کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔
تیسری قسط۔
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔
تیسری قسط۔۔
تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی۔کاہنہ نولاہور پاکستان
جب انسان کسی بات کا بھید پالیتا ہے تو بہت ساری الجھنیں ختم ہوجاتی ہیں۔اس سے بے پروا ہوجاتا ہے کہ کسی نے کیا کہا ،کسی نے کیا لکھا ہے؟فلاں کتاب ،یا نسخہ میں کونسی ہدایات درج ہیں۔اس بات سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا کہ کہ حذاق اساتذہ کرام نے اپنی کتب میں جو ہدایات لکھی ہیں،یا اپنے متعلقین کو یہ باتیں سینہ بسینہ منتقل کی جاتی ہے۔ان مین کچھ خاص بھیدہوتے ہیں۔منجملہ ان میں کسی دوا کا بنانا ۔ اسکا استعمال ۔مقدار خوراک۔متعلقہ غذائیں۔پرہیز وغیرہ۔
عام ادویہ جنہیں بے ضرور سمجھا جاتا ہے اور ان کا روز مرہ کا استعمال مشاہدہ میں ہے ،کے بارہ میں کوئی ہدایات یا پرہیزی معاملات دیکھنے کو نہیں ملتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مانوس ادویہ کا استعمال اور انکے فوائد اتنے عام ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا نہ ان باتوں کو درخور اعتناء سمجھا جاتا ہے۔لیکن میدان طب میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں،اگر جسم کو ضرورت نہ ہو تو کالی مرچ ،زیرہ سفید۔دھنیا۔الائچی۔گڑ شکر۔حتی کہ گھی دودھ بھی نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔عمومی اشیاء کے استعمال میں لوگ اپنے تجربات پر انحصار کرتے ہیں کسی سیانے یا حاذق طبیب کا انتظار نہیںکرتے۔
مشاہدہ ہے کالی مرچ زیادہ مقدار میں سینہ کی جلن کا سبب بنتی ہیں۔۔۔دھنیا خشک۔الائچی اعصابی مریض کے لئے آفت سے کم نہیں۔نزلہ زکام والا ابلے چاول کھالے تو اس کی چھینکیں نہیں رکتیں۔ہماری والدہ مرحومہ پرہیز کے بارہ میں بہت سخت تھیں۔معمولی سا نزلہ زکام ہوتا گھی دودھ پر پابندی عائد کردی جاتی۔موسمی بخار آجاتا تو کاڑھے اور چھوہارے کھانے پڑتے وغیرہلیکن ان علامات کو کوئی بھی سمی علامات قرار نہیں دیتا۔لیکن کچلہ بناہ خدا۔۔۔عام لوگوں کے لئے زہر قاتل ہے۔۔۔
ماہر اساتذہ نے جو پرہیز اور احتیاطی تدابیر لکھی ہیں شاید وہ اناڑی لوگوں کے لئے ہوں۔یا پھر نئے حکماء کے لئے،تاکہ حد سے تجاوز نہ کریں۔ان کی مقرر کردہ مقدار سے اگر دوگنی مقدار بھی کھالی جائے تو بھی خیر ہوتی ہے۔لیکن احیاطا خوراکی مقدار کوکم سے کم رکھا جاتا ہے ۔
بات کچلہ کی ہورہی تھی۔کچلہ طبی دنیا کا مفید دوا ہے جس کے بارہ میں اطباء نے اتنا ڈرایا ہے کہ استعمال تو رہا ایک طرف اس کے بارہ میں کوشش کو بھی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔جس نسخے میں کچلہ کو بطور جز استعمال کیا جائے،اس دوران کوئی غیر طبعی علامت ظاہر ہوجائے تو قصور کچلہ کا ہی نکلے گا۔۔
طبیب و مریض یک زبان ہوکر کچلہ کو برا بھلا کہنا شروع کردیں گے۔اسباب و علامات پر غور نہیں کریںگے۔مثلا ایک آدمی شکایت کرتا ہے کہ جناب کچلہ کھانے سے مجھے زکام لگ گیا ۔یا مجھے ٹھنڈ لگ گئی؟۔اگر معالج علم العقاقیر سے واقف ہوگا تو فورا ،مریض کے دعوے کو رد کردیگا۔کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ مریض کو کچلہ کے استعمال سے اعصابی علامات ظاہر ہوجائیں۔کیونکہ قدرت نے جس چیز میں جو تاثیر رکھ دی ہے وہ کبھی معطل نہیں ہوسکتی۔ولن ےجد للسنۃ اللہ تبدیلا۔۔
کچلہ سے ایک بات یا د آئی کہ جن دنوں میں کچلہ مدبر کرنے کا جنون تھا،بہت سے لوگ اس کے دوانے تھے۔بالخصوص بختہ عمر کے لوگ۔حال چال پوچھنے آتے اور بڑی شائشتگی سے ایک طرف لے جاکر پوڑیہ طلب کرتے۔۔اگلے دن حسن کارکردگی سے آگاہ کرتے۔ایک صاحب میرے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ان کی تمام سروسیں مفت ہوا کرتی تھیں ۔وہ کبھی دودھ لادیتے۔کبھی لکڑیاں اور اوپلے۔مہیا کردیتے۔انہوں نے کبھی نسخہ کی تعریف نہ کی ،بلکہ منہ بسورتے ہوئے کہتے ،اتنا فائدہ نہیں ہوا۔جتنا لوگ بتاتے ہیں ۔آج مجھے زیادہ مقدار میں دوا دینا۔بارہا یہ سلسلہ چلا ۔ان کی باتیں کبھی تو مرے یقین کو متزلزل کردیتیں۔کہ ممکن ہے نسخہ میں کوئی جھول رہ گیا ہو؟ ۔
۔ کافی تجسس کے بعد معلوم ہوا کہ جناب تو دوا کے سپلائر بن چکے ہیں۔لوگ میرے پاس آنے کے بجائے ،ان سے رابطے میں رہتے ہیں۔
ان دنوں کتابوں کا مطالعہ بکثرت تھا۔طبی کتابیں اوڑھنا بچھونا تھیں،طرح طرح کے تجربات جاری تھے۔میں نے کچلہ میں فالج اور اعصابی سوزش میں بجلی کی طرح کام کرتے ہوئے پایا۔تھکاوٹ۔سینہ پر بوجھ،خواب میں ڈر جانا۔کسی بات کا فوبیا ہوجانا وغیرہ میں کچلہ کی تاثیر مسلم دیکھی۔قبض میں اور گوشت کے درد میں بہت کام کرتا ہے۔۔۔
والد بزرگ کے ساتھ حادثہ
یہ 2001 کی بات ہے۔والد محترم مرحوم و مغفور کے ساتھایک حادثہ پیش آیا۔کالے تیل والا انجن تھااس پر آٹا چکی لگی ہوئی تھی۔والد محترم تہبند باندھا کرتے تھے۔وہ کسی کام سے چکی میں گئے تو تہبند کا کپڑا پلی کی شافٹ لپٹ گیا۔اللہ نے بہت کرم کیا ،جان سلامت رہی لیکن تہبند کا کپڑا رانوں کے ماس میں گھس گیا۔۔تقریبا ایک ایک انچ سے زیادہ ٹانگوں میں زخم ہوگئے۔رگیں یوں محسوس ہوتی تھیں کہ جیسے کینچوے لٹک رہے ہوں۔۔
چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے۔درد سے برا حال تھا۔کیونکہ رگیں کٹ گئی تھیں ۔ڈاکتروں نے ٹانگیں کاٹنےکا مشورہ دیا تھا،میں نے ان کا گھر پے علاج کرنا شروع کردیا۔ان کے زخموں پر مردہ سنگ۔رال سفید،کتھہ۔معمولی سا نیلا تھوتھا شامل کرکے سفوف بنایا ہوا تھا وہ چھڑکا کرتا تھا۔
درد اور جسمانی قوت مدافعت کی بڑھتوری کے لئے کچلہ کی مخصوص مقدار انہیں دیا کرتا تھا۔۔اس سے ان کا درد قابل برداشت رہتا۔اور ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصہ میں وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔۔
نسخہ میں کبھی کالی مرچ۔سنڈھ وغیرہ شامل کرلیا کرتاتھا۔لیکن مرکزی کردار اور نسخہ کا روح رواں جزو کچلہ ہی تھا۔امدادی اشیاء کو بوقت ضرورت شامل کرتا تھا۔۔