پتہ

لاہور کاہنہ نو

کال کریں

+92 3238537640

مغلیہ سلطنت اور میوات

مغلیہ سلطنت اور میوات

 ایک تاریخی، سیاسی اور ثقافتی تجزیہ

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

تعارف

میوات کا خطہ، جو جغرافیائی طور پر دہلی، آگرہ اور جے پور کے درمیان ایک مثلثی علاقے میں پھیلا ہوا ہے، ایک منفرد اور پیچیدہ تاریخ کا حامل ہے 1۔ یہ محض ایک انتظامی اکائی نہیں بلکہ ایک قدیم ثقافتی اور تاریخی علاقہ ہے 1۔ یہاں کے جغرافیائی حالات، جن میں اراولی پہاڑیوں اور بنجر زمین کی موجودگی شامل ہے، نے یہاں کے باشندوں کو فطری طور پر محنتی، سخت جان اور جنگجو بنا دیا 2۔ ان کی یہ خصوصیات، ان کی آزادی اور خود مختاری کی خواہش کے ساتھ مل کر، اس خطے کی تاریخ کو تشکیل دینے میں کلیدی رہی ہیں 2۔

میوات کی تاریخ اور اس کے باشندوں، خاص طور پر میو اور خانزادہ برادریوں کے بارے میں، مختلف نظریات پائے جاتے ہیں 2۔ کچھ نظریات کے مطابق میو قوم کا تعلق قدیم فارس اور یونان سے ہے، جو سکندر اعظم کے حملے کے بعد سندھ، گجرات اور کچ کے ساحلی علاقوں میں آباد ہوئے اور پھر عربوں کے حملوں کے بعد اراولی کے پہاڑی سلسلوں کی طرف ہجرت کر گئے 2۔ اس کے برعکس، میو خود کو ہندوستانی نژاد قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آریاؤں کی کشتریا ذات کا حصہ ہیں، اور وہ فخر سے اپنے شجرہ نسب کو بھگوان رام اور بھگوان کرشنا سے جوڑتے ہیں 2۔ وہ آج بھی خود کو چندرونشی اور سوریاونشی میں تقسیم کرتے ہیں 2۔

اسی طرح، خانزادہ قوم اور میوؤں کے درمیان سماجی اور نسلی تعلقات بھی بحث کا موضوع رہے ہیں 5۔ کچھ مورخین اور مقامی روایات، بشمول منشی شرف الدین اور نوآبادیاتی ماہرینِ نسلیات، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خانزادہ اور میو دو الگ اور ممتاز برادریاں ہیں، جن میں خانزادہ سماجی طور پر میوؤں سے برتر ہیں 6۔ تاہم، کچھ اسکالرز، جیسے شائل مایا رام، اس نظریے پر سوال اٹھاتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خانزادہ اصل میں میواتی کہلانے والے ایک بڑے گروہ کا حصہ تھے، جس میں میو قبیلوں کے آباؤ اجداد بھی شامل تھے 6

۔ یہ اختلافات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ میواتی شناخت محض ایک تاریخی حقیقت نہیں ہے، بلکہ ایک پیچیدہ سماجی اور سیاسی بحث کا حصہ ہے جو آج بھی جاری ہے 3۔

مغلوں سے قبل کی میوات: خانزادہ سلطنت

مغلوں کی آمد سے قبل، میوات ایک نیم خود مختار ریاست کی حیثیت رکھتا تھا جس پر خانزادہ راجپوتوں کی حکومت تھی 8۔ اس ریاست کا سیاسی ڈھانچہ فیروز شاہ تغلق کے دور میں تشکیل پایا 9۔ 1372 عیسوی میں، سلطان فیروز شاہ تغلق نے کوٹلہ تیجارا کے راجا سونپر پال (جو بعد میں راجا ناہر خان کے نام سے جانے گئے) کو میوات کی سرداری عطا کی 8۔ راجا ناہر خان نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میوات میں ایک موروثی طرزِ حکومت کی بنیاد رکھی اور خود کو “والیِ میوات” کا لقب دیا 9۔ ان کے بعد، ان کی نسلوں نے اس نیم خود مختار حیثیت کو برقرار رکھا اور 1527 تک میوات پر حکومت کی 8۔ ان حکمرانوں نے کئی اہم فتوحات حاصل کیں، جیسے راجا علاول خان نے انسانی قربانی کے رواج کو روکنے کے لیے نیکمبھ راجپوتوں سے بالا قلعہ (الور) پر قبضہ کیا 8۔ یہ تاریخ میوات کی ایک طویل عرصے سے چلی آ رہی سیاسی وحدت کی عکاسی کرتی ہے۔

میوات کے یہ باشندے، جو میواتی کہلاتے تھے، دہلی کے سلاطین کے لیے

مسلسل ایک دردِ سر بنے رہے 2۔ دہلی کے تخت کے قریب ہونے کے باوجود، وہ ترک، پٹھان اور بعد میں مغل حکمرانوں کے خلاف مسلسل مزاحمت کرتے رہے 2۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ غیاث الدین بلبن جیسے طاقتور سلطان کو بھی میواتیوں کی “قانون شکنی” اور “لٹیرا” سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کئی فوجی مہمات چلانی پڑیں 1۔ اس خطے کی جغرافیائی خصوصیات اور یہاں کے باشندوں کی جنگجو طبیعت نے انہیں دہلی کے حکمرانوں کے کنٹرول سے بچائے رکھا اور انہیں نسبتاً آزاد سیاسی اور سماجی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا 12۔

جدول 1: میوات کے خانزادہ حکمرانوں کا شجرہ نسب

نمبرمیوات کے حکمراندورِ حکومت
1راجا ناہر خان (سابقہ سونپر پال)1372–1402
2راجا خانزادہ بہادر خان1402–1412
3راجا خانزادہ اکلیم خان1412–1417
4راجا خانزادہ فیروز خان1417–1422
5راجا خانزادہ جلال خان1422–1443
6راجا خانزادہ احمد خان1443–1468
7راجا خانزادہ زکریا خان1468–1485
8راجا خانزادہ علاول خان1485–1504
9راجا خانزادہ حسن خان میواتی1504–1527

یہ شجرہ نسب اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ میوات پر ایک طویل عرصے تک ایک منظم اور موروثی حکومت قائم رہی۔ یہ اس عام تاثر کے برعکس ہے کہ یہ صرف ایک غیر منظم قبیلہ تھا۔

بابر کا حملہ اور خانوا کی فیصلہ کن جنگ

تاریخِ میوات میں ایک اہم موڑ 1527 کی جنگِ خانوا تھی، جس نے اس خطے کے سیاسی مستقبل کا تعین کیا 9۔ اس جنگ میں میوات کی نیم خود مختار ریاست کا خاتمہ ہوا، جس پر اس وقت راجا حسن خان میواتی کی حکومت تھی 8۔ حسن خان میواتی، جو خانزادہ راجپوتوں کی جادو بنسی شاخ سے تعلق رکھتے تھے، ریاستِ میوات کے آخری خودمختار حکمران تھے 3۔ ان کی حکومت کا دور 1504 سے 1527 تک رہا 8۔

جب ظہیر الدین بابر نے ہندوستان پر اپنی سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی، تو اسے رانا سانگا کی سربراہی میں راجپوتوں کی ایک طاقتور فوج کا سامنا کرنا پڑا 15۔ حسن خان میواتی اس اتحاد کا ایک کلیدی رکن تھے 15۔ بابر کے مطابق، حسن خان اور ان کے آباؤ اجداد نے دہلی کے تخت کے لیے کئی سو سال تک مسلسل مشکلات پیدا کی تھیں اور وہ اپنے علاقے پر تقریباً ایک سے دو صدیوں تک مکمل خودمختاری سے حکومت کرتے رہے تھے 13۔ بابر نے خود ابتدا میں حسن خان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے بیٹے ناہر خان، جو ابراہیم لودھی کے ساتھ جنگ کے دوران اس کے ہاتھوں میں آ گیا تھا، کو بطور یرغمال رکھا تھا 13۔ لیکن جب حسن خان نے بابر کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے رانا سانگا کے ساتھ اتحاد کر لیا، تو اس نے بابر کو انتہائی ناراض کر دیا 13۔

جنگِ خانوا میں، حسن خان نے 12,000 گھڑ سواروں کے ساتھ بہادری کا مظاہرہ کیا 18۔ جب رانا سانگا تیر لگنے سے زخمی ہو کر ہاتھی سے گر گئے، تو حسن خان نے کمانڈر کا پرچم سنبھالا اور بہادری سے مغل فوج کا مقابلہ کیا 18۔ وہ اسی جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے، جبکہ رانا سانگا کو پیچھے ہٹنا پڑا 2۔

بابُرنامہ میں، بابر نے حسن خان کو شدید الفاظ میں یاد کیا ہے 13۔ وہ انہیں “فتنہ و فساد کا واحد رہنما” اور “ناشکر گزار اور کافر مرتد” کہتا ہے 13۔ بابر کا حسن خان، جو ایک مسلمان خانزادہ حکمران تھے، کو “کافر مرتد” کہنا ایک گہرے سیاسی محرک کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ بیان صرف ذاتی دشمنی کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی جنگ کو مذہبی تقدس عطا کرنے کی مغلوں کی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ بابر نے اس جنگ کو

جہاد قرار دیا تھا تاکہ اس کی فوج کا حوصلہ بلند ہو سکے 13۔ اس طرح، بابر نے نہ صرف سیاسی حریف کو شکست دی بلکہ اسے مذہبی طور پر بھی بدنام کرنے کی کوشش کی، جس سے اس کی فتح کو ایک وسیع مذہبی اور اخلاقی جواز حاصل ہو سکا 13۔

آزادی کے بعد، میوات کی تاریخ کے بارے میں کچھ ایسے تنازعات سامنے آئے ہیں جو عصری سماجی اور سیاسی حقیقتوں کی عکاسی کرتے ہیں 3۔ اردو ویکیپیڈیا کے ذرائع میں خانزادہ راجپوت برادری کی جانب سے “تاریخ چور طبقے” کی مذمت کا ذکر موجود ہے، جو اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ میوات اور میواتی کی تاریخ میں خود کو زبردستی شامل کر کے معزز بن سکیں 3۔ یہ تنازعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تاریخی بیانیے محض ماضی کے واقعات کی داستان نہیں ہوتے بلکہ موجودہ دور میں شناخت، حیثیت اور سیاسی طاقت کے لیے لڑی جانے والی جنگوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ خانزادہ برادری، جو تاریخی طور پر میوات کا حکمران طبقہ رہی ہے 5، اس بات کی سختی سے مخالفت کرتی ہے کہ سماجی طور پر نسبتاً کم حیثیت رکھنے والے میو ان کی تاریخ اور نسب کا حصہ بنیں 3۔

مغلیہ سلطنت میں میوات کی شمولیت: اکبر کا دور

حسن خان میواتی کی شکست کے بعد، میوات کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہو گئی اور اس خطے کو مغل سلطنت میں ضم کر لیا گیا 8۔ اکبر کے دورِ حکومت میں اس انضمام کو انتظامی اور سیاسی طور پر مستحکم کیا گیا 12۔ اکبر نے میوات کو مغل انتظامی ڈھانچے میں شامل کیا اور اسے آگرہ اور دہلی کے صوبوں کے تحت چار سرکاروں: الور، تیجارا، سحر، اور ریواڑی میں تقسیم کیا 12۔

اکبر کی حکمتِ عملی صرف علاقے کو فتح کرنے تک محدود نہیں تھی، بلکہ اس نے مقامی آبادی، خاص طور پر میو قوم کو سلطنت کے ڈھانچے میں ضم کرنے کی کوشش کی 12۔ ابو الفضل کی تحریروں کے مطابق، اکبر نے بڑی تعداد میں جوان میو لڑکوں کو “ڈاک میورا” (ڈاک کے قاصد) اور “خدمتیہ” (جاسوس اور محل کے محافظ) کے طور پر بھرتی کیا 12۔ یہ ایک غیر معمولی اقدام تھا، کیونکہ اس سے پہلے کے حکمران میوؤں کو “لٹیرے” اور “فسادی” سمجھتے تھے اور انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تھے 12۔ اکبر نے ان کی جسمانی طاقت اور سخت جانی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ایک تعمیری اور وفادار کردار میں بدل دیا 12۔ اس پالیسی کے نتیجے میں، نہ صرف مغلوں کا ڈاک کا نظام بہتر ہوا، بلکہ میوؤں کی معاشرتی حیثیت بھی تبدیل ہونے لگی 12۔

اس دور میں، سابقہ حکمران طبقہ، یعنی خانزادہ، مغل اشرافیہ کا حصہ بن گئے 8۔ انہیں اب جاگیرداروں اور منصب داروں کی حیثیت حاصل ہوئی 5۔ یہ تبدیلی طاقت کے مرکز میں ایک بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ خانزادوں نے اپنی آزادانہ حکمرانی کھو دی اور وہ مغلوں کے ماتحت ہو گئے 8۔ اس کے ساتھ ساتھ، میوؤں کو انتظامی ڈھانچے کے نچلے درجے میں جگہ ملی 12۔ یہ صورتحال اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ سولہویں صدی کے بعد خانزادوں کی سیاسی اور سماجی اہمیت میں کیوں کمی آنا شروع ہوئی 5۔

جدول 2: میوؤں کا مغلیہ انتظامیہ میں کردار

کردارفرائضمقصد اور اثرات
ڈاک میوراقاصد، جو پیدل ڈاک پہنچاتے تھے۔مغلوں کا ڈاک کا نظام بہتر ہوا اور میوؤں کو نیا معاشی کردار ملا۔
خدمتیہجاسوس اور محل کے محافظ۔میوؤں کی جنگجو صلاحیت کو سلطنت کے فائدے میں استعمال کیا گیا۔
زمینداربعض پرگنوں میں زمینداری کے حقوق 12۔اس سے میو قبیلوں میں “زراعت پسندی” کا فروغ ہوا اور وہ میدانی علاقوں میں آباد ہوئے۔

معاشرتی، ثقافتی اور اقتصادی اثرات

مغلیہ سلطنت کے تحت، میواتی معاشرے نے گہری اقتصادی اور ثقافتی تبدیلیوں کا تجربہ کیا 12۔ اقتصادی طور پر، میوات کا علاقہ اپنی سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے مغلوں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بن گیا 19۔ اس کی زرخیز زمین نقد فصلوں جیسے نیل، گنا اور کپاس کی کاشت کے لیے موزوں تھی، جس سے یہ سلطنت کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بن گیا 12۔ دہلی اور آگرہ کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ خطہ شاہی دارالحکومتوں کو خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں بھی اہم کردار ادا کرتا تھا 12۔

معاشرتی سطح پر، مغل دور میں میو قوم کی “زراعت پسندی” کا عمل تیز ہوا 12۔ وہ پہاڑیوں اور جنگلات سے نکل کر میدانی علاقوں میں آباد ہوئے اور خانہ بدوشوں اور لٹیروں کے بجائے کاشتکار بن گئے 12۔ اکبر کی پالیسیوں نے اس عمل کو مزید فروغ دیا، کیونکہ اس نے میوؤں کو میوات کے کئی پرگنوں میں زمینداری کے حقوق بھی دیے، جو ان کے لیے زمین کی ملکیت کا ایک نیا ذریعہ تھا 12۔

ثقافتی سطح پر، میواتی معاشرے میں اسلامی تہذیب کا اثر بتدریج بڑھتا گیا 4۔ اس عمل کا آغاز خانزادہ حکمرانوں نے کیا تھا، جنہوں نے مساجد اور مقبرے تعمیر کروائے اور شریعت کے مطابق مقامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے قاضی مقرر کیے 12۔ مغل دور میں، میوؤں کی انتظامیہ میں شمولیت نے انہیں مغل دربار اور اس کی تہذیب کے قریب لایا 12۔ اس قربت کے نتیجے میں، انہوں نے آہستہ آہستہ اسلامی رسم و رواج اور تہواروں کو اپنانا شروع کر دیا، جیسے نکاح، تدفین، عید الفطر، اور شبِ برات 12۔ وہ صوفی سنتوں کا احترام کرنے لگے اور اپنے بچوں کے لیے مسلم نام رکھنے لگے 12۔ تاہم، ان کی مذہبی اور ثقافتی شناخت مبہم رہی، اور وہ اسلامی اور ہندو دونوں رسموں کی پیروی کرتے رہے، جس کا ذکر انیسویں صدی کے نوآبادیاتی ریکارڈز میں بھی ملتا ہے 4۔

یہ ثقافتی ہم آہنگی اس بات کا ثبوت ہے کہ مغل دور میں میواتی شناخت پر ایک پیچیدہ اثر پڑا 4۔ یہ عمل مغلوں کے فوجی دباؤ کے بجائے ان کی انتظامی اور سماجی شمولیت کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا 12۔

سلطنت کے زوال کے دوران میوات

سترہویں صدی کے آخر اور اٹھارہویں صدی کے آغاز سے، مغلیہ سلطنت کا بتدریج زوال شروع ہو گیا 20۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد، تخت کے لیے ہونے والی اندرونی خانہ جنگی اور فوجی قوت کی تباہی نے مرکزی حکومت کو کمزور کر دیا 20۔ اس سیاسی خلا نے شمالی ہندوستان میں مرہٹہ اور جاٹ جیسی علاقائی طاقتوں کے عروج کا راستہ ہموار کیا 22۔

تاریخی میوات کا علاقہ، جو ایک زمانے میں ایک خود مختار سلطنت تھی اور پھر مغلوں کے زیر انتظام آیا، اب ان نئی طاقتوں کے درمیان تقسیم ہو گیا 14۔ جاٹوں نے، سورج مل جیسے رہنماؤں کی قیادت میں، میوات کے مشرقی حصوں میں اپنی طاقت کو مضبوط کیا اور 1733 میں بھرت پور اور دیگ جیسی ریاستیں قائم کیں 25۔ اسی طرح، مرہٹوں نے بھی شمالی ہندوستان کے بڑے حصوں پر اپنا کنٹرول قائم کیا 24۔ مہادجی شندے جیسے مرہٹہ رہنماؤں نے مغلوں سے اس علاقے کے بڑے حصے فتح کیے، اور شمالی میوات (موجودہ نوح ضلع) کا علاقہ مرہٹہ کنفیڈریسی کے تحت آ گیا 14۔

اس سیاسی خلفشار کے نتیجے میں، انیسویں صدی کے آغاز میں، الور کی ریاست وجود میں آئی 11۔ پرتاپ سنگھ پربھاکر نے 1770 عیسوی میں ایک آزاد الور ریاست کی بنیاد رکھی اور اس طرح میوات کا تاریخی خطہ اب جدید ریاستوں کے حصوں میں بٹ گیا 11۔

مغلوں کے زوال کے دوران اور اس کے بعد بھی میوؤں کی مزاحمت جاری رہی 1۔ 1857 کی بغاوت میں، میوؤں نے انگریزوں کے خلاف فعال کردار ادا کیا اور مختصر عرصے کے لیے اپنی خود مختار حکومت بھی قائم کی 14۔ یہ مزاحمت محض برطانوی راج کے خلاف نہیں تھی، بلکہ اسے تین محاذوں پر لڑی گئی: برطانوی فوج اور پولیس، برطانوی وفادار طبقے (بشمول کچھ خانزادہ، راجپوت اور جاٹ)، اور الور و بھرت پور جیسی ہندوستانی ریاستوں کی فوجیں 29۔ یہ واقعات میوات کی سیاسی صورتحال کی پیچیدگی کو اجاگر کرتے ہیں، جہاں داخلی مفادات اور وفاداریاں نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ تصادم میں تھیں 29۔

جدول 3: مغلیہ زوال کے بعد میوات کی تقسیم

نئی ریاستقیادت کرنے والی طاقتمیواتی علاقے جو شامل ہوئے
بھرت پورجاٹ حکمران (سورج مل)پہاڑی، نگر، کامن تحصیل (راجستھان) 14
ریاست الورکچواہا راجپوت (پرتاپ سنگھ)الور کا بڑا حصہ، بشمول اراولی سلسلے کی تحاصیل 11
مرہٹہ کنفیڈریسیمرہٹہ (مہادجی شندے)نوح ضلع کا شمالی حصہ 14

یہ جدول واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک تاریخی خطے کے طور پر میوات کی سیاسی وحدت کس طرح مغلوں کے زوال کے نتیجے میں ختم ہو گئی اور اس کے حصے نئی علاقائی طاقتوں کے تحت آ گئے۔

اختتامیہ: مغل ورثہ اور آج کا میوات

مغلیہ سلطنت اور میوات کا تاریخی تعلق محض فوجی فتح اور شکست کی کہانی نہیں ہے، بلکہ اس نے اس خطے کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ڈھانچے پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ بابر کے ہاتھوں حسن خان میواتی کی شکست کے بعد، میوات کی نیم خود مختار سلطنت ختم ہو گئی اور یہ مغلوں کے مرکزی انتظام کا حصہ بن گئی 9۔ تاہم، اکبر کی دانشمندانہ پالیسیوں نے اس خطے کو مکمل طور پر فتح کرنے کی بجائے اسے سلطنت میں ضم کر لیا، جس کے نتیجے میں یہاں کی مقامی آبادی، خاص طور پر میوؤں کو انتظامی اور فوجی کردار ادا کرنے کا موقع ملا 12۔

اس انضمام کے اہم ترین نتائج میں میو قوم کی “زراعت پسندی” اور ان کی ثقافتی شناخت کی تشکیل شامل ہے 12۔ وہ خانہ بدوشوں اور لٹیروں کے بجائے کاشتکار بن گئے اور مغل انتظامیہ میں کام کرنے کی وجہ سے ان کا میل جول اسلامی ثقافت سے بڑھا 12۔ اس عمل نے ان کی ایک منفرد شناخت کو جنم دیا، جس میں اسلامی رسم و رواج اور ہندو رسومات کی ایک مشترکہ جھلک آج بھی دکھائی دیتی ہے 4۔

مغلوں کے زوال نے میوات میں ایک بار پھر سیاسی تبدیلی لائی 22۔ یہ خطہ جاٹ اور مرہٹہ طاقتوں کے درمیان تقسیم ہو گیا اور بالآخر الور اور بھرت پور جیسی جدید ریاستوں کا حصہ بن گیا 14۔ یہ تاریخ اس بات کی گواہی ہے کہ کس طرح ایک خودمختار سیاسی وجود مغلوں کے تابع ہوا اور پھر ان کے زوال کے بعد بکھر کر نئے جغرافیائی اور سیاسی نقشوں میں ضم ہو گیا 11۔ اس طرح، مغلیہ سلطنت کا میوات پر اثر محض ایک وقتی دور نہیں تھا، بلکہ ایک تاریخی عمل تھا جس نے اس خطے اور اس کے باشندوں کی تقدیر کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

Works cited

  1. Shahabuddin Khan Meo – HISTORY OF MEWAT – AN OUTLINE – Punjab University, accessed August 28, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
  2. The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed August 28, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
  3. حسن خاں میواتی – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed August 28, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D8%B3%D9%86_%D8%AE%D8%A7%DA%BA_%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C
  4. Meo (ethnic group) – Wikipedia, accessed August 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Meo_(ethnic_group)
  5. Khanzadas of Mewat: An Ethno-Historical Overview, accessed August 28, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/9328/18458/46112?inline=1
  6. Khanzadas of Mewat: An Ethno-Historical Overview – Ignited Minds Journals, accessed August 28, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/9328/18457/46111
  7. حسن خاں میواتی – Negapedia Urdu, accessed August 28, 2025, http://ur.negapedia.org/articles/%D8%AD%D8%B3%D9%86_%D8%AE%D8%A7%DA%BA_%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C
  8. Khanzadas of Mewat – Wikipedia, accessed August 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Khanzadas_of_Mewat
  9. میوات کے خانزادہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed August 28, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA_%DA%A9%DB%92_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81
  10. میوات – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed August 28, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA
  11. Learn about the Marvels of Alwar History, accessed August 28, 2025, https://notesofindiablog.wordpress.com/2018/07/24/learn-about-the-marvels-of-alwar-history/
  12. The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13 th to 18 th …, accessed August 28, 2025, https://rjhssonline.com/HTML_Papers/Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences__PID__2017-8-2-4.html
  13. A Study of Babur’s Account of Mewat Region in his Memoir … – ijrpr, accessed August 28, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE12/IJRPR20334.pdf
  14. Nuh district – Wikipedia, accessed August 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Nuh_district
  15. Name the Afghan who played an important role in forming Rajput confederacy against Babur at the Battle of Khanwa in 1527. – Testbook, accessed August 28, 2025, https://testbook.com/question-answer/name-the-afghan-who-played-an-important-role-in-fo–6825804ad7fe455419bbbef4
  16. Mughal–Rajput wars – Wikipedia, accessed August 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mughal%E2%80%93Rajput_wars
  17. The Muslim King who fought against Babar: Hasan Khan Mewati allied with Rana Sanga against Mughals [Glimpses of Indian History-1] – Itihas-e-Hind, accessed August 28, 2025, https://itihasehind.quora.com/The-Muslim-King-who-fought-against-Babar-Hasan-Khan-Mewati-allied-with-Rana-Sanga-against-Mughals-Glimpses-of-Indian-H
  18. en.wikipedia.org, accessed August 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Hasan_Khan_Mewati#:~:text=Battle%20of%20Khanwa,-Main%20article%3A%20Battle&text=When%20Rana%20Sanga%20was%20struck,soldiers%2C%20fiercely%20confronted%20Babur’s%20army.
  19. rjhssonline.com, accessed August 28, 2025, https://rjhssonline.com/HTML_Papers/Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences__PID__2017-8-2-4.html#:~:text=The%20strategic%20location%20of%20Mewat,extremely%20viable%20source%20of%20revenue.
  20. مغل سلطنت کا عروج و زوال – ہندوستانی ثقافت پر مغلوں کے اثرات – Taemeer News, accessed August 28, 2025, https://www.taemeernews.com/2020/11/mughal-dynasty-in-india.html
  21. Mughal Empire – Wikipedia, accessed August 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mughal_Empire
  22. What was the effect of the Mughal decline on regional powers in India? | TutorChase, accessed August 28, 2025, https://www.tutorchase.com/answers/ib/history/what-was-the-effect-of-the-mughal-decline-on-regional-powers-in-india
  23. مغلیہ سلطنت – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed August 28, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%BA%D9%84%DB%8C%DB%81_%D8%B3%D9%84%D8%B7%D9%86%D8%AA
  24. Maratha Empire – Wikipedia, accessed August 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Maratha_Empire
  25. bharatpuronline.com, accessed August 28, 2025, https://bharatpuronline.com/history.html#:~:text=Bharatpur%20is%20a%20city%20in,kingdom%20ruled%20by%20Jat%20maharajas.
  26. city history – Bharatpur, accessed August 28, 2025, https://bharatpuronline.com/history.html
  27. Maratha empire | History, Definition, Map, & Facts – Britannica, accessed August 28, 2025, https://www.britannica.com/topic/Maratha-Empire
  28. Alwar – Wikipedia, accessed August 28, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Alwar
  29. Participation of Mewati People in the Revolt of 1857 – Ignited Minds Journals, accessed August 28, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/3850/7494/18734

:اس مضمون کو شیئر کریں

فیس بک
ٹویٹر
لنکڈن
واٹس ایپ

حکیم قاری یونس

اس مضمون کے لکھاری، جو طبِ قدیم میں 20 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں اور صحت کے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

دوسرے دیکھے بلاگ

لغات القران

لغات القران مکمل6جلدیں

لغات القران مکمل6جلدیںالحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونو من به ونتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور انفسنا و من سيئات

مفردات کیمیا

مفردات کیمیا

مفردات کیمیاعرض ناشرعلم کی وہ شاخ جس میں نظریات و تصورات کو تجربات اور مشاہدات کی کسوٹی پر پرکھا جائے

Tibb4all

عام طور پر چند گھنٹوں میں جواب دیتا ہے۔

×