کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات11۔
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات11۔
11ویں۔ قسط
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
کچلہ اندرونی رطوبات کو خشک کرکے نظام ہضم اور نطام اخرا ج کو بہتر بناتا ہے۔انسانی جسم میں رطوبات بنیادی خمیر کی حیثیت رکھتی ہیں اگر ان میں غیر معتدل صورت پیدا ہوجائے،یا جتنی مقدار میں رطوبات پیدا ہورہی ہیں اسی تناسب سے مصرف موجود نہ ہوتو صحت میں گرانی پیدا ہوجاتی ہے۔مثلاََ خدانخواستہ اگر کسی کو زخم لگ جائے۔کسی چوٹ یا حادثہ کی وجہ سے زخم ہوجائے تو طبیعت مدبرہ اس کی درستگی کے لئے رطوبات ارسال کرتی ہے،جب رطوبات آنا شروع ہوجاتی ہیں تو خون کا بہائو رک جاتا ہے یعنی جہاں رطوبات ہونگی وہاں خون نہیں ہوگا،جہاں خون بہے گا، وہاں رطوبات کی کمی ہوگی۔
خون روکنے اور جاری کرنے کا قانون۔
جسم میں ایک طبیب اپنی مرضی سے خون جاری کرسکتا ہے اور جاری خون کو روک بھی سکتا ہے۔اگر جسم میں ایک حد سے زیادہ خشکی پیدا کردی جائے تو خون جاری ہوجاتا ہے ،اسی طرح اگر جسم میں ایک حد سے زائد رطوبات کا غلبہ ہوجائے تو ہر طرح کے خون کے بہائو کو روکا جاسکتا ہے۔اس قانون کے تحت ایک معالج کسی ضرورت مند عورت کا خون حیض بھی مرضی سے جاری کرسکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر روک بھی سکتا ہے۔
زخم سے بہنے والی رطوبات طبیعت مدبرہ کی طرف سے زخم ٹھیک کرنے کے لئے بھیجی جاتی ہیں۔جتنی ضرورت ہو صرف ہوجاتی ہیں ،باقی کا پیپ ریشہ بن جاتا ہے۔یہ ریشہ قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے،زخم کے لئے کسی ویکسن سے کم نہیں ہے۔گوکہ اس سے طبیعت کو کراہت محسوس ہوتی ہے۔لیکن اگر اسے مناسب انداز میں مریض پر استعمال کرایا جائے تو بہترین قسم کی دافع تعفن دوا بنتی ہے۔
کچلہ کی خاصیت ہے کہ جسم سے غیر ضروری اور غیر مستعمل رطوبات کو خشک کرکے جسم کے بوجھل پن کو دور کرکے چست و توانا بناتا ہے ۔جسم میں بلغمی رطوبات کی بہتات سستی و کمروزی کا سبب بنتی ہے،جسم پھول جاتا ہے،کاہلی۔بے ہمتی،کام کو جی نہ کرنا ،مردانہ کمزوری۔ہاتھ پائوں کابے جان ہونا۔ اعصابی شوگر وغیرہ جیسی علامات دیکھنے کو ملتی ہیں۔کچلہ قدرت کا وہ انمول تحفہ ہے جو اِن سب علامات کا خاتمہ کاسبب بنتا ہے۔
کچلہ صرف مردانہ کمزوری کے لئے ہی متعارف ہے۔لیکن اس کے اکسیری دیگر خواص کی طرف کم توجہ دیجاتی ہے/حالانکہ موسمی اثرات سے ہونے والے نزلہ زکام۔پھوڑے پھنسیاں۔اور پانی سے ہونے والی الرجی کے درپھڑ۔اور بہنے والے زخم سب کے لئے کم خرچ بالا نشین دوا ہے۔لیکن اسطرف توجہ نہیں دی جاتی ۔طب کا المیہ کہیں یا سہل پسندی، جو بات کتابوں میں پڑھ لی یا کسی نےبتادی ،اس سے آگے سوچنا ۔تجربہ کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔جب کہ کسی دوا یا جڑی بوٹی کے بارہ میں کسی معالج یا طبیب کا مشاہدہ و تجربہ محدود ہوتا ہے،اس میں آگے بڑھنے کی بہت گنجائش موجود ہوتی ہے۔کوشش کرنے سے بے شمار فوائد و خواص سامنے آسکتے ہیں۔کچلہ ایک مجفف رطوبات اور مقوی قلب دوا ہے۔اگر جسم میں رطوبات حد اعتدال سے بڑھ جائے تو عضلاتی تحریک سے انہیں اعتدال پر لایا جاسکتا ہے۔
کچلہ دیگر علاج و معالجہ کے طریقوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔یہ کسی انٹی بائیوٹک دوا کا مقابلہ کرسکتا ہے۔اسے قطروں کی شکل مین پلائی(ہومیو پیٹھی)اسے سفوف کی شکل میں دیں (ایلو پیٹھی۔نیکس وامیکا)کشتہ کی صورت میں دیں ۔(کشتہ کچلہ دیسی طب)ان ساری باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کچلہ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس کا کثیر الاستعمال ہونا ممکن ہے۔دیسی طب میں معجون ازراقی معروف چیز ہے۔گولیاں کیپسول۔معجونات۔وغیرہ عام اور روز مرہ کی چیزیں ہیں۔کچلہ کے بارہ میں جس قدر خوفناک باتیں کتابوں میں لکھی ہیں ،اسی قدر اس کے مرکبات مارکیٹ میں موجود ہیں۔یعنی اس کی منفعت اس کے مضرات سے کہیں زیادہ ہے۔
نفع و نقصان کا فطری قانون۔
جسم میں جب ایک خلط حد اعتدال سے تجاوز کرجاتی ہے تو تکلیف کا سبب بنتی ہے۔علاج کے سلسلہ میں اس کے مکالف دوا دی جاتی ہے۔چاہے وہ زہر ہی کیوں نہ ہو۔اس کے نقصان کی صورت اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب وہ پہلے خلط کو کم کرکے دوسرے کو بڑھا نہیں دیتی۔اسے ایک مثال کی مدد سے سمجھو۔۔مثلاََ مٹی بہت خشک ہوتی ہے۔اگر کہیں پانی موجود ہو اس مین مٹی ڈالنا شروع کردیں،تو جب تک پانی غالب رہے گا،تک تک مٹی کی خشکی ظاہر نہیں ہوگی،جب مٹی کی مقدار پانی سے زیادہ ہوجائے گی تو پانی خشک ہوجائے گا۔اور مٹی کی خشکی پانی کی تری پر قابو پالے گی۔اسی طرح جب جسم میں بلغمی رطوبات کی بہتات ہوگی تو خشک ادویات چاہے وہ زہر ہی کیوں نہ ہوں اس وقت تک نقصان نہیں دے سکتیں،جب تک بلغمی رطوبات خشک کرکے جسم میں خشکی کو ایک حد سے آگے نہیں لے جاتی۔یعنی زہر تک بھی نقصان اس وقتے دے گا جب اس کے اثرات جسم مین حد اتعدال سے بڑھ جائیں گے۔جو انسان اس سادہ سی بات کو سمجھ گیا۔اس نے طب کا بہت بڑا راز پالیا۔۔۔جاری ہے