17
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدا17ویں قسط
تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستان
قسط17 ویں قسط
کچلہ طبی دنیا میں بکثرت استعمال ہونے والی دوا ہے بالخصوص پاک و ہند کے اطباء اسے بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔عرب لوگوں نے کچلہ کے بارہ میں اتنا کچھ نہیں لکھا جتنا اہل ہند نے لکھا ہے،
طب میں معجون کچلہ بہت مشہور مرکب ہے۔ دیسی ادویات میں اسے نمایاں حیثیت حاصل ہے،مشہور دواخانوں نے اپنے اپنے نام سے معجون کچلہ رجسٹرڈ کراہوا ہے۔یہ مقویات کا سردار ہے۔ بہت سے حکماء نے اپنے تجربات اورضروریات کی بنیاد پر کچلہ کے مرکبات ترتیب دئے ہیں۔ قانون مفرد اعضاء والوں نے بھی اس طرف توجہ کی اور اس کے مختلف استعمالات سامنے لیکر آئے ۔حب مقوی خاص جسے حکیم محمد یسین دنیاپوری مرحوم نے ترتیب دیا تھا کئی دیہائیوں سے مطبوں کی زینت بنی ہوئی ہے،اطباء کا اس نسخہ کی طرف اس قدر رجھان ہے کہ اس کے بغیر مطب ادھورا سمجھتے ہیں ،اسے تجارتی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔
راقم الحروف بھی اس کا شیدائی ہے۔آج بھی میرے مطب میں اسے تیار رکھا جاتا ہے،اس کے استعمالات بہت وسیع ہیں…آگے چل کر حب مقوی خاص کا نسخہ نقل کریں گے۔
کچلہ اور قانون مفرد اعضاء
قانون مفرد اعضاء والوں نے اپنے فارما کوپیا میں کچلہ کو شامل کرکے اس کی افادیت و اہمیت کو دوام بخشا ہے۔کیونکہ قانون مفرد اعضاء ایک ایسا طریق علاج ہے جو سمجھنے میں بھی آسان ہے اور اسے بہتر انداز میں اپلائی بھی کیا جاسکتا ہے۔چند سطور میںمختصر طور اسے سمجھا دیا گیا ہے۔
نبض اور قانون مفرد اعضاء
طب میں نبض سب سے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔قانون مفرد اعضاء کے معرض وجود میں آنے سے پہلے نبض ایک کوہ قاف کی پری تھی جسے پکڑنا تو دور کی بات، اس سے سناشائی پیدا کرنا بھی ایک کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔
اللہ حکیم انقلاب صابر ملتانی کی قبر پر کروڑ ہا رحمتیں نازل کرے،اس نے نبض جیسے مشکل موضوع کو اس انداز میں سمجھایا کہ اب ہر کونے کھدرے سے نباض حکیم برآمد ہوتے ہیں۔
ہر کوئی قارورہ اور نبض کا مشخص خاص نظر آتا ہے۔ حیرت کی بات ہے جس ایلو پیٹھی کی کی کمزوریواں حکیم صابر صاحب نے اپنی کتب میں چیلنجوں اور انعامات کے ساتھ واضح کیں، اسی کے علمبردار مفرد اعضاء سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔۔
مخالفت برائے مخالفت کی بات نہیں بلکہ حقائق ہیں۔ مفرداعضاء کی جس شدت سے مخالفت پرانی سوچ والے حکماء نے کی تھی ایلو پیتھی کے والے تو اس حساب سے کچھ بھی نہ کرسکے۔
انٹر نیٹ کی دنیا اور طب کا فروغ
انٹر نیٹ کی دینا بہت سحر انگیز ہے عجیب طلسم ہے اس کے دائرہ میں جو بھی آتا ہے،اگر ہوش و حواس پر قابو رکھے اور مقصد معلوم ہوتا منزل متعین ہو تو اس کی جھولی مال و دولت ،علم کا سمندر اسے بخشتی ہے۔اگر مقصد متعین نہ ہو یہ اپنے طلسم میں ایسے پھانستی ہے کہ اس کے وسائل اور /وقت۔صحت سب کچھ چاٹ جاتی ہے۔اس دنیا سے راقم الحروف نے بھی فائدہ اٹھایا،اور اپنے موضوع کے حساب سے گرانقدر فوائد سمیٹے۔۔۔
جدید پریس پرنٹنگ کے فوائد
جدید پریس پرنٹنگ اور نیٹ جیسی سہولیات نے ہمارے سامنے تصویر کے دونوں رخ رکھے۔بغیر کسی تلبیس اور نمک مرچ لگائے ،جو کچھ تھا ،جیسے تھا، جہاں تھا، سب پیش کردیا۔سالوں پہلے جب انٹر نیٹ کی سہولت میسر نہ تھی اس وقت ماہرین فن کی بہت زیادہ قدرو منزلت تھی،کیونکہ اشکالات کا حل صرف ماہرین کے پاس ملتا تھا۔ماہرین بھی اپنی بخیلی طبیعت سے مجبور ہوتے تھے۔جب تک اپنی پوجا پاٹ کا کورس مکمل نہیں کروالیتے تھے،مہر سکوت نہ توڑتے تھے(یہ کہانی علمیات کے سلسلہ میں ہونے والے تلخ تجربات کے ضمن میں بیان کرونگا)۔پہلے اخفا کا دور تھا ،نیٹ کی آمد کے بعد دنیا بدل گئی ہے، اب جو اخفاء کرے گا ،وہ گمنامی کے صحرا میں گم ہو جائے گا۔جو اپنے فن کا ظہار کرے گا،اپنی محنت کی بنیاد پر فوائد حاصل کرلے گا۔
کچلہ پر تحقیقات کرتے ہوئے جہاں بہت سی کتب نظر سے گزریں وہیںپر انٹر نیٹ کی سہولت نے اس انداز فکر کو بہت وسیع کردیا ۔یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں ہر کسی کے لئے گنجائش ہے،جو من میں آئے کہہ دو،جو خیالات آئیں لکھ دو ،یہ سب کی سنتا اور محفوظ رکھتا ہے۔مفرد اعضاء والوں نے اپنا نظریہ پہنچانے میں جانفشانی سے کام لیا۔وہیں پر مخالفین بھی ڈنڈا اٹھائے میدان کار زار میں آکودے۔اعترضات کے نشتر چلائے۔جلی کٹی سنائیں۔حقیقی و غیر حقیقی خدشات کی بھر مار سامنے آئی۔صاحب علم مثبت منفی دونوں پہلوئوں پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔دلائل کے انبار لگے،ہر کوئی الفاظ میں حتمی و آخری دعوی کا رنگ پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔
ا س سارے مباحثہ میں کچلہ بھی اپنے طاقتور اور صحت مند وجود کے ساتھ موضوع بحث رہا کہ۔پرانے لوگوں کے نمائیندوں کا کہنا تھا کہ کچلہ ایک خطرناک چیز ہے ،اسے مخفی اور عوام کی دسترس سے دودر رہنا چاہئے تھا۔ کیونکہ یہ مہلک زہر ہے۔جب کہ مفرد اعضاء والوں کا کہنا تھا کہ جناب اس سانپ کے ہم نے زہریلے دانٹ نکال دئے ہیں،اس کی ضرور رسانی اس کے فوائد سے بڑھی ہوئی نہیں ہے،پرانے نمائیندوں کے پاس صرف وہم،خدشہ،اور سنی سنائی باتیں تھیں۔تازہ دم لوگوں کے پاس دلائل ۔تھیور ی کے ساتھ ساتھ عملی نمونہ(پریکٹیکل) تھا۔بات عملی مظاہرہ کرنے والوں کی مانی جاتی ہے۔جو آنکھوں دیکھے سو مانے۔نئے لوگوں کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ اگر اتنا ہی خطرہ ہے تو تم لوگ کیوں کچلہ استعمال کرتے ہو؟؟؟
اگر ہم نے کچلہ کو اپنے فارما کوپیا میں بطور جزوء موثرہ شامل کیا ہے تو ہمیں نقصان کی نشاندہی کریں تاکہ اس کا تدارک کیا جاسکے ۔لیکن آئیں بائیں شائیں کے سوا کوئی مدلل بات سامنے نہ آسکی۔۔۔آج کچلہ کو دیسی ادویات میں جزاء موثرہ کے طور پر قبول کرلیا گیاہے۔جب تک کچلہ استعمال نہ کرے وہ مفرد اعضاء والوں کے نزدیک معالج نہیں ہوتا ۔گوکہ ایسی بہت سی ادویات موجود ہیں جو کچلہ کی جگہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔ لیکن کچلہ جیسی موثر اور قلیل المقدار چیز کا مقابلہ کم ہی کر پاتی ہیں۔حجم اور قیمت دونوں میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔اس لئے کم خرچ بالا نشین کے مصداق ،کچلہ قلیل المقدار کثیر الفوائد دوا کے ہوتے ہوئے دوسری طرف جھانکنا مناسب معلوم نہیں ہوتا
(نوٹ)یہ تحریر کچلہ کے استعمال کے متعلق کسی تحریص و ترغیب کا حصہ نہیںہے۔کچلہ ایک اکسیری دوا ضرور ہے لیکن اس سے استفادہ کرنا ماہر معالج کا کام ہے۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کچلہ استعما ل کرنا ہے تو وہ کسی ماہرمعالج سے ضرور رجوع کرے۔یہ میرے تجربات ومشاہدات ہیں،جو محسوس کیا لکھ دیا۔ یہ کوئی طبی ترغیبی تحریر نہیں ہے)