مشرقی و مغربی طریق علاج
مشرقی و مغربی طریق علاج
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
خالق حقیقی نے فوق الارض اور تحت السماءجن عالم اجسام کو پیدا کیا وہ اجسام دوقسم پرمشتمل ہیں۔ اول بسیط۔ دوم مرکبہ ۔ اجسام بسیطہ معہ اپنے کیفیات کے چار ہیں۔ آگ۔ ہوا ۔ پانی۔ مٹی جن کو عنصر بھی کہتے ہیں۔ جو اصل اور مادہ کل کائنات عالم کا ہیں۔ مرکب وہ ہیں جن میں ان عناصر کی ترکیب ہوئی ہو ۔ جملہ مرکب اجسام تین جنسوں جمادی ۔نباتی اور حیوانی پر منحصر ہیں۔
اگر چہ کل اجناس و انواع کی پیدائش کا اولے اور اصلی مادہ عناصر مذکورہ اور ان کی چاروں کیفیات ہی ہیں۔ لیکن ان کی شکلیں صورت میں بستر تیں اور امتزجہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف واقع ہوئی ہیں۔ اسی طرح اجناس ثلاثہ میں سے ہر جنس اور نوع پر یہ تعریف صادق آتی ہے۔ چنانچہ صانع حقیقی نے نوع انسان کے (جو جنس حیوانی میں داخل ہے) افراد اور اشخاص کو من حیث الملک و قوم بطور خاص خلقت مناسب انداز بمقادیر مادہ و کیفیات عنصر یہ الگ الگ پیدا کیا ہے کسی میں کوئی عنصر اور اس کی کیفیت زیادہ ہے کسی میں کوئی۔ اسی کمی بیشی کے سبب کہا جاتا ہے کہ فلاں ملک یا قوم یا شخص کا مزاج گرم یا ہے یا سرد ہے یا خشک ۔ اسی طرح تمام افراد اشیاء اجناس ثلاثہ کے مزاج کو بوجہ غالب ہونے سبب مذکور کے سرد گرم با خشک سرد کہتے ہیں۔
لیکن ہر ایک ملک و قوم یا شخص کو حجس اندازہ با مقادیر مادہ و کیفیات پر مخلوق کیا ہے۔ وہی اعتدال مزاجی اس کے لئے مفروض ہے جو تا بعمر بھی صحت بر قرار رہنے کے موزوں ہوتا ہے۔
اور اگر اس اعتدال میں بسبب زیادہ یا کمی ہے کے کسی کیفیت ممتزجہ مزاجی کے فرق پڑ جاتا ہے تو صحت مرض کے اور حیات ممات کے ساتھ متبدل ہو جاتی ہے۔ بدان انسان کے لئے صحت اور مرض دوحالت لازمہ ہیں۔ صحت مراد ہے اس حالت سے جس میں تمام اعضائے ظاہری و باطنی ارواح و قومی مجرائے بھی اور کارہائے مفوضہ انجام دیتے ہیں۔ جب ان میں کچھ فتور با قصور واقع ہو جاتا ہے تو اس حالت کا نام مرض ہے۔ اکثر امراض یا توہیئت اعضاء اور ترکیب بد نی کے بگڑنے سے پیدا ہوتے ہیں یا اعتدال مزاجی قائم نہ رہنے کے باعث ظہور میں آتے ہیں۔ اول الذکر امراض کے متعلق انشاء اللہ تعالے ہم کسی آئندہ بہت میں علیحدہ مستقل مضمون + یہ ناظرین کر مجھے آج کی صحبت میں صرف ثانی الذکر ا مراض اور ان کے طریق علاج مشرقی و مغربی پر تبصرہ کیا جائے گا۔امراض سوئے مزاج بہ سبب تغیر و تبدل ہوجانےکیفیات متراجیہ یا مادہ عنصریہ وغلطیہ کےمدو جزر سےپیدا ہوا کرتے ہیں۔
علاج المرض از الت سیب یعنی ہر مرض کا علاج اس کے سب کو دور کرتا ہے۔ العلاج بالضد یعنی علاج اس کا ضد سے کیا جاتا ہے۔
طب قدیم کے یہ جملے اصل الاصول قواعد طبیہ سے ہیں۔ تجربہ اور قیاس بھی اس امر کا شاہد ہے کہ امراض باردہ کا رد ادر یہ حارہ سے ہوتا ہے ۔ جہاں کیفیات حارہ حملہ کئے ہوں ادو یہ باردہ ان کو شکست دیدیتی ہیں۔
امتلا کے وقت تنقیہ فوری صحت کا باعث ہوتا ہے۔ حرکت مفرط کا مریض سکون سے آرام پاتا ہے اور سکون کی زیادتی سے پیدا شدہ امراض کا حل حرکت ہے ۔ حرارت زدہ تسکین و تبرید سے اور برد خوردہ کا حرارت سے منتفع ہونا وغیرہ وغیرہ شرقی طریقہ علاج کی صداقت کے زندہ ثبوت ہیں
امراض کا دواء دو طرح علاج کیا جاتا ہے۔ ایک کیفیات الادویہ سے جیسے سرد کیفیت والی ادویہ سے گرم مرضوں کا علاج کیا جاتا ہے اور گرم سے سرد امراض کا ۔ علی ہذا تر کا خشک سے اور خشک کادوسرا خواص الادویہ سے یعنی دوا کی مرض دور کرنے والی خاصیت سے علاج کرنا اول الذکر طریقہ علاج مشرقی ہے اور موخر الذکر پر علاج مغربی کا مدار ہے جن کی بنیاد صرف تجربہ پر رکھی گئی ہے ۔
قطع نظر دوسری خصوصیات کے مشرقی طریق علاج میں پائی جاتی ہیں صرف تجربہ کے لحاظ سے غور کیا جائے تو ماننا پڑیگا کہ ہزار ہا سال کے تجربات اور قیاسات کے نتائج دو چار صدیوں کے نتائج تجربات سے ہر طرح اکمل و افضل کہلانے کے مستحق ہیں ۔ کیونکہ مغربی طریق علاج رطب جدید) کی ابتدا تین چار صدیوں سے زائد نہیں ہے مشرقی طریق علاج ر طب قدیم ) کو ہزار سال سے زائد عرصہ سے تو اسلامیوں نے یونانی سے عربی میں اخذ کر کے اسےاکملیت کا جامہ پہنایا ہے جو اس سے قبل ہزار ہا سال کی تجسسات تحقیقات تجربات اور قیاسات کا
نتیجہ ہے۔
طب قدیم جیسا فلسفہ علاج تاثیرات با کیفیت ادو یہ کسی و دسری طب میں نہیں پایا جاتا ۔ طب جدید جس کے علم العلاج کی تعمیر خواص الادویہ پر قائم ہے ممکن ہے کسی ایک یا قوم کے مزاج کے لئے مفید ثابت ہو مثل اہل فرنگ وغیرہ کے لیکن دوسرے ملک و قوم اور اشخاص اور مختلف حالات کے انسانوں پر جیسے ہندوستان یا مانند آںوہی ادویہ اسی طریق استعمال سے کبھی موافق نہیں آسکتی۔ مغربی میٹریا میڈیکا مغربی ممالک میں مغربی انسانوں پر تجربہ کر کے مغرب کے مزاجوں کے لئے تیار کیا جائے اور استعمال کیا جائے مشرقیوں پر جن کی طبائع اور امزجہ کا آپس میں بعد المشرقين ہو صاحب العقل کے لئے قابل تسلیم نہیں ہر ملک ولایت مقام اور قوم کے مزاجوں میں با یکدگر فرق ہوتا ہے ۔ حتی کہ ایک گھر میں چند اشخاص ہوتے ہیں کہ مگر مزاج ہر ایک کا الگ الگ ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی ملک یا مقام کے انسانی امزجہ معتدلہ اتنے سرد یا گرم ہوتے ہیں کہ اگر وہی درجہ حرارت یابرودت کسی دوسرے ملک یا قوم کو حاصل ہو جائے تو ان کا اعتدال مزاج قائم رہنا محال ہو جائے ۔ جیسے اہل فرنگ کے مزاج بمقابلہ اہل ہند کے امزجہ کے باردو رطب ہوتے ہیں ؟ اگر یہی درجہ برودت و رطوبت اہل ہند کو عارض ہو جائے توان کے لئے امراض بار دہ رطبہ کا حدیث ناگزیر ہو جائے۔ اسی طرح اگر حرارت و یبوست جو ایک ہندوستانی کے لئے باعث اعتدال مزاج ہے۔فرنگی کو حاصل ہو جائے تو اس کے لئے امراض باردہ یابسہ کا شکار ہونا لازمی ہوگا۔
اہل فرنگ میں برودت و رطوبت کا استعلا ان کے رنگ کی سفیدی ۔ بالوں کے بھورے پن انکیآنکھوں کے کر نجی ہونے سے ظاہر ہے۔ اسی سبب سے ان کی اغذیہ میں گرم اشیاء کا بیشتر حصہ ہوتا ہے۔ انڈے ماکیاں تینر و دیگر جانوروں کے گوشت گرمی وختگی پیدا کرنے والے طرق ابا زیر حارہ اور برانڈی چائے کائی وغیرہ محرورات و محرکات کا التزامان کے مزاج کے اعتدال کا محافظ ہے۔
برعکس اس کے رنگت کی سیاہی، سرخی و گندمی آنکھوں کا سیاہ ہونا باو جود بارد و رطب خور و نوش مثل بقولات سبز وتر کے اکثر امر اض حار یا بس میں مبتلارہنا اہل ہند کے مزاجوں کے جار یا بس ہونے کی دلیل ہے
کیا مغربی طریقہ علاج اور اس کی ادر یہ جو خاص اہل فرنگ کے مزاجوں کے مطابق داخل فن کی گئی ہیں مطلقا روئے زمین کے انسانوں اور خصوصا ہندستان کے لئے بھی ویسی ہی مفید ہوسکتی ہیں۔