You are currently viewing مرض کی دردوں سے تشخیص۔
مرض کی دردوں سے تشخیص۔

مرض کی دردوں سے تشخیص۔

مرض کی دردوں سے تشخیص۔

مرض کی دردوں سے تشخیص۔

 

تحریر

حکیم قاری محمد یونس شاہد میو

درد کی حقیقت۔

درد بذات خود بیماری نہیں ہوتا، یہ تو کسی مرض یا کسی جسمانی بے اعتدالی کی نشانی و علامت ہوتا ہے،جہاں درد ہوتا ہے وہاں کے اعصاب اس کی اطلاع دماغ کو دیتے ہیں ،کہ دردناک مقام پر کوئی غیر طبعی علامت پیدا ہوچکی ہے اس کا تدارک کرلیا جائے تاکہ دوسرے اعضاء کو محفوظ رکھا جاسکے،اگر بروقت توجہ نہ دی جائے تو یہ غیر طبعی اثرات دیگر ملحقہ اعضاء کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں،یوں رفتہ رفتہ پورا جسم مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔

درد بذات خود کوئی بیماری نہیں ہے،یہ تو اطلاع ہے جو اعصابی نظام کے ذریعہ محسوس ہوتی ہے کہ فلاں مقام پر یا فلاں عضو پر غیر طبعی صورت حال پیدا ہوچکی ہے اس کا تدارک کرلیا جائے،انسانی جسم قدرت کا شاہکار ہے معمولی امراض کو از خود ٹھیک کرلیتا ہے لیکن اگر علامات یا مرض بڑھ جائے تو اسے بیرونی اشارے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جسم یکدم بیمار نہیں ہوتا نہ ہی یکبارگی میں لاچار ہوتا ہے ۔رفتہ رفتہ اس کی قوتیں کمزور ہونا شروع ہوتی ہیں،سب سے پہلےبیماری کا اظہار درد کی صورت میں ہوتا ہے یعنی جسم کاجو عضو اپنے فعل کو سر انجام دینے سے قاصر ہوتا جائے گا، اسی قدر اس میں درد کا احساس ہوتا جائے گا۔ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اچانک شدید درد اٹھے اور انسان لاچار ہوجائے،یا کوئی خطرناک مرض اچانک حملہ کرکے جسم کو لاچا رکردے۔

مرض کے شروع ہوتے ہیں اس عضو پر مختلف علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں،ان میں اسے بوجھ یا ہلکا ہلکا درد ہوتا ہے ،یہ اطلاع ہوتی ہے کہ جسم بیماری کا شکار ہونے لگا ہے تدارک کرلیا جائے۔دانا لوگ ان علامات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں جن کی وجہ سے یہ علامات ظاہر ہوئی ہیں،اگر اس ہلکے درد کو نظر انداز کردیا جائے تو اس میں شدت آنا شروع ہوجاتی ہے۔رفتہ رفتہ درد والا حصہ جسم کا ساتھ دینا چھوڑنا شروع کردیتا ہے۔یہ مقام بیماری شروع ہونے کے بہت بعد میں آتا ہے اس لئے صحت،انسانی جسم اور ہونے والی علامات کو اگر سمجھ لیا جائے تو انسان بہت سے امراض کو بروقت قابو میں لاسکتا ہے۔

احساس کرنا دماغ کی ذمہ داری اور اس کے فرائض میں شامل ہے،کیونکہ دماغ/ اعصاب کے علاوہ جسم میں کوئی ایسا عضو موجود نہیں ہے جو ہمیں جسم پر پر موجود کسی علامت کے بارہ میں مطلع کرسکے،دماغ کی محسوس کرکے حرکاتی عضلات سے جو چاہے کراسکتا ہے

،
اگر کسی وجہ سے دماغ کو انسانی وجود سے لاتعلق کردیا جائے تو اس کے حصے الگ الگ بھی کردئے جائیں تب بھی کچھ پتہ نہیں چلے گا،نشہ سے یہی ایک علامت ظاہر ہوتی ہے کہ انسانی دماغ اپنےفرائض کی انجام دہی سے قاصر ہوجاتا ہے،اسے معلوم ہی نہیں رہتا کہ جسم کے لئے کن کن احکامات یا سگنلز کی ضرورت ہے،سکاریٰ کا معنی یہی ہے کہ تم غافل ہوجائو۔قران کریم نے بہترین پیرائےمیں سمجھایا “تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم کر کیا رہے ہو اورکہہ کیا رہے ہو”۔

جب اعضاء اپنی ذمہ داریاں پورے طریقے سے ادا کرتے ہیں تو اسے صحت کہا جاتا ہے،اگر ایک عضو بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوجائے تو انسانی جسم کا اعتدال خراب ہوجاتا ہے توازن برقراررہے تو صحت بنی رہتی ہے اور اگر توزن بگڑ جائے توصحت بگڑ جاتی ہے۔

جب درد یا بیماری ایک حد سے آگے بڑھ جاتی ہے تو تکلیف ناقابل برداشت ہوجاتی ہے جسم کے مختلف اعضاء میں درد کم یا زیادہ کیوں محسوس ہوتا ہے یہ آگے چل کر بتائونگا اس جگہ درد کے درجات بیان کرونگا۔
درد کا لفظ اردو میں وجع اور الم پر محیط ہے،لیکن قدیم اطباء ان کی جدا گانہ تعریف کرتے تھے۔علامہ قرشی کہتے ہیں:جو درد قوت لامسہ(چھونے کی قوت)سے محسوس ہو اسے وجع اور جو عام تکلیف ہو یعنی قوت حاسہ کے ذریعہ محسوس ہو اسے الم کہا جاتا ہے اس لحاظ سے”وجع”مخصوص درد اور “الم”دکھو تکلیف رنج پر مبنی ہے،قدیم طبی کتب میں درد کے لئے الم کا لفظ استعمال کیا گیا ہےلیکن آج کے طبیب درد کے لئے “الم”کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔بقو ل جالینوس انسان کا طبعی حالت سے غیر طبعی حالت کی طرف منتقل ہونا چاہے اس کا ادراک واحساس بھی نہ ہو جیسے درد کی حالت میں بے ہوش ہونا

درد کا احساس۔

ہمارے وجود میں اعصابی خلیات تاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیںجو احساسات کا کام کرتے ہیں ،عضلاتی انسجہ سے گوشت پوست بنتا ہے، جسم کی ہر قسم کی حرکات ان کے ذمہ ہے، حرارت بھی یہی پیدا کرتے ہیں۔اسی طرح غدی خلیات غذا کو تحلیل کرکے جزوے بدن بناتے ہیں، حرارت جمع رکھنا ان کے ذمہ ہے،اگر حرارت کم ہوجائے تواعصاب جگر سے حرارت لیکر خرچ کردیتے ہیں،اسی طرح اعصاب اگر زیادہ رطوبات پیدا کرنے لگیں تو سودا اسے خشک کردیتا ہے۔جب جگر میں تیزی ہوتو دماغ میں سکون پیدا ہوجاتا ہے۔

دردکا احساس تب ہوتا ہے جب مقام ورم پر موجود عرق شعریہ میں خون حد اعتدال سے زیادہ مقدار میں آجائے،وہاں سوزش پیدا ہوجاتی ہے جو خود ہلکی قسم کا احساس درد ہے،اس کی جلن ہی دوران کون کو اس طر ف تیز کرتی ہے،یہی خونی دبائو کی زیادتی رگوں پر پھیلے ہوئےاعصاب میں تنائو پیدا کردیتی ہے جب ان اعصاب میں تنائو پیدا ہوتا ہے تو اس احساس کا نام درد ہوتا ہے۔لیکن جو اعصاب نرم ہوتے ہیں یا نرم ہوجاتے ہیں،ورم کے کم دبائو کے سبب درد کا احساس بھی کم ہوتا ہے۔ لیکن جس جگہ پر اعضاء سخت ہوں اور جلد تنی ہوئی ہو وہاں کے اعصاب لچک نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ درد محسوس کرتے ہیں،یہ درد ٹیسوں کی صورت میں محسوس ہوتا ہے جیسے گھٹنے کا در ۔ دانتوں کا درد وغیرہ۔بالفاظ دیگر نرم احساس میں کمی اور جسم کی سختی درد کی زیادتی کی صورت میںظاہر ہوتی ہے۔درجات درد کو یوں سمجھئے۔

(1)اگر اعصاب(Nerveus)میں ہوتو درد(Pain)کے ساتھ بےچینی دبائو پیدا کریں وہاں درد کم ہوگا لیکن بوجھ زیادہ ہوگا،یہ تحلیل رطوبات کا درد ہے مگر عام لوگ اسے سرد/بلغمی درد کہتے ہیں،مثلاََ کسی مقام پر ہڈی ٹوٹی ہوئی محسوس ہونا اس کاسبب کوئی مادہ/ریح وغیرہ ہوتی ہے جو ہڈی اور اس پراسترکرنے والی جھلی کے درمیان جمع ہوجاتی ہے۔یا ہڈی کے پردے کے نیچے رطوبت جمع ہوجاتی ہے۔۔

ایک مفید اقتباس۔

دردوں سے تشخیص۔

( ۱)اگر درد آرام اور سکون کی حالت میں نہ ہولیکن ذراسی حرکت کرنے سے درد شروع ہوجائے تو یہ غدی تحریک ہوگی(۲)اگر درد حرکت کرنے سے کم یا بالکل ختم ہوجاتا ہوتو اعصابی تحریک کا اظہار ہے(۳)آرام و سکون کی حالت میں درد نہ ہو بلکہ مقام درد کو دبانے سے درد محسوس ہوتو یہ عضلاتی تحریک ہے۔

دردوں میں کمی بیشی

:
دردوں کی زیادتی ایسے مقامات پر ہوگی جہاں پر اعصاب کی زیادتی انسجہ میں سختی پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کان اور دانت کا درد دیگر دردوں سے زیادہ تکلیف د دہ اور ناقابل برداشت ہوتا ہے ،کان میں اعصاب کی زیادتی دانتوں اور مسوڑھوں میں زیادہ سختی پائی جاتی ہے کیونکہ وہاں انسجہ زیادہ پھیلے ہوئے نہیں ہوتے نہ وہاں زیادہ پھیلاؤ کی گنجائش ہے اس لئے ان مقامات پر خون کا زراسا دباؤ بڑھ جائے تو شدید درد ہوتاہے ۔
اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے اگر کسی کے ہاتھ پر پشت کی طرف کوئی بھڑ وغیرہ ڈنگ مارتی ہے تو وہاں پر ورم بہت زیادہ نمایاں طورپر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دورد فورا کم ہونا شروع ہوجاتا ہے ،اگر پشت کے بجائے کف دست پر ڈنگ مارے تو وہاں پر ورم نہ ہونے کے برابر ہوگا مگر درد زیادہ ہوگا ان دردوں کی کمی بیشی کا سبب بیان کردیا گیا ہے تاکہ معالج دردوں کی ماہیت سمجھ کر علاج کرسکے۔دردوں کو مسکن و مخدرات منشیات کے بل بوتے پر کم کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اصولی علاج کو اپنائیں۔
درد کا اندازہ بڑے چھوٹے ورم سے نہیں ہوسکتا بلکہ جس قدر سختی ہوگی اسی قدر درد زیادہ ہوگا، جس قدر نرمی ہوگی اسی قدر درد بھی کم ہوگا، یوں سمجھ لیںجس قدر سوجن زیادہ ہوگی دردکم ہوگا اور سوجن کم ہوگی تو درد و تکلیف بھی زیادہ ہوگی جو معالج اس اصول کو اپنا لیگا وہ علاج میں کبھی خطا نہیں کرے گا (دیکھئے۔مجدد دوراں کی کتاب۔سوزش و اورام)

مقامی دردوں کی شناخت۔

مفرد اعضا میں درد تینوں تحریکوں میں ہوتے ہیں ان کی پہچان پہلے بیان کردی گئی ہے ۔یعنی دبانے سے ہونے والا درد عضلاتی ہوتاہے۔دوسری قسم کا درد ایسا ہوتا ہے کہ اس میں بیٹھنے سے راحت اور چلنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ایسے درد غدی ہوتے ہیں ان میں حساسیت بہت زیادہ ہوجاتی ہے کبھی جوڑوں میں حساسیت سے پیدا ہونے والے درد کپڑا لگنے پر مریض کی چیخ نکلوانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔کچھ درد چلتے وقت ہوتے ہیں لیکن جب کچھ حرکت کرلی جائے تو آرام آجاتا ہے ایسے درد اعصابی ہوتے ہیں۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مریض سے کہا جائے کہ جہاں زیادہ درد ہے وہاں ہاتھ رکھے تو آنتوں کے زخم کے لئے مریض پیٹ کے بالائی حصے پر ہاتھ رکھتا ہے ۔
معدہ کے اجزا کی خواک کی نالی میں ہونے والے درد کے لئے سینے پر عمودی اور درد دل سینے کی طرف ہوتا ہے۔ کچھ درد یں ساری رات نہیں سونے دیتیں مثلاََ جب دل کی طرف خون کا جانا کم ہوجائے تو درد میں بہت شدت ہوتی ہے۔اسی طرح دائیں طرف پسلی کے نیچے لبلبے کی درد بھی بہت شدید ہوتی ہے ۔
آنتوں میں ہونے والے درد کی کیفیت بھی شدید ہوتی ہے ،آنتوں کا درد، دوروں کی شکل میں نہیں ہوتا کرتا۔لیکن پتے کا درد پیٹ کے دائیں طرف آخری پسلی کے نیچے ہوتا ہے اور کمر کی طرف چلا جاتا ہے۔اسی طرح دل کا درد چھاتی کے بائیں جانب شروع ہوکر گردن اور بائیں بازو کے اندر کی طرف پھیل جاتا ہے۔۔

عمومی طور پر اپنڈکس کا درد جو کہ سوزش کا نتیجہ ہوتا ہے، ناف کے گرد شروع ہوکر کچھ دیر بعد پیٹ کے دائیں جانب نچلے حصے کی طرف ہونے لگتا ہے ۔ کچھ دردیں ایسی ہوتی ہیں جن کی شناخت وقفے یا دورانیہ سے کی جاسکتی ہے مثلاََ دل کا درد جو دل کی طرف خون کی گرش کم ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے اس کا دورانیہ آدھے گھنٹے تک ہوسکتا ہے ۔ اگر کوئی درد آدھے گھنٹے سے زیادہ چھاتی میں اٹھا رہے تو اسے ہم دل کا درد نہیں کہہ سکتے ۔

بساواقات ایسا بھی ہوتا ہے پیٹ یا کمر کے کسی حصے میں درد ہونے لگتا ہے لیکن جب بخار ہوتا ہے تو درد بھی کم ہوکر آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے، یہ درد باری بخار کی طرح ہوتا ہے اس کا علاج بھی بخار کی طرح کیا جاتا ہے یعنی ایسا درد ٹھنڈک کی وجہ سے ہوتا ہے اگر اسے سینک دیا جائے یا اسے گرمی پہنچادی جائے تو دوبارہ درد نہیںہوتا کیونکہ قدرت ہمیں بتا رہی ہے کہ درد کا علاج بخار (گرمی) پیدا کرنا ہے۔

کچھ درد مخصوص غذا یا دوا کھانے سے کم یا زیادہ ہوجاتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اگر زیادہ پیدا کرنے والی دوا کو چھوڑ دیا جائے یا درد میں پیدا کرنے والی دوا یا غذا کو استعمال کیا جائے توآسانی کے ساتھ مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔

دردوں کے خاص اوقات۔

کچھ دردیں خاص وقت میں نمودار ہوتی ہیں جیسے آنتوں کا درد عمومی طور پر رات کے وقت ہوتا ہے صبح اٹھتے وقت کم ہوجاتا ہے۔
آدھے سرکا درد سورج کے طلوع ہوتے وقت ہوتا ہے ،دن کے چڑھاؤسے اضافہ اور جیسے جیسے دن ڈھلنے لگتا ہے ایسے درد میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔
کچھ دردوں کو دیگر علامات کے ساتھ ملاکر تشخیص کرسکتے ہیں جیسے درد پتہ کے ساتھ الٹی آسکتی ہے۔دل کے درد کے ساتھ پسنہ آتا ہے دل کی دھڑکن تیز ہوجا تی ہے ۔ مریض کا سانس چلنے سے پھولتا ہے۔
درد جگر عمومی طور پر دائیں طرف دائیں کروٹ لیٹنے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔معالج کے سامنے تجربات کا وسیع میدان ہوتا ہے اگر معمولی توجہ کرلی جائے تو مریض کی نششت و برخاست سے بھی امراض و علامات کا اندازہ کرسکتا ہے مثلاََ ایک مریض جس کا دل فیل ہورہا ہے اٹھ کر بیٹھنا پسند کرے گا کیونکہ اس کا سانس لیٹنے سے پھولنا شروع ہوجاتا ہے۔

سانس کی نالیوں کی بند ش والا مریض آگے کی طرف جھک کر بیٹھے گا اور دونوں ہاتھوں کی مدد سے اپنے آپ کو سنبھالے گا اور عمل تنفس میں مدد لینے کی کوشش کرے گا تاکہ اضافی پٹھوں کی مدد سے سانس لینے میں آسانی رہے ،ایسی حالت میں مریض کی گردن پچھلی طرف اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔مریض کی شناخت کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں مثلاََ اگر ہاتھ کی ہتھیلی پیلی ہے تو خون کی کمی یعنی انیمیا ہے۔۔
ہتھیلی پر پسینہ آنا بے چینی کی حالت میں معمومی طور پر ٹھنڈے پسینے آیا کرتے ہیں۔اگر ٹھائیراڈ غدد کے افعال کی زیادتی کی وجہ سے ہوتوہتھیلی پر گرم پسینہ آیا کرتا ہے اسے ہم مریض کو بغور معاینہ کے بعد بتا سکتے ہیں مثلاََ گلے کی سوجھی ہوئی جگہ کا معائنہ کریں اور مریض سے تھوک نگلنے کا کہیں اور سوجی ہوئی ہے جگہ کودیکھیں اگر کری ہڈی کے ساتھ حرکت اوپر کی طرف حرکت کرے تو یہ تھائراڈ غدد کی وجہ سے ہے۔
پاؤں کو بھی دیکھ کر کچھ علامات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔کچھ مریض غدد کے امراض میں پاؤں پر ابھار و سوجن میں مبتلا ہوجاتے ہیںاور انگلی سے سوجن والی جگہ کو دبانے سے گڑھا پڑ جاتا ہے اس گڑھے کا معائنہ کریں کتنی دیر میں بھرتا ہے اگر دیر لگائے تو غدی ہے اور اگر انگلی اٹھاتے ہی بھر جائے تو اعصابی ہے۔

درد کی حقیقت

:
درد کی حقیقت یہ ہے کہ مقام ورم پر عروق شعریہ(بال کی طرح باریک رگیں) میں خون حد اعتدال سے زیادہ آتا جاہے جس کی وجہ سے وہاں سوزش ہوجاتی ہے جو بذات خود ایک ہلکی قسم کا درد ہے اس کو طبیعت جلد ہی دوران خون اس کی طرف تیز کردیتی ہے ساتھ ہی ساتھ مائیت خون میں بھی تراوش کرتی رہتی ہے، اس طرح خون کی زیادتی رگوںکے پردوں پر پھیلے ہوئے اعصاب تن کر دب جا تے ہیں اور درد کرنے لگتے ہیں ۔لیکن جو اعضاء زیادہ نرم ہوجاتے ہیںورم پر کم دباؤ کے سبب درد کم ہوتاہے، جہاں پر اعضا سخت اور جلد تنی ہوئی ہوتی ہے وہاں پر زیادہ دباؤ کے سبب درد سخت اکثر ٹیسوں کے ساتھ ہوتا ہے جیسے ذات الجنب (پلورسی)میں ہوتا ہے ۔
دردوں میں جو مختلف قسم کی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں اس کی وجہ درد کا مختلف اعضاء ہونا ہے جیسے اعصاب میں درد کے ساتھ ہی بے چینی جلد کی خارش اکثر ناقابل برداشت بلکہ بعض اوقات بے ہوشی کی صورت ہوجاتی ہے۔
غدد میں جلن کے ساتھ دردہوتا ہے جیسے ذات الجنب(پلورسی)اور سوزاک (گونوریا ) وغیرہ میں اسی طرح عضلات اور حجاب میں چبھن اور مروڑ والا درد ہوتا ہے جیسے ذات الجنب سوزاک وغیرہ میں اسی طرح عضلات و حجاب میں چبھن اور مروڑنے والا ہوتا ہے ۔
اندازہ نرم اور سخت اعضاء کے مقابلہ میں پستانوں اور گردوں کے دردوں اور گالوں اور ماتھے کے دردوں میں لگایا جاسکتا ہے۔اول الذکر مقام نرم اور ثانی الذکر سخت مقام ہیں جہاں پر رطوبت اکھٹی نہیں ہوسکتی اس لئے درد میں شدت ہوتی ہے ۔
دردوں کی دوسری وجہ خون اور رطوبت کی کمی بیشی ہے اور ان کا گرم و سرد احساس ہے یعنی خون کا دباؤ ہوگاوہاں پردرد شدید ہوگا اسے اطباء کرام گرمی کا درد کہتے ہیں، جہاں پر خون کی رطوبات تراوش پاکر دباؤ پیدا کریںوہاں پر درد کم اور دباؤ ہوتا ہے اس قسم کے درد کو اطباء کرام بلغمی یا سردی کا درد کہتے ہیں۔۔یہی وجہ ہے کہ ہڈیوں کے درد شدید اور توڑنے والے ہوتے ہیں کیونکہ ہڈیوں کے غشاء کے نیچے رطوبات کا اجتماع ہوتا ہے اس لئے خون کا اجتماع درد میں شدت پیدا کرتا ہے ۔

بعض درد ایسے مقام سے دور معلوم ہوتے ہیں جیسے جگر و طحال کے درد اور سوزش کندھوں میں پھپھڑوں کے درد گردوں کے نیچے اور اوپر پیچھے۔گردوں کے درد سوزش رانوں کے اندر بلکہ بعض اوقات پوری ٹانگ اور پاؤں تک محسوس ہوتا ہے۔اسی طرح مثانہ کے درد اور سوزش خصیتین اور پیشاب کی نالی تک چلے جاتے ہیں،عورتوں میں رحم کی درد اکثر کمر اور سر میں محسوس ہوتی ہے اور اکثر مستقل صورت اختیار کرلیتی ہے اسلئے کسی صورت میں بھی دردوں میں اس وقت تک روکنے کی کوشش نہ کریں جب تک اس کی اصل وجہ معلوم نہ ہوسکے کیونکہ درد کو فوراََ دیا گیا تو یہ مزمن صورت اختیار کرلیتے ہیں اور جب تک پھر سے ا ن دردوں کو پیدا نہ کرلیا جائے آرام نہیں آسکتا کیونکہ دردوں میں یہ خوبی ہے وہاں پر خون کو کھینچ کرمقام درد کو گرم رکھتے ہیں بلکہ بعض دفعہ بخار چڑھا دیتے ہیں۔بخار کی آگ(دوزخ کی بھٹی)ہی نوے فیصد امراض کا علاج ہے (سوزش و اورام ۔۔335/1)

حدیث مبارکہ میں اسے مومن کی مثال دیکر سمجھایا گیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرسے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِی تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ‘ إِذَا اشْتَکَی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمَّی أخرجه مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم، (4/ 1999)، برقم: (2586)، والبخاري، كتاب الأدب، باب رحمة الناس والبهائم، (8/ 10) برقم: (6011)
’’مؤمن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت ‘ اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور وہ بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے.‘‘
اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث اور بھی ہے.رسول اللہﷺ نے فرمایا:
الْمُسْلِمُونَ کَرَجُلٍ وَاحِدٍ إِنْ اشْتَکَی عَیْنُہُ اشْتَکَی کُلُّہُ‘ وَإِنْ اشْتَکَی رَأْسُہُ اشْتَکَی کُلُّہُ صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب رحمۃ الناس والبہائم. وصحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم.
(۳) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم. ’’مسلمان بندے ایک فردِ واحد کی طرح ہیں‘اگر آدمی کی آنکھ دکھتی ہے تو اس کا سارا جسم دکھنے لگ جاتا ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے

.‘‘
حواس انسانی کی تقسیم۔

انسانی جسم میں اعضاء کے فرائض اورذمہ داریاں تقسیم ہیں۔انسانی جسم قدرت کی پیچیدہ ترین مشین ہے جسے آج تک سمجھا نہیں جاسکا،جتنا سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اتنی ہی پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں۔انسان خدا کا نائب کے اسے خدا نے اپنی شکل وصورت پر پیدا کیا ہے ۔اس کے نادر اپنی روح پھونکی،اس لئے اس پیچیدگیوں سے الجھنا بہت مشکل کام ہے۔قران کریم کی آیت مبارکہ ہے۔وفی انفسکم افلاتبصرون ۔ہر آنے والا دن انسانی جسم و حواس کی نئی جہتیں متعارف کرارہا ہے انسان جس قدر تحقیق کررہا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو اس نے قدم اٹھایا ہے،منزل تو بہت دور ہے۔انسانی حواس اور اعضاءمنظم انداز میں کام کرتے ہیں اگر کے اندر معمولی سا بھی فرق آجائے تو اعتدال کا ترازو ڈھلک جاتاہے،جس کا مظاہرہ رعشہ کے مریض میں دیکھا جاسکتا ہے۔صحت تو اسی حالت کو کہتے ہیں جب انسانی جسم انسانی سوچ کے مطابق حرکات کرے۔
ابو الحسن ربن الطبری لکھتے ہیں:دل دماغ جگر اعضائے رئیسہ و شریفہ ہیں،اگر قلب میں کوئی مرض لاحق ہوگاتو اس کی وجہ سے سارا وجود بیماری کا شکار ہوجائے گا، زندگی کو خطرہ محسوس ہو گا ۔اسی طرح دماغ کو مرض لاحق ہوجائے تو حس زائل ہوجائے گی لیکن زندگی موجود ہوگی(فردوس الحکمت مقالہ ہشتم باب اول606)اسی طرح اگر جگر ناکارہ ہوگا توسارا وجود’’ ٹھنڈا‘‘ پڑ جائے گا۔

نظام اعصاب

نظام اعصاب کا مرکز کھوپڑی یعنی دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں ہوتا ہے۔ انسانی جسم کا یہ اہم ترین نظام پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ بنیادی طور پر اعصابی نظام انتہائی باریک اور حساس تار پر مشتمل ہوتاہے۔ جو باہر سے موصول ہونے والے پیغامات کو فوراً دماغ تک پہنچا دیتی ہے۔ ان پیغام رساں تاروں کو ’’سینسری نروز‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ جو مرکز (دماغ) سے ملنے والی ہدایات کو متاثرہ اعضا اور حرام مغز تک پہنچاتی ہیں کہ بیرونی ’’حملے‘‘ کا جواب کیا ہونا چاہیے۔ انسانی بدن میں اعصابی مراکز دو طریقوں سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ پہلا نظام دماغی اعصابی نظام جبکہ دوسرا خود کار اعصابی نظام کہلاتا ہے۔ پہلے نظام کا تعلق پٹھوں، اعضائے بدن ہڈیوںکے جوڑوں کی حرکات اور انسانی کی بیرونی جلد سے ہوتا ہے۔ جبکہ خود کار اعصابی نظام کا تعلق بدن کے اندرونی اعضا دل ‘ جگر‘ دماغ‘ حرام مغز اور آنتوں کے افعال سے ہوتاہے۔ جسم کے تمام غدود اور خون لانے لے جانے والی رگیں بھی اسی نظام کے تحت کنٹرول کی جاتی ہیں
تحریک۔تسکین۔ تحلیل کا چارٹ مع نتائج۔
نمبر شمار
نام اعضا
اعصاب
غدد
عضلات
نتیجہ
1
دماغ
تحریک
تحلیل
تسکین
جسم میں رطوبات کی زیادتی
2
جگر
تسکین
تحریک
تحلیل
حرارت کی زیادتی
3
دل
تحلیل
تسکین
تحریک
خشکی۔سودا کی زیادتی
ہمارے وجود میں اعصابی خلیات تاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیںجو احساسات کا کام کرتے ہیں ،عضلاتی انسجہ سے گوشت پوست بنتا ہے، جسم کی ہر قسم کی حرکات ان کے ذمہ ہے، حرارت بھی یہی پیدا کرتے ہیں۔اسی طرح غدی خلیات غذا کو تحلیل کرکے جزوے بدن بناتے ہیں، حرارت جمع رکھنا ان کے ذمہ ہے،اگر حرارت کم ہوجائے تواعصاب جگر سے حرارت لیکر خرچ کردیتے ہیں،اسی طرح اعصاب اگر زیادہ رطوبات پیدا کرنے لگیں تو سودا اسے خشک کردیتا ہے۔جب جگر میں تیزی ہوتو دماغ میں سکون پیدا ہوجاتا ہے۔
انسانی جسم کی کیفیاتی تقسیم
نمبر شمار
کیفیت
رکن
خلط
عضو
1
تری
پانی
بلغم
اعصاب و دماغ
2
خشکی
ہوا
سودا
عضلات و قلب
3
گرمی
آگ
صفراء
جگر و غدد
4
سردی
مٹی
الحاقی سیال مادہ
بنیادی ڈھانچہ وطحال
تحذیر کیا ہے؟
حکمائے نامدار صدیوں سے ایسی ادویات کا استعمال کرتے آئے ہیں جو جسم کے کسی حصے کو سنُ کردے بالخصوص جہاں دردوں کی شدت ہو،دور جدید اعمال جراحی(آپریشن) میں اس عمل کوتقریباََ ہر معالج استعمال کرتا ہے ،تحذیر سے رطوبتیں منجمد ہوجاتی ہیں، احساسات اور عضو کے افعال رک جاتے ہیں۔پہلے زمانے میں اس کام کے لئے عمومی طورپر منشیات کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن جدید لبوٹریز(Libotries) میں اعلی قسم کے نسخے تیار ہوچکے ہیں اس لئے دوا کی قلیل مقدار سے مطلب برآوری ہوجاتی ہے۔

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply