متخب ابواب جلد اول
(اعمال و ادعیہ کے فضائل)
منتخب ابواب جلد اول
(اعما ل و ادعیہ کے فضائل)
مترجم : مولانا یونس مظاہری
نظر ثانی : مفتی محمد امین پالن پوری
الأبواب المنتخبة من مشكاة المصابيح
(مشكاة المصابيح) للإمام ولي الدين أبي عبد الله محمد بن عبد الله الخطيب التبريزي
تالیف و تعلیقات : الشيخ محمد إنعام الحسن کاندھلوی
پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری
بشکریہ :معاونِ خصوصی مولانا عبدالوہاب صاحب
13جمادی الثانی1443 ہجری
MUTAKHIB ABWAB
AUTHOR: MOULANA INAAM UL HASSAN KANDHALVI
URDU TARJUMA : MOUNALA YOUNAS MAZAHIRI
SPECIAL COURTESY OF: MOULANA ABDUL WAHAAB
#TOOBAA_POST_NO_353
Topicsfazail, hadeez, اردو ترجمہ, حدیث, فضائل, حضرت مولانا الیاس کاندھلوی, بانی تبلیغی جماعت ، تحریک ایمان, بستی نظام الدین, شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی, کتب ِ فضائل, فضائل اعمال ،شیخ و مرشد ِ تصوف, کاندھلہ, خدمت ِ علم حدیث از علمائے دیوبند, شرح ِ کتب ِ حدیث علم سیکھنے کے احکام, محدثین, muhadiseen, ilm e hadeez, علوم حدیث, HADEES, HADITH, محدثین ِ دیوبند, urdu translation, ترغیب و ترھیب, بشارت و انذار
يعدُّ هذا الكتاب من المقررات الدراسية المهمة في جميع المدارس الإسلامية، التي تركز على دراسة العلوم الشرعية، فهو يشتمل من الأحاديث ما تمّ انتقاؤه من (مشكاة المصابيح) للإمام ولي الدين أبي عبد الله محمد بن عبد الله الخطيب التبريزي (مولده 741هـ) من بعض الكتب مع الأبواب في فضائل الأعمال للتعليم اليومي وهن ما يلي: 1-كتاب الإيمان، 2-كتاب العلم، 3-كتاب فضائل القرآن، 4-كتاب الدعوات، 5-كتاب الجهاد، 6-كتاب الآداب، 7-كتاب الرقاق، 8-كتاب الفتن؛ وقد تمّ انتقاء هذه الكتب مع الأبواب لتكون زاداً للدعاة أيضاً، حيث كانت هذه الأحاديث تقرأ على العلماء وغيرهم من القاصي والداني. ولما كانت الحاجة ماسة إلى افراد هذه الكتب والأبواب، مع الحاجة إلى تشكيل ألفاظها، والتعليق عليها، والشرح الموجز لها، والتمييز بين المقبول والمردود منها، قام الشيخ محمد إنعام الحسن بهذا العمل بتعليقات موجزة نافعة. ومن جانب آخر ولما كان هذا الكتاب يحتوي على أعداد كبيرة جداً من الألفاظ والكلمات الغريبة، والجمل المشكلة، فمست الحاجة إلى خدمة مزيدة بشرح معاني الأحاديث، وتباينها حتى يتضح ما أراد صاحبها، صلى الله عليه وسلم، فقام الشيخ محمد الياس الباره بخدمته، وقد بذل في ذلك جهداً كبيراً، والتزم في عمله بما يلي: 1-الاهتمام بالأمانة العلمية في نقل النصوص، ومراجعة المصادر الأساسية والاعتماد عليه. 2-اختيار الأرجح من الأقوال عند المحققين في الحديث الشريف في حال وجود لفظ في يحتمل عدة معاني. 3-القيام بحذف بعض الأحاديث التي حكم عليها أكثر المحدثين الثقات بالوضع، 4-الاعتناء بضبط الكلمات في الأحاديث، وتشكيل ألفاظها، وخاصة الأسماء المشكلة المشتبهة، وترقيم الآيات القرآنية، والأحاديث النبوية، وفق ترتيب مشكاة المصابيح، 5-الاعتناء بشرح المفردات الغريبة، وإيضاح معاني الجمل المشكلة الغامضة، 6-ذكر فوائد الحديث، وما يستفاد من معانيه عند الحاجة إليها. 7-القيام بتخريج بعض الأحاديث المتكلم فيها مع المتابعات والشواهد؛ ليعتضد بتأييدها أنه حسن، 8-إحالة الحديث الوارد في التعليق إلى الكتب والأبواب، 9-القيام بمقابلته بأصل كل كتاب لضبط نصه واستدراك ما قد يقع فيه من تصحيف النساخ. فتمّ تصحيح بعض الكلمات، واستدراك بعض النقص، وزيادة بعض الألفاظ والعبارات عند مقابلة جميع الأحاديث على أصولها………………….
أصدق الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم، فيهما البنيان المرصوص والحصن الحصين لكل علم نافع، والمصدران الرئيسيان للشريعة الإسلامية الغراء، وعليهما العمدة في كل باب، وفيهما القدوة لكل الناس، ولقد تركهما رسول الله صلى الله عليه وسلم لأمته يرجعون إليهما، ويتمسكون بهما، ويعضون عليهما بالنواجذ.
ومن هنا كان العلماء المخلصون الأجلاء والدعاة المصلحون والمجددون والمبلغون لرسالات الله تعالى الذين هم منارات الهدى ومصابيح الدجى يتواصون ويوصون جميعاً بالعودة الصادقة إلى هذين المصدرين والينبوعين الجاريين الصافيين ويدعونهم إلى التمسك بهما والعكوف عليهما لينقذوا الآمة من كل زيغ وضلال وتحريف وانحراف.
ولقد كان الإمام الداعية الشيخ محمد إلياس الكاندهلوي الذي قام بتجديد الدعوة الإسلامية مع آدابها ومنهجها وروحها وبذل جهوده البناءة في سبيل نشر كلمة الحق يعتني عناية كبيرة بالتدبر في كتاب الله تعالى والتفقه في سنة رسوله صلى الله عليه وسلم قولاً وفعلاً وتقريراً، وكان موفقاً كل التوفيق في الإقتداء بهدي النبي صلى الله عليه وسلم وكان يرى أن المسلمين قد ضعف فيهم الإيمان وضعفت عواطفهم للعمل وقلت رغبتهم في أمور الدين والاهتمام بالآخرة وأنهم بحاجة ماسة إلى إثارة الهمم وبعث العزائم وتقوية الإيمان والتشويق إلى الجنة وإلى استحضار معنى الاحتساب، وكذلك التخويف من العذاب.
وقد أوصى ابن أخيه الأوسط المحدث الجليل الشيخ محمد زكريا الكاندهلوي بإعداد رسائل في الفضائل والترغيب والترهيب يقرؤها القائمون بعمل الدعوة لأنفسهم ولعامة المسلمين ليرغبوهم في العمل بالكتاب والسنة ويحثوهم على الخير كما كان كتاب “حياة الصحابة” من تأليف ابنه النابغة والداعية الملهم الشيخ محمد يوسف الكاندهلوي معلم طريق ومنبع نور وإشعاع للدعاة إلى الله تعالى لأنه يوثق صلتهم بسيرة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه وأسلوب الدعوة الأمثل الذي كانوا يسيرون عليه وكذلك تحملهم للأذى من أجل نشر هذا الدين العظيم ليسهل عليهم الإقتداء بهم وتحملهم المشاق لأجل هذه الدعوة والمثابرة
عليها .
حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ
مجلہ: ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: جولائی ۱۹۹۵ء
تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا انعام الحسن ۹ جون کو دہلی میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات کی خبر آناً فاناً دنیا بھر کے تبلیغی مراکز میں پہنچ گئی اور دنیا کے کونے کونے میں دعوت و تبلیغ کے عمل سے وابستہ لاکھوں مسلمان رنج و غم کی تصویر بن گئے۔ مولانا انعام الحسن کو تقریباً تیس برس پہلے تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ کی وفات کے بعد عالمگیر تبلیغی جماعت کا امیر منتخب کیا گیا تھا۔ ان کی امارت میں دعوت و تبلیغ کے عمل کو عالمی سطح پر جو وسعت اور ہمہ گیری حاصل ہوئی وہ ان کے خلوص و محنت کی علامت ہے۔
دعوت و تبلیغ کا یہ عمل جو حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ نے کم و بیش پون صدی قبل میوات کے سادہ اور دین سے بے بہرہ مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لیے شروع کیا تھا، آج عالم اسلام میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور دین کی بنیادی باتوں کی دعوت کی سب سے بڑی اور منظم جدوجہد کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور اس میں مولانا انعام الحسنؒ کی پر خلوص محنت کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ جدوجہد سادہ اور فطری طریق کار پر مبنی ہے جس میں اعتقادی، فکری اور فقہی مباحث سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے عام مسلمان کو کلمہ طیبہ، نماز، قرآن کریم اور سنت نبویؐ کے ساتھ جوڑنے کی فکر کی جاتی ہے۔ اور اس بات کی محنت کی جاتی ہے کہ آج کے مسلمانوں میں قرون اولیٰ والے مسلمانوں کے اوصاف و اعمال کو زندہ کیا جائے۔ تبلیغی جماعت کے اکابرین کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے اندر قرونِ اولیٰ والے اعمال اور اوصاف زندہ ہو جائیں تو آج بھی انسانیت کو نجات کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ مولانا انعام الحسنؒ بھی انہی تعلیمات کے داعی تھے اور تبلیغی جماعت کے دیگر اکابرین کی طرح کوئی الگ اور امتیازی بات کرنے کی بجائے وہی اجتماعی بات کرتے تھے جو سب تبلیغی اکابر عام طور پر کرتے ہیں۔ لیکن ان کا خلوص، تقویٰ اور لہجہ کی سادگی اس قدر پرکشش تھی کہ عام لوگ ان کی گفتگو سننے کے لیے کھنچے چلے آتے تھے اور دین دار مسلمان ان کی زیارت اور ان کے ساتھ دعا میں شرکت کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔
مولانا انعام الحسنؒ کو تبلیغی حلقوں میں ’’حضرت جی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ رائے ونڈ میں نومبر کے دوران ہر سال منعقد ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں حضرت جی کی نصیحتیں سننے اور ان کے ساتھ دعا میں شریک ہونے کے لیے عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بڑے علماء اور اہل اللہ بھی موجود ہوتے تھے اور دعا میں ان کے سادہ جملوں پر لاکھوں آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔ رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع کو یہ وسعت اور قبول عام بھی انہی کے دور میں حاصل ہوا کہ اسے حج بیت اللہ اور حرمین شریفین میں آخری عشرۂ رمضان المبارک کی حاضری کے بعد عالم اسلام کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس اجتماع میں دنیا کے ہر خطہ اور براعظم سے تعلق رکھنے والے مسلمان نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے ہزاروں جماعتیں تشکیل پا کر دنیا بھر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہیں جو کسی حکومت یا ادارے پر بوجھ بنے بغیر اپنے ذاتی خرچہ پر دین سیکھنے اور دین پر عمل کی دعوت دینے کے جذبہ کے ساتھ قریہ قریہ بستی بستی گھومتی ہیں۔
راقم الحروف کو رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مولانا انعام الحسنؒ کے ارشادات سننے اور ان کے ساتھ دعا میں شرکت کا موقع کئی بار ملا لیکن زیارت نہ کر سکا۔ کیونکہ اتنے بڑے ہجوم میں اس قدر آگے گھسنا اور دھکم پیل کرنا میرے مزاج کے خلاف ہے، البتہ گزشتہ سال رب العزت نے یہ موقع بھی عنایت فرما دیا جب حضرت جیؒ ڈیوزبری برطانیہ میں یورپ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ اس اجتماع میں شرکت کا مجھے بھی موقع ملا جو بلاشبہ مسلمانوں کا بہت بڑا اجتماع تھا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس ہزار تک افراد اس میں شریک تھے۔ اجتماع کے بعد دہلی واپسی کے لیے ہیتھرو ایئرپورٹ پر پہنچے تو رخصت کرنے والوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ حضرت جیؒ معذوروں کی کرسی پر بیٹھے تھے، جسم پر کمزوری اور نقاہت کے آثار تھے مگر چہرے کا نور دیکھ کر خدا یاد آرہا تھا۔ اس موقع پر رخصت کرنے کے لیے آنے والے سینکڑوں مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے مختصر دعا کرائی۔ کیا خبر تھی کہ اس مردِ درویش کی یہ پہلی زیارت ہی آخری زیارت ثابت ہوگی۔
آج حضرت جیؒ اپنے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں عقیدت مندوں،بلکہ کروڑوں بھی کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو، داغِ مفارقت دے کر اپنے خالق و مالک کے پاس جا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔
بشکریہ : مولانا زاہد الراشدی صاحب
سوانح حضرت مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی