میو خواتین روایات و ثقافت کی امین۔

میو خواتین روایات و ثقافت کی امین۔

زندہ آرکائیو، میو زبانی روایت میں خواتین کی آواز۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

(ای تحریر بنیادی طورپے ہماری تازہ لکھی جان والی کتاب”میوات کی تاریخ اور میو قوم ایک تہذیبی و تمدنی مطالعہ“کا چوتھا باب کو کچھ حصہ ہے۔میو ادب و تاریخ میں میو خواتین کا کردار عمومی طورپے بیان کے قابل نہ سمجھو گئیو ہے۔یاکتاب میں مکمل باب موجود ہے۔۔دوسری کتاب “میونی” کا عنوان سو بھی مکل ہوچکی ہے۔یاکے علاوہ ایک کتاب مہیری کا نام سو چھپ چکی ہے۔کل ملاکے سعد طبیہ کالج/سعد ورچوئل سکلز اپاکستان کا مہیں سو میواتی میں بیسیوں کتاب لکھی جاچکی ہاں)

ایک ایسی برادری میں جہاں خواندگی کی شرح کم ہے اور جائے دبانا کی تاریخ رہی ہے، زبانی روایات محض تفریح نہ ہاں بلکہ ایک اہم تاریخی دستاویز کی حیثیت راکھاہاں ۔ میو تاریخ روایتی لوک گیت اور کہانی(بات) کے ذریعہ محفوظ اور منتقل کرو جاوے ہے یہی ریت چلی آری ہے، جو اکثر موروثی گویا، جن سو میراثی کہو جاوے ہے، کے ذریعہ ممکن ہوپاوے ہے ۔ خواتین کی لوک داستان، ثقافت اور دانائی کی نسل در نسل منتقلی میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ وے اگلی نسل کی بنیادی معلم ہاں، جو کہانی اور گیتن کے ذریعہ برادری کی اقدار اور تاریخ اے ذہن نشین کراواہاں۔


ایک اہم ثبوت میواتی زبان میں رزمِیّہ (جنگی/رزمیہ) اور بزمِیّہ (رومانوی) ادب کی ایک بھرپور روایت کو وجود ہے، جائے “میو عورت، میراثی وغیرہ اپنا اپنا موقع پے گاواہاں” ۔ ای براہ راست خواتینن نے جنگی بیانیان کی ادائیگی اور تحفظ سو جوڑے ہے۔
ای ایک غیر معمولی اور متضاد حقیقت ہے کہ ایک پدرانہ معاشرہ میں جہاں مرد جنگجو ہاں، خواتین جنگی گیتن کی بنیادی اداکار اور منتقل کنندہ کیوں ہاں ۔ ای یا بات کی نشاندہی کرے ہے کہ ان کو کردار محض غیر فعال یادداشت سو کہیں زیادہ فعال ہے۔ وے صرف مردن کا لکھا ہویا گیت ای نہ گا ری ہاں؛ وے تو برادری کی جنگی شناخت کی محافظ، مدون اور مفسر ہاں۔ ان گیتن کو مواد، جیسو کہ خواتین پیش کراہاں، ممکنہ طور پے خالصتاً مردانہ نقطہ نظر سو مختلف ہو سکے ہے۔ وے بیٹا اور اپنا آدمین کی بہادری کو جشن مناتی ہوں گی لیکن جنگ کی قیمت، نقصان کو درد، اور گھر پے بقا کی جدوجہد پے بھی نوحہ کرتی ہوں گی۔ ای گیت مردانہ بہادری کی لاپرواہی پے پردہ دار تنقید یا خواتین کی ہمت (لچک، قربانی) کی ان شکلن نے اجاگر کر سکا ہاں جنن نےمردانہ مرکزیت پےمبنی رزمیہ نظر انداز کراہاں۔ میو خواتین کا گایا ہویا رزمِیّہ گین کو مجموعہ ایک منفرد، صنفی جوابی آرکائیو کی نمائندگی کرے ہے۔

ای جنگ، بہادری، اور برادری کی شناخت پے ان کا مخصوص نقطہ نظر کو ذخیرہ ہے۔ یا زندہ آرکائیو تک رسائی حاصل کرنو اِن تنازعات میں میو خواتین کی مستند آواز اور کردار اے بازیافت کرن کو سب سو امید افزا، اور شاید واحد، طریقہ ہے۔

لوک داستانن میں جنگجو عورت۔


عالمی لوک داستانن میں “جنگجو عورت” کاتصور کو جائزہ، یونانی افسانان کی ایمازون اور سیتھیائی جنگجون سو لے کے جاپان کی اونا موشا اور کیلٹک اساطیر کی جنگی دیوین تک ، ای ثابت کرے ہے کہ خواتین کو تنازعات میں حصہ لینو یا مرکزی کردار ادا کرنو ایک بار بار آن والو انسانی موضوع ہے۔ جنوبی ایشیائی تناظر میں، ہندوستانی تاریخ اور لوک داستانن کی شخصیات، جیسے جھلکاری بائی اور اودا دیوی جیسی خواتین جنن نے 1857 کی بغاوت میں حصہ لیو، اگرچہ مختلف برادرین سو ہی ، لیکن خواتین کی جنگی خود مختاری کے

مارے ایک علاقائی مثال فراہم کراہاں ۔
دستیاب ذرائع میں رانی لکشمی بائی یا کوئی جنگجو دیوی کا میو مساوی کو واضح طور پے ذکر نہ ہے۔ تاہم، تجزیہ یا بات پے مرکوز ہو سکے ہے کہ میو لوک داستان خواتین کی بہادری اے کونسا طرح مختلف انداز میں پیش کراہاں۔ ایک حقیقی جنگجو کے بجائے، ای ہوشیاری، لچک، اور غیر جنگی طریقان سوخاندان اور گاؤں کی دفاع کی کہانن میں موجود ہو سکے ہےدشمنن کے خلاف مزاحمت کی لوک داستان بھی ایک اجتماعی بغاوت کی طرف اشارہ کراہاں جا میں خواتین کو کردار مرکزی رہو ہوئے گو۔

خاموشی کو سامنو۔ ایک تاریخی تنقید


مرکزی دھارا کا تاریخی ریکارڈ (نوآبادیاتی، شاہی ریاست، قوم پرست) نے میو قوم مسلسل پسماندہ راکھی، یہ ڈاکو” یا “بدمعاش” کے طور پے پیش کرا گیا ، اور ان کی خواتین تقریباً مکمل طور پے نظر انداز کری گئی۔ تاریخ اکثر “گمنام” یا میون کی اسٹیبلشمنٹ مخالف میراث کی وجہ سو جان بوجھ کے “دبایو گیو” قرار دیو گیو ہے ۔
شیل مایارام کا کام، خاص طور پے Resisting Regimes ، نے میو زبانی روایات ریاستی بیانیہ کے خلاف استعمال کرکے اور تقسیم کا تشدد، بشمول “خواتین پے قبضہ” ، کو اجاگر کرکے ایک اہم پیش رفت کری ہے۔ تاہم، یا اہم کام پے بھی تنقید کری گئی ہے۔ بدری نارائن کی تنقید ای بتاوے ہے کہ مایارام کو کام زبانی روایات اے مردانہ دائرہ کار کے طور پے پیش کرکے اُو سادہ بنا دیوہے، اور “خواتین کی بھرپور تخلیقی روایات اور زبانی روایات کے اندر خواتین کو احتجاج کی عکاسی کرن والی جگہ”اے مکمل طور پے تسلیم کرن میں ناکام رہوے ہے ۔
دیرپا اثرات۔ تنازعات کے بعدمیونی کی سماجی حیثیت
ایک عالمی رجحان ہے کہ جنگی کوششن کے مارے متحرک ہون کے بعد خواتین اکثر تنازع ختم ہونا پے روایتی گھریلو کردارن میں واپس دھکیل دیو جاوے ہے ۔ ای میوات میں تنازع کے بعد کی صورتحال اے سمجھن کے مارے ایک نظریاتی فریم ورک فراہم کرے ہے۔ تقسیم کا صدمہ اور واسو پیچھے تبلیغی جماعت جیسی اسلامی اصلاحی تحریکن کو اثر و رسوخ (جا کو آغاز میوات سو ہویو) نے ہم آہنگی پے مبنی طریقان سو ہٹ کے ایک زیادہ قدامت پسند اسلامی شناخت کی طرف تبدیلی کو باعث بنو ۔
یا صورتحال نے میو خواتین کے مارے ایک منفرد نتیجہ پیدا کرو۔ تنازع سو پہلے، وے ایک پدرانہ معاشرہ کو حصہ ہی ، جہاں وے معاشی طور پے اہم لیکن قانونی طور پے بے اختیار ہی ۔ تقسیم کو صدمہ، جو گہرا مذہبی خطوط پے مبنی ہو، یا کا جواب میں برادری نے ایک خطرہ سو دوچار مسلم شناخت مستحکم کرن کے مارے مذہبی قدامت پسندی کو رخ کرو ۔ قدامت پسندی کی طرف اِی جھکاؤ، پہلے سو موجود پدرانہ ڈھانچہ اور “رواج قانون” کا تسلسل کے ساتھ مل کے، ممکنہ طور پے خواتین پے پابندین میں نرمی کے بجائے مضبوطی کو باعث بنو۔ ہم آہنگی پے مبنی ماضی، جہاں خواتین کا ثقافتی طریقہ جیسے ۔بیاہ بدون میں گیت گانو۔سہرا بندی،گانا بندی’ ہندو رسومات کی عکاسی کراہاں ، کی حوصلہ شکنی کری گئی۔ ان کاکردار ایک قدامت پسند اسلامی فریم ورک کے اندر زیادہ سختی سو متعین ہوگیا، جو موجودہ روایتی قانونی معذورین پے ایک اور تہہ بن گئی۔ کچھ معاشران کے برعکس جہاں جنگ خواتین کی آزادی کے مارے ایک محرک ثابت ہو سکے ہے، میو خواتین کے مارے 20ویں صدی کا بڑا تنازعات نے پدرانہ اصول مزید مستحکم اور سخت کرن کو باعث بنایو، جا سو ان کی سماجی اور عوامی خود مختاری مزید محدود ہو گئی۔
نتیجہ اور مستقبل کی تحقیق کاراستہ
ای تحقیق میو خواتین کا کثیر جہتی اور اکثر متضاد کردارن کو خلاصہ پیش کرے ہے: وے معاشی ستون، اسٹریٹجک تشدد کو بنیادی شکار، ثقافتی یادداشت کی محافظ، لچک کی علامت، اور تاریخی و جاری پدرانہ جبر کو موضوع رہی ہاں۔ ان کی کہانی گہری شراکت اور گہرا دکھ کی ہے، جو رسمی تاریخ میں بڑی حد تک غیر ریکارڈ شدہ ہے۔
سب سو اہم خلا میو خواتین کی اپنی آوازن کو ایک منظم، بنیادی ماخذ پے مبنی آرکائیو کی کمی ہے۔ ہم پرزور سفارش کراہاں کہ ایک وقف شدہ زبانی تاریخ اور نسلیاتی منصوبہ کو آغاز کرو جائے جو درج ذیل پے مرکوز ہوئے:
جہاں کہیں بھی ہوواں میوات یا دنیا بھرمیں بزرگ میو خواتین سو رزمِیّہ گیت اور دیگر لوک گیتن کی ریکارڈنگ اور تحریر۔
•تقسیم اور دیگر تنازعات کا ادوار کی زندگی کی تاریخ اور ذاتی داستان جمع کرنو۔
•”رواج قانون” اور ان کی زندگین پے یا کا اثرات کا بارہ میں ان کی سمجھاے و دستاویز کرنو۔
ای منصوبہ ایک انمول آرکائیو تشکیل دئے گو، جو آخر کار ایک ایسی تاریخ لکھن کے مارے خام مواد فراہم کرے گو جا میں میو خواتین مطالعہ کی اشیاء نہ، بلکہ اپنی داستان کی مرکزی کردار اور مصنفہ ہوواں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram