مسلمات سے انحراف کرنا۔
مسلمات سے انحراف کرنا۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
عمومی طورپر ہم مرعوبیت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔جن لوگوں کو کسی معاملہ میں بڑا سمجھ لیا جاتاہے تو ان کی پر بات کو من و عن تسلیم کرلیا جاتا ہے،مذہبی و دینی لحاظ سے جن لوگوں کو مقتداء و پیشوا تسلیم کیا جاتا ہے ان کی عام کہی باتوں کو بھی دین سمجھ لیا جاتا ہے،کسی بات کی تحقیق کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے،ان کے دئے حوالوں کو حرف آخر سمجھاجاتا ہے،اگر کوئی اصل ماخذ کی طرف رجوع کرکے کسی تسامح کی نشاندہی کرے تو گستاخوں کے فہرست میں شمار ہونے لگتا ہے،
مثلاََصدیوں پہلے ارسطو نے کہا تھا کہ عورت کے دانت مرد کے مقابلہ میں کم ہوتے ہیں،خود اس کی دو بیویاں تھیں کبھی اس نے ان کا منہ کھول کر تصدیق تک نہ کی ۔یہ غلط فہمی اسی انداز صدیوں تک چلتی رہی ۔سوچنے کا مقام ہے عورت کیا نایاب نسل ہے جس کے دانت گننے میں دشواری ہوتی۔لیکن یہ ارسطو نے کہا تھا اس لئے علمی مرعوبیت کی وجہ سے کسی میں ہمت نہ تھی کہ اس قول کو رد کرسکتا۔
آج سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں کی دانش ہر ایک کی جیب میں موجود ہے،اس پر فتن دور کو اظہار آزادی رائے کا نام دیا جاتا ہے،لیکن اسے مکھی پے مکھی مار نے والااور لیکر کے فقیر کہنا مناسب ہوگا۔کسی معروف شخصیت کے سوشل اکائونٹ سے کوئی سرسری بات لکھ دی جائے تو اس طبقہ فکر کے لوگوں کے لئے وہ حرف آخر بن جا تا ہے،کوئی تحقیق نہیں اختلاف کرنے والامعطون ٹہرتا ہے۔اگر کوئی اپنے مشاہدہ کو اس کے مقابل بیان کردے تو اسے اپنا ایمان ثابت کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔یہی حال عاملین اور روحانیت کے پرچاروںکا ہے،ناموں کو بیچا جاتا ہے،جو جتنا مشہور ہے اس کی بات اسی قدر معتبر ہے،جہاں پیسے زیادہ خرچ ہوں وہاں اچھے علاج کی امید کرنے لگتے ہیں۔عملیات کا میدان وہ جس میں کسی تحقیق و تعلیم کی ضرورت نہیں عمومی طورپر جس قدر لوگوں کی نفسیات سے کھلواڑ کرنے کا ماہر ہوگا اسی قدر اونچے مقام کا مالک ہوگا۔کسی بھی شعبہ میں تعلیم و تجربہ کو معیار مانا جاتا ہے لیکن عملیات کے میدان میں ایسے لوگوں کو براجمان دیکھا جو عملیاتی ضرورت کے لئے سورہ فاتحہ بھی ٹھیک طریقے سے تلاوت کرنے سے قاصر تھے۔ لیکن ان کے بارہ میں اس قسم کی حکایات موجود تھیں کہ حکایات سے زیادہ لوگ انہیںبطور کرامت کے پیش کرکےان فخر محسوس کرتے تھے۔
دوسرا المیہ یہ ہے علاج و معالجہ کو بھی یار لوگوں نے مذہبی و مذہبی دائروں میں مقید کردیا ہے جیسے عبادات کے لئے اپنے مسلک و مذہب کی عباداگاہوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اسی طرح عملیاتی دنیا میں میں یہ تقسیم اتم درجے پائی جاتی ہے۔