- Home
- Sawaneh Umri سوانح عمریاں
- : مولانا خلیل احم ...


مولانا خلیل احمد سہارنپوری کی خدمات کا ایک جامع تجزیہ
عالم، ولی اور مدبر:
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
تعارف:
بحران کے دور میں ایک علمی کوہِ گراں کا مقام
انیسویں صدی کا برطانوی ہندوستان ایک ایسے دور سے عبارت ہے جہاں مسلمانانِ ہند کی سیاسی اتھارٹی کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ 1857 کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد مغلیہ سلطنت کے خاتمے نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر یتیم کر دیا، اور برطانوی استعمار نے خاص طور پر مسلم اشرافیہ اور علماء کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا 1۔ یہ صورتحال ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک وجودی بحران تھی، جو سیاسی بے اختیاری، معاشی زوال اور ایک جارح نوآبادیاتی طاقت کے زیرِ سایہ ثقافتی اضطراب سے عبارت تھی 1۔
اس بحران کے جواب میں، علماء دیوبند نے مسلح مزاحمت کی ناکامی (جیسے شاملی کی جنگ) کے بعد اپنی حکمت عملی میں ایک تاریخی تبدیلی کی۔ 1866 میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کا قیام محض مدارس کا آغاز نہیں تھا، بلکہ یہ دینی اور ثقافتی تحفظ کا ایک طویل مدتی منصوبہ تھا جس کی بنیاد عوامی تعلیم پر رکھی گئی تھی 3۔ اس تحریک کا مقصد علماء کی ایک ایسی نئی نسل تیار کرنا تھا جو اسلامی روایات کو نوآبادیاتی جدیدیت اور داخلی مذہبی انحطاط دونوں کے حملوں سے محفوظ رکھ سکے 10۔
مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ (پیدائش: 1852، وفات: 1927) اسی دیوبندی تحریک کی دوسری نسل کے ایک عظیم ترین نمائندے کے طور پر ابھرے۔ آپؒ بانیانِ دیوبند کے براہِ راست علمی و روحانی وارث تھے، جن کے کندھوں پر تحریک کے مذہبی عقائد کو مستحکم کرنے، اس کی علمی برتری قائم کرنے اور بیسویں صدی کے اوائل کے پیچیدہ سماجی و سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کی ذمہ داری عائد ہوئی۔ آپؒ کی حیات و خدمات دیوبندی منصوبے کے ایک دفاعی اقدام سے آگے بڑھ کر ایک فعال اور عالمی علمی قوت بننے کے سفر کی عکاسی کرتی ہیں۔ آپؒ اور آپؒ کے ہم عصروں کی کاوشیں محض علمی نوعیت کی نہیں تھیں؛ یہ نوآبادیاتی تسلط کے سامنے مسلم شناخت اور بقا کی ایک جامع حکمت عملی تھی۔ ہر لکھی جانے والی کتاب، ہر قائم ہونے والا ادارہ اور ہر جاری ہونے والا فتویٰ اس مسلم معاشرے کی حدود کے تعین اور دفاع کا ایک عمل تھا جس کی سیاسی سرحدیں مٹا دی گئی تھیں۔ مولانا سہارنپوریؒ کی کاوشیں—عقائد کی تدوین (المہند)، فقہ حنفی کا دفاع (بذل المجہود)، اور مظاہر علوم میں علماء کی نئی نسل کی تربیت—ایک بڑے منصوبے کے باہم مربوط اجزاء تھے جس کا مقصد ایک ایسی لچکدار اور خود انحصار مسلم شناخت کی تعمیر تھا جو نوآبادیات اور جدیدیت کے دباؤ کا مقابلہ کر سکے۔
اول: ایک عالم کی تشکیل: تعلیم، تربیت اور روحانی سلسلہ
ابتدائی زندگی اور تعلیمی مراحل
مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کی پیدائش دسمبر 1852 (آخر صفر 1269ھ) میں نانوتہ/انبہٹہ میں ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو علمی و روحانی اعتبار سے ممتاز تھا اور جس کا سلسلہ نسب صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے جا ملتا ہے 11۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ عظیم عالم دین مولانا مملوک علی نانوتویؒ کی صاحبزادی اور دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی ہمشیرہ تھیں، جس نے آپؒ کو پیدائش سے ہی دیوبند کے علمی مرکز سے منسلک کر دیا 12۔
آپؒ نے ابتدائی تعلیم اردو، فارسی اور عربی کی بنیادی کتب کی صورت میں مولوی سخاوت علی جیسے مقامی اساتذہ سے حاصل کی 11۔ کچھ عرصہ آپؒ نے ایک سرکاری اسکول میں انگریزی تعلیم بھی حاصل کی، لیکن یہ سلسلہ آپؒ کے لیے غیر تسلی بخش رہا، جو ابتدا ہی سے روایتی اسلامی علوم کی طرف آپؒ کے فطری رجحان کو ظاہر کرتا ہے 13۔
دیوبند اور سہارنپور کا علمی امتزاج
آپؒ نے 1285ھ (تقریباً 1868) میں نئے قائم شدہ دارالعلوم دیوبند میں اپنے ماموں اور صدر مدرس مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی زیرِ نگرانی تعلیم کا آغاز کیا 11۔ کچھ عرصے بعد آپؒ ایک اور نئے ادارے، مظاہر علوم سہارنپور، منتقل ہو گئے جہاں آپؒ نے اپنے ایک اور قریبی رشتہ دار مولانا محمد مظہر نانوتویؒ سے حدیث، تفسیر، فقہ اور علم کلام کی تعلیم حاصل کی اور 19 سال کی عمر میں 1288ھ (تقریباً 1871) میں سندِ فراغت حاصل کی 12۔ اپنی رسمی تعلیم کی تکمیل کے لیے آپؒ نے منطق، فلسفہ اور ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوبارہ دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا 11۔
مولانا سہارنپوریؒ کا تعلیمی سفر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ابتدائی دہائیوں میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم حریف ادارے نہیں تھے، بلکہ ایک ہی علمی و فکری نظام کا حصہ تھے، جن کی قیادت اکثر ایک ہی وسیع خاندانی نیٹ ورک کے ہاتھ میں تھی اور جن کا نصب العین مشترک تھا۔ آپؒ کا ضرورت کے مطابق ان دونوں اداروں کے درمیان منتقل ہونا ایک جامد ادارہ جاتی رقابت کے بجائے ایک متحرک اور باہمی تعاون پر مبنی ماحول کی نشاندہی کرتا ہے 12۔ اس دوہرے علمی فیض نے آپؒ کو دیوبندی فکر کی جامع تفہیم سے آراستہ کیا، جس میں دیوبند کے جامع اسلامی علوم اور سہارنپور کی علم حدیث میں بڑھتی ہوئی مہارت دونوں شامل تھیں—ایک ایسی مہارت جس کے سب سے بڑے علمبردار بعد میں آپؒ خود بنے۔
طریقِ تصوف: چشتی-صابری-امدادی سلسلہ
آپؒ نے دیوبندی تحریک کے سب سے بڑے فقیہ اور روحانی پیشوا مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے دستِ مبارک پر باقاعدہ بیعت کی 15۔ یہ تعلق آپؒ کے علمی اور روحانی نقطہ نظر کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔ اپنے شیخ کے لیے آپؒ کا احترام اور عاجزی اس قدر تھی کہ خود خلافت ملنے کے باوجود آپؒ دوسروں سے مولانا گنگوہیؒ کے نام پر بیعت لیتے تھے 15۔ 1297ھ میں اپنے دوسرے حج کے دوران آپؒ نے بانیانِ دیوبند کے روحانی سرچشمہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے ملاقات کی۔ حاجی صاحب آپؒ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے آپؒ کو تحریری خلافت عطا کی اور اپنی پگڑی آپؒ کے سر پر رکھی، جو جانشینی اور اعتماد کا ایک انتہائی علامتی اظہار تھا 13۔
جدول 1: مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کی حیات و خدمات کا زمانی خاکہ
تاریخ (عیسوی/ہجری) | واقعہ | اہمیت |
دسمبر 1852 / صفر 1269ھ | انبہٹہ/نانوتہ میں ولادت | ایک ممتاز علمی خاندان میں پیدائش جس نے مستقبل کی بنیاد رکھی۔ |
تقریباً 1868 / 1285ھ | دارالعلوم دیوبند میں داخلہ | دیوبندی علمی روایت سے براہِ راست تعلق کا آغاز۔ |
تقریباً 1871 / 1288ھ | مظاہر علوم سہارنپور سے فراغت | حدیث، فقہ اور دیگر علوم میں باقاعدہ تعلیم کی تکمیل۔ |
1871 کے بعد | بھوپال، بہاولپور، بریلی میں تدریس | برصغیر کے مختلف علاقوں میں تدریسی خدمات نے وسیع تجربہ فراہم کیا۔ |
تقریباً 1881 / 1297ھ | حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے خلافت کا حصول | چشتیہ سلسلے میں اعلیٰ ترین روحانی اجازت اور اعتماد کا اظہار۔ |
1891-1897 / 1308-1314ھ | دارالعلوم دیوبند میں تدریس | مرکزی ادارے میں تدریسی خدمات نے علمی قد میں اضافہ کیا۔ |
تقریباً 1896 / 1314ھ | مظاہر علوم سہارنپور میں مستقل تقرری | ایک ادارے کی علمی و انتظامی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز۔ |
1907 / 1325ھ | مظاہر علوم کے ناظمِ اعلیٰ مقرر ہوئے | ادارے کی قیادت سنبھالی اور اسے حدیث کے عالمی مرکز میں تبدیل کیا۔ |
1907 | المہند علی المفند کی تصنیف | دیوبندی عقائد کا ایک فیصلہ کن اور تاریخی دفاع پیش کیا۔ |
تقریباً 1915-1916 | ریشمی رومال تحریک میں شرکت اور گرفتاری | برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہدِ آزادی میں عملی قربانی۔ |
تقریباً 1916-1926 | بذل المجہود کی تصنیف | علم حدیث میں ایک شاہکار کی تخلیق جو مدینہ منورہ میں مکمل ہوئی۔ |
13 اکتوبر 1927 / 16 ربیع الآخر 1346ھ | مدینہ منورہ میں وفات | جنت البقیع میں تدفین، حیاتِ مبارکہ کا بابرکت اختتام۔ |
دوم: ادارہ جاتی ستون: مظاہر علوم سہارنپور میں تدریس اور قیادت
ایک وسیع تدریسی سفر
فراغت کے بعد آپؒ نے برطانوی ہندوستان کے مختلف شہروں، بشمول سکندرآباد، بھوپال اور بہاولپور، میں تدریسی فرائض انجام دیے، جو اکثر آپؒ کے اساتذہ مولانا یعقوب نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے مشورے سے ہوتے تھے 12۔ ان تجربات نے آپؒ کو مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا گہرا ادراک عطا کیا۔ آپؒ نے دارالعلوم دیوبند (1308ھ سے چھ سال تک) اور مظاہر علوم دونوں جگہوں پر تدریس کی، جہاں آپؒ نےصحیح البخاری، سنن ابی داؤد اور صحیح مسلم جیسی اعلیٰ کتب کا درس دیا 11۔
مظاہر علوم کی تعمیرِ نو
1314ھ (تقریباً 1896) میں آپؒ کی مظاہر علوم میں واپسی ادارے کے سنہرے دور کا آغاز ثابت ہوئی 14۔ آپؒ ایک سینئر استاد سے شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے اور بالآخر 1325ھ (تقریباً 1907) میں ادارے کے پرنسپل اور ناظمِ اعلیٰ مقرر ہوئے 13۔ آپؒ کی قیادت مدرسے کی ظاہری اور علمی توسیع میں کلیدی حیثیت رکھتی تھی۔ آپؒ نے طلباء کی مرکزی رہائش گاہ (دار الطلبہ) اور جامع مسجد (مسجد کلثومیہ) کی تعمیر کی نگرانی کی اور کتب خانے کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کیا، جس سے ادارے کے وسائل مستحکم ہوئے 14۔
آپؒ کی سرپرستی میں مظاہر علوم کی شہرت حدیث کے ایک اعلیٰ مرکز کے طور پر پوری مسلم دنیا میں پھیل گئی، جس نے دور دراز سے طلباء کو اپنی طرف متوجہ کیا اور سینکڑوں فارغ التحصیل علماء پیدا کیے 14۔ آپؒ کی ذاتی علمی دیانت داری ایک مثال تھی، جیسا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے جب آپؒ نے مدرسے کے فراہم کردہ قالین کو ذاتی گفتگو کے لیے استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا 19۔ مولانا سہارنپوریؒ کے دور نے دیوبندی تحریک کے اندر ایک علمی تخصص کو جنم دیا۔ جہاں دارالعلوم دیوبند ایک علامتی اور انتظامی مرکز رہا، وہیں مظاہر علوم آپؒ کی قیادت میں علم حدیث کا خصوصی مرکز بن گیا۔ فکری کام کی اس تقسیم نے تحریک کو بیک وقت متعدد شعبوں میں گہری مہارت پیدا کرنے کا موقع دیا، جس سے اس کی مجموعی علمی پیداوار اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ یہ باہمی تعلق، جو مسابقت کے بجائے تعاون پر مبنی تھا، تحریک کی مجموعی فکری کامیابی کا ایک اہم عنصر تھا۔
سوم: علم حدیث کا شاہکار: بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد کا تنقیدی مطالعہ
بذل المجهود في حل سنن ابي داود : Fiqhul Islam

علمی پس منظر اور ضرورت
یہ عظیم شرح ایک ایسے وقت میں لکھی گئی جب اہل حدیث تحریک کے ساتھ شدید علمی مباحث جاری تھے، جو حنفی فقہ کے تقلیدی اصولوں کو چیلنج کر رہی تھی اور اس کی حدیثی بنیادوں پر سوال اٹھا رہی تھی 5۔
سنن ابی داؤد فقہی احکام کے لیے ایک بنیادی کتاب ہے، لہٰذا اس پر ایک مستند حنفی شرح کی تصنیف ایک اسٹریٹجک ضرورت تھی 24۔ یہ ایک دہائی پر محیط ایک عظیم علمی منصوبہ تھا، جس کا بڑا حصہ آپؒ نے مدینہ منورہ میں اپنے طویل قیام کے دوران مکمل کیا، جس نے اس کام کو ایک روحانی تقدس بھی عطا کیا 14۔
منہج اور کلیدی خصوصیات
مذہب حنفی کا دفاع: اس کتاب کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ حنفی فقہ کے اصول و مسائل احادیثِ نبویہ میں گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ جہاں کوئی حدیث بظاہر حنفی مؤقف سے متصادم نظر آتی، آپؒ اس کی سند، متن اور سیاق و سباق کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے یا دیگر دلائل سے اس مسئلے کو حل کرتے اور حنفی مؤقف کا دفاع کرتے 23۔
علمی غیر جانبداری اور توازن: اپنے دفاعی مقصد کے باوجود، اس کتاب کو اس کی علمی دیانت داری کے لیے سراہا جاتا ہے۔ آپؒ چاروں فقہی مکاتب فکر (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کے دلائل کو غیر جانبداری سے پیش کرنے کے بعد حنفی نقطہ نظر کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ جامع انداز اس کتاب کو غیر حنفی علماء کے لیے بھی انتہائی مفید بناتا ہے 23۔
دقیق حدیثی تجزیہ: اس شرح میں راویوں کے حالاتِ زندگی (علم الرجال) کا تفصیلی ذکر، مبہم الفاظ کی وضاحت، اور امام ابو داؤد کے اپنے تبصروں (“قال ابو داؤد”) کی تشریح شامل ہے، جو دیگر شارحین نے اکثر نظر انداز کی ہے 23۔
تکمیل میں معاونت: اپنی عمر کے آخری حصے میں، ضعف اور ہاتھوں میں رعشہ کے باعث، آپؒ نے کتاب کے بقیہ حصے اپنے سب سے ذہین شاگرد، مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کو املا کروائے، جنہوں نے بعد میں اس کا نظر ثانی شدہ 20 جلدوں پر مشتمل ایڈیشن اشاعت کے لیے تیار کیا 23۔
علمی حلقوں میں پذیرائی اور دائمی اہمیت
اس کام کو اسلامی علمیات میں ایک غیر معمولی اضافہ اور سنن ابی داؤد کی سب سے نمایاں شرح قرار دیا گیا 23۔ اسے جامعہ ازہر کے سابق شیخ عبدالحلیم محمود سمیت دنیا بھر کے سرکردہ علماء نے سراہا، جنہوں نے فرمایا کہ یہ کتاب کسی تعارف کی محتاج نہیں 23۔ یہ کتاب آج بھی حدیث اور فقہ حنفی کے طلباء اور محققین کے لیے ایک ناگزیر وسیلہ ہے، اور اس نے مولانا سہارنپوریؒ کی میراث کو جدید دور کے عظیم محدثین میں سے ایک کے طور پر ہمیشہ کے لیے مستحکم کر دیا ہے۔
چہارم: عقائد کا محافظ: المہند علی المفند کے مباحث اور مقاصد
Al Mohannad Alal Mufannad 3 Khalil Ahmed Saharanpuri.pdf

فرقہ وارانہ مناظروں کا میدان
بیسویں صدی کے اوائل میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے درمیان شدید مذہبی مباحث کا آغاز ہوا۔ اس کا فوری سبب مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تصنیف حسام الحرمین کی اشاعت تھی، جس میں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سمیت دیوبند کے اکابرین پر کفر کے الزامات عائد کیے گئے تھے 13۔ ان الزامات کو مکہ اور مدینہ کے علماء کے سامنے پیش کیا گیا، جس سے دیوبندی تحریک کو عالم اسلام کے مرکز سے الگ تھلگ کرنے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا خطرہ پیدا ہو گیا 31۔
دیوبندی مؤقف کی وضاحت: ایک اسٹریٹجک دفاع
المہند علی المفند (ترجمہ: رد کیے گئے پر چلائی گئی تلوار) مولانا سہارنپوریؒ نے 1907 میں حسام الحرمین کے الزامات کے براہِ راست اور مدلل جواب کے طور پر تصنیف کی 13۔ یہ کتاب 26 سوالات اور جوابات پر مشتمل ہے اور اسے “فکری سفارت کاری” کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوالات باضابطہ طور پر حجاز کے علماء کی طرف سے (مولانا حسین احمد مدنیؒ کے توسط سے) پوچھے گئے اور مولانا سہارنپوریؒ نے پوری دیوبندی قیادت کی جانب سے ان کے جوابات تحریر کیے 33۔ اس کتاب نے منظم طریقے سے الزامات کی تردید کی اور متنازع مسائل پر دیوبندی مؤقف کو واضح کیا، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
علمِ غیب: نبی اکرم ﷺ کے علم کو تمام مخلوقات سے افضل تسلیم کیا گیا، لیکن علمِ غیبِ کُلّی کو اللہ تعالیٰ کی خاص صفت قرار دیا گیا۔
توسل: نبی اکرم ﷺ اور اولیاء اللہ کے وسیلے سے دعا کو جائز قرار دیا گیا، جبکہ یہ واضح کیا گیا کہ حقیقی طاقت اور اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
حیات النبی ﷺ: اس روایتی سنی عقیدے کی توثیق کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں۔
“وہابیت” پر مؤقف: محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں سے خود کو الگ کرتے ہوئے، ان کے دوسرے مسلمانوں کو مشرک قرار دینے کے عمل کی وجہ سے انہیں خوارج سے تشبیہ دی گئی، تاہم ان پر صریح کفر کا فتویٰ نہیں لگایا گیا۔
امکانِ کذب: اس الزام کو “سراسر بہتان” قرار دے کر سختی سے رد کیا گیا کہ مولانا گنگوہیؒ اللہ تعالیٰ کے لیے جھوٹ بولنے کے امکان کے قائل تھے، اور اللہ کی قدرتِ کاملہ سے متعلق پیچیدہ کلامی بحث کی وضاحت کی گئی۔
جدول 2: المہند میں پیش کردہ مذہبی مواقف کا تقابلی جائزہ
الزام (بحوالہ حسام الحرمین) | وضاحت (بحوالہ المہند علی المفند) | کلیدی تصور/مسئلہ | وہابیت/عوامی تصوف پر مؤقف |
دیوبندی حضرات نبی ﷺ کے علمِ غیب کے منکر ہیں۔ | نبی ﷺ کا علم تمام مخلوقات سے افضل ہے، لیکن غیب کا کُلّی علم صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ | علمِ غیب | وہابی تکفیر سے لاتعلقی؛ صوفیانہ غلو پر تنقید۔ |
دیوبندی حضرات نبی ﷺ اور اولیاء سے توسل کو شرک سمجھتے ہیں۔ | نبی ﷺ اور صالحین کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ مؤثرِ حقیقی اللہ ہی کو مانا جائے۔ | توسل و استعانت | وہابی نقطہ نظر کی سختی سے تردید؛ جائز تصوف کی حمایت۔ |
مولانا گنگوہیؒ نے اللہ کے لیے جھوٹ کے امکان کو مانا (امکانِ کذب)۔ | یہ ایک بہتان ہے؛ مولانا گنگوہیؒ کا فتویٰ اس کے برعکس موجود ہے۔ یہ مسئلہ اللہ کی قدرتِ کاملہ سے متعلق ایک دقیق کلامی بحث ہے۔ | امکانِ کذب | الزامات کو علمی بددیانتی اور بہتان قرار دیا۔ |
دیوبندی حضرات “وہابی” ہیں۔ | ہم عقائد میں امام ابو الحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ کے، اور فقہ میں امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں۔ وہابیوں کے تکفیری مؤقف سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ | وہابیت | وہابیوں کے تکفیری عمل کو خوارج سے تشبیہ دی لیکن ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا۔ |
اثرات اور عقائد کا استحکام
اس کتاب کو حجاز اور مصر کے متعدد علماء نے تسلیم کیا، جس نے بین الاقوامی سطح پر حسام الحرمین کے فتوے کو مؤثر طریقے سے غیر مؤثر کر دیا 33۔ یہ کتاب دیوبندی مسلک کی حتمی اور “سرکاری ترجمان” بن گئی، اور اس کے مندرجات سے اتفاق کو دیوبندی ہونے کی ایک اہم شناخت سمجھا جاتا ہے، جبکہ بعد کی نسلوں کے تمام اکابرین نے اس کی توثیق کی ہے 33۔
پنجم: سلطنت کے سائے میں ایک عالم: سیاسی مشغولیت اور نوآبادیاتی مزاحمت
علماء اور جدوجہدِ آزادی
اس تصور کے برعکس کہ دیوبندی علماء غیر سیاسی تھے، ان کا تعلیمی اور اصلاحی کام درحقیقت مزاحمت کی ایک شکل تھا جس کا مقصد مسلم معاشرے کو مضبوط بنانا تھا تاکہ وہ نوآبادیاتی حکمرانی کا مقابلہ کر سکے اور بالآخر اسے ختم کر سکے 3۔ دیوبندی تحریک کے سیاسی ونگ، جمعیت علمائے ہند (جس کی بنیاد 1919 میں رکھی گئی)، نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ایک اہم کردار ادا کیا اور انگریزوں کے خلاف متحدہ جدوجہد کی وکالت کی 10۔
مولانا سہارنپوریؒ کی براہِ راست شرکت
مستند شواہد مولانا سہارنپوریؒ کی نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد میں فعال شرکت کی تصدیق کرتے ہیں۔ آپؒ تحریکِ ریشمی رومال میں گہری “دلچسپی” رکھتے تھے اور اس میں شامل تھے، جو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کا ایک انقلابی منصوبہ تھا جس کا مقصد غیر ملکی حمایت سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کو ہوا دینا تھا 36۔
اسی کردار کی وجہ سے آپؒ کو حجاز سے واپسی پر برطانوی حکام نے گرفتار کر لیا۔ ذرائع آپؒ کی بمبئی بندرگاہ پر گرفتاری، آپؒ کے سامان کی تلاشی، اور بعد ازاں نینی تال جیل میں قید کا ذکر کرتے ہیں، جو آزادی کے مقصد کے لیے آپؒ کی قربانی اور عزم کا ٹھوس ثبوت ہے 36۔ مولانا سہارنپوریؒ اور دیگر دیوبندی اکابرین کے لیے علمی، روحانی اور نوآبادیاتی مخالف سرگرمیوں میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ ان کے سیاسی اقدامات ان کے مذہبی اور روحانی فرائض کا ہی ایک حصہ تھے، جو اسلام اور مسلم معاشرے کے دفاع کے لیے ان کے عزم کا تسلسل تھے۔ ان کی گرفتاری ایک سیاسی مخالف کی نہیں، بلکہ ایک مذہبی پیشوا کی تھی جو اپنے عقائد کی بنیاد پر عمل پیرا تھا۔
اختتامیہ: ایک ہمہ جہت شخصیت کی لازوال میراث
مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ آپؒ بیک وقت ایک عظیم محدث، فقیہ، ادارہ ساز، محافظِ عقائد (متکلم)، روحانی پیشوا (مرشد) اور ایک محبِ وطن تھے۔ آپؒ نے علومِ نقلیہ، علومِ عقلیہ اور تزکیہ نفس کے درمیان ایک منفرد پُل کا کردار ادا کیا۔
آپؒ کی میراث آپؒ کی دو شاہکار تصانیف، بذل المجہود اور المہند علی المفند، میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ پہلی کتاب حنفی علم حدیث کا ایک عظیم ستون ہے، جبکہ دوسری دیوبندی عقائد کی بنیادی دستاویز ہے۔ تاہم، آپؒ کی سب سے بڑی میراث وہ شاگرد اور روحانی جانشین ہیں جن کی آپؒ نے آبیاری کی۔ انہوں نے آپؒ کے علمی اور روحانی ورثے کو اگلی نسل تک پہنچایا اور ایسی تحریکیں قائم کیں جنہوں نے عالمی سطح پر اسلام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
جدول 3: مولانا سہارنپوریؒ کے نامور تلامذہ اور روحانی خلفاء
شاگرد/خلیفہ کا نام | تعلق | اہم ترین خدمت/میراث |
مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ | شاگرد و خلیفہ | عالمی تبلیغی جماعت کے بانی، جس نے کروڑوں مسلمانوں کی زندگیوں میں دینی بیداری پیدا کی۔ |
مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ | شاگرد و خلیفہ | بیسویں صدی کے شیخ الحدیث؛ فضائلِ اعمال اور حدیث کی متعدد شروحات کے مصنف۔ |
مولانا ظفر احمد عثمانیؒ | شاگرد و خلیفہ | 20 جلدوں پر مشتمل حنفی حدیثی انسائیکلوپیڈیا اعلاء السنن کے مصنف اور تحریکِ پاکستان کے ایک اہم عالم۔ |
مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ | شاگرد و خلیفہ | تذکرۃ الخلیل کے مصنف، جو مولانا سہارنپوریؒ کی مستند سوانح حیات ہے۔ |
آخر میں، مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ جدید دور کے سب سے زیادہ بااثر اسلامی علماء میں سے ایک ہیں۔ آپؒ کی زندگی دیوبندی مکتب فکر کے اس مثالی عالم دین کا ثبوت تھی جو روایت میں پختہ، اپنے دور کے فکری چیلنجوں سے نبرد آزما اور اپنی قوم کی روحانی و سیاسی فلاح کے لیے بے خوفی سے پرعزم تھا۔ آپؒ کا انتقال 13 اکتوبر 1927 کو مدینہ منورہ میں ہوا اور آپؒ کو جنت البقیع کے مبارک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا، جو کہ نبی ﷺ کی سنت کی خدمت میں گزاری گئی زندگی کا ایک موزوں اختتام تھا 12۔
Works cited
برِصغیر میں مسلمانوں کی تحریکِ آزادی کا پس منظر – Daily Jang, accessed July 19, 2025, https://jang.com.pk/news/808569
تاریخ – Consulate General of Pakistan, Jeddah, accessed July 19, 2025, https://parepjeddah.org/ur/history/
Indian Muslim Theologians’ Response to British Colonization of India and Introduction of Modernization: A Study of Deoband Sch, accessed July 19, 2025, https://alduhaa.com/index.php/al-duhaa/article/download/161/102
The Past and Future of Deobandi Islam – Combating Terrorism Center at West Point, accessed July 19, 2025, https://ctc.westpoint.edu/the-past-and-future-of-deobandi-islam/
Commentaries-Print-and-Patronage-Ḥadīth-and-the-Madrasas-in-Modern-South-Asia.pdf – IlmGate, accessed July 19, 2025, https://www.ilmgate.org/wp-content/uploads/2011/02/Commentaries-Print-and-Patronage-%E1%B8%A4ad%C4%ABth-and-the-Madrasas-in-Modern-South-Asia.pdf
Darul Ulum Deoband Movement: Anti-imperialist Struggle, Conventional Religious Education and Stance on Nationalism, accessed July 19, 2025, https://irjssh.com/index.php/irjssh/article/download/13/8/34
Understanding the Deoband Movement – Maydan, accessed July 19, 2025, https://themaydan.com/2018/11/understanding-deoband-movement/
5. Role of Ulema-e-Deoband in the Independence Movement – IMWS, accessed July 19, 2025, https://www.imws.org.uk/features/paigaam-feature/5-role-of-ulema-e-deoband-in-the-independence-movement/
Revolt in Colonial India and the Deobandi Movement: From Jihad to Revivalism | Grace Mubashir, New Age Islam, accessed July 19, 2025, https://www.newageislam.com/islam-politics/grace-mubashir-new-age-islam/revolt-colonial-india-deobandi-movement-jihad-revivalism/d/132743
Deobandi movement – Wikipedia, accessed July 19, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Deobandi_movement
خلیل احمد انبہٹوی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 19, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%84_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A7%D9%86%D8%A8%DB%81%D9%B9%D9%88%DB%8C
Khalil Ahmad Saharanpuri – Wikipedia, accessed July 19, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Khalil_Ahmad_Saharanpuri
خلیل احمد انبہٹوی – وکیپیڈیا, accessed July 19, 2025, https://pnb.wikipedia.org/wiki/%D8%AE%D9%84%DB%8C%D9%84_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A7%D9%86%D8%A8%DB%81%D9%B9%D9%88%DB%8C
Hazrat Maulana Khalil Ahmad Mullah Saharanpuri – Madrasa Mazahir Uloom Saharanpur, accessed July 19, 2025, https://mazahiruloom.org/administators.php?Maulana-Khalil-Ahmad
Mawlānā Khalīl Aḥmad Sahāranpūrī – Ḥayāt al-‘Ulamā’, accessed July 19, 2025, https://hayatalulama.wordpress.com/2015/12/01/mawlana-khalil-ahmad-saharanpuri/
Khalil Ahmad Saharanpuri – Wikiwand, accessed July 19, 2025, https://www.wikiwand.com/en/articles/Khalil_Ahmad_Saharanpuri
ممتاز فقیہ و محدث مولانا خلیل احمد سہارنپوری – Sunnionline.us, accessed July 19, 2025, http://sunnionline.us/urdu/2014/04/4000/
Khalil Ahmad Saharanpuri – Bharatpedia, accessed July 19, 2025, https://en.bharatpedia.org/w/index.php?title=Khalil_Ahmad_Saharanpuri
Maulana Khalil Ahmad Saharanpuri’s (ra) precaution in Madrassah Affairs | Pearls of the Elders, accessed July 19, 2025, https://zakariyya.wordpress.com/2007/01/07/precaution-in-madrassah-matters/
The Humbleness of Mawlana Khalil Ahmad Saharanpuri (rahimahullah) | Pearls of the Elders, accessed July 19, 2025, https://zakariyya.wordpress.com/2008/03/04/the-humbleness-of-mawlana-khalil-ahmad-saharanpuri-rahimahullah/
Shaykh Maulana Khalil Ahmad Saharanpuri (Rahimahullah) – Jamiatul Ulama KZN, accessed July 19, 2025, https://jamiat.org.za/shaykh-maulana-khalil-ahmad-saharanpuri-rahimahullah/
A brief introduction to Mazahir al-‘Ulum Saharanpur | Friends of Deoband – WordPress.com, accessed July 19, 2025, https://friendsofdeoband.wordpress.com/2012/11/14/mazahir-al-ulum-saharanpur/
Badhl al-Majhud – Wikipedia, accessed July 19, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Badhl_al-Majhud
تعارف سنن ابو داؤد – الغزالی, accessed July 19, 2025, https://algazali.org/index.php?threads/20933/
‘سنن ابی داؤد’ کے مرتب امام ابو داؤد کا تعارف – العربیہ, accessed July 19, 2025, https://urdu.alarabiya.net/editor-selection/2017/06/06/-%D8%B3%D9%86%D9%86-%D8%A7%D8%A8%DB%8C-%D8%AF%D8%A7%D8%A4%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AA%D8%A8-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%A8%D9%88-%D8%AF%D8%A7%D8%A4%D8%AF-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81
سنن ابی داؤد – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 19, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D9%86%D9%86_%D8%A7%D8%A8%DB%8C_%D8%AF%D8%A7%D8%A4%D8%AF
بذل المجهود في حل سنن أبي داود – ويكيبيديا, accessed July 19, 2025, https://ar.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%B0%D9%84_%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AC%D9%87%D9%88%D8%AF_%D9%81%D9%8A_%D8%AD%D9%84_%D8%B3%D9%86%D9%86_%D8%A3%D8%A8%D9%8A_%D8%AF%D8%A7%D9%88%D8%AF
Zakariyya Kandhlawi – Wikipedia, accessed July 19, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Zakariyya_Kandhlawi
View of بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد کا تعارف اور شروح ابی داؤد میں مقام, accessed July 19, 2025, https://almanhal.org.pk/ojs3303/index.php/journal/article/view/83/110
بذل المجهود في حل سنن ابي داود : Fiqhul Islam : Free Download, Borrow, and Streaming, accessed July 19, 2025, https://archive.org/details/BazlulMajhoodNadwi
المہند علی المفند – YouTube, accessed July 19, 2025, https://www.youtube.com/watch?v=LPkhCshR1WE
Maulana Khalil Ahmad Saharanpuri – Islam Reigns, accessed July 19, 2025, https://islamreigns.wordpress.com/tag/maulana-khalil-ahmad-saharanpuri/
Al-Muhannad ala al-Mufannad – Wikipedia, accessed July 19, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Al-Muhannad_ala_al-Mufannad
Deobandi politics – Wikipedia, accessed July 19, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Deobandi_politics
en.wikipedia.org, accessed July 19, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Deobandi_movement#:~:text=The%20Deobandi%20movement’s%20Indian%20clerical,the%20doctrine%20of%20composite%20nationalism.
Madrasa Mazahir Uloom Saharanpur, accessed July 19, 2025, https://mazahiruloom.org/baniyan-ur.php
سعادت علی سہارنپوری – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 19, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B9%D8%A7%D8%AF%D8%AA_%D8%B9%D9%84%DB%8C_%D8%B3%DB%81%D8%A7%D8%B1%D9%86%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C
بر صغیرکے عظیم محدث ، نامور محقق ‘فخرالاسلام حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ, accessed July 19, 2025, https://juraat.com/12/01/2017/5965/