کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔ چوتھی قسط
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔
چوتھی قسط۔۔پوسٹ کرنی ہے
تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستان
اس نسخہ سے دو فوائد حاصل ہوئے تھے،والد محترم کو بھوک خوب لگتی تھی، کھلانے پلانے میں آسانی تھی یوں بہت ساری انٹی بائیٹک اور دیگر انفیکشن روکنے والی ادویات سے جان چھوٹ گئی تھی،کسی دوا کی الگ سے ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔دوسرا فائدہ یہ تھا کہ انہیں بروقت وارش روم کی حاجت ہوتی اور بافراغت اس مرحل سے گزرتے۔
جب کہ دیکھا گیا ہے ایسی حالت میں غذائوں سے زیادہ مریضوں کو دوائیں کھلائی جاتی ہیں۔ان کی خشکی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کئی کئی دن قضائے حاجت کے لئے ترسنا پڑتا ہے ،حقنہ تک کی نوبت آجاتی ہے ،الحمد اللہ دوائوں کی لمبی جو ڑی فہرست نہیں بنانی پڑی،صرف کچلہ کی مناسب مقدار مختلف اجزاء کے رد وبدل کے بعد جاری رہی۔
زخموں پر چھڑکا جانے والا سفوف
زخموں پر مردہ سنگ۔رال سفید،کتھہ۔معمولی سا نیلا تھوتھا شامل کرکے سفوف بنایا ہوا تھا ،وہ چھڑکا کرتا تھا۔مزید کسی دوا کے یہ عمل جاری رہا
۔ لیکن زخموں کو پھٹکڑی اور کے ساتھ نیم کے تازہ پتے ابال کر پانی تیار کیا جاتا،ہر روز زخموں کو اس نیم گرم پانی سے دھویا کرتاتھا۔زخموں کے بارہ اتنا یاد رکھیں، ہلکا موٹا پیپ ریشہ پیدا ہونا قدرت کا وہ عمل ہے جو زخم بھرنے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے،جن رطوبات کو طبیعت مدبرہ زخم ٹھیک ہونے کے لئے مختص کرتی ہےوہ مقام زخم کو درست کرتی ہیں،اگر کچھ بچ جائے تو پیپ کی صورت اختیار کرجاتی ہیں۔
زخم سے بہنے والے مواد کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس پیپ کے اندر زبر دست قوت شفا موجود ہوتی ہے ،اس پر پھر کبھی بات کریں گے ۔اس وقت یہ سب معلومات مجھے معلوم حاصل نہ تھیں۔زخم پر جب بھی رطوبات کی کثرت دیکھتا صاف کردیا کرتاتھا ۔ ۔ کچلہ کی وجہ سے انہیں درد روکنے والی ادویات کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ،مجھے یہ سب کچھ اس لئے معلوم ہواتھا کچلہ کے بارہ میں حکماء نے لکھا تھا کہ دردوں کو ختم کرتا ہے،ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ عام حالات میں دردوں کو ختم کرتا ہے تو والد محترم کو بھی تو زخموں میں درد ہوتا ہے۔
ایک ہفتہ کے بعد ایک مرہم لگانی شروع کردی تھی،گوکہ اس مرحم کا کچلہ سے کوئی تعلق موجود نہیں ہے لیکن میں نے اس وقت یہ طریقہ علاج اختیار کیا تھا،اس لئے مرہم کا نسخہ درج ذیل ہے۔یہ نسخہ غالبا “امرت ساگر” سےلیا گیاتھا کسی ہند وید نے ترتیب دیا تھا،میں اسے کالی مرہم کے نام اپنے پاس بنا کر تیار رکھتا تھا۔
اس کے اجزاء یہ تھے۔رال سفید۔کتھہ پاپڑیہ۔مردہ سنگ۔نیم کے پتوں کا پانی،گائے کا گھی وغیرہ۔۔پھوڑے پھنسیوں۔زخم۔موسمی جلدی امراض وغیرہ میں تین دھائیوں سے استعمال کررہاہوں۔۔
والد محترم کی تیمار داری کے دوران جو دعائیں مجھے ملیں مجھے ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ یہ دو ماہ جن میں ان کی خدمت کی گئی تھی مجھے انعام میں دئے ہیں۔جب سے میں ہوش سنبھالا تھا۔ان کی خدمت کرنے کا موقع نہ ملا تھا۔ان کے الفاظ آج بھی میرے لئے راحت کا سبب بنتے ہیں”میرے اس بیٹے نے،خدمت کرکے بیٹا ہونے کا حق ادا کردیا”۔
والد صاحب جسمانی طورپر مضبوط تھے،کھیتھو ں کام ،ہل چلانا،کسی کا استعمال۔مویشیوں کے چارہ کھیت سے کاٹ کر لانا،پھر اسے ہاتھ کے ٹوکے سے کوٹ کر جانوروں کو کھلانا روز مرہ کے معمولات میں شامل تھا/۔اس لئے وہ اتنی سخت تکلیف کو برداشت کرگئے۔میں نہیں کہتا کہ کوئی اس تجربہ کو دُہرائے۔