کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔
پہلی قسط
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات۔
پہلی قسط
تحریر ::
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی
کاہنہ نولاہور پاکستان
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پنا ہ نعمتوںسے نوازا ہے۔اس کے لئے ایسی نعتمیں مہیا ردیں ہیں جن کا اظہار صدیوں سے ہوتا آیا ہے اور رہتی دنیا تک انکشافات و اظہار کا سلسلہ جاری رہے گا۔
طب انسانی زندگی میں سب سے زیادہ کام آنے والا فن و ہنر ہے جس کی بلا امتیاز ہر طبقہ و معاشرہ کے ہر فرد کو ضرورت رہتی ہے۔ یہ سلسلہ ہبوط آدم ؑ سے تاہبوز ،اور تا دم واپسیں جاری رہے گا۔
طب کا ایک حصہ تو وہ ہے جسے کتب میں مرقومہ حالت میں دیکھتے ہیں۔ایک حصہ وہ ہے جسے بے شمارلوگ اپنے ساتھ قبروں میں ساتھ لے گئے۔عملی طورپر جتنا حصہ کتب میں موجود ہے یا جس کے چرچے سنے جاتے ہیں ۔اس حصے کی نسبت بہت کم ہے جو سینہ بہ سینہ نسلا بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔حادثاتی طورپر نابود بھی ہوجاتا ہے۔
کچلہ ایک اکسیری دوا ہے جسے حذاق حکماء بوقت ضرورت کام میں لاتے ہیں ۔اس سے امراض کہنہ اوربدن کے لئے اکسیرات مین استعما ل کرتے ہیں۔یہ دوا صدیوں سے طب مین استعمال ہوتی آئی ہے ج بھی بے دھڑک استعمال کی جارہے ہے۔اس پر مفصل مضامین اور رسائل و کتب لکھی گئیں ۔عقاقیر پر لکھی جانے والی کتب میں اس کا تذکرہ شرح و بسط سے پایا جاتا ہے۔
کچلہ کے بارہ میں جتنا ڈرایا جاتا ہے یا پہلے لوگوں نے اس کے استعمال کے بارہ مین جو احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں جو طرریقے تبدیر ور اصالھ کے لکھے ہین وہ اتنے طویل اور ڈرائونے لکھے ہیں کہ پڑھنے والا اور سننے والااستعمال سے پہلے ہی کانپ جاتا ہے۔کچلہ مارنا یا اسے تیار کرنا پہاڑ کیچوٹی سر کرنے والی بات سمجھی جاتی تھی
۔عمومی طور ۔کچلہ ۔شنگرف۔سنکھیا۔رسکپور۔دار چکنا۔تیلا مکھی۔بیلا ڈونا۔مٹھا تیلہ وہ دوائین سمجھی جاتی تھیں کہ ان کا مارنے والا یا انہیں قابل استعمال بنا نے والے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔اچھے بھلے حکماء ان چیزوں کی تیاری کے جھنجٹ مین پڑنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔استاد الاطباء مولانا حکیم محمد عبد اللہ جھانیاں منڈی والوں کی کتب اس کی گواہی دیں گی۔
اس کے بعد حضرت مجدد الطب صابر ملتانی نے میدان طب میں ایک غلغلہ پیدا کردیا ۔طب کو اطباء کے لئے سوورہ فاتحہ بنا دیا۔قانون صابر نے ایک قابل عمل سہل لاحصول طریقہ تشخیص۔تجویز غذا،ترتیب نسخہ جات۔ادویہ سازی متعارف کرایا۔حکیم صاحب کی زندگی کانٹوں کی سیج ثابت ہوئی ایک طرف وہ اپنے قانون کو ترتیب دے رہے تھے۔دوسری طرف فسطائی ذہنوں والے حکماء سے نبرد آزما تھے ۔انہوںنے کتب بھی لکھیں ۔اعتراجاتا کے جوابات بھی قلمبند کئے۔اپنی تھیوری کا پریکٹیکل بھی مہیا کیا۔وہ اجتماعات میں اپنا نکتہ نظر پیش کرتے۔ایلو پیٹھی کے طلسم کو پاش پاش کرتے اور اپنی بات کو مدلل انداز میں پیش کرتے۔
صابر صاحب مرحوم نے جو نظریہ پیش کیا ،اس کا فارماکوپیا بھی دیا۔ فارماکوپیا کی ترتیب میں ان کی دلکش ترتیب۔ان کا خلوص۔تجربہ باریک بینی بلکہ ان کے اخلاص کی بنیاد پر اس ترتیب کو الہامی ترتیب کہا جاسکتا ہے۔ اس فارماکوپیامیں کچلہ کو بطور ایک بنیادی جزو کے شامل کیا گیا۔گوکہ طبیب لوگ کچلہ ا پہلے بھی استعمال کرتے تھے۔لیکن مفرد اعضاء والوں نے اس کے استعمال اور اس کی تدبیر کو کمال درجہ تک پہنچ دیا۔
مجھے بے شمار طبی لٹریچر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔عربی فارسی ۔اردو پنجابی وغیرہ زبانوں میں لکھی گئی کتب قرابدینیں۔ بیاضیں۔ڈائریاں۔یاد داشتیں نظروں سے گزریں۔بقراط کی لکھی ہوئی کتب سے لیکر خاندان شریفی۔مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم وغیرہ تک کتب سے شغف رہا ۔لیکن جو تفہیمی انداز مفرد اعضاء والوں کا ہے،اس کا اپنا ہی مزہ ہے۔
کچلہ اس سب مین مفید بتایا گیا ہے۔لیکن جو استعمال مفرد والوں نے بتایا ہے۔اس کی ہمت کسی کو نہ ہوئی ۔کچلہ کی تیاری ،ہمالیہ چوٹی سرکرنے والی بات تھی۔ہندو ویدک مین بھی اس کا استعمال موجو د ہے لیکن اس کی ترکیبیں میں بھی بال کی کھال کھینچی گئی ہے۔