محافظ اراؤلی
بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں پہلی بار لکھا جانے والا افسانوی تاریخی ناول ۔۔۔۔۔ محافظ اراؤلی ۔۔۔۔ طباعت و اشاعت کے مراحل سے گزر کر ۔۔۔ جلد مارکیٹ میں آرہا ہے ۔۔ ناول میں راجہ حسن خاں میواتی والئی الور و میوات کی عسکری جدو جہد اور غیر ملکی حملہ آوورں کے خلاف عملی اقدامات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔۔ نواب ناظم میو کے ناول ھذا ۔۔۔ محافظ اراولی پر ملک کی معروف شخصیات ۔۔۔ سردار عظیم اللہ خاں میو اور بائیں بازو کے دبنگ رہنما ۔۔۔ عابد حسیں عابد رقم طراز ہیں کہ ہمارے دوست نواب ناظم میو کمال تخلیقی شخصیت ہیں۔ کئی خوبصورت شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ صحافی ہیں، لاہور سے روزنامہ “سسٹم ” نکالتے ہیں۔ دنیا بھر کے شاعروں، ادیبوں کے فون نمبر بمہ ایڈریس پر مبنی ڈائریکٹری چھاپ چکے ہیں۔ اپنے علاقہ باٹا پور میں دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے ایک فلاحی تنظیم بھی چلا رہے ہیں۔ اس متحرک ادبی شخصیت پر ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی دھن سوار رہتی ہے۔
زیر نظر کتاب ” محافظِ اراولی ” ان کا تاریخی ناول ہے۔ جس میں میوات کے بہادر سپوت راجہ حسن خاں میواتی والئی الور و میوات کی عسکری جدوجہد کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ راجہ حسن خاں میواتی ، ناہر خان اور رانا سانگا میوات ہی نہیں اس دھرتی کے وہ ناقابلِ فراموش سورما ہیں جو بیرونی حملہ آوروں کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔
دنیا کی تقریبا” ہر بھوک مرتی قوم ہندوستان جیسے زرخیز خطے پر حملہ آور ہوئی۔ بدقسمتی سے یہاں ہر غیر ملکی حملہ آور کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ جبکہ اپنی دھرتی کی حفاظت کے لیے لڑنے والے مزاحمت کاروں کا کردار مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ خواہ وہ حملہ آوروں کا مذہب اختیار کر چکے تھے یا نہیں۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی کے مذہب تبدیل کر لینے سے اس کا دھرتی پر کلیم ختم نہیں ہو جاتا۔ بڑا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنی زمین اور اس کے کلچر سے جڑت رکھتا ہو۔ ہماری ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں تقسیم کرنے کے لیے ان حملہ آوروں نے ایسی ذہن سازی کی کہ ہم نے کلچر اور ثقافت کو بھی مذہبی خانوں میں بانٹ لیا۔ حالانکہ دنیا بھر کے سماجی ارتقا میں کلچر اور ثقافت وہاں کے باشندوں کا مشترکہ ورثہ ہوتا ہے۔ ہمارے بڑوں نے اسی دھرتی پر اپنا مذہب تبدیل کیا مگر سماجی ارتقا کے قدیم تہذیبی ورثے اجتنا الورا ، ہڑپہ اور موہونجو داڑو سے بھی خود کو یکسر الگ کر لیا۔ حالانکہ ہندو دھرم اس عہد سے کہیں بہت بعد کی پیداوار ہے۔ ایسی مثال آپ کو دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی۔ اسی لیے یہاں لوگوں کی اپنی دھرتی سے جڑت ختم ہوتی چلی گئی اور انکی ہمدردیاں بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ ہو گئیں۔ لوگوں پر حکومت کرنے کے شوق میں ذاتی فائدے اور مالی مفاد کی خاطر وہ اپنے ہی لوگوں کی گردنیں کاٹ کر حملہ آوروں سے انعامات وصول کرتے رہے۔ سو قومی عصبیت کا یہاں سے خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ میں یہاں عرب نیشنل ازم کی مثال سے بات واضح کرتا ہوں، فلسطینی باشندوں کو جب ان کے آبائی علاقوں سے بیدخل کر کے اسرائیل نے قبضہ کر لیا تو فلسطین کی آذادی کی تحریک میں مسلمان اور عیسائی قوم پرستوں نے مل کر اس جدوجہد میں حصہ لیا۔ عرب نیشنل ازم جیسی مثال ہندستان میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
تاریخ ایسے بے مثال کرداروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے موئقف اور اپنی سرزمین کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ وہ چاہتے تو مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے اپنی جان بچا سکتے تھے۔ عیش اور آرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے مگر انہوں نے تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے انکار کر دیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ جیسے سقراط نے اپنے موئقف پر قائم رہ کر موت کو شکست دے دی۔ اسی طرح راجہ حسن خاں میواتی نے ظہیر الدین بابر کی طرف سے جاگیر کی پیشکش یہ کہ کر ٹھکرا دی کہ ۔۔۔۔۔ لوگ کہیں گے میں نے لالچ اور خوف کے تحت رانا سانگا کا ساتھ نہ دیا اور جاگیر قبول کر لی۔ راجہ حسن میواتی دلیری سے لڑتا ہوا اپنی دھرتی ماں پر قربان ہو کر امر ہو گیا۔ ابراہیم لودھی سے راجہ حسن میواتی کی رشتہ داری تھی۔ اس کی شکست کے بعد وہ میدان سے بھاگا نہیں بلکہ رانا سانگا کے ساتھ کیے اپنے وعدے کی پاسداری کی۔ ظہیرالدین بابر نے اسے پیغام بھیجا کہ تم بھی مسلمان ہو اور میں بھی، لہذا لڑائی میں میرا ساتھ دو۔ راجہ حسن نے جواب دیا میں تمہارے ساتھ کھانا کھا سکتا ہوں ، نماز پڑھ سکتا ہوں مگر اپنی سر زمین کی آذادی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ میں اسے ہندوستان میں قوم پرستی کی ایک اعلی مثال سمجھتا ہوں۔
فاتح کے دربار سے منسلک مورخ چاہے جتنی کوشش کر لیں وہ ایسے دلیر اور نڈر مزاحمت کاروں کو تاریخ کے صفحات سے غائب نہیں کر سکتے۔ ایسے لازوال کردار اپنی بے مثال بہادری کی وجہ سے لوک روایتوں اور لوک داستانوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جو سینہ بہ سینہ اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔
نواب ناظم میو نے راجہ حسن میواتی کے تاریخی کردار کو دستیاب تاریخی کتب اور لوک روایت کی مدد سے اس ناول میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا ہے۔ اس احتیاط کے ساتھ کہ کہیں تاریخ مسخ نہ ہو۔ واقعات اور کردار حقیقی رنگ میں سامنے آئیں۔ انہوں نے اس ناول میں میو قوم کی تاریخ، اس کی قدآور اور تاریخ ساز شخصیات پر بھی بھر پور روشنی ڈالی ہے۔ یہ مصنف کی تحریر کا کمال ہے کہ قاری ناول پڑھتے ہوئے خود بخود اس عہد میں سانس لینے لگتا ہے جس کو اس ناول کا موضوع بنایا گیا ہے۔ زبان اتنی صاف اور پر کشش ہے کہ توجہ کہیں اور مبذول نہیں ہونے پاتی۔ واقعات کا وقوع پذیر ہونا اور کرداروں کی کشمکش ڈرامائی انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ جس میں دلچسپی کا عنصر برقرار رہتا ہے۔
کسی ایک جگہ کتابی صورت میں راجہ حسن خاں میواتی کے بارے میں بہت کم تحریری مواد دستیاب ہے۔ نواب ناظم میو نے بڑی محنت سے تاریخی کتب اور لوک روایت سے استفادہ کر کے اسے کتابی شکل عطا کی ہے۔ ان کا یہ ناول آنے والی نسلوں کو میو قوم کے اس بہادر راجہ کی جدوجہد کی یاد دلاتا رہے گا۔ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے وہ کم ہے۔
دھرتی کا بیٹا
سلطان فیروز شاہ تغلق کے دور میں اسلام لانے والے سانبھرپال المعروف بہادر ناہر خاں میواتی کے خاندان کا آخری حکمران جو اپنی دھرتی میوات کا حاکم تھا ہندوستانی تاریخ کے سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والوں میں کرداروں میں سے ایک ہے اپنی زندگی میں بھی وہ ہندوستان کے نامی گرامی سرداروں میں شمار ہوتا تھا شہنشاہ بابر کے مقابلے میں سیکری خانواہ کے میدان میں جان کی بازی ہار جانے کے بعد بھی آج تک اس کی شہرت کم نہ ہوئی کہیں اسے ہیرو بنا کر دیوتاؤں کا سا درجہ دیا جاتا ہے کہیں وہ تاریخ کا منفی کردار سمجھا جاتا ہے جس نے مسلم شہنشاہ بابر کی بجاۓ ہندو راجہ رانا سانگا کا ساتھ دیا ایک بات مگر دوست دشمن سبھی مانتے ہیں کہ رانا سانگا کے میدان جنگ سے فرار کے باوجود اس نے اپنی راجپوتی ایسے نبھائی کہ میدان کارزار میں پیٹھ نہ دکھائی بہادری سے لڑا اور کھیت رہا
جی ہاں یہ نام ہے راجہ حسن خاں میواتی علاول خاں میواتی کا بیٹا سلطان ابراہیم لودھی کا حقیقی خالہ زاد بھائی جسے سلطنت اور مغلیہ دور کی تاریخوں میں ایسے پیش کیا گیا ہے جیسے میوات بابر کی موروثی ریاست ہو اور حسن خاں میواتی نے اسے غصب کرنے کے لۓ بابر کے خلاف لشکر آرائی کی – المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنے خالہ زاد بھائی کے ہمراہ باہر سے آۓ حملہ آور کے مقابل آنا اور پھر اسی بھائی کی میدان جنگ میں موت کے بعد جو دہلی کا سلطان بھی تھا اس کے قاتل کے مقابل ڈٹے رہنا اس بہادر میو کا جرم ہے ہمارے دوست نواب ناظم صاحب نے جو اس سے قبل شاعری اور صحافت کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں اس ناول کے ذریعے راجہ حسن خاں میواتی کو خراج تحسین پیش کیا ہے جو اگرچہ ہے تو ناول مگی بہرحال تاریخ بھی ہے ایسی تاریخ جو ہم میوؤں کا بالخصوص مشترکہ ورثہ ہے جو ہمارا فخر ہے میرے لۓ یہ ناول اس لۓ بھی اہمیت رکھتا ہے کہ میں نے بھارت میں حسن خاں سے منسوب کئی مقامات کو خود دیکھا ہے اور اب وہاں آہستہ آہستہ راجہ حسن خاں میواتی کا کردار غیر متنازعہ ہیرو کے طور پر مقبول ہو رہا ہے بلکہ کچھ برس پہلے تک وہ محض مقامی سطح پر بہادری کا ایسا استعارہ تھا جس کے بارے میں کسی میواتی شاعر نے کہا ہے
پگ پیچھے کو نہ دھروں میرو چھتری پن مٹ جاۓ
جیوبکو نہ مول کو کہا اور جنمے گی ماۓ
نواب ناظم صاحب کی شاعری صحافت اور ان کی منفرد تحریروں کا ایک زمانہ معترف ہے مگر اس کتاب کے ذریعے انھوں نے بطور ںاول نگار بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے مجھے خوشی ہے کہ نواب ناظم نے اس تاریخی کردار کو نۓ رنگ میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور میں نواب ناظم کو ایسا خوبصورت ناول لکھنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے میو تاریخ کے دیگر اہم کرداروں کو بھی عوام کے سامنے لائیں گے
سردار عظیم اللہ خاں میو
لاہور 16 جنوری 2022
Pingback: Developing a Meo Nation database - Dunya Ka ilm
thenks