محاسبہ
محاسبہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی @ﷺکاہنہ نولاہور پاکستان
[الا کلکم راع وکلکم مسئول…بخاری ۸۴۴۔مسلم۳۴۰۸۔ ترمزی۱۶۲۷۔احمد ۴۲۶۶۔ابودائود ۲۵۳۹]مگر اس تمام اعتماد و محبت کے باوجود آپ اپنے گھر والوں کے محاسبہ سے کبھی غافل نہ ہوئے ایک طرف شفقت و مہربانی کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کے خادم خاص [SERVENT] انس ؓ دس سال مسلسل خدمت اقدس میں رہے کبھی اُف تک نہ کی اور محاسبہ کا یہ عالم تھا کہ دینی امور میں معمولی سا شوشہ بھی نظر انداز نہ فرماتے تھے آپ نے ذاتی معاملہ میں کبھی باز پرسش نہ کی
مگر حدو داللہ میں کبھی چشم پوشی مظاہرہ نہ کیا محبوب و مرغوب بھی مثتسنی ٰ نہ تھے ایک بار بنی مخزوم کی فاطمہ نامی عورت پر چوری ثابت ہوگئی آپ ﷺ نے حد لگانے کاحکم دیا لوگوں کو اسکے معزز[Respectabale] گھرانے کی وجہ سے ناگوار گذرا تو اسامہ ؓ سے سفارش کرائی
تو آپ ﷺ نے ایک خطبہ دیا :کہ تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے بے راہ ہوئے کہ ان میں سے کوئی معزز جرم کرتا اسے سزا دی جاتی اور کمزور کرتا اس پر حدود کا نفاذ کردیا جاتا بخدا اگر اس کی جگہ فاطمہ نبت محمد ﷺ بھی چوری کرتی اس کو بھی سزا دی جاتی [بخاری ۶۲۹۰ مسلم۳۱۰۶]
عائشہ ؓ سے زیادہ محبت کس سے ہوگی؟ ایک بار انکی زبان سے صفیہ ؓ کے بارے یہ الفاظ نکل گئے حسبک من صفیۃ کذا کذا[کہ یہ کم ہے کہ صفیہ کا قد چھوٹا ہے ]تو آپﷺ نے فوراً تنبیہ فرمائی کہ عائشہ ؓ تم نے زبان سے ایسی بات نکال دی ہے اگر اسے سمندر میں ملادیاجائے تو اس کی تلخی پانی کو بھی تلخ کردے[ابودائود ترمزی۔احمد]
یہ محاسبہ بھی رحمت و رافت اور امت کے لئے سبق آموزی کا سبب تھا اور محبت کا ایک پہلو بھی جو لوگ اپنے گھر والوں سے محض مادی قسم کی محبت رکھتے ہیں وہ اپنی ذاتی باتوں پر تو بڑے سخت گیر اور تنک مزاج ہوتے ہیں کہ ادنی سی کوتاہی بھی قابل عفو ہو؟
مگر خدا اور شریعت کے معاملہ میں بڑے روادار وفراخ دل ہوتے ہیں بیوی بچے جو چاہیں کریں آخرت بگاڑیں اللہ اور رسول ﷺکی نافرمانی کریں کبھی ٹوکنے کی توفیق نہیں ہوتی [یاایہا الذین آمنو اقو انفسکم واہلیکم ناراً]
جبکہ معاملہ برعکس ہونا چایئے یہی آپ ﷺ کی سنت ہے اور ہم مسلمان آپ ﷺ کے محب ہیں محبوب کی ہرادا نمونہ ہوتی ہے آپ ﷺ تو ذاتی کام کے بجائے گھر والوں کی آخرت کے بارے میں فکر مند رہا کرتے تھے
کہ آخرت کی زمہ داریوں سے غفلت نہ ہونے پائے انکا جتنا بلند مرتبہ تھا اسی اعتبار سے انکی ذمہ داریاں بھی زیادہ تھیں اگر کوئی جرم ہوتا تو اس کی سزا بھی دونی تھی [یا نساء النبی من یات من کن بفاحشۃ کریماً]
اہل بیت نبوی ﷺ ان گرانمایہ زمہ داریوں کے احساس سے گراں بار رہتے تھے دنیا کے بجائے آخرت کی کامیابی کے لئے متفکر رہا کرتے تھے شب میں جب نمازوں کے لئے اٹھتے تو کوشش ہوتی کہ اس سعادت میں اہل بیت بھی برابر حصہ دار بنیں فرماتے آج جو کرنا ہے کرلو کل قیامت میں تمہارے کچھ کام نہ آسکونگا ۔
وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد والیہ وازواجہ وذریتہ وصحبہ اجمعین[۲۰۰۰/۵/۵]