نیم – درختوں کا بھگوان
.
( Indian lilac/ Neem Tree)
پاکستان کے مقامی درخت.
نیم – درختوں کا بھگوان. ( Indian lilac/ Neem Tree)
تحریر – ”محمد اویس“
ناقل ۔۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
نباتاتی نام – Azadirachta indica
خاندان – Maliaceae
نیم کا ذکر تقریباً (4000) چار ہزار سال سے انسانی تاریخ میں ملتا ہے۔ ویدک سنسکرت میں اسے نِمبا( Nimba) کہا گیا ، یہی لفظ اردو میں پہلے نمب اور پھر نیم ہو گیا۔ پنجابی میں یہ مزید مختصر ہو کر نِم کہلایا۔ انگریزوں نے اس کو indian lilac اور Margosa tree کا نام دیا۔
کہا جاتا ہے کہ جب انگریزوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں فتح کے بعد دارلحکومت دہلی کو ازسرِنو بسانا شروع کیا تو نیم کے درخت کو خصوصی ہدایات دے کر لگوایا گیا۔ آج بھی پاکستان ، بھارت ، سری لنکا اور برما میں نیم کو خاص طور پر اگانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں نیم کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ یہاں بعض علاقوں میں ہندو اس کی بھگوان کی طرح پوجا کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ کرشنا اپنے آپ کو انسانوں کے درمیان اسی طرح بھگوان بتاتے تھے جیسے درختوں میں نیم کا پیڑ بھگوان ہوتا ہے۔ اسی لیے نیم ، درختوں کا کرشنا یا عام الفاظ میں درختوں کا بھگوان مشہور ہو گیا. نیم اپنے اس نام کا پوری طرح پالن کیے ہوۓ ہے۔ اور بلاشبہ اس کے انوکھے فوائد ، اس کے درختوں کا بھگوان ہونے کی گواہی دیتے ہیں.
اسی خاندان کا ایک اور درخت ‘ بَکائن‘ نہ صرف نیم سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہے(کسی ناواقف کے لیے ان دونوں میں تمیز کرنا اور پہچان کر الگ کرنا خاصا مشکل ہے)۔ یہ بھی کڑواہٹ کی مثال کے طور پر مشہور ہے۔ بکائن کو نباتیات میں Melia azedarach کہا جاتا ہے، جب کہ اس کو انگریزی میں کئ نام دئے گئے ہیں جن میں سے قابل ذکر یہ ہیں tree, Pride of India, Bead- tree, Cape lilac, نیم اور بکائن میں ایک واضح فرق ان دونوں کے پتوں میں ہے. ان کے پتوں کی شکل میں تو فرق معمولی ہے مگر ڈنڈی (stalk) پر پتوں کی ترتیب واضح طور مختلف ہوتی ہے.
شکل و ساخت- (Morphology)
نیم ایک تیزی سے اگنے والا درخت ہے۔ یہ قد میں 15–20 میٹر کی اونچائی تک پہنچ سکتا ہے،
اور شاذ و نادر ہی 35-40 میٹر تک پہنچتا ہے۔ یہ جاڑے کے خشک دنوں کے علاوہ سارا سال گہرے سبز پتوں سے لدا رہتا ہے۔ اس کی شاخیں کافی چوڑی اور پھیلی ہوئ ہوتی ہیں۔ذیلی شاخیں مل کر ایک گھنی چھتری بناتی ہیں، اس چھتری کا قطر 20-25 میٹر تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ درخت اپنے گہرے سائے کے لیے خاصا مشہور ہے۔نیم کےسائے میں دوسرے درختوں کی چھاؤں کی نسبت دو تین ڈگری درجہ حرارت کم رہتا ہے۔ اسی ٹھنڈے، گھنے سائے اور اس کی کڑواہٹ نے پنجابی لوک بولیوں میں اس کو ایک خاص مقام عطاء کیا ہے جو باقی کسی درخت حصے میں نہیں آیا۔اس کے پتے آمنے سامنے ایک جوڑے کی (pinnate) شکل میں ڈنڈی (stalk) پر سجے ہوتے ہیں ۔ یہ ڈنڈی 20 سے 40 سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہے ۔ اس پر 20 سے 30 درمیانے درجے کے گہرے سبز رنگ کے پتے موجود ہوتے ہیں جو کہ عموماً 3-8 سینٹی میٹر تک لمبے ہوتے ہیں۔ پیٹیولس( Petioles) مختصر ہوتے ہیں۔
پھولوں کی ترتیب (Inflorescence)۔
رنگ میں سفید اور خوشبودار پھول شاخوں کے بغلی گوشوں سے نکلے ایک گچھے ( Auxiliary panicles) پر اگتے ہیں جو 25 سینٹی میٹر تک لمبے ہوتے ہیں۔
اس پر 250 سے 300 تک پھول ہوتے ہیں۔ ایک انفرادی پھول 5–6 ملی میٹر لمبا اور 8–11 ملی میٹر چوڑا ہوتا ہے۔ انفرادی درخت میں پھول پروٹااینڈرس (Protandrous- ایسا پھول جس میں نر , مادہ سے پہلے مچیور ہو جاتا ہے) اور Bisexual ( جس میں مادہ اور اور نر دونوں موجود ہوں) ہوتے ہیں-
نیم کےپھولوں کا سفوف۔
راقم الحروف نیم کے پھولوں کے موسم میں پھولوں کا جمع کرکے محفوظ کرلیتا ہے۔سفوف کی شکل مین نیم گرم پانی سے پھوڑے پھنسیوں۔خون کی خرابی۔بواسیر۔ قبض۔اپھار۔کھٹے ڈکار۔بدہضمی میں چھوٹا آدھا چمچ نیم گرم پانی سے کھلائیں۔نیم 3-5 سال میں پھل دینے لگتا ہے، جبکہ 10 سال کی عمر میں یہ 50 کلو تک پھل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیم کی عمر عموماً 200 سال تک ہو سکتی ہے۔ پھل کو نِمکولی یا نِبولی بھی کہا جاتا ہے ، نمکولی کی سطح ہموار (بغیر روئیوں اور بالوں کے ) ، رنگ زردی مائل گہرا سبز اور شکل میں گول یا بیضوی ہوتی ہے۔ پکنے پر 14-28 ملی میٹر تک لمبی اور 10-15 ملی میٹر تک گولائ میں ہوتی ہے ۔پھل کی جلد (exocarp) پتلی ہوتی ہے اور کڑواہٹ ملا میٹھا گودا (mesocarp) زرد، سفید اور ریشہ دار ہوتا ہے۔ میسوکارپ 3-5 ملی میٹر موٹا ہوتا ہے۔ پھل کے سفید ، سخت اندرونی خول (endocarp ) میں ایک یا شاذ و نادر ہی دو ، تین ، لمبے بیج ہوتے ہیں جو بھورے رنگ کا سیڈ کوٹ رکھتے ہیں۔
استعمالات (Uses)
نیم ایک کثیر المقاصد درخت ہے۔ لوگ اس کے پھلوں کو کچا یا پکا کر کھاتے ہیں، اور بعض اوقات سبزی کے طور پر جوان ٹہنیوں اور پھولوں کو کھایا بھی جاتا ہے۔ نیم کی چھال ، بیجوں کا عرق اور نیم کے پتے صدیوں سے ہندوستان میں انسانوں اور جانوروں کے علاج کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ نیم کو عام طور پر خشکی کے علاج کے لیے شیمپو میں اور صابن یا کریم میں جلد کی حالتوں جیسے مہاسوں ، چنبل وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں کچھ ٹوتھ پیسٹ اور ماؤتھ واشز کا ایک جزو بھی ہے ،
نوجوان ٹہنیوں کو دیہی علاقوں میں براہ راست دانت صاف(مسواک) کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیم کے پتے ذیابیطس کے روایتی علاج کے طور پر طویل عرصے سے استعمال ہورہے ہیں ، اور کچھ ایسے طبی ثبوت بھی ہیں جو تجویز کرتے ہیں کہ یہ بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔
بیج Azadirachtin کا ایک اہم ذریعہ ہیں ، جو بیجوں میں موجود ایک لیمونوائڈ مرکب (triterpenoid) ہے ۔ یہ کسی حد تک پتے اور دوسرے ٹشوز میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ کیڑوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ یہ ان کیڑوں کے فیڈنگ سائیکل کو متاثر کرتا ہے اور اس طرح سے ان کی افزائش ، میٹامورفوسس اور بڑھنے کے عمل میں خلل پڑتا ہے۔ نیم کے خام حصے اور نیم کا نچوڑ، مکئی ، چاول اور پھلیوں جیسے ذخیرہ کیے گئے بیجوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تاکہ ان بیجوں کی کیڑوں سے حفاظت کی جاسکے۔
بطور کیڑا مار دوا۔و دیگر طبی فوائد
پڑوسی ملک ہندوستان میں، نیم پر مبنی کیڑے مار دوا تیار کی گئی ہے۔ نیم کے پودے کا نچوڑ پودوں کی نقصاندہ کیڑوں سے تو حفاظت کرتا ہے مگر پولینیشن کے لیے اہم کیڑے (جیسا کہ شہد کی مکھیاں) کو متاثر نہیں کرتا۔ بیجوں سے نکالا جانے والا تیل پاکستان و ہندوستان میں ایتھنومیڈیسن میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ تاہم ، اس میں مختلف زہریلے مادے بھی شامل ہیں( ان میں سے کئ مبینہ طور پر تیل کے اثر کو بڑھانے کے لئے بھی شامل کیے جاتے ہیں)۔ یہ زہریلے مادے حال ہی میں بچوں کی موت کا سبب بنے ہیں۔
نیم قیمتی لکڑی بھی مہیا کرتا ہے ،جو جلنے پر اچھا کوئلہ بناتی ہے۔
جانوروں کے کھانے کے طور پر نیم کے مصنوعات کا استعمال محدود ہے۔ اگرچہ نیم کے پتے چوپائیوں کے چارے کے طور پر کبھی کبھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
راقم الحروف کا کود ساختہ قبض کشا نسخہ۔
یہ نسخہ بہت کا ر آمد و مفید ہے۔قبض کشائی۔بواسیر۔معدہ کی جلن۔بد ہضمی۔معدہ کا بھرا ہوا رہنا۔اپھار۔گیس خشک خارش میںبہترین فوائد کا حامل نسخہ ہے،
ہوالشافی:نمبولی۔تمہ۔ریٹھہ۔گندھک آملہ سار۔۔ہر چہار کو برابر وزن لیکر پسوالیں۔کیپسول بھرلیں یا مٹر کے دانے کے برابر گولیاں بنا لیں۔نیم گرم پانی سے کھالیا کریں۔بہت عمدہ نتائج دیتا ہے میرے مطب میں کثرت سے استعمال ہونے والا نسخہ ہے۔آج کل ہر بندہ معدہ کے امراض میں مبتلا ہے آپ بھی فائدہ اٹھائیں(حکیم قاری محمد یونس شاہد میو)
بیجوں کا تیل اور اس کے طبی فوائد
بیجوں کا تیل نکالنے کے بعد بچنے والا کیک صرف نامیاتی نائٹروجنیس کھاد کے طور پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ نیم کے بیج کا کیک ایک پروٹین سے بھرپور جزو ہے اور کسانوں کے ذریعہ اس کا استعمال تجرباتی طور پر( جنوبی ہندوستان میں) ریکارڈ کیا گیا ہے۔ تاہم ، اس کی عدم استحکام اور زہریلی خاصیت نے مویشیوں کے کھانے کےطور پر اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کو روک دیا ہے۔ اس کی مصنوعات کو 1970 کی دہائی کے بعد سے فیڈ کا ممکنہ جزو قرار دیا گیا ہے اور اس کو مویشیوں کے لئے موزوں قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مگر حالیہ جائزوں کے مطابق ان مصنوعات کو مویشیوں کے لئے تجویز کرنے سے پہلے ابھی تک بہت سارے تکنیکی، اقتصادی اور فوڈ سیفٹی کے معاملات حل کرنے کی ضرورت ہے۔
—————–
Zaberdast