کتب عملیات اور حقائق۔
کتب عملیات اور حقائق۔
تحریر
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی
کاہنہ نولاہور پاکستان
کتب عملیات لکھنے والوں نے اعمال کو اپنے انداز میں ترتیب دیا،ان کے خواص و فوائد لکھے،حصول منفعت کے لئے دائرے مقرر کئے ہیں،سوال یہ ہے کہ لکھے گئے فوائد وخواص لکھنے والوں کو معلوم کیسے ہوئے؟کونسے ایسے ذرائع تھے جن کے توسط سے یہ بھید و اسرار آشکارا ہوئے۔؟
در اصل لکھنے والوں نے سائلین کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کتب ترتیب دیں ، فوائد لکھے اور انہیں دینی تقدس کی چادر میں ملفوف کرکے معتقدین کے سامنے رکھ دیا گیا،پڑھنے والوں نے بھی ان کتب کو فرط عقیدت سے ہاتھوں ہاتھ لیا،لکھی ہوئی عبارات کا صحیفہ آسمانی کا درجہ دیاکسی نے بھی یہ زحمت گوارا نہیں کہ لکھے گئے فوائد وخواص کو کبھی تجربات کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لیں۔
عملیاتی کتب دین کا حصہ نہیں۔
عملیاتی کتب دین کا حصہ نہیں ہیں اگر ایسا ہوتو ان میںتضاد بیانی نہ ہوتی،نہ وقت کے ساتھ ساتھ مطلوبہ مسائل کے حل لکھے جاتے ،جیساکہ ہم نے لکھا ہے کہ یہ کتب نفسیاتی تسکین کے لئے لکھی جاتی ہیں حالات اور زمانہ کے لحاظ سے جو مسائل در پیش ہوتے ہیں وہی موضوع سخن ٹہرتے ہیں۔
قدیم کتب عملیات اٹھاکر دیکھ لیں جن مسائل کو اس وقت اہم سمجھا جاتا تھا ان مسائل کے حل کے لئے بے شمار عملیات وضع کئے گئے۔آج انہیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ کہ یہ بھی کبھی مسائل اہمیت رکھتے تھے آج ان کا ذکر بھی قابل اعتناء نہیں سمجھا جاتا ۔
جدید و قدیم کتب عملیات میں فرق
آج افرا تفری کا دور ہے ہر کام جلد بازی سے کیا جاتا ہے پہلے زمانے میں لوگوں کے پاس وقت ہوتا تھا۔فرصت کے لمحات بہت تھے اس لئے وہ چلوں وظائف کو کئی کئی ماہ تک طول دیا کرتے تھے۔آپ قدیم عملیاتی کتب اٹھا کر دیکھ لیں ان میں ایک ایک لفظ کی زکوٰۃ کی تعداد کبیر و صغیر کی تقسیم کے حساب سے کئی کئی ماہ کی مدت ہوا کرتی تھی۔
سوا لاکھ کی تعداد تو معمولی ہوتی تھی کہ فلاں آیت کی زکوٰۃ یا چلہ کی تعداد سوا لاکھ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ شرائط بھی لکھی ہوتی تھیں۔ا س پر آگے چل کر بحث آتی ہے۔
جب کہ دین میں اس قسم کی کوئی قید مقرر نہیں،جس طرح صدیوں پہلے لوگ حاجت روائی کے لئے عملیات اور عامل کی طرف رجوع کرتے تھے آج بھی لوگوں کی طلب کم نہیں ہوئی پہلے لوگ محنت و مشقت سے کام لیا کرتے تھے،پڑھائی و تسبیحات آج کی نسبت پہلے لوگ زیادہ اہتمام سے کرتے تھے۔ اس وقت بھی لوگ عامل کو عمل کے صلہ میںحق الخدمت ادا کیا کرتےتھےلیکن آج اس کی صورت بدل چکی ہے۔ لوگوں میں زندگی کی رفتار تیز ہوچکی ہے پہلے کی نسبت پریشانیاں زیادہ ہوچکی ہیں ۔ ہوس و حرص کی گھنگور گھٹائیں سایہ کئے ہوئے ہیںغیر ضروری چیزوں کو لوازمہ زندگی بنا چکے ہیں اگر سو سال پہلے والا انسان آج لاہور شہر کی نظارہ کرے تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں۔
آج کے انسان مصروف ہوچکا ہے،اس کی ضروریات بڑھ چکی ہیں وقت کم اور حاجات زیادہ ہیںلیکن اس وقت بھی عامل و عملیات کے ذریعہ سے اپنے مصائب کا حل اور ضروریات زندگی کی تکمیل چاہتا ہے۔اسلئے آج کا انسان وقت نہیں دے سکتا البتہ وہ منہ مانگی قیمت دے سکتا ہے۔یہی سوچ اس اکھاڑے کو اجڑنے نہیں دیتی۔
آج کا انسان جلد باز ہے فرصت کم کام زیادہ ہے۔اس لئے شارٹ کٹ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔آج کے مصروف دور میں انسان نے ہوس و آز کو اوڑھنا بچھونا بنالیاہے اس لئے عاملین اور عملیاتی کتب کے مصنفین نے بھی پینترا بدل لیا ہے۔اور جدید عملیاتی موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں اس وقت بےکار سمجھے جانے والے عملیات کو حذف کرکے دور جدیدہ کے مسائل شامل تحریر کردئے ہیں مثلاََ پہلے لوگ خزائن و دفائن کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے جیساکہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں لکھا ہے۔آج کا انسان لاٹری۔سٹہ۔سٹاک ایکسچینج۔ کا رسیاہے لھذا آج کی کتب میں ان کے متعلقہ اعمال شامل کردئے گئے ہیں ۔