منشیات اور ہمارا سماج
Drugs and our society
المخدرات ومجتمعنا
منشیات اور ہمارا سماج
تحریر : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
آپ اسے تقریبا 10 منٹ ، 24 سیکنڈ میں پڑھ سکتے ہیں۔
پیش کردہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
انسان کو جن نعمتوں سے سرفراز کیا گیا ہے ، ان میں ایک عقل و دانائی بھی ہے ، یہی عقل ہے جس نے اس کے کمزور ہاتھوں میں پوری کائنات کو مسخر کر رکھا ہے اور اسی صلاحیت کی وجہ سے اللہ نے اس کو دنیا میں خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے ؛ اسی لئے اسلام میں عقل کو بڑی اہمیت حاصل ہے، قرآن مجید نے بے شمار مواقع پر مسلمانوں کو تدبر اور تفکر کی دعوت دی ہے، تدبر اور تفکر کی حقیقت کیا ہے؟یہی کہ انسان جن چیزوں کا مشاہدہ کرے اور جو کچھ سنے اورجانے ، عقل کو استعمال کر کے اس میں غور و فکر کرے، او رانجانی حقیقتوں اور ان دیکھی سچائیوں کو جاننے اور سمجھنے کی سعی کرے ؛ اسی لئے قانونِ اسلامی کے ماہرین اور فلاسفہ نے لکھا ہے کہ شریعت کے تمام احکام بنیادی طور پر پانچ مقاصد پر مبنی ہیں، دین کی حفاظت ، جان کی حفاظت ، نسل کی حفاظت ، مال کی حفاظت اور عقل کی حفاظت، گویا عقل اور فکر و نظر کی قوت کو برقرار رکھنا اور اسے خلل اور نقصان سے محفوظ رکھنا اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے ۔
چنانچہ اسلام میں جن کاموں کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور جن سے منع فرمایا گیا ہے ، ان میں ایک نشہ کا استعمال بھی ہے ، قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ اس کو حرام بلکہ نا پاک قرار دیا ہے ( المائدۃ : ۹۰ )؛ کیوںکہ انسان کا سب سے اصل جوہر اس کا اخلاق و کردار ہے ، نشہ انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کر کے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا مرتکب کر تی ہے اور روحانی اور باطنی ناپاکی ظاہری ناپاکی سے بھی زیادہ انسان کے لئے مضرت رساں ہے ، احادیث میں بھی اس کی بڑی سخت وعید آئی ہے اور بار بار آپ انے پوری صفائی اوروضاحت کے ساتھ اس کے حرام اور گناہ ہونے کو بتایا ہے، آپ انے ارشاد فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے ، (بخاری عن عائشہ ، حدیث نمبر : ۵۵۸۵) حضرت جابر بن عبد اللہ سے آپ ا کا ارشاد مروی ہے کہ جس شیٔ کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو ، اس کی کم مقدار بھی حرام ہے (ترمذی، حدیث نمبر : ۱۸۶۵) یہ نہایت اہم بات ہے؛ کیوںکہ عام طور پر نشہ کی عادت اسی طرح ہوتی ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شروع کرتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ زہر آمیز انجکشن کے بغیر اس کی تسکین نہیں ہوتی ۔
نشہ کے نقصانات
نشہ کے جو نقصانات ہیں ، وہ ظاہر ہیں ، اس کا سب سے بڑا نقصان تو خود اس شخص کی صحت کو پہنچتا ہے، اطباء اس بات پر متفق ہیں کہ شراب اور منشیات ایک سست رفتار زہر ہے، جو آہستہ آہستہ انسان کے جسم کو کھوکھلا اور عمر کو کم کرتا جاتا ہے ، انسان کی زندگی اس کے لئے ایک امانت ہے، انسان کے وجود سے نہ صرف اس کے ؛ بلکہ سماج کے بہت سے اور لوگوں کے حقوق بھی متعلق ہیں، نشہ کا استعمال اس امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشہ آور اشیاء کے ساتھ ساتھ ایسی چیزوں سے بھی منع فرمایا ، جو جسم کے لئے ’’ فتور ‘‘ کا باعث بنتی ہوں ، یعنی ان سے صحت میں خلل واقع ہوتا ہو ؛ چنانچہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے : ’’ نہی رسول اﷲ عن کل مسکر و مفتر‘‘ ۔(ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۳۶۸۶)
منشیات کے نقصانات کا دوسرا پہلو مالی ہے، سیال منشیات ہوں یا جامد، قابل لحاظ قیمت کی حامل ہوتی ہیں، شراب کی ایک بوتل اتنی قیمتی ہوتی ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا ایک کنبہ اس سے اپنی ایک وقت کی روٹی روزی کا سامان کر لیتا ہے ، یہ تو معمولی نشہ آور اشیاء کا حال ہے ، بعض منشیات تو اتنی قیمتی ہیں کہ ایک کیلو کی قیمت ایک کروڑ روپے ہوتی ہے ، ہماری حکومت ایک مہلوک کے لئے ایک لاکھ روپے ایکس گریشیا دیتی ہے ، اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک کیلو ہیروئن کی قیمت ایک سو انسانوں کے برابر ہے ، اس سے ہمارے عہد میں انسانی وجود کی ناقدری اور صحت و اخلاق کے لئے مخرب اشیاء کی ’’ قدر وقیمت ‘‘ کا تقابل کر سکتے ہیں !
پھر منشیات کا استعمال تو آدمی اپنے اختیار سے شروع کرتا ہے؛ لیکن جب وہ گرفتار بلا ہو جاتا ہے تو آپ اپنے قابو میں نہیں رہتا، وہ اضطراراً منشیات کے خرید نے اوراستعمال کرنے پر گویا مجبور ہوتا ہے ، چاہے کھانے کو دو روٹی میسر نہ ہو ، گھر کے لوگ بھوک اور فاقہ سے گذار رہے ہوں ، علاج کے لئے پیسے میسر نہ ہوں ؛ لیکن جو اس عادت کا اسیر ہو گا، وہ انسانی ضروریات کو پس پشت ڈال کر پہلے اپنی اس خوئے بد کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا ، اس لئے اسراف اور فضولی خرچی کا یہ بہت بڑا محرک ہے، نشہ خوری نے خاندان کے خاندان کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ، بڑی بڑی جائدادیں اور پُر شکوہ حویلیاں اس خود خرید زہر کے عوض کوڑی کی قیمت بِک چکی ہیں ۔
مضرت نفسیات کا سماجی پہلو
منشیات کی مضرتوں کا سماجی پہلو یہ ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے جس سے مختلف لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریاں متعلق ہیں، ایک شخص باپ ہے تو اسے اپنے بچوں کی پرورش وپرداخت کرنی ہے، نہ صرف اس کے روز مرہ کی کھانے پینے کی ضروریات کو پورا کرنا ہے؛ بلکہ اس کی تعلیم کی بھی فکر کرنی ہے، وہ بیٹا ہے تو اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور اگر خاندان کے دوسرے بزرگ موجود ہوں تو ان کی پرورش کا بار بھی اٹھانا ہے، شوہر ہے تو یقیناً بیوی کے حقوق اس سے متعلق ہیں، بھائی ہے تو چھوٹے بھائی بہنوں کی پرورش اور شادی بیاہ کا فریضہ اسی کے کاندھوں پر ہے، نشہ انسان کو اپنے گرد و پیش سے بے خبر اور غافل بنا دیتا ہے ، اور اس بد مستی میں نہ اس کو لوگوں کے حقوق یاد رہتے ہیں ، نہ اپنے فرائض وواجبات ، بعض اوقات تو وہ ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی تباہ و برباد کر دے ، جیسے طلاق کے واقعات ہیں، طلاق کے بہت سے واقعات بالخصوص دیہی علاقوں میں اسی نوعیت کے ہوتے ہیں ، جس کا خمیازہ اسے بھی بھگتنا پڑتا ہے اور اس سے زیادہ اس کی بیوی اور بچوں کو ۔
شراب کے نقصانات کا سب سے اہم پہلو اخلاقی ہے ، نشہ کی بد مستی انسان سے ناکردنی کرالیتی ہے اور ناگفتی کہوا دیتی ہے ، قتل ، عصمت ریزی ، ظلم و زیادتی ، سب وشتم اورہذیان گوئی باعزت لوگوں کی بے توقیری ، کون سی بات ہے جو انسان نشہ کی حالت میں نہ کرتا ہو؟ ہوش کی کیفیت میں جس سے آنکھ ملانے کی بھی جرأت نہیں ہوتی، نشہ کی حالت میں اس پر ہاتھ اُٹھا دینا بھی قابل تعجب نہیں، اور معتدل حالت میں تنہائی میں بھی زبان پر جن باتوں کا لانا گراں خاطر ہو ، نشہ کی حالت میں انسان اس سے زیادہ فحش اور خباثت آمیز گفتگو بے تکلف کرتا ہے، اسی لئے نشہ صرف برائی ہی نہیں ؛ بلکہ برائیوں کی جڑ ہے اور محض ایک گناہ ہی نہیں ؛ بلکہ سینکڑوں گناہوں کا سر چشمہ ہے ۔
اسی لئے پیغمبر اسلام انے شراب کو ’’ ام الخبائث ‘‘ یعنی برائیوں کی جڑ ( نسائی : ۵۶۶۶) اور ’’ اُم الفواحش‘‘ یعنی بے حیائیوں کی جڑ قرار دیا ہے ، ( ابن ماجہ، حدیث نمبر : ۳۳۷۲) شراب کی اخلاقی قباحتوں کی اس سے بہتر کوئی تعبیر نہیں ہو سکتی، ایک موقعہ پر آپ ا نے ارشاد فرمایا: کہ جیسے درخت سے شاخیں پھوٹتی ہیں، اسی طرح شراب سے برائیاں۔ ( سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۳۳۷۲۱ ، عن خبابؓ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں ایک واقعہ بھی بیان فرمایا کہ ایک خوبصورت عورت نے اپنے پاس شراب رکھی اور ایک بچہ کو رکھا اور ایک شخص کو مجبور کیا کہ وہ تین میں سے ایک برائی کم سے کم ضرور کرے ، یا تو وہ اس عورت کے ساتھ بدکاری کرے ، یا اس بچہ کو قتل کر دے ، یاشراب پئے ، اس شخص نے سوچا کہ شراب پینا ان تینوں میں کمتر ہے ؛ چنانچہ اس نے شراب پی لی ؛ لیکن اس شراب نے بالآخر یہ دونوں گناہ بھی اس سے کرالئے ۔ ( نسائی : ۵۶۶۶)
غرض نشہ جسمانی، مالی، سماجی اور اخلاقی ہر پہلو سے انتہائی مضرت رساں چیز ہے، اس وقت نوع بنوع منشیات کی کثرت اور اس کے استعمال میں جو عموم پیدا ہو رہا ہے وہ حددرجہ تشویش ناک بات ہے، لوگوں نے منشیات کو نئے نئے خوبصورت نام دے دئے ہیں ، گٹکے ، چاکلیٹ اور مختلف دوسری اشیاء کے ساتھ نشہ کا نام لئے بغیر تھوڑا تھوڑا نشہ آور اجزاء کا طلبہ اورنوجوانوں کو عادی بنایا جاتا ہے، اور یہی چیز ان کو آئندہ منشیات کا باضابطہ خوگر بنا دیتی ہے، رسول اللہ انے خوب ارشاد فرمایا کہ میری اُمت میں بعض لوگ شراب پئیں گے ؛ لیکن اس کو شراب کا نام نہیں دیں گے : ’’ یسمونھا بغیر اسمھا‘‘( نسائی ، حدیث نمبر : ۵۶۵۸) نیز حضرت عبد اللہ بن عباس ص سے مروی ہے کہ جس نے کسی کم عمر لڑکے کو شراب پلائی ، جس کو حلال وحرام کا شعور نہیں، تو اللہ پر ضروری ہے کہ قیامت کے دن اسے لکھنا ہے۔( جمع الفوائد : ۲ ؍ ۳۷۹)
مغربی ملکوں میں شراب کی کثرت کی ایک اہم وجہ خاندانی نظام کا بکھراؤ بھی ہے ، خاندانی روابط کے کمزور پڑ جانے اور رشتوں کے بکھر جانے کے باعث لوگ اپنی نجی زندگی میں ذہنی اور قلبی سکون سے محروم ہیں، اس لئے چند ساعت کے سکون کے لئے نشہ کرتے ہیں کہ کچھ تو قلب کا بوجھ ہلکا ہو ، مشرقی معاشرہ میں زیادہ تر یہ چیز بغیر سمجھے بوجھے مغرب کی نقل اور فیشن کی دَین ہے ، اب جرائم پیشہ اور مافیا گروہ نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کو نشہ کا عادی بنا کر ان کا استحصال کرتا ہے ، ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے آلۂ کار بناتا ہے اور ان سے نشہ کی تھوڑی مقدار کے عوض قتل و راہزنی ، چوری اور عصمت فروشی کے کام لیتا ہے ، تعلیم گاہوں میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان ستم بالائے ستم اور نقصان بالائے نقصان کا مصداق ہے۔
اس برائی سے سماج کو بچانے کی تدبیر یہی ہے کہ ایک طرف لوگوں کو نشہ کے نقصانات کے بارے میں باشعور کیا جائے اور اس کے نقصانات سے ہر سطح پر آگاہ کیا جائے، دوسری طرف ان اسباب پر روک لگائی جائے جو منشیات کے پھیلنے میں ممدو معاون ہیں، اگر شراب بیچنے کے پرمٹ بھی جاری کئے جائیں اور دوسری طرف شراب سے منع بھی کیا جائے تو یہ تو ایک مذاق ہوگا ، جہاں قدم قدم پر شراب کی دکانیں کھلی ہوں، ہوٹلوں میں شراب بیچی ، خریدی جاتی ہو، سرکاری تقریبات میں جام و سبو پیش کئے جاتے ہوں، وہاں شراب کی برائی کیوں کر لوگوں کے ذہن میں راسخ ہو سکے گی اور کیسے سماج کو اس لعنت سے نجات حاصل ہوگی؟ اسی لئے رسول اللہ انے شراب کے سلسلہ میں دس آدمیوں پر لعنت بھیجی ہے : نچوڑنے والے پر ، نچوڑ وانے والے پر ، پینے والے پر ، اٹھا کر لے جانے والے پر ، اس پر جس کی طرف اٹھا کر لے جائی جائے ، ساقی پر ، بیچنے والے پر ، اس کی قیمت کھانے والے پر ، خریدنے والے پر اور اس شخص پر جس کے لئے خرید کی جائے( ترمذی ، حدیث نمبر: ۱۲۹۵) — اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہوگی کہ ملک کے حکمراں اور اربابِ اقتدار سرتا پا اس کی مضرتوں سے واقف ہیں ، ملک کے دستور کے رہنما اُصول میں بھی مکمل شراب بندی کا ہدف رکھا گیا ہے ، گجرات اور بہار کی ریاستوں نے شراب بندی نافذ کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے ، متحدہ آندھرا پردیش میں بھی آنجہانی این ٹی آر نے شراب بندی نافذ کی تھی ، جس کو بعد کی حکومتوں نے ختم کردیا ، حکومتیں اس لئے اس پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہیں کہ اس کی تجارت سے حکومت کو اپنی شاہ خرچیوں اور اربابِ اقتدار کو اپنی عشرت کوشیوں کے لئے ڈھیر سارا ٹیکس وصول ہوسکتا ہے ؟؟