زاد راہ
میری منجل
ایک سوچ تھی مر کے زندہ رہنے کی ۔ لڑکپن میں ایک جنون تھا کچھ کر گزرنے کا۔ عالم شباب سے پہلے عہد پیری نے آلیا ۔ مگر جذبوں کی سرکشی نہ گئی ۔ فنکار کی انا پرست نازک مزاجی اور میو قوم کی خوداری ، احساس تفاخر اور جنگ جویانہ فطرت کے ساتھ سادگی نے مل جل کر ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کی، جس کا مقدر قدم قدم زخم کھانا ٹھہرے کسی پر اپنے درد کا اظہار کرنا اور زخم کا مرہم مانگنا تو بین عظمت لگے تو ایسے انسان کی فطرت کے لئے مرنے کے سوا کونسا راستہ رہ جائے گا۔ مگر ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ اپنے پرائے سب کے ہاتھوں ان گنت زخم کھائے اور آج بھی یہ عمل جاری ہے۔ مگر زخموں سے چور ہونے کے باوجود نڈھال ہوں نہ بے دم ہر ماحول ، ہر موسم اور ہر قسم کے حالات میں زندہ رہا ۔ اور آج بھی ہوں ۔ جینے کا یہ ہنر ہی دراصل مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ مجھے اس کا احساس بھی ہے اور اس پر نماز بھی ہے کہ زندگی نے یہ سلیقہ دنیا میں کم لوگوں کو دیا۔
Pingback: سعد یونس مرحوم کی پہلی برسی اور سعد ورچوئل سکلز اکیڈمی