مہیری سو پہلے۔یائے پڑھ لئیو
مہیری سو پہلے۔یائے پڑھ لئیو
میواتی قوم اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب راکھے ہے ،جیسے دوسری قومن کا طور طریقہ رہن سہن اور رسومات زندگی رہوا ہاں میو قوم کائی سو کم نہ ہے۔ہر قوم کا پکوانن (کھانان) میں کچھ پکوان ایسا رہوا ہاں جو قوم کی شناخت بن جاواہاں،جب بھی وا پکوان کو نام لیئو جائے گو تو ترتت وا قوم کا خیال دماغ میں گھوم جائے گو ۔وے کھانا چاہے پوری دنیا میں کھایا جاواں لیکن ان کی نسبت ایک خاص قوم کا مہیں کری جاوے ہے جیسے تلبینہ کونام لیتے ای عربن کو خیال آوے ہے۔
سجی کو نام سنتے ای بلوچ قوم سامنے آوے ہے۔
کابلی پلائو سامنے آتے ای افغان لوگن کو موہکڑو دکھائی دیوے ہے۔
ایسے ای جب مہیری کو نام لئیو جائے گو تو میو قوم کو مہکڑو آگے آجائے گو۔
جب قدرت کائی قوم یا آبادی سو کام لینو چاہوے ہے تو واکی عادات واکا خصائل اور واکا کھان پین اے ایسا انداز میں ان کا ذہنن میں پکو کرکے بٹھا دیوے ہے وے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی یاسو پونچڑو نہ چھڑا سکا ہاں۔۔
ای بات نہ ہے کہ مہیری صرف میواتی لوگن کی خوراک ہی ۔بلکہ حقیقت ای ہے کہ میوات کا طول و عرض میں جتنا لوگ ،دوسری قومن کا رہوے ہا ،سب یائے اپنی خوارک کو حصو مانے ہا۔ممکن ہے مہیری اور میو میں کوئی خاص تعلق ہوئے۔محقق لوگن نے یا بارہ میں ضرور کھوج کرنی چاہے۔بہت سا راز کھل کے سامنے آنگا۔
سوچن کی بات ای ہے کہ:جو: ساری دنیا میں کھائی جان والی جنس ہے۔کوئی قوم ایسی نہ ہے جانے جو نہ کھایا ہوواں،لیکن مہیری کو فن اللہ تعالیٰ نے صرف میون کو دئیو ہو ۔ عرب لوگ یائی جو کا دلیہ سو تلبینہ کہوے ہا۔تلبینہ کوئی ایسی چیز نہ ہے جا کا موجد مسلمان ای ہوواں۔ای تو ہزاروں سال پرانی پرم پرا، ہی جو طلوع آفتاب اسلام تک باقی رہی، جو عرب مسلمان ہویا نبیﷺ کی یاری دوستی میں ایمان لایا،ای تلبینہ ان کی بھی خوراک بنو،یاکو ذکر حدیثن میں آئیوہے یا مارے ہمارا سر ماتھا پے۔
تلبینہ کو اپنو طریقہ ہے۔لیکن طبی لحاظ سو جو فوائد مہیری کا ہاں، اُن کی بات ای الگ ہے کیونکہ یاکو طریقہ ساخت تلبینہ سو بہت الگ اور جدا گانہ ہے۔ہم نے یا بات کی پکی نہ ہے کہ مہیری سب سو پہلے میون نے خود بنائی ہی یا کہیں سو سیکھ کے آیا ہا؟ لیکن مہیری اور میو الگ الگ نہ ہوسکاہاں۔
مہیری اور میو کی جوم۔
تاریخ کا پنا میون کی دلیری اور جنگن سو اٹا پرا ہاں۔کوئی بھی لکھاری ایسو نہ ہے جانے میون کی بہادری کو ذکر نہ کرو ہوئے۔۔لڑائی بھرائی۔بڑا بانکان کے سامنے لٹھ ٹھونک کے کھڑو ہوجانو معمولی سی بات ہی۔جب سو میون کا ذکر تاریخ میں ملے ہے جنگجو طبیعت کامالک ہونا کی سبن نے تعریف کری ہے۔یاکی بہادری کا گن گایا ہاں۔”ای بات ہم کائی اور جگہ کے مارے اٹھالیرا ہاں۔جب بھی یاپے لکھو جائے گو تو پڑھن والان نے سواد آجائے گو۔”
لکھن والان نے اپنا مہیں سو،سیکڑوں عیب لکھا ہووا ں،ڈھونڈ ڈھونڈ کے عیب نکالا ہوواں ۔لیکن الحمد اللہ میں آج بھی یا بات اے فخر سو کہہ سکوں کہ میری میوقوم میں کوئی غدار پیدا نہ ہویو ۔ باقی عیب ثواب زندگی کا حصہ ہاں۔میو وعدہ کو پکو زبان کو سچو ۔کام کو کھرو ۔ اور قوت بازو کا بل بوتا پے زمین کی چھاتی میں اناج نکال کے پیٹ بھرنو،یاکی چمکتی اور نرالی صفات ہی۔
یا جفاکشی نے لوگ غلام ہون سو بچایا۔رکھی سوکھی کھاکے اپنی نسل باقی راکھی۔دشمنن سو ایسا بھڑا کہ ان کا دانٹ کھٹا کردیا۔جب کائی چیز اے حق سمجھ لیوے ہا تو واپے جان دینو معمو لی کام سمجھے ہا۔اگر کوئی درباری نمک حلالی کا چکر میں میون سو ابے تبے کرے اور کھسیانان کی طرح ان سو ناذیبا الفاظ کہے تو۔ہم وائے معذور سمجھاہاں کیونکہ ایک درباری لکھاری کہا جانے آزاد قومن نے شان کہا رہوے ہے۔ دستور ہے جاکو کھائے واکو گائے۔اگر ایک آدھ فرشتہ جیسا جو نمک حلالی کا چکر میں قوم کا اصلی جوہر مرادنگی اے بھول کے کچھ کا کچھ لکھ گیا۔لیکن ایک بات تو ہے کہ میو قوم یا قابل تو ہی کہ یاکو ذکر تاریخن میں کرو جائے۔
بات ہوری ہی مہیری اور میو کی جوم کی۔تو یاکو سبب جہاں فطری انداز میں زندگی گزارنو ہو وائی تھاں جوکو بطور غذا استعمال بھی ہو۔ابھی تک بڑا بوڑھا ہم نے ایسا دیکھا ہاں کہ بڑا سو بڑا دکھ اور تکلیف اے ویسے ای گام جاوے ہا۔رونو ،دھونو۔واویلا کرنو میو مردن کی شان کے خلاف ہو۔حالانکہ دکھ تو دکھ رہوے ہے۔کچھ دکھ تو ایسا بھی رہوا ہاں جو کلیجہ اے تار تار کردیواہاں۔لیکن یاکے باوجود میو بزرگن کو انداز ایسو ہو کہ غم کا گھونٹ اے ایسے پیوے ہا کہ کائی نوں ای پتو نہ چلے ہو کہ یاکو کوئی غم اور دکھ بھی پہنچو ہے۔ای حقیقت ہے یا میرو مشاہدہ۔یائے تو پڑھن والا بڑا لوگ ای بتانگا کہ میرو مشاہدہ کہاں تک ٹھیک ہے۔
اصل بات کا مہیں آواں۔جب میں نے میو قوم کی بہادری اور مرکھنا پن کی تاریخ پڑھی تو بہت ملوک لگو دلسو الحمد اللہ نکلو۔لیکن یائی پے بس نہ کرو میں نے کھوج کُرید کرو میو قوم اتنی بہادر کائی کو ہی؟جب میں نے انکی اور عربن کی خوراک کو خوراک کو موازنہ کرو تو ایک بات دونوں کی سانجھی ہی کہ دونوں کی کوراک “جو”کو استعمال ہو،جو بھی قوم جو کھائے گی وامیں بہادری کا جراثیم پیدا ہون لگ جانگا۔
بہتر تو یہی ہے کہ ہم یا بات اے قران و حدیث سو ثابت کراں نہیں تو میو آج کال پڑھ لکھ گیا ہاں۔جوتان سمیت چڑھ دوڑنگا۔یاجگہ دو باتن کو ذکر مناسب ہے،۔ (1)بہادری۔
جب تک میو مہیری کھاتا رہا ان کا لٹھ موڑھان پے رہا۔جب سو انن نے مہیری چھوڑی ہے۔لٹھ تو رہو ایک گھاں کو سر ن سو پاگ تک اُتر گی ہاں۔مہیری کی برکت ہی کہ حق سچ پے جان دیوے ہا،آج مصلحت پسند بن چکا ہاں۔یاسو گھنو کہونگو تو میو میرے پاچھے لٹھ اٹھا لینگا۔میون کی بہادری میں :جو :کو بہت بڑو کردار ہو۔یقین نہ آئے تو تجربہ کرکے دیکھ لئیو۔علامہ اقبال جو کا فائدان نے جانے ہو۔کیسی جچتی سی بات کہی۔
دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تُو نے
اُسے بازُوئے حیدرؓ بھی عطا کر(علامہ اقبال)
(2)اور غم کو جھیلنو۔یعنی برداشت کو مادہ۔
رسول اللہﷺ کی گھروالی مائی عائشہ رضی اللہ عنھا بتاوے ہے۔جب کوئی مرگ گرگ ہوجاوے ہی تو اللہ کو رسول اللہﷺ ہم کو جو کو دلیہ بنان کو حکم دیوے ہا۔ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ مِنْ أَهْلِهَا فَاجْتَمَعَ لِذَلِكَ النِّسَاءُ ، ثُمَّ تَفَرَّقْنَ إِلا أَهْلَهَا وَخَاصَّتَهَا ،أَمَرَتْ بِبُرْمَةٍ مِنْ تَلْبِينَةٍ فَطُبِخَتْ ، ثُمَّ صُنِعَ ثَرِيدٌ فَصُبَّتْ التَّلْبِينَةُ عَلَيْهَا ، ثُمَّ قَالَتْ : كُلْنَ مِنْهَا ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول :التَّلْبِينَةُ مُجِمَّةٌ لِفُؤَادِ الْمَرِيضِ ، تَذْهَبُ بِبَعْضِ الْحُزْنِ” ۔ (رواه البخاري:5101 و مسلم:2216)
صلی اللہ علیہ وسلم نے ای بات بتائی ہے کہ جو کو دلیہ مریض کا دل کا سارا دکھن نے ہڑ لیوے ہے۔ دل سو غم اے اُتار پھینکے ہے (بخاری’ مسلم’ ترمذی’ نسائی’ )
آج کال میو ثقافتی میلہ کی بہت دھوم مچ ری ہے۔موئے امید ہے میو قوم کا سپوت یا میں ٹولین کی ٹولی بن کے آنگا۔بتلاکے من بھولوکرنگا۔میرے پئے میو قوم کے مارے کچھ بھی نہ ہے کاغذ قلم ہے،یائی سو جتنی خدمت موسو ہوسکے گی۔کرتو رہونگو۔
یاسو پہلے میواتی زبان میں دس کتاب لکھ چکو ہوں اورمیون کی خدمت میں”میواتی کھانا اور ان کا طبی فائدہ” پیش کرچکو ہوں ۔ جو مفتی حامد راجا اور عاصد رمضان اور میں نے رل مل کے چھپوادی ہے۔ مہیری میں بھی انن نے ای زیادہ سواد آوے ہو ،یا مارے مہیری تیار کروالی۔میںاپنی مہیری اے میو قوم کا ثقافتی میلہ کی نظر کررو ہوں ۔ میرا مہیں جو چاہے پڑھنے اور پھیلائے۔ای قوم کی امانت ہے،قوم کے سپرد۔
حکیم المیوات کچھ میو بھائین نے موکو لقب دئیو ہو۔وائی کا لحاظ سو میں اپنا نام کے ساتھ حکیم المیوات لکھ رو ہو،
حکیم المیوات،حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺ کاہنہ نو لاہور
Pingback: مہیری سو پہلے۔یائے بانچ لئیو - Dunya Ka ilm