ناشکری کے نفسیاتی/طبی اثرات
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌۚ(۶)وَ اِنَّهٗ عَلٰى ذٰلِكَ لَشَهِیْدٌۚ(۷العدیات)بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکر ہےاور بے شک وہ اس پر خودگواہ ہے۔یہ ایک طرح کی ناشکری ہے اور خدا کو ناشکری پسند نہیں۔
حضرت امیرالمومنین علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: “النِّعَمُ يَسْلُبُهَا الْكُفْرَانُ”، “ناشکری نعمتوں کو چھین لیتی ہے”۔ [غررالحکم، ص۴۹، ح۹۱۴]
نیز حضرت علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: “شَرُّ النّاسِ مَنْ لا يَشْكُرُ النِّعْمَةَ وَ لا يَرْعَی الحُرْمَةَ”، “بدترین آدمی وہ ہے جو نعمت کا شکر نہیں کرتا اور حرمت کا خیال نہیں رکھتا”۔ [غررالحکم، ص۴۱۰، ح۳۴]
. اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ کل بھی اچھا ہوگا، یعنی مستقبل میں بھی یہی حالات ہوں گے اور اگر حالات اچھے بھی ہوئے تو پھر بھی آپ حسب عادت پر آنے والے کل کی فکر میں نہیں مرے جارہے ہوں گے ۔ اس لیے آج ہی خوش ہوں.
آپ اپنے آج کو اچھا بنایئے۔ اپنی زندگی ، اپنی اللہ کی دی ہوئی آسائشوں سے لطف اندوز ہوں ، کل کی فکرکل خود کر لے گا۔ ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے؟۔ ہر آدمی اپنے حالات پہلے سے بہتر بنا سکتا ہے اگر وہ اس لیے میں رہنا اور اپنے آپ کو حالات کی رو میں کھلا چھوڑ دینا سیکھ لے خود کو حالات کی رو میں چھوڑدے.
یہ بھی مت بھولیں کہ ماضی تبدیل نہیں ہوسکتا، مستقبل آپ کے قابو سے باہر ہے، صرف حال ہی تو تبدیل کیا جا سکتا ہے، اسے تبد یل کر ہیں، پھر مستقبل خود ہی بہتر ہو جائے گا۔ بہت سےلوگوں کا یہ مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ وہ بات چیت کرتے وقت مد مقابل کے آنکھوں میں نہیں دیکھتے، اگر وہ ادھر دیکھیں بھی تو بڑا سرسری سا دیکھیں گے ۔ اس لیے سامنے والے سے آئی کانٹیکٹ میں نہیں ہوتا کہ دوسرا کیا سوچ رہا ہے۔ اس کے خیالات، اس کے جذبات کیا ہیں ؟ یہ لوگ دراصل اپنے جذبات Emotion میں دیکھتے ہیں، اپنے مد مقابل کی آنکھوں میں جھانکیں کہ وہ کیا چاہتا ہے؟۔ اس کوبھانپیں، پولیس والوں کی طرح (لیکن پنجاب پولیس کی طرح نہیں)
تقریباََ ہر بڑ ا اور ذہین آدمی ایسے ہی کرتا ہے، عقابی آنکھیں ایسے ہی ہوتی ہیں عموماََ لوگوں کی آنکھوں میں نہ دیکھنے والے یعنی صحیح Eye Contact نہ
کرنے والے بلا وجہ ہی ہر وقت جلدی میں رہتے ہیں، ان کو ہر وقت اس موجودہ جگہ سے کہیں اور جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ مگر اس دوسری جگہ پر پہنچیں تو پھر بھی انہیں کسی اور جگہ جانے کی جلدی رہتی ہے۔ دراصل ایسے لوگ فراریت پسند (Escapist) ہوتے ہیں، حقیقت سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ کوئی بھی مراقبہ یا ذہنی یکسوئی کا کام صحیح طریقے سے نہیں کر سکتے۔
انہیں اس لمحے میں رہنے کی مشق کرنا چاہئے جو کہ بالکل آسان ہے، پھر آہستہ آہستہ یہ عادت بن جاتی ہے۔ انہیں یہ بھی سوچنا چا ہئے کہ پہلے ساری عمر ایسے ہی جلدی میں رہ کر انہوںنے اپنا کوئی فائدہ نہیں کیا آئندہ بھی نہیں ہو گا۔ اس لیے میں رہنے والا انسان ہی فائدے میں ہوتا ہے۔
جب یہ اصول انسان کو معلوم ہو جائے اور اس کی سچائی کا یقین ہو جائے تو پھر انسان خود کو تبدیل کر لیتا ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ زندگی کا اصلی لطف اسی لمحے میں رہ کر ہی اٹھایا جا سکتا ہے اور اپنی سب صلاحیتوں کو بھی اسی طریقے سے بہت بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے. ہر انسان کو اس کی مشق کرنی چاہئے ۔ اس طرح میں رہنے کا ایک اور بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ آپ کو بے پناہ توانائی دیتا ہے، جو کہ اپنا ہر کام صحیح طریقے سے کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ خوش اور سکھ رہنے کے لیے بھی ضروری ہے۔