مصری طب Egyptian Medicine
مصری طب کے ذرائع معلومات.2
ہم فروغ طب نبوی ﷺ کے ہمہ وقت کوشاں ہیں
مصری طب Egyptian Medicine
تعارف :2
تحریر: حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی :سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور
مصری طب کے ذرائع معلومات –
مصری طب کے ذرائع معلومات میں بردی نوشتوں (papyri) کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ مصری طب سے تعلق چندمعروف اوراہم بروی نوشتوں پرمختصر تبصر ہ درج ذیل ہے۔ )
جارج ایبرسںکابردی نوشتہ (Georg Ebers’ Papyrus):یہ بردی نوشتہ 1873 میں بمقام لکسر (Luxor ) دریافت کیا گیا تھا۔ اس وقت لیپزگ یونیورسٹی Leipzig) (University کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ طب قدیم کے تعلق سے یہ نوشتہ بہت زیادہ اہم اور مشہور ہے کیونکہ مکمل طور پر طبی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ تمام طبی نوشتوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ یہ بیس (20) میٹر لمبا ہے اور اس میں سترہ سو (1700) امراض اور ان کے علاج کی تفصیل ہے اس کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس زمانے میں یہ نوشتہ لکھا گیا تھا وہBC 1553 BC 1550 کا زمانہ ہے۔ اس نوشتے میں جو کچھ بھی درج ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مرتب (edit) کیا گیا ہے۔ اس میں مرتب کا واحد کام اپنے زمانے میں موجود تمام معلومات کو یکجا کرنا ہے۔ اس نوشتہ سےمصری طب کے ابتدائی حالات پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ایک قدیم مصری بادشاہ ٹیوتھومسس (Tuthomsis) نے جس کا زمانہ BC 6000 کا ہے ،ایک کتاب علم طب لکھی تھی جس کے مطابق مصری طب اپنی ابتداء میںعلاج اور جادوگری پر ہی مبنی تھا لیکن نوشتے کے بقیہ معلومات سے مصری طلب کی ترقی کا بخوبی علم ہوتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصری علم تشریح (Anatomy) اور منافع الاعضاء (Physiology) سے بخوبی واقف تھے قلب ودماغ کو اہمیت دیتے تھے۔ قلب عضورئیس (vital organ) سمجھا جاتا تھا اور اس کی حرکت نبض (pulse) سے معلوم کی جاتی تھی۔ قدیم مصری اطباء کے نزدیک جسم کا اہم ترین عمل ،عمل تنفس (respiration) تھا وہ اس عمل کو غیرمعمولی اہمیت دیتے تھے۔ وہ خون کی اہمیت کو جانتے تھے ان کے نزدیک لال رنگ زندگی کی علامت تھا۔ مصری اطباء اسباب مرض میں موسموں کی تبدیلی سیاروں کی تبد یلی اور ویگرحیوانات( کیڑے مکوڑوں) کو شمار کرتے تھے۔ جن امرا ض کا سبب
آنکھ سے نظرنہیں آتا تھاان میں کام چلانے کے لیے غیر مرئی کیٹرے مکوڑوں کا تصور کرلیا جاتھامص
ری اطباء نے اموتشخیص میں کافی ترقی کر لی تھی انہیں امراض قلب، معدہ اور تناسل کی اچھی پہچان تھی طحال اور جگر کی رسولیوں (feumours کا باریک بینی سے معائینہ بھی کیاجاتا تھا۔زخموں کوانگلیوںسے دبا کر معائنہ بھی کیا جاتھا اور وہ نہ صرف امتحان نبض اور ملمس (palpation) سے واقف تھے بلکہ امتحان با لسمع (auscultation) بھی کیا کرتے تھے۔ نوشتے میں ایک جگہ تحریرہے یہاں نیچے کان سنتا ہے۔
علاج کے تحت روحانی اور طبی دونوں طرح کی تدابیر اختیار کی جاتی تھیں، جو دوائیں استعمال کی جاتی تھیں ان میں شہد، شراب، انجیر، پیاز لہسن، لوبان، ایلوا اور سیسہ خاص ہیں ۔ حیوانی دواؤں میں جانوروں کے اعضاء (چربی، مغز، فضلہ، خون) استعمال ہوتے تھے۔ معدنیات میں نمک،
پھٹکری، تانبہ وغیرہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جروح اورقروح پر مرہم کا استعمال کیا جاتا تھا اورمسہل کے طور پرروغن بیدانجیر (Castor oil مستعمل تھا۔ بعض دوائیں مقعد وفروج میں بھی رکھی جاتی تھیں یہ نوشتہ حفظان صحت کے تعلقسے بھی اہم ہے۔
قدیم مصر میں مردوں (dead bodies) کی تدفین کے لیے قوانین را ئج تھے گھروں اور گلیوں کی صفائی کا حکم تھا۔ مناسب غذاؤں پر زور دیا جاتا تھا۔ ابال کر پانی پینے کا تصورتھا جنسی تعلقات میں احتیاط لازم تھی نومولودکی دیکھ بھال بھی کی جاتی تھی۔
۔۔ اڑون اسمتھ کا بر دی نوشتہ (Edwin Smith Papyrus):
یہ بردی نوشته 1700BC کاہے اس کو ایک امریکن اڈ ون اسمتھ (Edwin Smith) نے 1862ء میں ایک مصری تاجر سے خریدا تھا۔ پھر اس نوشےپرتحقیق ہوئی اور اس میں جو کچھ درج تھا:
1929 میں دو جلدوں میں شائع کیا گیا۔ اس نوشتے کے مندرجات میں علم الجراحت کے تعلق سے زیادہ مواد ہے اس لیے اس کو نوشتہ جراحت Surgical Papyrus) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اور تاریخ طب میں اس کی اہمیت غیر معمولی ہے.
یہ نوشتہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس سے علم الجراحت میں مصریوں کی مہارت کا پتہ چلتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصری جراح اہم عروق (vesseles) کی پوری معلومات رکھتے تھے اور اعضاء کی تشریح سے بخوبی واقف تھے اس نوشتے کی باضابط تدوین سے ظاہر ہوتا ہے کہ جراحیات کی تعلیم کے لئے وجود میں گیا گیا تھا،تاکہ بعد والے اطبا اس سے مستفیذ ہوسکیں۔(تاریخ اخلاقیات طب)