتیب دیا،ان کے کواص و فوائد لکھے،حصول منفعت کے لئے دائرے مقرر کئے ،اعمال و چلہ کی شرائط لکھ دیں ۔ عامل کو ایک محدود دنیامیںلاکھڑا کیا۔پڑھائی والفاظ دوہرائی کی تعداد مقرر کردی ۔ وقت کا تعین کردیا کہ اتنے وقت میں تمہارا کام ہوجائے گا۔عمومی طورپر گہارہ دن۔اکیس دن۔اکتالیس دن کا وقت دیا جاتا ہے۔
دنیا کی کوئی بھی ضرورت ہو۔کوئی بھی مشکل ہو۔سب کا حل عملیات کی کتاب میں ان کا واضح حل ملے گا،کاروبارمیں ترقی،معشوق قدموں میں۔آفیسر کی تابعداری،سٹہ و جوا میں جیتنے کے اعمال۔دشمن کا ستیاناس کرنا۔حصول علم کے دورازے کھلنا۔میاں یا بیوی کی زبان بندی۔بچوں کی فرمانبرداری،ہمزاد قابو کرنا۔جنات و پریوں کو قید کرنا وغیرہ وغیرہ کونسا ایسا کام ہے جس کا حل موجود نہ ہو؟۔
کبھی تنہائی میں غور کریں اگر یہ سب کچھ گھر میں بیٹھے بٹھائے ہوجائے تو کاروبار حیات ٹھپ ہوکر رہ جائے اس حساب تو ہر کسی کو کام دھندہ بند کرکے چل وظائف میں مصروف ہوجانا چاہئے