من و سلوی اترنے اور بنی
اسرائل کے سات پات طلب کرنے کی حکمت۔
ہماری کتاب”قران کریم میں کھانے پینے کا ذکر اور اس کے طبی نکات۔سے اقتباس
من و سلوی اترنے اور بنی
اسرائل کے سات پات طلب کرنے کی حکمت۔
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
تخلیق انسانی کے بعد اس کے کھانے پینے اور اس کے رہنے سہنے کے واقعات جو قران و حدیث میں بیان ہوئے ان میں تحلیق آدم کے بعد انہیں جنت میں رکھا گیا اور کہا گیا کہ :﴿وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (٣٥) ﴾ [البقرة: 35]۔۔کہ جی بھر کے کھائو مگر شجر مخصوصہ کے قریب مت جائو۔کیونکہ تماری طبیعت اور اس ماحول سے یہ مطابقت نہیں رکھتا۔جو چیز بھی تم کھائو گے اس کے اثرا ت جسم و روح پر بھی مرتب ہونگے۔ کچھ ہی آیات پہلے جنت کے احوال کا ذکر کیا گیا ہے۔کہ انہیں پھل دئے جائیں گے جن میں حد درجہ مشابہت ہوگی۔دیکھنے والا دھوکہ کھاجائے کہ پہلے کھائے ہوئے پھل ہیں یا دوسرے دئے گئے ہیں:﴿قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ﴾ [البقرة: 25]۔۔۔اس کے بعدبنی اسرائیل کے حالات بیان ہوئے ہیں کہ انہیں مختلف اوقات میں کھانے پینے کی اشیاء دی گئیں۔من جملہ ان میں من و سلویٰ بھی تھا۔اس میں انسانی کاوش سے زیادہ انعام خداوندی کو دخل تھا ۔﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (٥٧) ﴾ [البقرة: 57]۔۔اس لئے من سلویٰ پر گفتگو ہمارے موضوع سے خارج ہے۔اس کے بعد انہوں نے ان اشیاء کا مطالبہ کیا جن سے وہ آشنا تھے جنہیں اس سے پہلے قیام مصر کے دوران کھاچکے تھے۔ان کے ذائقوں سے ان کی زبانیں مانوس تھیں ۔وقت کے نبی سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ان کا مطالبہ کردیا۔﴿وَإِذْ قُلْتُمْ يَامُوسَى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (٦١) ﴾ [البقرة: 61]۔۔۔
اس آیت مبارکہ میں طبی لحاظ سے کچھ نکات بیان کئے گئے ہیں(1)انسانی طبیعت بلاناغہ مسلسل ایک قسم کا کھانا کھانے سے اکتا جاتی ہے، چاہے وہ کتنا بھی قیمتی کیوں نہ ہو۔مثلاََ مسافرت اور بے کسی کے عالم میں جب وسائل ممکنہ کی صورتیں سب مفقود تھیں۔معیشت اجڑ چکی تھی ۔مسائل ہی مسائل تھی۔رہنے کو گھر نہ تھے۔کھانے کو نوالہ میسر نہ تھا کیونکہ کھانے پینے کی اشیاء کی باہم فراہمی کے لئے مربوط نظام درکار ہوتا ہے۔بنی اسرائل اس وقت خانہ بدوش تھے ۔گھر کی چھت نہ تھی اس کی جگہ پربادلوں سے سایہ کا بندوبست کیا جارہا تھا۔:﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ﴾ [البقرة: 57]۔۔جس کے پاس اپنا گھر اپنی چھت تک نہ ہو اس کے وقت کا کھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔اس لئے اللہ نے انہیں قدرتی انداز میںکھانے پینے کا بندوبست کیا۔۔﴿وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ﴾ [البقرة: 57]،ایسا کھانا جسے فطری کھانا کہہ سکتے ہیں۔اس سے ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ نظام کائنات میں زندگی جنے کے لگے بندھےنظام سے بھی الگ انتظاما ت موجود ہیں۔بہت سے ذرائع ایسے ہیں جنہیں انسانی کھانے پینے کے اسباب کے طورپر کام میں لاسکتا ہے۔
(2)اس آیت کے اگلے حصے میں دوسرا اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔انسانی صحت کے لئے زمین سے اگنے والی اشیاء مناسب ہوتی ہیں ،انسانی ذوق ان سےمانوس ہوتا ہے۔۔انسانی جسم کے لئے مختلف اوقات میں مختلف مقدار میں مختلف عناصر کی ضرورت ہوتی ہے۔انہی عناصر کی کمی زیادتی انسانی طبیعت میں معتدل حالت میں تغیر و تبدل کی سبب بنتی ہے۔علاج و معالجہ میں اسی کمی کو مخلف انداز میں پوراس کیا جاتا ہے۔۔۔جدید تجربات نے انکشافات کئے ہیں کہ مذکورہ اشیاء کے طلب میں صرف ان کے مطالبات ہی نہ تھے بلکہ ان کی ضروریات صحت بھی ایک سبب تھا۔بنیادی عناصر جیسے۔کیلسیم۔فولاد۔وٹامنز۔دیگر منرلز جنہیں انسانی جسم کی ضرورت کہا جاتا ہے،مطالبہ کی گئی اشیاء میں موجود تھے۔
دوسرا اہم نکتہ۔۔۔
﴿قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ﴾ [البقرة: 61]،،،کہ تم لوگ اعلی چیز کے بدلہ میں ادنی چیز کا مطالبہ کررہے ہو۔کیونکہ ان حالات مین جو اسباب مہیا و میسر ہیں جو کچھ مل رہا ہے وہ بسا غنیمت ہے۔جن اشیاء کا تم مطالبہ کررہے ہو ان کے مہیا ہونے کے اسباب بھی جدا گانہ ہیں۔بے مشقت رزق کے لئے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔جیسے کسی جنگل میں جاکے جنگلی درختوں کے پھل پھول اور ان کے دیگر اجزاء ھاصل کئے جاسکتے ہیں انہیں بطور خوراک کھایا بھی جاسکتا ہے۔لیکن ان کے مہیا ہونے اور انہیں کاشت کرنے میں انسانی محنت کو دخل نہیں ہوتا۔استفادہ کرنے والاایک تیار چیز کو توڑتا ہے اور اپنی ضرورت پوری کرلیتا ہے۔ان کے حصول کے لئے جو مشقت مسافرت اٹھا نا پڑتی ہے انہیں تلاش کرنے میں جو دقتیں پیش آتی ہیں۔ان میں اتنی توانائی صرف ہوتی ہے انہیں ہضم کرسکے۔
رہی وہ اشیاء جنہیں انسان اپنی محنت و مشقت اورنسل در نسل تجربات کی بنیاد پر کاشت کیا جاتا ہے۔ان کی کاشت کے لئے ان اسباب کا اختیارکرنا ضروری ہوتے ہیں۔اگلا نکتہ قابل غور ہے کہ جن کھانے پینے کی اشیاء کا مطالبہ کیا جارہا ہے ن کے لئے شہر یا دیہات کا ہونا۔ساتھ میں زرعی آلات۔بیج۔کھاد یہ سب چیزیں شہروں میں مہیا ہوسکتی ہیں جنگل،یا میدان میں ان کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ان اشیاء کو کا حصول اور انہیں کھاکر ہضم کرنا محنت و مشقت طلب کام ہے۔اگر انہیں کھایا جائے اور مشقت نہ کی جائے تو یہی غذائیں اور خوراکیں وبال جان بن جاتی ہیں۔وقت کے نبی کا یہ کہنا کہ تم”بہترین کے چیز کے بدلہ مین ادنی چیز کا مطالبہ کررہے ہو اس تناظر مین دیکھا جائے تو حکمت و دانائی جھلکتی محسوس ہوگی۔کیونکہ وادی تیہہ میں کام دھندا تو تھا نہیں صرف کھانا پینا۔اور جھارڑیوں کی اوٹ میںجاکر فراغت کرنا تھا۔ اس ناکارہ حالت میں جب کہ ذہنی انتشار اور جلاوطنی کی فکر نے ان کی نیندیں اڑادی تھیں۔ہلکی پھلکی اور زود ہضم غذا کی ضرورت تھے۔جسے آسانی کے ساتھ ہضم کیا جاسکے۔
اس نکتہ کو آج سمجھا جاسکتاہے۔
مرغن اورثقیل غذائی اور چٹخارے دار پکوان عمومی طورپر ان لوگوں کی دسترس میں ہوتے ہیں جومالی لحاظ سے تو آسودہ ہوتے ہیں لیکن صحت کے لحاظ سے تنگ دستی کا شکار رہتے ہیں۔یہ لوگ مالی لحاظ سے آسودہ ہونے کے لحاظ سے محنت ومشقت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی،لیکن جسمانی نظام کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں۔اسے زندہ رہنے کے لئے جہاں خوراک کی ضرورت ہورت ہے وہیں پر کھائی گئی خوراک کو ہضمکرنے کی بھی ضرورت ہوتی ۔اگر کھائی گئی کوراک ٹھیک انداز میں ہضم نہ ہوسکے تو،یہی خوراک وبال جان بن جاتی ہے۔