کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات20۔۔۔
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات20۔۔۔
نتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
کچلہ اپنی افادیت کے اعتبار سے بہت اعلی چیز ہے ،لیکن ماہر اطباء و معالجین کے نزدیک احتیاط کا پہلو تھامنے کی ہدایات ہمیشہ سے اولین ترجیح رہی ہیں۔وہ حتی الوسع تجربات کرتے ہیں اور اپنے قوانین کے مطابق خوراکی مقدار مقرر کرتے ہیں۔ ایک گنجائش کا پہلو سامنے ہوتا ہے مثلاََ طبی کتب میں جب ادویاتی خوراکی مقدار کا تعین کیاجاتا ہے تو کچھ اس قسم کے الفاظ لکھتے ہیں۔اس کی خوراکی مقدار۔آدھی رتی سے لیکر تین رتی تک استعمال کی جاسکتی ہے۔یعنی ایک کمزور مریض کے لئے اگر آدھی رتی ہےتو ایک طاقتور مریض کے لئے تین رتی تک حسب ضرورت مقرر کی جاسکتی ہے۔یہ صرف دیسی ادویات کی حد تک ہی نہیں بلکہ ایلو پیتھی والے بھی کہتے ہیں ،اس شربت کی مقدار ایک سے دو چمچ ہے۔۔یعنی گنجائش کا امکان رکھا جاتا ہے۔
ایسا ہی کچھ کچلہ۔فولاد۔سم الفار۔وغیرہ کے بارہ میں ہدایات ملتی ہیں ۔
عمومی طور پر سریع الاثر طاقتور ادیات کم مقدار میں شروع کی جاتی ہیں۔تاکہ مریض پر ادویاتی اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔اگر مریض کے لئے ادویاتی ضرورت پوری ہوگئی تو مقدار کو کافی سمجھا جاتا ہے۔اگر ممکنہ اثرات ظاہر نہیں ہوئے تو مقدار میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔
زہروں کا معالجاتی استعمال۔
معالجاتی دنیا میں حذاق اطباء نے اپنی ضرورت اور مریض کی طبیعت کے اعتبار سے ہلکے درجات سے لیکر سخت و سریع الاثر ادویات جنہیں درجہ چہارم یعنی زہروں کی فہرست میں شمار کیا ہے ،کا استعمال کیا ہے۔اگر زہر سمجھ کر ان اشیاء کو تجربہ کی کھٹالی میں نہ ڈالا جاتا تو ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ کونسی چیز زہر اور کونسی تریاق؟۔کونسی خفیف الاثر،کونسی سریع الاثر دوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے تجربات کی بنیاد پر استعمال کی ہدایات تو دیں لیکن ساتھ میں احتیاط بھی لکھ دیں۔
ایک ماہر نے کسی دوا پر تجربہ کیا۔وہ اسکا اپنا تجربہ ہے۔وہ دوا کے خواص و نقصانات سے زیادہ اپنے تجربات و مشاہدات لکھتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ اگر کوئی وسرا تجربہ کرے تو بعینہ وہی اثرات رونما ہوں۔ان تجربات و مشاہدات میں فرق بھی ہوسکتا ہے۔اس لئے کسی دوا کے خواص و اثرات کا اعتبار لکھنے والے سے زیاہ تجربہ کرنے والے پر کیا جائے گا۔
کچلہ پر بہت کچھ لکھا گیا کہا گیا۔اپنے اپنے مشاہدات و تجربات دوسروں لوگوں کے ساتھ اشتراک کیا گیا۔کسی طبی کتاب میں لکھی ہوئی بات مشاہدہ ہوتی ہے۔قانون نہیں کیونکہ مشاہدات بدلتے رہتے ہیں۔قانون برقرار رہتے ہیں۔
مثلا ایک صاحب لکھتے ہیں
السلام علیکم ۔۔کچلہ کا نسخہ جو مدتوں سے استعمال کر رہے ہیں اور لاجواب رزلٹ ھے ۔۔اللہ شافی ۔۔۔دو سو گرام فربہ کچلہ لے کر ۔چینی یا شیشے کے برتن میں آدھ پاو دودھ گائے ۔بکری یا بھینس ۔۔جو مہیا ہو ۔ڈال کر بھگو دیں ۔۔روزآنہ حسب ء ضرورت دودھ ڈالتے رہیں مگر جو بچ رہے دودھ وہ نکال کر تازہ ڈالیں ۔۔ایک ہفتہ بعد بیرونی چھلکا دور کرکے ۔۔صاف کر لیں پھر اس کچلہ کو ۔۔۔۔۔ایک پائو آٹا گندم جو گوندھا ہواہو میں رکھ دیں ۔ایک ہفتہ کے لئے ۔۔۔۔ایک ہفتہ بعد نکال کر گرم پانی سے دھو لیں ۔۔پھر کڑاہی میں ڈیڑھ کلو دودھ ڈال کر ۔۔پوٹلی میں کچلے باندھ کر ڈول جنتر کریں نرم آگ پر پکائیں اور دودھ کھویا بن جائے ۔۔۔۔حسن شریف۔۔۔۔ اب یہ کچلے گرم پانی سے دھو لیں ۔اب ان کچلوں کو خوب باریک کر لیں ان باریک شدہ کچلوں کو جس طرح ٹھنڈائی گھوٹی جاتی ھے ۔عرق گلاب جو بہترین ھو تھوڑا تھوڑا ڈال کر گھوٹتے جائیں اور چھانتے جائیں جب سارے کچلے گھوٹ لیں تو اب اس کو ایک برتن میں ریت رکھ کر اوپر عرق والا برتن رکھ کر رب تیار کریں ۔۔۔۔ ۔مقدار خوراک ۔۔۔آدھ رتی ۔۔۔ اس میں جو نسخہ تیار کریں آپ مقدار کی احتیاط رکھیں ۔۔۔تمام استاذ کرام ۔۔۔عزت مآب حکما ء کرام کی نذر ھے جزاک اللہ خیر خصوصی جریان سرعت درد ۔وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔